وجود

... loading ...

وجود

آزادی کشمیر کی تحریک ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی تحریک ہے!

منگل 16 فروری 2016 آزادی کشمیر کی تحریک ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی تحریک ہے!

Zamrooda-Habib2

انجم زمرودہ حبیب اسلام آباد (اننت ناگ) سے تعلق رکھنے والی ایک ایسی خاتون ہیں جنہوں نے 80ء کی دہائی میں ہی وومینز ایسوسی ایشن بنائی تھی، جہاں سے وہ خواتین کے مختلف سماجی مسائل کو حل کرنے میں ایک کردار ادا کررہی تھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ زمردہ جی، حنفیہ کالج اسلام آباد میں اس وقت ایک معلمہ کی حیثیت سے کام کررہی تھیں، جب کشمیری مردو زن سڑکوں پر نکل آئے اور پوری قوت سے آزادی کے حق میں اور بھارت کے خلاف مظاہرے کرنے لگے۔ کشمیری جوانوں نے بھارتی ہٹ دھرمی توڑنے کے لیے بندوق اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ انجم زمرودہ حبیب نے خواتین کو منظم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ 1990ء میں زمرد نے مسلم خواتین مرکز کے نام پرایک خواتین تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ جہاں کہیں بھی معرکے، بے گناہوں کا قتل عام، خواتین کی بے حرمتی کے واقعات رونما ہوتے، زمرد وہاں پہنچتی، اس کے خلاف احتجاج کرتی، بین الاقوامی اداروں کو تحریری طور پر اطلاع پہنچاتی اور مصیبت زدہ لوگوں کی دلجوئی کرتی۔ اپنے اس مشن پر کام کرتے ہوئے زمرد نے بہت سارے بیرونی ممالک کے دورے کئے اور وہاں کشمیری عوام پر ڈھائے گئے مظالم کی درد ناک کہانیا ں سناتی رہیں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف آواز بلند کرتی رہیں۔ انہوں نے بیوگان کے دستاویزی ریکارڈ کو مرتب کرنے کے کام کا آغاز کیا۔ 6؍فروری2003ء کو زمرد حبیب کو بنکاک میں ایک سیمینار میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں وہ دہلی پہنچیں، اس دورے میں ان کا بنکاک سے پاکستان بھی جانے کا ارادہ تھا، لیکن انہیں تھائی ایمبیسی کے باہر ہی گرفتار کیا گیا۔ وہ پانچ سال تک تہاڑ جیل کی زینت بنی رہیں۔ جیل کے اندر ان پر کیا بیتی، اپنی کتاب قیدی نمبر 100میں وہ اس کا احاطہ یوں کرتی ہیں:

’’اس پرائے شہر کے سب سے بڑے زندان میں جہاں انسانی شکل میں درندے بستے ہیں، میں نے اللہ کی رحمت کے بھروسے پر ان تمام مصیبتوں کا سامنا کیا۔ رفتہ رفتہ میں نے مصیبتوں سے دوستی کرلی تھی۔ پانچ سو عورتوں میں ایک دو دوست خیر خواہ بھی مل گئیں مگر وہ جلدی چھوٹ گئیں۔ ان کے چھوٹنے کا غم نہیں۔ بقول مولانا ابو الکلام آزاد: قید خانے میں بھی سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے، یہاں بھی رات کو تارے چمکتے ہیں، یہاں بھی صبح اندھیروں کو چیر کے روشنی لاتی ہے، یہاں بھی خزاں کے بعد بہار آتی ہے، یہاں بھی پرندے صبح چہکتے ہیں مگر ان کا معنیٰ باہر کی دنیا سے بالکل مختلف ہوتا ہے ’’رہائی کے لیے پل پل گن کر ان چیزوں کا جائزہ ایک قدرتی عمل تھا۔ بہار کے آنے کی امید لیے کئی بہاریں بیت جاتی تھیں، مگر پھر بھی بہار کا انتظار ختم نہیں ہوتا تھا۔ میں بھی استقامت کے ساتھ بہار کا انتظار کررہی تھی‘‘

۔ ۔ ۔ ’’رہائی پانے کے بعد بھی میں بے خوابی کی بیماری میں مبتلا ہوں۔ نیند کی دوائی کھائے بغیر مجھے نیند نہیں آتی، رات رات بھر جاگتی رہتی ہوں۔ گھٹن بھرے خواب اب بھی مجھے ستاتے ہیں، کیو نکہ خواب میں، میں جیل، جیل کی سلاخیں، جیل کا سٹاف اور جیل کا پر تناو ماحول دیکھتی ہوں۔ ابھی بھی جب شام کے چھ بج جاتے ہیں تو ایک خوف سا طاری ہوجاتا ہے۔ چھ بجے کے بعد گھر سے نکلنا مجھے ایک معمہ سا لگتا ہے۔ کیونکہ شام کے چھ بجے جیل کی گنتی بند ہوجاتی تھی اور اس عادت نے میرے ذہن کو مقفل کردیا ہے۔ بظاہر میں آزاد دنیا میں ہوں مگر ابھی بھی بنا ہاتھ پکڑے میں سڑک پر اطمینان سے چل نہیں سکتی کیونکہ پانچ سال تک پولیس والے میرا ہاتھ پکڑے مجھے تہاڑجیل سے عدالت اور عدالت سے تہاڑ تک لے جایا کرتے تھے اور اس عادت نے میرے ذہن میں وہ نقوش چھوڑے ہیں جن کا مٹنا مشکل ہے‘‘

زمرودہ حبیب کی آزادی کی جستجو آج بھی جاری ہے اور اس کا برملا اظہار انہوں نے ہندستانی صدر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے یہ کہہ کر کیا کہ: ’’ہم آزادی چاہتے ہیں‘‘۔ اور جب صدر ہند نے پوچھا: ’’ کس قسم کی آزادی؟‘‘ تو زمرد نے جواب دیاـ’’ ویسی ہی آزادی جیسے آپ نے انگریزوں سے حاصل کی۔ ‘‘ یہ گفتگو ہندستانی صدر پرتیبھا پاٹل اور ایک خواتین وفد کے درمیان 29؍ستمبر2010ء کو (Women’s Initiative of Peace for South Asia (WIPSA))کے اہتمام سے ہوئی تھی۔ آج کل سید علی گیلانی کی قیادت والی حریت کا نفرنس کے انسانی حقوق کے شعبے اور کشمیر تحریک خواتین تنظیم کی سربراہ ہیں۔ وجود ڈاٹ کام کیلئے ان کا یہ انٹرویو سرینگر سے خصوصی طور پر لیا گیا)

جب میں تہاڑ جیل سے رہا ہوئی، میں ہر جذبہ سے عاری تھی۔ کوئی خوشی نہ غم۔ میں ایک واہمہ کا شکار تھی اور میں طے نہیں کر پا رہی تھی کہ میں جیل میں ہوں یا آزاد ہوں

س: آپ کا تعلق ایک کھاتے پیتے گھرانے سے ہے، آرام و آسائش کی کوئی کمی نہیں، کیوں تحریک آزادی کاخاردار اور پر خطر راستہ اپنے لئے چن لیا؟

ج: ایک با ضمیر انسان اپنی قوم کی خوشحالی، ترقی اور خاص کر آزادی کے لئے کام کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ ern womens conc کی جتنی بھی چیزیں ہیں وہ میرے ذہن میں تھیں۔ جب مسلح تحریک شروع ہوئی، عورتوں کے متعلق جتنے بھی کام تھے وہback drop پر چلے گئے۔ لیکن میں نے تحریک آزادی کا محاذ سنبھالا، ہماری رشتہ داری اور ہمارے محلے کے کچھ نوجوانوں نے قابض فورسز کے خلاف ہتھیار اُٹھائے اور میں نے اُن کا کھل کرساتھ دیا۔ کشمیر کی ہر بہن ہر ماں نے خلوص کے ساتھ عسکری تحریک کا ساتھ دیا اور اپنے گھروں میں مجا ہدین کو جگہ دی، ان کے گھر والوں کی ہر ممکنہ مدد کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران سرینگرکی کچھ تحریک نواز خواتین میرے گھر آگئیں اور ہم نے 1990میں با قاعدہ مسلم خواتین مرکز تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ بختاور بہن جی، نذہت روڈا، ماہ جبین اختر، محمودہ باجی، مسرت اقبال، بلْیس میر اور میں اس تنظیم کے بنیادی ممبران تھے، مجھے اس تنظیم کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ بختاور بہن جی اس تنظیم کی پہلی صدر تھیں۔ ضلع اسلام آباد میں میرے ساتھ اُس وقت دو سو لڑکیاں ا ور خواتین تھیں اور ان میں سے تقریبا پچاس لڑکیوں نے نرسنگ کا کورس بھی کیا تا کہ اگر کوئی بھارتی افواج کے ہاتھوں زخمی ہوتا ہے تو فوراََ اسے طبی امداد مہیا ہوجائے۔ اسی دوران گرفتاریوں، چھاپوں اور کریک ڈاؤنز کا طویل سلسلہ شروع ہوا اور میں پہلی بار مارچ1991 میں بھارتی افواج کے ہاتھوں گرفتار ہوئی۔ تب سے گرفتاریوں کا سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری ہے۔

س :آپ ایک سیاسی کار کن بھی ہیں اور انسانی حقوق کی کار کن بھی، آپ یہ کردارکس طرح نبھارہی ہیں؟

ج۔ میں حریت کانفرنس کی بنیادی ممبر ہوں، اور اس وقت میں حریت کا نفرنس میں انسانی حقوق پر کام کرتی ہوں۔ میں نے جنیوا۔ امریکا، برطانیا اور کئی ممالک میں کشمیر میں ہورہے انسانی حقوق کی پا ما لیوں اور خاص کر عورتوں کی عفت پر حملے کے خلاف آواز بلند کی۔ جو ہم پر ظلم وتشدد کیاجا رہا ہے وہ صرف اس لئے کیا جارہا ہے کہ ہم اپنے سیاسی حق، حق خودارادیت کے لئے پُر امن جد جہد کر رہے ہیں۔ سیاسی حقوق انسانوں کو دئیے جاتے ہیں، سیاسی حق اور انسانی حقوق ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ میں الحمد للہ دونوں کرداروں کو نبھانے کی کوشش کر رہی ہوں۔

س: مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پا ما لیوں کے سلسلے میں مقامی اور بین ا لاقوامی انسانی حقوق کے اداروں کے کردارکے بارے میں آپ کیا محسوس کر رہی ہیں ؟

ج: کشمیر میں انسانی حقوق کی نہ صرف پا مالی ہورہی ہے بلکہ انہیں پاوٗں تلے رونداجا رہا ہے۔ بین الاقومی سطح پر پوری دنیا کھلی آنکھوں سے یہاں ہورہی انسانی پا ما لیوں کو دیکھتے ہیں مگر مجرمانہ خا مو شی اختیار کئے ہوئے ہیں، جو انتہائی تشویش ناک ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے ادارے انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں کا رونا تو رورہے ہیں، لیکن عالمی برادری ابھی تک خاموش تماشائی کی طرح دیکھ رہی ہے۔ توقع ہے کہ ایک دن ضرور آئیگا جب عالمی برادری بالخصوص عالمی قوتیں اس طرف توجہ مبذول کریں گی اور نہ صرف انسانی حقوق کی ان پا مالیوں کا خاتمہ ہوگا بلکہ جس وجہ سے یہ انسانی پا مالیوں کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے، اس وجہ کو ایڈریس کیا جائیگا۔ اور سب جانتے ہیں وہ وجہ ہے بھارت کی ہٹ دھرمی اور ریاست پر اس کا غاصبانہ قبضہ۔ ظلم جب بڑھ جاتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ ظلم ظالم سمیت ان شا ء اللہ ضرور مٹے گا۔

Zamrooda-Habib1

س : آپ نے بدنام زمانہ بھارتی تہاڑ جیل میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ کیا آپ مختصر الفاظ میں ہمارے قارئین کو اپنی گرفتاری اور بھارتی عدالتی نظام کے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گی ؟

ج: 1991ء سے آج تک میں کئی بار گرفتار ہوچکی ہوں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں ظلم و تشدد، سرکار ی دہشت گردی، فرضی جھڑپوں، بلا جواز گرفتاریوں کے خلاف پروٹسٹ کرتی رہتی ہوں اور ہمیشہ پولیس اور بھارتی انٹلیجنس ایجنسیوں کی نظروں میں رہتی ہوں۔ 2003 میں مجھے ہیومن رائٹس کے حوالے سے بنکاک میں منعقدہ ایک کانفرنس میں جانا تھا۔ ویزے کے سلسلے میں میں چنکیہ پوری دہلی میں بنکاک ایمبیسی کی طرف جارہی تھی کہ سی بی آئی والوں نے میری گاڑی روک دی اور مجھے گرفتار کر کے لودھی پولیس تھانے(ا سپیشل سیل) لے گئے، دس دن تک وہ میرا انٹروگیشن کرتے رہے، مجھے بہت ہی اذیت ناک مراحل سے گزرنا پڑا۔ دس دن بعد مجھے بد نام زمانہ تہاڑجیل بھیجا گیا جہاں عرصہ دراز تک میں جیل کی صعوبتیں برداشت کرتی رہی، مگر اللہ کا کرم ہے کہ وہ میری ہمت کو توڑ نہیں پائے۔ جہاں تک بھارت کا عدالتی نظام ہے اس میں کشمیریوں کیلئے انصاف کا معنیٰ کچھ اور ہے۔ وہ ہر کشمیری کو دہشت گرد کی نظر سے دیکھتی ہیں، جج بھی ہوسٹائل، قانون بھی ہوسٹائل، وکلا بھی ہوسٹائل ا ور جیل کے حکام بھی جانبدار۔ جب میں تہاڑ جیل سے رہا ہوئی، میں ہر جذبہ سے عاری تھی۔ کوئی خوشی نہ غم۔ میں ایک واہمہ کا شکار تھی اور میں طے نہیں کر پا رہی تھی کہ میں جیل میں ہوں یا آزاد ہوں۔ باہر حریت کا نفرنس کا شیرازہ بکھر چکا تھا، تنظیموں کے کئی کئی دھڑے ہوچکے تھے اور میری آنکھیں وطن عزیز پر جان نچھاور کرنے والوں کو تلاش کر رہی تھیں۔ میری اپنی تنظیم میں بھی وہ نظم و ضبط نہیں رہا تھا جس کے لئے میں نے بے پناہ کوشش کی تھیں۔ اپنے تحریک نوازوں کے ساتھ سنجیدہ مشورے کے بعد میں نے اپنی تنظیم کا نام تبدیل کیا اور اب اس کا نام ’’ کشمیر تحریک خواتین ‘‘ رکھا ہے۔ رہا ہونے کے بعد میں نے نظر بندوں کی ایک تنظیم”Association For Families Of Kashmiri Prisoners” کی بنیاد ڈالی۔ چونکہ میں نے اپنی آنکھوں سے نظر بندوں کے حقوق کی پا ما لی دیکھی تھی اور نظربندوں اور اُن کے لواحقین کا درد میرے دل کے قریب تھا۔ میں جا نتی تھی کہ بیشتر لواحقین ناداری اور کسمپری کی حالت میں گزر بسر کر رہے ہیں۔ اور ایسی کوئی تنظیم بھی موجود نہ تھی جو ان اسیر جیالوں کو یاد رکھتی۔ میں نظربندوں کے لواحقین سے ملتی رہی اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ میں نے نظر بندوں کے حوالے سے Data based ایک ڈاکومینٹیشنDocumentation)) شروع کیا اور اسے ایک کتا بچے “Forgotten Prisoners of Kashmir” کی شکل دے کر شائع کیاہے۔ ’’کشمیر تحریک خواتین ‘‘ نے Our Widows”‘‘ کے نام پر شہداء کی بیواؤں کیdocumentation شروع کی ہے جس کا ایک ایڈیشن شایع ہو چکا ہے۔

س: آپ کے والدین، عزیز و اقارب آپ کے حوالے سے زیادہ متفکر تو نہیں رہتے؟

ج: یہ ایک قدرتی بات ہے۔ اور جب بات ایک بیٹی کی ہو اور آگے بھارت کا ظلم و جبر ہو، تو ان کا متفکر ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔

س: تحریک آزادی کشمیر میں خواتین کے کردار کے بارے میں کچھ فرمانا پسند کریں گی؟
ج: تحریک آزادی کشمیر میں خواتین کشمیر نے بے پناہ قر با نیاں دیں اور دے رہی ہیں، اُن کی قربا نیوں کو ہر گز نظر اندازا ور فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اگر مجھ سے رواں تحریک کے بارے میں پوچھا جائے تو میرا جواب یہ ہو گا کہ یہ تحریک ماں بہنوں اور بیٹیوں کی تحریک ہے، اُسی کا بیٹا وطن آزادی کے لئے اپنی عزیز جانوں کی قر بانی پیش کرہا ہے، اُسی کا باپ جرم بے گناہی میں بھارتی افواج کے ہاتھوں قتل کیا جا رہا ہے، اُسی کے عزیز و اقارب بھارت کے محتلف اذیت خانوں میں عر صہ دراز سے مقید ہے اور اُسی کا لخت جگر زندہ غائب کیا گیا اور کیا جارہاہے۔ ہزاروں کی تعداد میں کشمیر میں بیوائیں ہیں جو نہایت ہی مشکلات سے دوچار ہونے کے با وجود تحریک کا ساتھ دے رہی ہیں۔ دنیا کے مختلف متنازع خطوں میں عورتوں نے اپنے حصے کا کر دار نبھایا ہے اور کشمیر دنیا سے الگ نہیں ہے۔ ہماری ماں بہنیں سیاسی طور با شعور ہیں اور اس رواں تحریک آزادی میں اُن کا ایک منفرد اہم کردار ہے جو وہ نبھانا جانتی ہیں اور نبھاتی بھی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے کردار کوrecognize نہیں کیا جا رہا ہے۔

بھارتی حکومت کبھی بھی انٹرنیشنل تنظیموں کو یہاں آنے کی اجازت نہیں دیتی ہے، اس وجہ سے وہ کئی دلخراش ا ور انسانیت سوز واقعات سے اچھی طرح واقف نہیں ہو سکتے ہیں

س: کیا آپ سمجھتی ہیں کہ مقبو ضہ کشمیر میں ہو نے والی انسانی حقوق کی پامالیوں سے دنیا با خبر ہے۔ اگر نہیں تو ایسا کیوں ہے اور اس سلسلے میں کیا کچھ کیا جا نا چاہئے ؟

ج: کشمیر میں ہورہی انسانی حقوق کی پامالیوں سے شا ید دنیا پوری طرح با خبر نہیں ہے اس کی وجہ شاید ہماری ان تک رسائی نہیں ہے۔ ہمیں سفری دستاویزات نہیں دی جاتی ہیں اور حکومت ہندوستان کبھی بھی انٹر نیشنل تنظیموں کو یہاں آنے کی اجازت نہیں دیتی ہے، اس وجہ سے وہ کئی دلخراش و انسانیت سوز واقعات سے اچھی طرح واقف نہیں ہو سکتے ہیں۔ اور ٹھوس مواد بھی اُن تک نہیں پہنچ پاتا ہے۔ اس سلسلے میں جو کشمیری محتلف ملکوں میں رہائش پزیر ہیں اُن پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ وہاں کے با اثر لوگوں تک ہماری آواز کو پہنچائے۔ تاہم میں پھر اس بات کا اعادہ کرتی ہوں، کہ جتنا کچھ بھی دنیا تک پہنچ جاتا ہے، اگر اسی کو ہی بھارت پر عالمی دباؤ بڑھانے کیلئے استعمال کیا جائے، تو شاید صورتحال کچھ بہتر ہوتی، لیکن عالمی ادارے اپنا دٔباو بڑھانے میں ابھی انتظار کررہے ہیں۔

س: کیا آل پار ٹیز حریت کا نفر نس انسانی حقوق کا ادارہ جو آپ کی نگرانی میں قائم ہے، عالمی انسانی حقوق کی کو نسل اور انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے تحت قائم انسانی حقوق کے اداروں کو مسلمہ ضا بطوں کے تحت جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہیں شکایا ت بھیجتاہے اور کیا وہ ادارے اپنی رپورٹوں میں اس کا ریفرنس دیتے ہیں ؟

ج: حریت کانفرنس کی ’’کمیٹی برائے انسانی حقوق ‘‘ جس کی میں صدر ہوں، نے ابھی تک باضابطہ طور کام شروع نہیں کیا ہے، انفرادی طورپر کئی لوگ انسانی حقوق پر کام کرتے ہیں۔

س: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کشمیری قیادت تقسیم ہے اور اس تقسیم کا مفاد پرست بھارت نواز تنظیمیں اور بھارتی حکمراں فائدہ اٹھارہے ہیں۔ کیا یہ تاثر درست ہے۔

ج: فیض احمد فیض کا ایک شعر اس سوال کا جواب دینے کیلئے کا فی سمجھتی ہوں۔ ۔

یہ ساغر شیشے لال و گوہر سالم ہو تو قیمت پاتے ہیں
یوں ٹکڑے ٹکڑ ے ہوں تو فقط چبھتے ہیں لہو رُلواتے ہیں

س: کیا آپ کو یقین ہے کہ عالمی برادری کبھی مسئلہ کشمیر پر توجہ دے گی اور اسے کشمیری عوام کی رائے کے مطا بق حل کرنے کی کوششوں میں سرگرم عمل ہوجائیگی؟

ج: مجھے یقین ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عالمی برادری ضرور توجہ دے گی۔ بھارت اور پاکستان( جو مسئلہ کشمیر کے فریق ہیں) ایٹمی طاقتیں ہیں۔ اور کشمیریوں کی رائے کے مطابق ہی اُن کویہ مسئلہ ایک نہ ایک دن کشمیریوں کی رائے کے عین مطا بق حل کرنا ہوگا۔ ہم پر زبردستی کوئی بھی حل تھوپا نہیں جا سکتا۔ ہم جنگ و جدل نہیں چاہتے ہیں لیکن بھارت سے مکمل آزادی چاہتے اور اس کے لئے ہم نے لاکھوں جوانوں کی قربا نیاں دی ہیں اور دے رہے ہیں، مسئلہ کشمیر کے ساتھ ساؤتھ ایشیا کا امن ترقی اور خوشحالی جڑی ہوئی ہے، اور یہ عیاں حقیقت ہے کہ اس خطے میں امن و سکون تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب مسئلہ کشمیر کو پُر امن طریقے سے کشمیری عوام کی خواہشات کے مطا بق حل کیا جائے۔


متعلقہ خبریں


کاروباری برادری کو معاشی ترقی کیلئے مشاورتی عمل کا حصہ بناؤں گا(وزیرِ اعظم) وجود - بدھ 09 جولائی 2025

ملکی معاشی ترقی کے لیے تجاویز نہایت اہم ہیں، کاروباری برادری سے ہر ماہ ملاقات کروں گا،شہباز شریف وزیرِ اعظم سے صنعتی شعبے کی معروف کاروباری شخصیات کی ملاقات،معیشت و صنعت کی ترقی پر تبادلہ خیال کیا وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ کاروباری برادری کو ملکی معاشی ترقی کے لیے م...

کاروباری برادری کو معاشی ترقی کیلئے مشاورتی عمل کا حصہ بناؤں گا(وزیرِ اعظم)

(سندھ حکومت)مخدوش عمارتوں کے مکینوں کو رہائش فراہم کرنے سے انکار وجود - بدھ 09 جولائی 2025

حکومت کیلئے ممکن نہیں کہ مخدوش عمارتوں کے تمام مکینوں کو رہائش فراہم کرے، سینئر وزیر شرجیل میمن دستیاب وسائل میں حکومت کچھ خاندانوں کو عارضی متبادل رہائش دے سکتی ہے،نجی ٹی وی سے گفتگو سندھ کے سینئر وزیر شرجیل میمن نے کہا ہے کہ حکومت کیلئے ممکن نہیں کہ مخدوش عمارتوں کے تمام مک...

(سندھ حکومت)مخدوش عمارتوں کے مکینوں کو رہائش فراہم کرنے سے انکار

اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوشش پر قوم بھرپور مزاحمت کریگی( حافظ نعیم) وجود - بدھ 09 جولائی 2025

بھارت دہشت گرد ریاست اسرائیل مل کر قبضے کی پالیسیاں چلا رہے ہیں،امیر جماعت اسلامی بجلی ، پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کیلئے احتجاج کے حوالے سے اہم اعلان کیا جائیگا،پریس کانفرنس جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل کو تسلیم کرنے یا ابراہم معاہدے ک...

اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوشش پر قوم بھرپور مزاحمت کریگی( حافظ نعیم)

افغانستان سے سرگرم دہشت گرد تنظیمیں دنیا کیلئے خطرہ قرار وجود - بدھ 09 جولائی 2025

القاعدہ، ٹی ٹی پی اور بلوچ شدت پسند اور مجید بریگیڈ افغانستان سے بدستور سرگرم ہیں، پاکستانی مندوب یقینی بنانا ہوگا افغانستان پھر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بنے،عاصم افتخارکا جنرل اسمبلی میں خطاب اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے کہا ہے کہ افغانستان سے...

افغانستان سے سرگرم دہشت گرد تنظیمیں دنیا کیلئے خطرہ قرار

(عوام جمہوریت بچانے نکلیں)میں جیل سے تحریک کو لیڈ کروں گا(عمران خان) وجود - بدھ 09 جولائی 2025

پی ٹی آئی کو 5 اگست تک تیزی لانے کی ہدایت ،آپ لوگ حکومت کے ساتھ اسمبلی اسمبلی کھیل رہے ہو، ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ،آپ کو عوام نے اسمبلی میں بھیجا ہے مریم نواز کی خواہش پوری کرنے کیلئے ہمیں روکا جاتا ہے، وزیر اعلیٰ کو خوش کرنے کیلئے 26 پی ٹی آئی ممبران کو معطل کردیا گیا،ساب...

(عوام جمہوریت بچانے نکلیں)میں جیل سے تحریک کو لیڈ کروں گا(عمران خان)

پہلی بار حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک ساتھ ہیں( وزیر داخلہ) وجود - اتوار 06 جولائی 2025

بعض لوگوں کو تکلیف ہے کہ ہم سب اکٹھے کیوں ہیں،سوشل میڈیا کی خبروں پر دھیان نہ دیں، مذہبی منافرت،فرقہ وارانہ بیانات پر زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی گئی سوشل میڈیا پر مذہبی اشتعال انگیزی برداشت نہیں کی جائیگی،محسن نقوی کا صدر مملکت کو ہٹائے جانے سے متعلق زیر گردش خبروں پر رد عمل،سکھر...

پہلی بار حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک ساتھ ہیں( وزیر داخلہ)

عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ، حکومت کی اشرافیہ پر نوازشات کی بارش وجود - اتوار 06 جولائی 2025

امپورٹڈ اسپورٹس ار لگژری گاڑیوں، گھڑیوں، پرفیوم اور دیگر لگژری اشیاء پر 50 فیصد تک ٹیکس کم کر دیا امپورٹڈ باتھ ٹب پر ڈیوٹی 16 فیصد، امپورٹڈ باتھ واشنگ ٹینک پر ڈیوٹی 24 فیصد کردی ،نوٹیفکیشن جاری عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لادنے والی حکومت کی اشرافیہ پر نوازشات کی بارش، امپورٹڈ اسپ...

عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ، حکومت کی اشرافیہ پر نوازشات کی بارش

مودی کی بوکھلاہٹ؛ 234 ملین ڈالرز کے ڈرون منصوبے کا اعلان وجود - اتوار 06 جولائی 2025

بھارت نے پاکستان سے جھڑپوں میں شکست کے بعد ڈرون ٹیکنالوجی کے حصول کا فیصلہ کرلیا ڈرونز، پرزہ جات، سافٹ ویٔر، اینٹی ڈرون سسٹمز اور دیگر متعلقہ خدمات کی تیاری شامل ہوگی بھارت نے پاکستان سے کشیدگی کے بعد 234 ملین ڈالر کے ڈرون منصوبے کا اعلان کر دیا۔عالمی خبر رساں ادارے رائٹرزکے ...

مودی کی بوکھلاہٹ؛ 234 ملین ڈالرز کے ڈرون منصوبے کا اعلان

(لیاری عمارت سانحہ) ایم کیو ایم، سندھ حکومت کے ایک دوسرے پر سنگین الزامات وجود - اتوار 06 جولائی 2025

عمارت گرنے کی ذمہ دار سندھ حکومت ، غیر قانونی تعمیرات ایس بی سی اے کراتا ہے، علی خورشیدی ایس بی سی اے اور دیگر اداروں میں آج بھی سسٹم ایم کیو ایم کے ماتحت ہے ، سعدیہ جاوید کا رد عمل لیاری عمارت سانحے پر سیاست عروج پر ہے، ایم کیو ایم اور سندھ حکومت نے حادثے کے سلسلے میں ایک د...

(لیاری عمارت سانحہ) ایم کیو ایم، سندھ حکومت کے ایک دوسرے پر سنگین الزامات

( صیہونی درندگی)22 گھنٹوں میں غزہ کے118مسلم شہید وجود - بدھ 02 جولائی 2025

ہنستے کھیلتے بچوں کی سالگرہ کا منظر لاشوں کے ڈھیر میں تبدیل ، 24 افراد موقع پر لقمہ اجل الباقا کیفے، رفح، خان یونس، الزوائدا، دیر البلح، شجاعیہ، بیت لاحیا کوئی علاقہ محفوظ نہ رہا فلسطین کے نہتے مظلوم مسلمانوں پر اسرائیلی کی یہودی فوج نے ظلم کے انہتا کردی،30جون کی رات سے یکم ج...

( صیہونی درندگی)22 گھنٹوں میں غزہ کے118مسلم شہید

(غلامی نا منظور )پارٹی 10 محرم کے بعد تحریک کی تیاری کرے(عمران خان) وجود - بدھ 02 جولائی 2025

ستائیسویں ترمیم لائی جا رہی ہے، اس سے بہتر ہے بادشاہت کا اعلان کردیںاور عدلیہ کو گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ بنا دیں،حکومت کے پاس کوئی عوامی مینڈیٹ نہیں یہ شرمندہ نہیں ہوتے 17 سیٹوں والوں کے پاس کوئی اختیار نہیںبات نہیں ہو گی، جسٹس سرفراز ڈوگرکو تحفے میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ لگای...

(غلامی نا منظور )پارٹی 10 محرم کے بعد تحریک کی تیاری کرے(عمران خان)

اشرافیہ کو نوازو، عوام کی کمر توڑو، یہ ہے حکومت کی پالیسی(حافظ نعیم) وجود - بدھ 02 جولائی 2025

عالمی مارکیٹ میں قیمتیں گریں توریلیف نہیں، تھوڑا بڑھیں تو بوجھ عوام پر،امیر جماعت اسلامی معیشت کی ترقی کے حکومتی دعوے جھوٹے،اشتہاری ہیں، پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ مسترد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان کا ردعمل آگیا۔انہوں...

اشرافیہ کو نوازو، عوام کی کمر توڑو، یہ ہے حکومت کی پالیسی(حافظ نعیم)

مضامین
رجیم تبدیلی کے اندازے ! وجود بدھ 09 جولائی 2025
رجیم تبدیلی کے اندازے !

آر ایس ایس ، بھارت کی وحدت کے لیے خطرہ وجود بدھ 09 جولائی 2025
آر ایس ایس ، بھارت کی وحدت کے لیے خطرہ

منہدم ہو رہے ہیں اندر سے وجود منگل 08 جولائی 2025
منہدم ہو رہے ہیں اندر سے

مودی کا 234 ملین ڈالرز کے ڈرون منصوبے کا اعلان وجود منگل 08 جولائی 2025
مودی کا 234 ملین ڈالرز کے ڈرون منصوبے کا اعلان

اساتذہ پر تشدد قابلِ مذمت ! وجود اتوار 06 جولائی 2025
اساتذہ پر تشدد قابلِ مذمت !

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر