وجود

... loading ...

وجود
وجود

انٹرنیشنل شہرکی پولیس۔۔۔۔!

بدھ 01 جون 2016 انٹرنیشنل شہرکی پولیس۔۔۔۔!

karachi-police

’’سندھ پولیس‘‘ میں ہزاروں ڈاکوؤں اور کرمنلز کو بھرتی کیا گیا ہے۔ یہ بات بند کمرے میں نہیں بلکہ حیدرآباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کے دوران پیر پگارا نے کہی۔ سندھ پولیس اپنی بعض اچھی خوبیوں کے باوجود ہمیشہ تنقید اور ’’عدمِ احترام‘‘ کا شکار رہتی آئی ہے۔ سندھ پولیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کسی جمہوری ملک کے’’انٹرنیشنل‘‘ شہر کراچی کو کنٹرول کرنے والی پولیس نہیں لگتی۔ لندن پولیس کے لئے یہ کہا جاتا ہے کہ اس کی یہ خوبی ہے کہ اسے دیکھ کر عوام کو ڈر نہیں لگتا۔ لندن کے تمام سیاحتی مقامات پر لندن پولیس کا مجسمہ (اسٹیچو) فروخت کے لئے موجود ہوتا ہے اور لندن میں سب سے زیادہ بکنے والی 2 سوینیرز میں پولیس اسٹیچو اور ڈبل ڈیکر بس ہیں۔ کراچی میں یہ دونوں چیزیں ناپید ہیں۔ یہاں توپولیس کی وردی خوف اور دہشت کی علامت ہے۔ کراچی پولیس کا سپاہی اکیلا ہو تو وہ ڈرا ہوا سہما ہوا ہوتا ہے اور چھپ کر اور دبک کر چلتا ہے، لیکن اگر چار پانچ پولیس والے ہوں تو عوام ان سے ڈرتے ہیں اور بچ کر نکلتے ہیں، چاہے اس کے کاندھے پر 1940 کی بوسیدہ اور ناقابل بھروسا بندوق کیوں نہ لٹکی ہوئی ہو۔

سندھ پولیس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہیں ہے، ہر آنے والی حکومت اپنی ضرورت اور ’’پوزیشن کو سامنے رکھ کر اس کی‘‘تنظیم نوکرتی ہے۔ اگر سیاسی مخالفت زیادہ ہو تو کہا جاتا ہے کہ پولیس کے لئے جدید اسلحہ اورگاڑیاں خریدنا بہت ضروری ہے، لیکن اگر ڈاکو، بھتہ خور اور اسٹریٹ کرمنلز زیادہ متحرک ہو جائیں تو بڑے پیمانے پر بھرتیوں کابگل بجایا جاتا اور بے روزگاروں کو ہجوم در ہجوم بھرتی کیا جاتا ہے۔ سندھ پولیس کی بھرتی کے لئے انٹرویو تو کمروں میں ہوتے ہیں لیکن ’’اپائنٹمنٹ لیٹر بند کمروں میں ‘‘گرم مٹھی کروا کر دیا جاتا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ سندھ پولیس کی بھرتی کے لئے کوئی معیاراصول قاعدے اور ضوابط نہیں رکھے گئے۔ ارکان اسمبلی اپنے کوٹے کی تعدادکے مطابق سپاہیوں کوبھرتی کرکے اپنی’’آمدنی‘‘ میں اضافہ کرتے ہیں اور حکمران اپنے اضلاع سے سپاہی بھرتی کر کے ایک وفادار فوج بناتے چلے جاتے ہیں۔ ان تمام اعمال کا دار و مدار انہی نیتوں پر ہوتا ہے جووہ الیکشن لڑنے کے لئے کرتے ہیں، لیکن مقصد ایک ہی ہوتا ہے کہ مخالفین اور خاص طور پر عوام کو یہ پیغام دیا جائے کہ اگر ہماری سیاسی مخالفت کرنے کی کوشش کی تو پولیس آپ کی نسلوں کو بھی سیدھا کرسکتی ہے۔

گوروں نے تو یہ پولیس اس لئے بنائی تھی کہ عوام کو کنٹرول میں رکھا جائے جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اسسٹنٹ سب انسپکٹر کوگریڈ 9 میں ہی افسر بنا دیا گیا

گزشتہ سال ایک ’’بااثر شخصیت‘‘ کے اشارے پر آئی جی سندھ نے سندھ ہی کی ایک اور’’بااثر شخصیت‘‘ کے مخالفین کو کچلنے کے لئے سندھ ہائیکورٹ پر تین گھنٹے طویل حملہ کروایا اور جب اِسی ہائیکورٹ نے آئی جی سندھ کو طلب کیا تو اسے چھٹی کا دودھ یاد آگیا۔ معافی نامے جمع کرائے گئے۔ آئندہ ایسا نہ کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ قسمیں کھائی گئیں۔ یقین دہانیاں کرائی گئیں، لیکن سندھ ہائیکورٹ کا ’’دھماکہ خیز‘‘ فیصلہ آ گیا جس کے نتیجے میں نہ صرف اس آئی جی کو چلتا کیا گیا بلکہ عہدے اورمراعات سے بھی ’’فارغ‘‘ کردیا گیا۔ اس ایک واقعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سندھ پولیس اگر کرنے پر آئے تو وہ سب کچھ کرسکتی ہے کہ ماضی کی ایف ایس ایف کی ’’خونخوار ‘‘یادیں تازہ ہو جائیں۔ یوں تو سندھ کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے لیکن اس میں سندھ پولیس سب سے بلند’’مرتبے ‘‘پر فائز ہے۔

کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں سعید آباد پولیس ٹریننگ سنٹر تھا جسے’’پنجابی پولیس‘‘ ٹریننگ سینٹر قرار دے کر رزاق آباد میں سندھ پولیس ٹریننگ سینٹر بنایا گیا جہاں اندرون سندھ سے بھاری معاوضے پر بھرتی کی جانے والی پولیس کی ٹریننگ کی گئی اور اس بات کی احتیاط بھی رکھی گئی کہ وہاں کوئی’’اجنبی‘‘ نہ آنے پائے، ایسی پولیس بھرتی کی جائے جو نہ صرف کراچی پر قبضہ کرسکے بلکہ کراچی کے عوام کو بھی ڈرا دھمکا کر قابو میں رکھے۔ یہ تجربہ پہلے انگریزوں نے کیا۔ گوروں نے تو یہ پولیس اس لئے بنائی تھی کہ عوام کو کنٹرول میں رکھا جائے جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اسسٹنٹ سب انسپکٹر کوگریڈ 9 میں ہی افسر بنا دیا گیا۔ وہ تنخواہ بی پی ایس 9 کے تحت لیتا ہے، اسی اسکیل کے دیگر ملازمین اہلکار ہی کہلاتے ہیں اور ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ ڈرانے دھمکانے کا ایسا ہی تجربہ مشرقی پاکستان میں بھی دہرایا گیا۔

پولیس کا بنیادی کام عوام کی خدمت کرنا اور تحفظ دینا ہوتا ہے لیکن سندھ پولیس کی ناکامی سندھ حکومت کے لئے اس وقت مصیبت بن گئی جب رینجرز کو بلانا پڑا، اختیارات دینے پڑے کیونکہ سندھ پولیس کراچی میں اس افغانی کی طرح تھی جوکسی اجنبی شہر میں آئے اور وہاں کی گلیوں سڑکوں بازاروں چوراہوں اورمحلوں سے ناواقف ہو۔ سندھ پولیس کراچی کے ’’رسم و رواج‘‘ سے ناآشنا ہے، اردو آباد ی کی سوچ الگ ہے پختون آبادی میں جانے کے لئے اجازت لینا پڑتی ہے، بلوچ علاقے پولیس کی آمد کو ثقافتی طور پر اچھا نہیں سمجھتے اور پنجابی علاقے پولیس کو آزادانہ چھاپے نہیں مارنے دیتے، لیکن تین سے پانچ لاکھ روپے دے کر بھرتی ہونے والے معصوم سیدھے اور بھولے اہلکار وہ صلاحیت ہی نہیں رکھتے تھے کہ وہ کثیر القومی شہر کراچی کو کنٹرول کرسکیں، نہ وہ عوام میں ہر دلعزیز بن سکے۔کئی مقامات پر کھلم کھلا جرائم کرتے ہوئے پولیس اہلکار ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث پائے گئے جس سے کراچی کا صنعتی تجارتی اور کاروباری کلچر تباہ ہوگیا۔

انگریزوں نے ’’رہائشی پولیس‘‘ کا تصور دیا تھا۔ لوکل پولیس وہ تھی جو اس شہر یا آبادی کے نوجوانوں پر مشتمل تھی جبکہ رہائشی پولیس کا درجہ انہیں دیا گیا جن کے پاس ڈیوٹی والے مقام پر کوئی گھر نہیں تھا، انہیں تھانے کی حدود میں ہی فلیٹ یا کوارٹر بناکر دیئے گئے۔ 69 سال گزرنے کے باوجود بھی ان مقامات میں پولیس اہلکار رہائش پذیر ہیں لیکن حکمرانوں نے دکانوں، پارکوں، میدانوں، اسکولوں، گیراجوں اور دیگر قبضے کے مقامات پر تھانے بناکر اس تصور کو بھی ملیامیٹ کردیا اور اس طرح کی کوئی مستحکم پالیسی نہیں بنائی گئی۔ سندھ پولیس میں عجیب تماشے ہوئے۔ یہاں ڈاکٹر سے لے کر بعض وزرا کے بھانجے، بھتیجوں کو اعلیٰ افسران کی حیثیت سے تعینات کیا گیا جنہوں نے ڈیوٹی جوائن کرتے ہی پہلا سوال یہ کیا کہ ’’زرخیز‘‘ مقامات کون کون سے ہیں؟ بدعنوان افراد کی تھانے میں اتنی آزادانہ رسائی ہوگئی کہ کسی شریف آدمی کا تھانے میں آکر اپنے کپڑے بچانے کا بھی کوئی راستہ باقی نہ رہا۔

تمام دیگر شعبوں کی طرح اب پولیس میں بھی بھرتی کا عمل شفاف بنانے کے لئے بالآخر فوج کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ سندھ میں 26 ہزار پولیس اسامیاں پر کرنے اور مستقبل میں بھرتیوں کے لئے میرٹ کو بنیاد بنانے کے لئے پولیس کی اعلی ترین مینجمنٹ نے ریکروٹمنٹ (بھرتی)کے عمل میں چند بنیادی تبدیلیاں تجویز کی ہیں۔ نئے طریقہ کار کے تحت سندھ پولیس ریکروٹمنٹ بورڈ جو ایک سینئر پولیس افسر، پاک فوج کے نمائندے اور سی پی ایل سی کے ارکان پر مشتمل ہوگا، میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔ یہ حکمت عملی فوجی حکام کے ساتھ مشاورت کے ذریعے وضع کی گئی ہے تاکہ اس فورس میں میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں یقینی بنائی جاسکیں جو انتہائی حد تک سیاست زدہ ہیں۔

یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ ریکروٹمنٹ کے عمل کی مانیٹرنگ سی پی او کی سطح پر ایک بورڈ کرے گا جس کا نام سندھ پولیس بھرتی بورڈ ہوگا۔ ایڈیشنل آئی جی پولیس سندھ کی قیادت میں ڈی آئی جی پی اسٹیبلشمنٹ، ڈی آئی جی پی فنانس، سی پی ایل سی کا نمائندہ اور اے آئی جی اسٹیبلشمنٹ اس بورڈکے رکن ہوں گے جبکہ اے آئی جی اسٹیبلشمنٹ اس بورڈ کے سیکرٹری کے طور پر بھی کام کریں گے۔ ریکروٹمنٹ کمیٹی میں پاک فوج کے نمائندوں کے نام بھی شامل ہوں گے جنہیں کور فائیو نامزدکرے گی۔ اس پالیسی کے تحت کسی اسامی کے لئے ایس پی آر بی کی منظوری سے قبل اضلاع میں کوئی نئی ریکروٹمنٹ نہیں ہوگی۔ صوبائی پولیس ڈیپارٹمنٹ میں بھرتیوں کے لئے ریکروٹمنٹ سال میں ایک مرتبہ ہوگی یا پھر سندھ پولیس ریکروٹمنٹ بورڈ کی جانب سے اس امر کا تعین کیا جائے گا۔کانسٹیبل کے لئے استحقاق کا معیار جو 18سے25 برس ہے اس کے لیے درکار کم از کم تعلیمی قابلیت میٹرک ہے، کم از کم قد پانچ فٹ پانچ انچ ہونا ضروری ہے جبکہ خواتین کے لئے یہ حد 5 فٹ ہے۔ مردوں کے لئے سینے کی چوڑائی 33 انچ مقرر ہے جس میں 1.5فیصد کی توسیع ہوسکتی ہو۔ صرف وہی امیدوار درخواست دے سکیں گے جن کا ڈومیسائل متعلقہ ضلع کا ہوگا، کسی دوسرے ضلع کے ڈومیسائل کے حامل امیدوار کی درخواست کو زیر غور نہیں لایا جائے گا۔ تحریری ٹیسٹ انگریزی زبان، اردو ، سندھی، عمومی آگہی، ریاضی اور سائنس کے حوالے سے ہوگا اور اس میں سائنس اور منطق شامل ہوں گے۔ صرف ایسے امیدوار جو تحریری امتحان میں 40 فیصد نمبر حاصل کرسکیں وہی کوالیفائیڈ تصور ہوں گے۔ تحریری ٹیسٹ امیدواروں پر دوران امتحان منکشف ہوگا اور اس کی ایک نقل ڈسٹرکٹ پولیس ہیڈکوارٹر کے نوٹس بورڈ پر چسپاں ہوگی۔ وہ لوگ جو تحریری ٹیسٹ کے معیار پر پورا اتریں گے ان سے انٹرویو کیاجائے گا جس کے لئے پالیسی میکنزم طے کیاجائے گا۔ بعد میں طبی معائنہ ہوگا اور کردار کی تصدیق و دیگر معمول کا عمل مکمل کیا جائے گا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جوچالیس فیصد نمبر کی پابندی رکھی گئی ہے، اللہ کرے کہ اِن میں سے چند درجن امیدوار کامیاب ہو بھی جائیں۔


متعلقہ خبریں


نسلہ ٹاور کی غیرقانونی تعمیر، پولیس نے ملوث ایس بی سی اے افسران کی فہرست حاصل کرلی وجود - جمعرات 30 دسمبر 2021

کراچی میں نسلہ ٹاور کی غیر قانونی تعمیر کے کیس میں پولیس نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے)کے ملوث افسران کی فہرست حاصل کرلی۔سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس افسران کی دوڑیں لگ گئیں، عدالتی حکم پر نسلہ ٹاور کی غیر قانونی تعمیر پر ایس بی سی اے افسران کی گرفتاری کے لیے ایس پی ان...

نسلہ ٹاور کی غیرقانونی تعمیر، پولیس نے ملوث ایس بی سی اے افسران کی فہرست حاصل کرلی

افغانستان میں مارا گیا پاکستان دشمن تنظیم کا کمانڈر 9 سال تک کراچی پولیس میں ملازم رہا وجود - بدھ 15 دسمبر 2021

افغانستان میں ہلاک ہونے والا پاکستان دشمن کالعدم تنظیم کا کمانڈر داؤد محسود 9 سال تک کراچی پولیس میں ملازمت کرتا رہا۔ ذرائع کے مطابق داؤد محسود کا نام ریڈ بک میں بھی شامل ہے ،نامعلوم فائرنگ کے واقعے میں وہ چند روز قبل افغانستان کے صوبہ خوست کے علاقے گلاں کیمپ میں مارا گیا تھا۔ ذر...

افغانستان میں مارا گیا پاکستان دشمن تنظیم کا کمانڈر 9 سال تک کراچی پولیس میں ملازم رہا

سندھ حکومت کے ناجائز احکامات نہ ماننے کی پاداش میں گرفتار کئے گئے تفتیشی افسر کا معاملہ دبانے کی کوشش شہزاد احمد - منگل 13 ستمبر 2016

ڈاکٹر عاصم کیس میں حکومت سندھ اور حکمراں جماعت کے نا جائز احکامات نہ ماننے والے تفتیشی افسر کو گرفتار کرنے کے معاملے میں اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ سندھ کے انسپکٹر کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے معطل کردیا گیا ہے‘ ڈاکٹر عاصم کے دہشت گردوں کی معاونت اور علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے ک...

سندھ حکومت کے ناجائز احکامات نہ ماننے کی پاداش میں گرفتار کئے گئے تفتیشی افسر کا معاملہ دبانے کی کوشش

قانون کے رکھوالے ہی قانون شکن بن گئے، کرپٹ ایس ایس پی کی چیرہ دستیاں وجود - پیر 12 ستمبر 2016

قانون کے محافظ اور رکھوالے ہی قانون شکن بن گئے۔ کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کے کرپٹ افسر کی چیرہ دستیاں بے نقاب ہوگئیں۔ ایس ایس پی (سی ٹی ڈی) کیپٹن (ر) محمد اسد علی نے دو افراد کو اٹھا لیا، رہائی کے عوض 30 لاکھ روپے رشوت لینے کے باوجود نہیں چھوڑا اور مزید رقم کا تقاضا کرتا رہا۔ مزید ...

قانون کے رکھوالے ہی قانون شکن بن گئے، کرپٹ ایس ایس پی کی چیرہ دستیاں

سندھ پولیس میں کرپشن کی نشاندہی افسران کو مہنگی پڑگئی شہزاد احمد - جمعه 09 ستمبر 2016

کرپشن کے عوض پولیس میں بھرتیاں کرنے والے سندھ پولیس کے 12 ایس ایس پیز کے خلاف کارروائی کی سفارش سندھ کے انسپکٹر جنرل آف پولیس اے ڈی خواجہ اور دوسرے سینئر افسر ثناء اللہ عباسی کو بھاری پڑ گئی ۔ سندھ پولیس کے باخبر ذرائع کے مطابق چند روز قبل اے آئی جی کاؤنٹر ٹیررازم ثناء اللہ ع...

سندھ پولیس میں کرپشن کی نشاندہی افسران کو مہنگی پڑگئی

تاریخی فیصلہ، ترکی میں خواتین پولیس کو حجاب پہننے کی اجازت مل گئی وجود - پیر 29 اگست 2016

ترکی نے تاریخ میں پہلی بار پولیس کی خواتین اہلکاروں کو حجاب پہننے کی اجازت دی ہے کہ وہ اپنے یونیفارم سے ملتے رنگ کے اسکارف پہن سکتی ہیں۔ سرکاری جریدے سے اعلان کردہ اس فیصلےکا اطلاق فوری طور پر ہوگا۔ حکمران عدالت و ترقی پارٹی (اے کے پی) کی جڑیں اسلام پسند سیاست میں ہیں اور وہ ...

تاریخی فیصلہ، ترکی میں خواتین پولیس کو حجاب پہننے کی اجازت مل گئی

قانون کے محافظ عوام کے لٹیرے بن گئے وجود - هفته 20 اگست 2016

شہر کراچی میں پولیس کے ہاتھوں روز کسی نہ کسی شکل میں لٹنے والے شہریوں کے لیے یہ خبر ایک بجلی بن کر گری ہے کہ اب پولیس نے انفرادی وارداتوں کے ساتھ منظم طور پر اجتماعی طور پر ڈکیتیاں بھی ڈالنا شروع کردی ہے۔ یہ تازہ ترین انکشاف ایک کار شوروم کے مالک کے گھر ہونے والی ڈکیتی کی واردات ...

قانون کے محافظ عوام کے لٹیرے بن گئے

ایف۔ آئی۔ آر محمد اقبال دیوان - هفته 12 مارچ 2016

جوہر آباد تھانے کی وہ ایف آئی آر جو اے ایس آئی منیر نسیم نے درج کی تھی اپنی زبان کی چاشنی، اٹھکیلیوں اور اختصار کی بنیاد پر مرزا ہادی رسوا کے شہرہ آفاق ناول ’’ امراؤ جان ادا ‘‘کا ایک کم معروف پیراگراف لگتی تھی۔ کراچی کا جوہر آباد تھانہ 1988 میں علاقے میں اپنی دھاک رکھتا ...

ایف۔ آئی۔ آر

پولیس گردی کے سڑکوں پر کھلے عام مظاہرے وجود - پیر 11 جنوری 2016

کراچی کے معروف علاقے پی آئی ڈی سی کے قریب شہری سے معمولی تکرار پر ٹریفک پولیس کے اہلکار نے اُس کی ہیلمیٹ اور لاتوں سے پٹائی کردی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ٹریفک اہلکار کے پیٹی بند بھائی بھی آگے بڑھے اور یہ جانے بغیر کہ کس کا قصور ہے اور کس کا نہیں؟ اُنہوں نے اپنے پیٹی بند بھائی کی مدد م...

پولیس گردی کے سڑکوں پر کھلے عام مظاہرے

آئی جی سندھ پر فردِ جرم : قانون، انصاف کے کٹہرے میں باسط علی - بدھ 25 نومبر 2015

کراچی میں بھتے ، جرائم اور قتل وغارت گری کا معاملہ محض سیاسی نہیں ۔ اس کی جڑیں خود قانون کے اندر گہری اُتری ہوئی ہیں۔ حکومتیں کس طرح نفاذِ قانون کے ذمہ داروں سے خود غیر قانونی کام لیتی آئی ہیں ، اور پھر اس کا فائدہ خود یہی نفاذِ قانون کے ذمہ داران کس طرح اُٹھاتے ہیں؟ اس کی ایک جھ...

آئی جی سندھ پر فردِ جرم : قانون، انصاف کے کٹہرے میں

پولیس رینجرز تنازع :اشتہار کے جھگڑے نے تنازع کو بھی اشتہاری کر دیا ابو محمد نعیم - جمعه 09 اکتوبر 2015

وزیر اعلی سندھ مسلسل فرما رہے ہیں کہ کوئی ہے جو رینجرز اور سندھ پولیس کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اس کی تحقیقات کی جائے گی۔دونوں فورسز ہی صوبے اور خاص طور پر کراچی میں امن وامان کے قیام میں اہم کردارادا کررہی ہیں۔ادھرسندھ رینجرزکےترجمان نے پولیس کی جانب سےاخبارات میں ش...

پولیس رینجرز تنازع :اشتہار کے جھگڑے نے تنازع کو بھی اشتہاری کر دیا

مضامین
عوامی خدمت کا انداز ؟ وجود منگل 16 اپریل 2024
عوامی خدمت کا انداز ؟

اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے! وجود منگل 16 اپریل 2024
اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے!

آبِ حیات کاٹھکانہ وجود منگل 16 اپریل 2024
آبِ حیات کاٹھکانہ

5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین وجود منگل 16 اپریل 2024
5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین

کچہری نامہ (٢) وجود پیر 15 اپریل 2024
کچہری نامہ (٢)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر