وجود

... loading ...

وجود

آزادی کشمیر کی تحریک ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی تحریک ہے!

منگل 16 فروری 2016 آزادی کشمیر کی تحریک ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی تحریک ہے!

Zamrooda-Habib2

انجم زمرودہ حبیب اسلام آباد (اننت ناگ) سے تعلق رکھنے والی ایک ایسی خاتون ہیں جنہوں نے 80ء کی دہائی میں ہی وومینز ایسوسی ایشن بنائی تھی، جہاں سے وہ خواتین کے مختلف سماجی مسائل کو حل کرنے میں ایک کردار ادا کررہی تھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ زمردہ جی، حنفیہ کالج اسلام آباد میں اس وقت ایک معلمہ کی حیثیت سے کام کررہی تھیں، جب کشمیری مردو زن سڑکوں پر نکل آئے اور پوری قوت سے آزادی کے حق میں اور بھارت کے خلاف مظاہرے کرنے لگے۔ کشمیری جوانوں نے بھارتی ہٹ دھرمی توڑنے کے لیے بندوق اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ انجم زمرودہ حبیب نے خواتین کو منظم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ 1990ء میں زمرد نے مسلم خواتین مرکز کے نام پرایک خواتین تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ جہاں کہیں بھی معرکے، بے گناہوں کا قتل عام، خواتین کی بے حرمتی کے واقعات رونما ہوتے، زمرد وہاں پہنچتی، اس کے خلاف احتجاج کرتی، بین الاقوامی اداروں کو تحریری طور پر اطلاع پہنچاتی اور مصیبت زدہ لوگوں کی دلجوئی کرتی۔ اپنے اس مشن پر کام کرتے ہوئے زمرد نے بہت سارے بیرونی ممالک کے دورے کئے اور وہاں کشمیری عوام پر ڈھائے گئے مظالم کی درد ناک کہانیا ں سناتی رہیں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف آواز بلند کرتی رہیں۔ انہوں نے بیوگان کے دستاویزی ریکارڈ کو مرتب کرنے کے کام کا آغاز کیا۔ 6؍فروری2003ء کو زمرد حبیب کو بنکاک میں ایک سیمینار میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں وہ دہلی پہنچیں، اس دورے میں ان کا بنکاک سے پاکستان بھی جانے کا ارادہ تھا، لیکن انہیں تھائی ایمبیسی کے باہر ہی گرفتار کیا گیا۔ وہ پانچ سال تک تہاڑ جیل کی زینت بنی رہیں۔ جیل کے اندر ان پر کیا بیتی، اپنی کتاب قیدی نمبر 100میں وہ اس کا احاطہ یوں کرتی ہیں:

’’اس پرائے شہر کے سب سے بڑے زندان میں جہاں انسانی شکل میں درندے بستے ہیں، میں نے اللہ کی رحمت کے بھروسے پر ان تمام مصیبتوں کا سامنا کیا۔ رفتہ رفتہ میں نے مصیبتوں سے دوستی کرلی تھی۔ پانچ سو عورتوں میں ایک دو دوست خیر خواہ بھی مل گئیں مگر وہ جلدی چھوٹ گئیں۔ ان کے چھوٹنے کا غم نہیں۔ بقول مولانا ابو الکلام آزاد: قید خانے میں بھی سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے، یہاں بھی رات کو تارے چمکتے ہیں، یہاں بھی صبح اندھیروں کو چیر کے روشنی لاتی ہے، یہاں بھی خزاں کے بعد بہار آتی ہے، یہاں بھی پرندے صبح چہکتے ہیں مگر ان کا معنیٰ باہر کی دنیا سے بالکل مختلف ہوتا ہے ’’رہائی کے لیے پل پل گن کر ان چیزوں کا جائزہ ایک قدرتی عمل تھا۔ بہار کے آنے کی امید لیے کئی بہاریں بیت جاتی تھیں، مگر پھر بھی بہار کا انتظار ختم نہیں ہوتا تھا۔ میں بھی استقامت کے ساتھ بہار کا انتظار کررہی تھی‘‘

۔ ۔ ۔ ’’رہائی پانے کے بعد بھی میں بے خوابی کی بیماری میں مبتلا ہوں۔ نیند کی دوائی کھائے بغیر مجھے نیند نہیں آتی، رات رات بھر جاگتی رہتی ہوں۔ گھٹن بھرے خواب اب بھی مجھے ستاتے ہیں، کیو نکہ خواب میں، میں جیل، جیل کی سلاخیں، جیل کا سٹاف اور جیل کا پر تناو ماحول دیکھتی ہوں۔ ابھی بھی جب شام کے چھ بج جاتے ہیں تو ایک خوف سا طاری ہوجاتا ہے۔ چھ بجے کے بعد گھر سے نکلنا مجھے ایک معمہ سا لگتا ہے۔ کیونکہ شام کے چھ بجے جیل کی گنتی بند ہوجاتی تھی اور اس عادت نے میرے ذہن کو مقفل کردیا ہے۔ بظاہر میں آزاد دنیا میں ہوں مگر ابھی بھی بنا ہاتھ پکڑے میں سڑک پر اطمینان سے چل نہیں سکتی کیونکہ پانچ سال تک پولیس والے میرا ہاتھ پکڑے مجھے تہاڑجیل سے عدالت اور عدالت سے تہاڑ تک لے جایا کرتے تھے اور اس عادت نے میرے ذہن میں وہ نقوش چھوڑے ہیں جن کا مٹنا مشکل ہے‘‘

زمرودہ حبیب کی آزادی کی جستجو آج بھی جاری ہے اور اس کا برملا اظہار انہوں نے ہندستانی صدر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے یہ کہہ کر کیا کہ: ’’ہم آزادی چاہتے ہیں‘‘۔ اور جب صدر ہند نے پوچھا: ’’ کس قسم کی آزادی؟‘‘ تو زمرد نے جواب دیاـ’’ ویسی ہی آزادی جیسے آپ نے انگریزوں سے حاصل کی۔ ‘‘ یہ گفتگو ہندستانی صدر پرتیبھا پاٹل اور ایک خواتین وفد کے درمیان 29؍ستمبر2010ء کو (Women’s Initiative of Peace for South Asia (WIPSA))کے اہتمام سے ہوئی تھی۔ آج کل سید علی گیلانی کی قیادت والی حریت کا نفرنس کے انسانی حقوق کے شعبے اور کشمیر تحریک خواتین تنظیم کی سربراہ ہیں۔ وجود ڈاٹ کام کیلئے ان کا یہ انٹرویو سرینگر سے خصوصی طور پر لیا گیا)

جب میں تہاڑ جیل سے رہا ہوئی، میں ہر جذبہ سے عاری تھی۔ کوئی خوشی نہ غم۔ میں ایک واہمہ کا شکار تھی اور میں طے نہیں کر پا رہی تھی کہ میں جیل میں ہوں یا آزاد ہوں

س: آپ کا تعلق ایک کھاتے پیتے گھرانے سے ہے، آرام و آسائش کی کوئی کمی نہیں، کیوں تحریک آزادی کاخاردار اور پر خطر راستہ اپنے لئے چن لیا؟

ج: ایک با ضمیر انسان اپنی قوم کی خوشحالی، ترقی اور خاص کر آزادی کے لئے کام کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ ern womens conc کی جتنی بھی چیزیں ہیں وہ میرے ذہن میں تھیں۔ جب مسلح تحریک شروع ہوئی، عورتوں کے متعلق جتنے بھی کام تھے وہback drop پر چلے گئے۔ لیکن میں نے تحریک آزادی کا محاذ سنبھالا، ہماری رشتہ داری اور ہمارے محلے کے کچھ نوجوانوں نے قابض فورسز کے خلاف ہتھیار اُٹھائے اور میں نے اُن کا کھل کرساتھ دیا۔ کشمیر کی ہر بہن ہر ماں نے خلوص کے ساتھ عسکری تحریک کا ساتھ دیا اور اپنے گھروں میں مجا ہدین کو جگہ دی، ان کے گھر والوں کی ہر ممکنہ مدد کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران سرینگرکی کچھ تحریک نواز خواتین میرے گھر آگئیں اور ہم نے 1990میں با قاعدہ مسلم خواتین مرکز تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ بختاور بہن جی، نذہت روڈا، ماہ جبین اختر، محمودہ باجی، مسرت اقبال، بلْیس میر اور میں اس تنظیم کے بنیادی ممبران تھے، مجھے اس تنظیم کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ بختاور بہن جی اس تنظیم کی پہلی صدر تھیں۔ ضلع اسلام آباد میں میرے ساتھ اُس وقت دو سو لڑکیاں ا ور خواتین تھیں اور ان میں سے تقریبا پچاس لڑکیوں نے نرسنگ کا کورس بھی کیا تا کہ اگر کوئی بھارتی افواج کے ہاتھوں زخمی ہوتا ہے تو فوراََ اسے طبی امداد مہیا ہوجائے۔ اسی دوران گرفتاریوں، چھاپوں اور کریک ڈاؤنز کا طویل سلسلہ شروع ہوا اور میں پہلی بار مارچ1991 میں بھارتی افواج کے ہاتھوں گرفتار ہوئی۔ تب سے گرفتاریوں کا سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری ہے۔

س :آپ ایک سیاسی کار کن بھی ہیں اور انسانی حقوق کی کار کن بھی، آپ یہ کردارکس طرح نبھارہی ہیں؟

ج۔ میں حریت کانفرنس کی بنیادی ممبر ہوں، اور اس وقت میں حریت کا نفرنس میں انسانی حقوق پر کام کرتی ہوں۔ میں نے جنیوا۔ امریکا، برطانیا اور کئی ممالک میں کشمیر میں ہورہے انسانی حقوق کی پا ما لیوں اور خاص کر عورتوں کی عفت پر حملے کے خلاف آواز بلند کی۔ جو ہم پر ظلم وتشدد کیاجا رہا ہے وہ صرف اس لئے کیا جارہا ہے کہ ہم اپنے سیاسی حق، حق خودارادیت کے لئے پُر امن جد جہد کر رہے ہیں۔ سیاسی حقوق انسانوں کو دئیے جاتے ہیں، سیاسی حق اور انسانی حقوق ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ میں الحمد للہ دونوں کرداروں کو نبھانے کی کوشش کر رہی ہوں۔

س: مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پا ما لیوں کے سلسلے میں مقامی اور بین ا لاقوامی انسانی حقوق کے اداروں کے کردارکے بارے میں آپ کیا محسوس کر رہی ہیں ؟

ج: کشمیر میں انسانی حقوق کی نہ صرف پا مالی ہورہی ہے بلکہ انہیں پاوٗں تلے رونداجا رہا ہے۔ بین الاقومی سطح پر پوری دنیا کھلی آنکھوں سے یہاں ہورہی انسانی پا ما لیوں کو دیکھتے ہیں مگر مجرمانہ خا مو شی اختیار کئے ہوئے ہیں، جو انتہائی تشویش ناک ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے ادارے انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں کا رونا تو رورہے ہیں، لیکن عالمی برادری ابھی تک خاموش تماشائی کی طرح دیکھ رہی ہے۔ توقع ہے کہ ایک دن ضرور آئیگا جب عالمی برادری بالخصوص عالمی قوتیں اس طرف توجہ مبذول کریں گی اور نہ صرف انسانی حقوق کی ان پا مالیوں کا خاتمہ ہوگا بلکہ جس وجہ سے یہ انسانی پا مالیوں کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے، اس وجہ کو ایڈریس کیا جائیگا۔ اور سب جانتے ہیں وہ وجہ ہے بھارت کی ہٹ دھرمی اور ریاست پر اس کا غاصبانہ قبضہ۔ ظلم جب بڑھ جاتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ ظلم ظالم سمیت ان شا ء اللہ ضرور مٹے گا۔

Zamrooda-Habib1

س : آپ نے بدنام زمانہ بھارتی تہاڑ جیل میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ کیا آپ مختصر الفاظ میں ہمارے قارئین کو اپنی گرفتاری اور بھارتی عدالتی نظام کے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گی ؟

ج: 1991ء سے آج تک میں کئی بار گرفتار ہوچکی ہوں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں ظلم و تشدد، سرکار ی دہشت گردی، فرضی جھڑپوں، بلا جواز گرفتاریوں کے خلاف پروٹسٹ کرتی رہتی ہوں اور ہمیشہ پولیس اور بھارتی انٹلیجنس ایجنسیوں کی نظروں میں رہتی ہوں۔ 2003 میں مجھے ہیومن رائٹس کے حوالے سے بنکاک میں منعقدہ ایک کانفرنس میں جانا تھا۔ ویزے کے سلسلے میں میں چنکیہ پوری دہلی میں بنکاک ایمبیسی کی طرف جارہی تھی کہ سی بی آئی والوں نے میری گاڑی روک دی اور مجھے گرفتار کر کے لودھی پولیس تھانے(ا سپیشل سیل) لے گئے، دس دن تک وہ میرا انٹروگیشن کرتے رہے، مجھے بہت ہی اذیت ناک مراحل سے گزرنا پڑا۔ دس دن بعد مجھے بد نام زمانہ تہاڑجیل بھیجا گیا جہاں عرصہ دراز تک میں جیل کی صعوبتیں برداشت کرتی رہی، مگر اللہ کا کرم ہے کہ وہ میری ہمت کو توڑ نہیں پائے۔ جہاں تک بھارت کا عدالتی نظام ہے اس میں کشمیریوں کیلئے انصاف کا معنیٰ کچھ اور ہے۔ وہ ہر کشمیری کو دہشت گرد کی نظر سے دیکھتی ہیں، جج بھی ہوسٹائل، قانون بھی ہوسٹائل، وکلا بھی ہوسٹائل ا ور جیل کے حکام بھی جانبدار۔ جب میں تہاڑ جیل سے رہا ہوئی، میں ہر جذبہ سے عاری تھی۔ کوئی خوشی نہ غم۔ میں ایک واہمہ کا شکار تھی اور میں طے نہیں کر پا رہی تھی کہ میں جیل میں ہوں یا آزاد ہوں۔ باہر حریت کا نفرنس کا شیرازہ بکھر چکا تھا، تنظیموں کے کئی کئی دھڑے ہوچکے تھے اور میری آنکھیں وطن عزیز پر جان نچھاور کرنے والوں کو تلاش کر رہی تھیں۔ میری اپنی تنظیم میں بھی وہ نظم و ضبط نہیں رہا تھا جس کے لئے میں نے بے پناہ کوشش کی تھیں۔ اپنے تحریک نوازوں کے ساتھ سنجیدہ مشورے کے بعد میں نے اپنی تنظیم کا نام تبدیل کیا اور اب اس کا نام ’’ کشمیر تحریک خواتین ‘‘ رکھا ہے۔ رہا ہونے کے بعد میں نے نظر بندوں کی ایک تنظیم”Association For Families Of Kashmiri Prisoners” کی بنیاد ڈالی۔ چونکہ میں نے اپنی آنکھوں سے نظر بندوں کے حقوق کی پا ما لی دیکھی تھی اور نظربندوں اور اُن کے لواحقین کا درد میرے دل کے قریب تھا۔ میں جا نتی تھی کہ بیشتر لواحقین ناداری اور کسمپری کی حالت میں گزر بسر کر رہے ہیں۔ اور ایسی کوئی تنظیم بھی موجود نہ تھی جو ان اسیر جیالوں کو یاد رکھتی۔ میں نظربندوں کے لواحقین سے ملتی رہی اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ میں نے نظر بندوں کے حوالے سے Data based ایک ڈاکومینٹیشنDocumentation)) شروع کیا اور اسے ایک کتا بچے “Forgotten Prisoners of Kashmir” کی شکل دے کر شائع کیاہے۔ ’’کشمیر تحریک خواتین ‘‘ نے Our Widows”‘‘ کے نام پر شہداء کی بیواؤں کیdocumentation شروع کی ہے جس کا ایک ایڈیشن شایع ہو چکا ہے۔

س: آپ کے والدین، عزیز و اقارب آپ کے حوالے سے زیادہ متفکر تو نہیں رہتے؟

ج: یہ ایک قدرتی بات ہے۔ اور جب بات ایک بیٹی کی ہو اور آگے بھارت کا ظلم و جبر ہو، تو ان کا متفکر ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔

س: تحریک آزادی کشمیر میں خواتین کے کردار کے بارے میں کچھ فرمانا پسند کریں گی؟
ج: تحریک آزادی کشمیر میں خواتین کشمیر نے بے پناہ قر با نیاں دیں اور دے رہی ہیں، اُن کی قربا نیوں کو ہر گز نظر اندازا ور فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اگر مجھ سے رواں تحریک کے بارے میں پوچھا جائے تو میرا جواب یہ ہو گا کہ یہ تحریک ماں بہنوں اور بیٹیوں کی تحریک ہے، اُسی کا بیٹا وطن آزادی کے لئے اپنی عزیز جانوں کی قر بانی پیش کرہا ہے، اُسی کا باپ جرم بے گناہی میں بھارتی افواج کے ہاتھوں قتل کیا جا رہا ہے، اُسی کے عزیز و اقارب بھارت کے محتلف اذیت خانوں میں عر صہ دراز سے مقید ہے اور اُسی کا لخت جگر زندہ غائب کیا گیا اور کیا جارہاہے۔ ہزاروں کی تعداد میں کشمیر میں بیوائیں ہیں جو نہایت ہی مشکلات سے دوچار ہونے کے با وجود تحریک کا ساتھ دے رہی ہیں۔ دنیا کے مختلف متنازع خطوں میں عورتوں نے اپنے حصے کا کر دار نبھایا ہے اور کشمیر دنیا سے الگ نہیں ہے۔ ہماری ماں بہنیں سیاسی طور با شعور ہیں اور اس رواں تحریک آزادی میں اُن کا ایک منفرد اہم کردار ہے جو وہ نبھانا جانتی ہیں اور نبھاتی بھی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے کردار کوrecognize نہیں کیا جا رہا ہے۔

بھارتی حکومت کبھی بھی انٹرنیشنل تنظیموں کو یہاں آنے کی اجازت نہیں دیتی ہے، اس وجہ سے وہ کئی دلخراش ا ور انسانیت سوز واقعات سے اچھی طرح واقف نہیں ہو سکتے ہیں

س: کیا آپ سمجھتی ہیں کہ مقبو ضہ کشمیر میں ہو نے والی انسانی حقوق کی پامالیوں سے دنیا با خبر ہے۔ اگر نہیں تو ایسا کیوں ہے اور اس سلسلے میں کیا کچھ کیا جا نا چاہئے ؟

ج: کشمیر میں ہورہی انسانی حقوق کی پامالیوں سے شا ید دنیا پوری طرح با خبر نہیں ہے اس کی وجہ شاید ہماری ان تک رسائی نہیں ہے۔ ہمیں سفری دستاویزات نہیں دی جاتی ہیں اور حکومت ہندوستان کبھی بھی انٹر نیشنل تنظیموں کو یہاں آنے کی اجازت نہیں دیتی ہے، اس وجہ سے وہ کئی دلخراش و انسانیت سوز واقعات سے اچھی طرح واقف نہیں ہو سکتے ہیں۔ اور ٹھوس مواد بھی اُن تک نہیں پہنچ پاتا ہے۔ اس سلسلے میں جو کشمیری محتلف ملکوں میں رہائش پزیر ہیں اُن پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ وہاں کے با اثر لوگوں تک ہماری آواز کو پہنچائے۔ تاہم میں پھر اس بات کا اعادہ کرتی ہوں، کہ جتنا کچھ بھی دنیا تک پہنچ جاتا ہے، اگر اسی کو ہی بھارت پر عالمی دباؤ بڑھانے کیلئے استعمال کیا جائے، تو شاید صورتحال کچھ بہتر ہوتی، لیکن عالمی ادارے اپنا دٔباو بڑھانے میں ابھی انتظار کررہے ہیں۔

س: کیا آل پار ٹیز حریت کا نفر نس انسانی حقوق کا ادارہ جو آپ کی نگرانی میں قائم ہے، عالمی انسانی حقوق کی کو نسل اور انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے تحت قائم انسانی حقوق کے اداروں کو مسلمہ ضا بطوں کے تحت جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہیں شکایا ت بھیجتاہے اور کیا وہ ادارے اپنی رپورٹوں میں اس کا ریفرنس دیتے ہیں ؟

ج: حریت کانفرنس کی ’’کمیٹی برائے انسانی حقوق ‘‘ جس کی میں صدر ہوں، نے ابھی تک باضابطہ طور کام شروع نہیں کیا ہے، انفرادی طورپر کئی لوگ انسانی حقوق پر کام کرتے ہیں۔

س: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کشمیری قیادت تقسیم ہے اور اس تقسیم کا مفاد پرست بھارت نواز تنظیمیں اور بھارتی حکمراں فائدہ اٹھارہے ہیں۔ کیا یہ تاثر درست ہے۔

ج: فیض احمد فیض کا ایک شعر اس سوال کا جواب دینے کیلئے کا فی سمجھتی ہوں۔ ۔

یہ ساغر شیشے لال و گوہر سالم ہو تو قیمت پاتے ہیں
یوں ٹکڑے ٹکڑ ے ہوں تو فقط چبھتے ہیں لہو رُلواتے ہیں

س: کیا آپ کو یقین ہے کہ عالمی برادری کبھی مسئلہ کشمیر پر توجہ دے گی اور اسے کشمیری عوام کی رائے کے مطا بق حل کرنے کی کوششوں میں سرگرم عمل ہوجائیگی؟

ج: مجھے یقین ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عالمی برادری ضرور توجہ دے گی۔ بھارت اور پاکستان( جو مسئلہ کشمیر کے فریق ہیں) ایٹمی طاقتیں ہیں۔ اور کشمیریوں کی رائے کے مطابق ہی اُن کویہ مسئلہ ایک نہ ایک دن کشمیریوں کی رائے کے عین مطا بق حل کرنا ہوگا۔ ہم پر زبردستی کوئی بھی حل تھوپا نہیں جا سکتا۔ ہم جنگ و جدل نہیں چاہتے ہیں لیکن بھارت سے مکمل آزادی چاہتے اور اس کے لئے ہم نے لاکھوں جوانوں کی قربا نیاں دی ہیں اور دے رہے ہیں، مسئلہ کشمیر کے ساتھ ساؤتھ ایشیا کا امن ترقی اور خوشحالی جڑی ہوئی ہے، اور یہ عیاں حقیقت ہے کہ اس خطے میں امن و سکون تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب مسئلہ کشمیر کو پُر امن طریقے سے کشمیری عوام کی خواہشات کے مطا بق حل کیا جائے۔


متعلقہ خبریں


تقسیم پسند قوتوںسے نمٹنے کیلئے تیارہیں ،فیلڈمارشل وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

ہائبرڈ جنگ، انتہاء پسند نظریات اور انتشار پھیلانے والے عناصر سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں، سید عاصم منیرکا گوجرانوالہ اور سیالکوٹ گیریژنز کا دورہ ،فارمیشن کی آپریشنل تیاری پر بریفنگ جدید جنگ میں ٹیکنالوجی سے ہم آہنگی، چابک دستی اور فوری فیصلہ سازی ناگزیر ہے، پاک فوج اندرونی اور بیر...

تقسیم پسند قوتوںسے نمٹنے کیلئے تیارہیں ،فیلڈمارشل

پاکستان سیاستدانوں ، جرنیلوں ، طاقتوروں کا نہیں عوام کاہے ، حافظ نعیم وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

دنیا پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے، نوجوان مایوس نہ ہوں ،حکمران طبقہ نے قرضے معاف کرائے تعلیم ، صحت، تھانہ کچہری کا نظام تباہ کردیا ، الخدمت فاؤنڈیشن کی چیک تقسیم تقریب سے خطاب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ دنیا پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے، نوجوان مایوس...

پاکستان سیاستدانوں ، جرنیلوں ، طاقتوروں کا نہیں عوام کاہے ، حافظ نعیم

ایف سی حملے میں ملوث دہشتگرد نیٹ ورک کا سراغ مل گیا وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

حملہ آوروں کا تعلق کالعدم دہشت گرد تنظیم سے ہے پشاور میں چند دن تک قیام کیا تھا خودکش جیکٹس اور رہائش کی فراہمی میں بمباروں کیسہولت کاری کی گئی،تفتیشی حکام ایف سی ہیڈکوارٹرز پر حملہ کرنے والے دہشتگرد نیٹ ورک کی نشاندہی ہو گئی۔ تفتیشی حکام نے کہا کہ خودکش حملہ آوروں کا تعلق ...

ایف سی حملے میں ملوث دہشتگرد نیٹ ورک کا سراغ مل گیا

سہیل آفریدی منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کیخلاف متحرک وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

غذائی اجناس کی خود کفالت کیلئے جامع پلان تیار ،محکمہ خوراک کو کارروائیاں تیز کرنے کی ہدایت اشیائے خوردونوش کی سرکاری نرخوں پر ہر صورت دستیابی یقینی بنائی جائے،وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی نے محکمہ خوراک کو ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی ...

سہیل آفریدی منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کیخلاف متحرک

معاشی بحران سے نکل چکے ،ترقی کی جانب رواں دواں،وزیراعظم وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

ادارہ جاتی اصلاحات سے اچھی حکمرانی میں اضافہ ہو گا،نوجوان قیمتی اثاثہ ہیں،شہبا زشریف فنی ٹریننگ دے کر برسر روزگار کریں گے،نیشنل ریگولیٹری ریفارمز کی افتتاحی تقریب سے خطاب وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک معاشی بحران سے نکل چکاہے،ترقی کی جانب رواں دواں ہیں، ادارہ جات...

معاشی بحران سے نکل چکے ،ترقی کی جانب رواں دواں،وزیراعظم

افغان سرزمین دہشت گردیکی لئے نیا خطرہ ہے ،وزیراعظم وجود - هفته 13 دسمبر 2025

عالمی برادری افغان حکومت پر ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے زور ڈالے،سماجی و اقتصادی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود پاکستان کی اولین ترجیح،موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے تنازعات کا پرامن حل پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ،فلسطینی عوام اور کشمیریوں کے بنیادی حق...

افغان سرزمین دہشت گردیکی لئے نیا خطرہ ہے ،وزیراعظم

پاکستان ، آئی ایم ایف کے آگے ڈھیر،ا گلی قسط کیلئے بجلی اور گیس مہنگی کرنے کی یقین دہانی کرادی وجود - هفته 13 دسمبر 2025

حکومت نے 23شرائط مان لیں، توانائی، مالیاتی، سماجی شعبے، اسٹرکچرل، مانیٹری اور کرنسی وغیرہ شامل ہیں، سرکاری ملکیتی اداروں کے قانون میں تبدیلی کیلئے اگست 2026 کی ڈیڈ لائن مقرر کر دی ریونیو شارٹ فال پورا کرنے کیلئے کھاد اور زرعی ادویات پر 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگائی جائیگی، ہا...

پاکستان ، آئی ایم ایف کے آگے ڈھیر،ا گلی قسط کیلئے بجلی اور گیس مہنگی کرنے کی یقین دہانی کرادی

گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر کو این ایف سی میں حصہ ملنا چاہیے، نواز شریف وجود - هفته 13 دسمبر 2025

پارٹی کے اندر لڑائی برداشت نہیں کی جائے گی، اگر کوئی ملوث ہے تو اس کو باہر رکھا جائے آزادکشمیر و گلگت بلتستان میں میرٹ پر ٹکت دیں گے میرٹ پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا،صدر ن لیگ مسلم لیگ(ن)کے صدر نواز شریف نے کہا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ بھیک نہیں ہے یہ تو حق ہے، وزیراعظم سے کہوں گا...

گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر کو این ایف سی میں حصہ ملنا چاہیے، نواز شریف

ملکی سالمیت کیخلاف چلنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائیگا،بلاول بھٹو وجود - هفته 13 دسمبر 2025

تمام سیاسی جماعتیں اپنے دائرہ کار میں رہ کر سیاست کریں، خود پنجاب کی گلی گلی محلے محلے جائوں گا، چیئرمین پیپلز پارٹی کارکن اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھیں، گورنر سلیم حیدر کی ملاقات ،سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا ،دیگر کی بھی ملاقاتیں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیٔرمین بلاول...

ملکی سالمیت کیخلاف چلنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائیگا،بلاول بھٹو

پیٹرول 36 پیسے، ڈیزل 11 روپے لیٹر سستا کرنے کی تجویز وجود - هفته 13 دسمبر 2025

منظوری کے بعد ایک لیٹر پیٹرول 263.9 ،ڈیزل 267.80 روپے کا ہو جائیگا، ذرائع مٹی کا تیل، لائٹ ڈیزلسستا کرنے کی تجویز، نئی قیمتوں پر 16 دسمبر سے عملدرآمد ہوگا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل، پیٹرول کی قیمت میں معمولی جبکہ ڈیزل کی قیمت میں بڑی کمی کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ ذ...

پیٹرول 36 پیسے، ڈیزل 11 روپے لیٹر سستا کرنے کی تجویز

ہم دشمن کو چھپ کر نہیں للکار کر مارتے ہیں ،فیلڈ مارشل وجود - جمعرات 11 دسمبر 2025

عزت اور طاقت تقسیم سے نہیں، محنت اور علم سے حاصل ہوتی ہے، ریاست طیبہ اور ریاست پاکستان کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے اور دفاعی معاہدہ تاریخی ہے، علما قوم کو متحد رکھیں،سید عاصم منیر اللہ تعالیٰ نے تمام مسلم ممالک میں سے محافظین حرمین کا شرف پاکستان کو عطا کیا ہے، جس قوم نے علم او...

ہم دشمن کو چھپ کر نہیں للکار کر مارتے ہیں ،فیلڈ مارشل

ایک مائنس ہوا تو کوئی بھی باقی نہیں رہے گا،تحریک انصاف وجود - جمعرات 11 دسمبر 2025

حالات کنٹرول میں نہیں آئیں گے، یہ کاروباری دنیا نہیں ہے کہ دو میں سے ایک مائنس کرو تو ایک رہ جائے گا، خان صاحب کی بہنوں پر واٹر کینن کا استعمال کیا گیا،چیئرمین بیرسٹر گوہر کیا بشریٰ بی بی کی فیملی پریس کانفرنسز کر رہی ہے ان کی ملاقاتیں کیوں نہیں کروا رہے؟ آپ اس مرتبہ فیڈریشن ک...

ایک مائنس ہوا تو کوئی بھی باقی نہیں رہے گا،تحریک انصاف

مضامین
بیانیہ وجود اتوار 14 دسمبر 2025
بیانیہ

انڈونیشین صدرکادورہ اور توقعات وجود اتوار 14 دسمبر 2025
انڈونیشین صدرکادورہ اور توقعات

افغان طالبان اورٹی ٹی پی کی حمایت وجود اتوار 14 دسمبر 2025
افغان طالبان اورٹی ٹی پی کی حمایت

کراچی کا بچہ اور گٹر کا دھکن وجود هفته 13 دسمبر 2025
کراچی کا بچہ اور گٹر کا دھکن

بھارتی الزام تراشی پروپیگنڈا کی سیاست وجود هفته 13 دسمبر 2025
بھارتی الزام تراشی پروپیگنڈا کی سیاست

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر