وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھارت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں، شبیر شاہ

اتوار 17 جنوری 2016 بھارت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں، شبیر شاہ

Shabir-Shah

جموں و کشمیر ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی (جے کے ڈی ایف پی) کے سربراہ شبیر احمد شاہ تحریک آزادی جموں و کشمیر کے ممتاز رہنما ہیں۔ 14جون 1954ء کو کا ڑی پورہ اسلام آباد مقبوضہ کشمیر میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1968ء میں جب ان کی عمر صرف 14سال تھی، تحریک آزادی کشمیر کے حق میں ایک مظاہرے کی قیادت کرنے کے جرم میں گرفتار کئے گئے اور 3مہینے پندرہ دن تک سری نگر سینٹرل جیل میں قید رہے۔ قید وبند کا سلسلہ تب سے جاری رہا اور اب تک کی 62سالہ زندگی کے 29سال انہوں نے جموں و کشمیر اور بھارت کی مختلف جیلوں میں گزارے۔ اس دوران انہیں بھارتی اذیت خانوں میں بے انتہا جسمانی تشدد بھی سہنا پڑا۔ 1989ء میں ان کے والد بھارتی پولیس کی حراست میں شہید ہوئے، لیکن اس سب کے با وجود شبیر احمد شاہ پوری استقامت اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم ہیں اور جدوجہد آزادی کی کامیابی کیلئے ہمہ تن متحرک ہیں۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے1995ء میں انہیں ضمیر کا قیدی (Prisoner of Conscience )قرار دیا۔ شبیر احمد شاہ اس وقت سید علی گیلانی کی قیادت والی آل پارٹیز حریت کانفرنس کے سیکرٹری جنرل کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں۔ واضح رہے کہ وہ 215دنوں سے مسلسل گھر میں نظر بند ہیں۔ وجود ڈاٹ کام کیلئے ان کا یہ انٹرویو اسی نظر بندی کے دوران دیگر ذرائع سے لیا گیا۔


س: حق خود ارادیت کے حوالے سے کشمیری عوام نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں، آپ کی اپنی ایک طویل جدوجہد ہے، کئی دہائیاں بیت گئیں، لیکن مسئلہ کشمیر جوں کا توں ہے، کیا مسئلہ کشمیر واقعی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے یا جان بوجھ کر اسے اُلجھایا جارہا ہے؟

جواب: مسئلہ کشمیر پیچیدہ مسئلہ نہیں، البتہ عالمی قیادت اقوام متحدہ میں منظور کی گئی قراردادوں سے صرف نظر کرکے اسے طول دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی اڑچنیں بھی آڑے آرہی ہیں۔ ایک طرف دنیا اس مسئلے کے سلسلے میں اس لئے آنا کانی کررہے ہیں کہ وہ ہر ایک مسئلے کو تجارت کے نکتہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسلامی ممالک کو اس سلسلے میں جو کردار ادا کرنا تھا وہ ایسا نہیں کررہے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود دنیا ہماری آواز کو سنی ان سنی بھی نہیں کررہی ہے۔ عالمی طاقتیں جہاں بھارت اور پاکستان کے مابین اس تنازع کے حل کے لئے دباؤ بڑھارہے ہیں، وہیں دنیا کے بدلتے سیاسی منظر نامے ا ور عالمی طاقتوں اور علاقائی قوتوں کے مابین نئی صف بندی کی وجہ سے امن عالم کو درپیش مسائل سے گلوخلاصی کے لئے اس دیرینہ تنازع کا حل تلاش کرنے کے لئے بھارت اور پاکستان پر اصرار بڑھ رہا ہے۔ اس سلسلے میں یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر بھارت اپنی روایتی ہٹ دھرمی چھوڑ کر اس مسئلے کو خلوص نیت کی بنیادوں پر حل کرنے میں تعاون دے تو یہ مسئلہ چٹکیوں میں حل ہوسکتا ہے۔

حالیہ انتخابات میں ہمیں لوگوں کے پاس جانے نہیں دیا گیا اور سبھی قائدین اور اراکین کو جیلوں میں ٹھونس کر یک طرفہ انتخابات کا ڈھونگ رچایا گیا 

یہ بات صحیح ہے کہ ہماری جدوجہد کی تاریخ کافی طویل ہے اور جہاں تک میری ذاتی جدوجہد کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں جو کچھ میں نے کیا شاید اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے اسی مقصد کے لئے پید ا کیا ہے۔ مجھے اس پر فخر ہے اور اپنے ملک و قوم کے وسیع تر مفادات کے لئے جو کچھ مجھ سے ہوسکتا ہے میں ہر وہ قربانی دینے کے لئے تیار ہوں (انشاء اللہ)۔ مسئلہ کے فوری حل کا جہاں تک سوال ہے ہم اس مسئلے کے سلسلے میں کافی متفکر ہیں اور چاہتے ہیں کہ حریت کانفرنس ایک وسیع پلیٹ فارم کی صورت اختیار کرے تاکہ ایک منظم اور نئی قوت سے جدوجہد آزادی کو آگے بڑھایا جاسکے۔ اس سلسلے میں اتحاد و اتفاق کے لئے ہماری طرف سے صلائے عام ہے اور مجھے یقین ہے کہ جب ایک مضبوط پلیٹ فارم سے آواز ابھرے گی تو ہماری جدوجہد ضرور رنگ لائے گی اور یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قوموں کی تاریخ میں جدوجہد ہمیشہ طویل رہی ہے۔ البتہ خلوص نیت سے اگر ہم آگے بڑھیں تو یہ ہمارے لئے فتح کی نوید بن سکتی ہے، انشا اللہ۔ میں یہاں ایک اہم بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہوں گا کہ اسلامی مملکتوں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس فورم کو نمائندہ حیثیت دے اور جو لوگ اور قائدین اس پلیٹ فام سے دور ہیں انہیں بھی جناب سید علی گیلانی کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اور ایک عظیم مقصد کے پیش نظر حریت کانفرنس میں شمولیت اختیار کرنی چاہیے۔

س: آپ کی نظر میں تنازع کشمیر کا کیا حل ہے، کشمیریوں کو کیوں اقوام متحدہ کے مجوزہ روڑمیپ سے ماورا کوئی حل قابل قبول نہیں؟

جواب: تنازع کشمیر کا حل بالکل آسان ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں قوموں کی آزادی سے متعلق حق تسلیم کیا گیا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم بھارت سے اس کا کوئی حصہ چھیننا نہیں چاہتے کیونکہ جموں کشمیر کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں رہا ہے، بھارت نے اکتوبر1947میں ریاست پر جابرانہ قبضہ کرکے ہمارے بنیادی حقوق سلب کرلئے ہیں اور اس سلسلے میں خود بھارت کے رہنماؤں نے سلامتی کونسل میں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ان کی فوجیں ریاست میں عارضی طور مقیم ہیں اور حالات ٹھیک ہوتے ہی عوام کو اپنے سیاسی مستقبل سے متعلق رائے ظاہر کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ ہم اقوام متحدہ کے مجوزہ روڑ میپ یا ان کی ثالثی کو اس لئے بھی ایک بہتر حل تصور کرتے ہیں کہ اس میں قوموں کی سیاسی آزادی سے متعلق منشور موجود ہے۔ مزید یہ کہ اگر بھارت سہ فریقی مذاکرات پر اپنی آمادگی کا اظہار کرے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، ہم سہ فریقی بات چیت پر بھی راضی ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ نے مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میں مداخلت کرکے ایک حل پیش کرلیا اور ایسا جموں کشمیر کے لئے بھی ممکن ہے کیونکہ ہمارا مسئلہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں سب سے دیرینہ مسئلہ ہے۔

س: حریت قائدین کی نقل وحرکت، آزادی اظہار رائے پر مسلسل پابندیاں کیوں ہیں؟ بھارت آخر کار کیا چاہتا ہے، اس حکمت عملی کے تحت بھارت کس حد تک اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہا؟

جواب: بھارت اور اس کے مقامی حواری آزادی پسندوں پر قدغن عائد کرکے عوام اور ہمارے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی سر توڑ کوششیں کررہے ہیں اور یہ ہر قابض حکمران کے لئے ایک آزمایا ہوا ہتھیار ہے۔ ہمیں سالہا سال سے جیلوں میں بند رکھا جارہا ہے اور ہمارے جوانوں کو قید خانوں کی نذر کیا جارہا ہے۔ بھارت اور اس کے مقامی حکمران ہم سے خائف ہیں اور ہمارا سامنا کرنے سے ڈر رہے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں ہمیں لوگوں کے پاس جانے نہیں دیا گیا اور سبھی قائدین اور اراکین کو جیلوں میں ٹھونس کر یک طرفہ انتخابات کا ڈھونگ رچایا گیا۔ بھارت ہمیں قید و بند کی نذر کرکے عوام کو ایک آواز سے محروم کرنا چاہتا ہے اور اس طرح دنیا اور ہمارے بیچ ایک آہنی پردہ حائل کرکے جموں کشمیر کی صورت حال سے بے خبر رکھنے کی سعی کررہا ہے۔

س: کشمیریوں کے جدوجہد آزادی کے موجودہ مرحلے کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟

جواب۔ ہمیں امید ہے کہ ہم صحیح سمت میں جارہے ہیں اور موجودہ مرحلہ انتہائی نازک اور سنجیدہ ہے۔ دنیا سے مثبت اشارے مل رہے ہیں، دنیا جان گئی ہے کہ مسائل کو سرد خانے کی نذر کرکے مسائل کو ٹالا نہیں جاسکتا اور عالمی قیادت دنیا کے مختلف ممالک میں بڑھتی ہوئی بے چینی، سیاسی انارکی اور ہتھیار بند مہم جوئی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ایک پُر امن فضا کی تلاش کے لئے ممکنہ ذرائع کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔ ہماری جوان نسل بھی موجودہ ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے دنیا تک اپنی آواز پہنچا رہے ہیں اور دنیا اور انصاف پسند حلقے ہماری آواز سن رہے ہیں۔

س: بھارت اور پاکستان کے مابین مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوچکا ہے، کیا دوطرفہ مذاکرات سے مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے؟

جواب: دیکھیں! ہمارا ماننا ہے کہ بات سے بات بنے گی اور مسئلہ حل کرنے کے لئے مذاکرات کے سوا چارہ نہیں لیکن اس کے لئے سبھی فریقین کو اپنے خلوص اور فراخدلی کا اظہار کرنے کی ضرورت ہے۔ جنگ و جدل کسی مسئلہ کا حل نہیں اور ہم چاہتے ہیں بھارت، پاکستان اور جنوبی ایشیا کے سبھی ممالک سکھ چین سے رہیں اور اپنے عوام کو راحت پہنچانے کے لئے بھائی چارے کی فضا کو قائم کرنے میں اپنا تعاون فراہم کریں۔ جہاں تک دو طرفہ مذاکرات کا تعلق ہے، ہم نے بار بار اپنے اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ جموں کشمیر کوئی سرحدی تنازع نہیں ہے بلکہ ڈیڑھ کروڑ عوام کے سیاسی مستقبل سے جڑا مسئلہ ہے اور جب تک اس کے اصل فریق کو مذاکرات میں شامل نہیں کیا جاتا تب تک کسی دیرپا امن یا حل کے لئے امید کا اظہار کرنا ہی عبث ہے اور نہ ہی فریق اول کی غیر موجودگی میں کسی حل کے قابل قبول ہونے کی امید کی جاسکتی ہے

س: بھارت کے رویئے میں اچانک تبدیلی کیسے آئی؟ کیا بھارت واقعی معاملات اور مسائل کو حل کرنے کے لئے سنجیدہ ہے؟

جواب: ہم اسے تبدیلی نہیں کہیں گے، دراصل کچھ عالمی طاقتیں بھی ہند و پاک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی سے متفکر ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت اندرونی سطح پر بے چینی کا شکار ہے لیکن اس سب کے باوجود ہم یہ ضرور کہیں گے کہ بھارت مذاکرات کے سلسلے میں سنجیدہ نہیں۔ البتہ یہ دنیا کے لئے دکھاوے کا ایک عمل ہے اور وہ دباؤ کی شدت کم کرنے کے لئے ایسا کررہا ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ بھارت مذاکرات کے سلسلے میں سنجیدہ نہیں۔ البتہ اس کی آڑ میں آناکانی کرکے اس مسئلے سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی کوششیں کررہا ہے۔

س: کشمیر میں بھارت نواز سیاسی تنظیموں اور ان کے قائدین کا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کیا کردار ہے؟

جنرل پرویز مشرف نے چار نکاتی فارمولہ پیش کرکے دراصل جموں کشمیر سے متعلق جوں کی توں حیثیت کو قبول کرنے کے لئے اپنی آمادگی کا اظہار کیا تھا اور اس فارمولے میں جموں کشمیر کے عوام کے عزت نفس سے متعلق کوئی خیال نہیں رکھا گیا تھا

جواب: بھارت نواز جماعتوں اور ان کے قائدین کا کوئی رول نہیں۔ جن انتخابات کی بنیاد پر یہ لوگ اسمبلی اور ایوان اقتدار میں بیٹھے ہیں، اس کی کوئی حیثیت نہیں اور اس بات کا اقرار خود بھارت کے کئی دانشوروں نے کیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے یہ انتخابات کبھی بھی آزادانہ ماحول میں نہیں ہوئے اور حریت پسند قائدین کو عوام تک جانے نہیں دیا گیا اور اکثر مقامات پر فوج لوگوں کو پولنگ مراکز کی جانب لے جاتے ہوئے دیکھی گئی۔ تاکہ دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاسکے کہ لوگ اپنی مرضی سے ووٹ ڈال رہے ہیں۔ اب جبکہ ان انتخابات کی کوئی آئینی حثییت نہیں اس لئے ان کے نمائندہ کردار کی بات بھی نہیں بنتی اور نہ ان کا اس مسئلے میں کوئی رول بنتا ہے کہ یہ لوگ بھارتی سسٹم کی نمائندگی کرتے ہیں، عام آدمی کے جذبات کی نہیں۔

س: آپ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عالمی برادری کے کردار پر کیا کہیں گے؟

جواب: مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں عالمی برادری کا ایک اہم کردار ہے۔ عالمی برادری نے ہی جموں کشمیر کے سلسلے میں 18قراردادوں کی منظوری دی ہے۔ اگر عالمی برادری مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میں مداخلت کرسکتے ہیں تو جموں کشمیر کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے عالمی برادری پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ سلامتی کونسل میں منظور کی گئی قراردادوں کو عمل میں لانے میں دلچسپی کا اظہار کرے اور یہ عالمی امن کی ضمانت بھی فراہم کرسکتا ہے۔ برصغیر کے دو ملک جنگ کی حالت میں ہیں، آئے روز سرحدوں پر تنازعات جنم لیتے ہیں اور مارا ماری، تناطنی اور کشاکش کا سلسلہ روکنے کے لئے اقوام متحدہ کے لئے ایک اہم رول بنتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے کئی بار اس بات کا برملا اظہار بھی کیا ہے کہ اس مسئلہ کو عالمی نگرانی میں سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے بھی حل کیے جانے کے لئے ایک آپشن موجود ہے۔

س: حال ہی میں آپ کو حریت کانفرنس کا جنرل سیکریٹری نامزد کیا گیا، ایک بھاری ذمہ داری ہے، اتحاد کو مزید مستحکم اور فعال بنانے کے کیلئے آپ کیا اقدامات کررہے ہیں؟

جواب: دیکھے میں نے کبھی بھی کسی عہدے کی خواہش نہیں کی ہے البتہ خود کو ایک خادم کی حیثیت سے میں قوم کی خدمت کرنے کا خواہش مند ہوں۔ میں نے حریت کانفرنس کو ہمیشہ فعال دیکھنے کے لئے اپنی تمناؤں کا اظہار کیا ہے اور اس سلسلے میں اپنا دست تعاون بھی فراہم رکھا اور میں آج بھی ایک خادم کی حیثیت سے سبھی آزادی پسندوں کو اس پلیٹ فارم کو مضبوط بنانے کی کئی بار اپیل بھی کی ہے اور اس سمت میں ہمیشہ کوشش کرتا آیا ہوں اور مستقبل میں بھی کرتا رہوں گا۔ یہ میرا خواب بھی ہے اور ایک مشن بھی کہ سبھی حریت پسند ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں اور حریت چیئرمین سید علی گیلانی صاحب کی قیادت پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے فعال کردار ادا کریں۔

س: آپ کی نظر میں مسئلہ کشمیر کے حل میں حائل رکاوٹیں کون سی ہیں اور انہیں کیسے دور کیا جاسکتا ہے؟

جواب: ہماری طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود بھارت پیدا کررہا ہے۔ بھارت مذاکرات پر اپنی آمادگی کا اظہارکرے تو ہر رکاوٹ دور ہوگی اور جنوب مغربی ایشیا میں امن کی فضا قائم ہوگی۔ اسے دور کرنے کے لئے عالمی قائدین کو بھارت پر دباؤ بڑھانا ہوگا۔

س: بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ 9/11کے بعد عسکریت کا کردار ختم ہوچکا ہے۔ کیا آپ کی رائے بھی یہی ہے ؟

مجھے 2011ء میں جیل سے رہائی کے بعد اب تک 28 مہینے تک نظر بند رکھا گیا اور اس دوران مجھے 176جمعہ اور 9عیدین کی نمازیں ادا کرنے سے روکا گیا

جواب: دیکھے ہم سیاسی سطح پر اپنی جدوجہد کررہے ہیں لیکن عسکری سطح پر جدوجہد کی نفی نہیں کررہے ہیں۔ جدوجہد کے لئے کئی راستے ہیں اور اب یہ کسی کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ اپنے لئے کون سا طریقہ موزوں سمجھتا ہے۔ جہاں تک عسکری حلقوں کا تعلق ہے وہ اس تحریک کو اپنے مقدس خون سے سینچ کر اس کی آبیاری کررہے ہیں اور ہم اس سلسلے میں وعدہ بند ہیں کہ ان کی پیش کی گئی قربانیوں کے ساتھ کسی بھی کھلواڑ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

س: پاکستانی سابق صدر جنرل مشرف اور موجودہ پاکستانی حکومت کی کشمیر پالیسی میں کوئی واضح فرق محسوس کررہے ہیں؟

جواب: جی بالکل واضح فرق ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے چار نکاتی فارمولا پیش کرکے دراصل جموں کشمیر سے متعلق جوں کی توں حیثیت کو قبول کرنے کے لئے اپنی آمادگی کا اظہار کیا تھا اور اس فارمولے میں جموں کشمیر کے عوام کے عزت نفس سے متعلق کوئی خیال نہیں رکھا گیا تھا۔ اس فارمولے میں اصل مسئلہ سے صرف نظر کرتے ہوئے ایک قسم کی (patch work) مرہم کاری سے کام لینے کی کوشش کی گئی تھی۔

س: آپ سالہا سال تک زنداں کی مصیبتیں جھیلتے رہے، تکلیفوں اور مصیبتوں کا شکار رہے، اس مناسبت سے کو ئی ایسا خاص واقعہ جسے آپ بیان کرنا چاہیں؟

جواب: دیکھے جیل یا زنداں میرے لئے کوئی نئی بات نہیں۔ یہ سطور تحریر کرتے وقت بھی میں نظر بند ہوں۔ میں نے اپنی زندگی کا ایک خاصہ حصہ جیل اور تعذیب خانوں میں گزارا ہے۔ میں گزشتہ کئی مہینوں سے نظر بند ہوں اور ہر آنے جانے والے پر کڑی نگاہ رکھی جارہی ہے۔ سال 2015ء میں مجھے 201 ایام کے لئے نظر بند رکھا گیا اور سال 2011ء میں جیل سے رہائی کے بعد اب تک 28 مہینے تک مجھے نظر بند رکھا گیا اور اس دوران مجھے 176جمعہ اور 9عیدین کی نمازیں ادا کرنے سے روکا گیا۔ یہ میرے لئے کوئی نیا تجربہ نہیں بلکہ اب یہ میری زندگی کا ایک معمول بن چکا ہے۔

س: کشمیر آزاد ہوگا۔۔ ۔ ۔ کیا آپ کو اس بات کا یقین ہے؟

جواب: بالکل آزاد ہوگا اور اس بات کا مجھے یقین ہے۔ ظلم و جبر کی یہ دیواریں ٹوٹ جائیں گی اور ستم رسیدہ چہروں پر خوشی و مسرت ظاہر ہوگی۔ اس کا مجھے یقین ہے کہ عزم اور جہد مسلسل کے مظاہرے سے یہ بیڑیاں ٹوٹ جائے گی۔ تاریخ گواہ کہ تحریک آزادی کی جدوجہد طویل ضرور رہی ہیں لیکن غلام قوموں نے تاریخ کے اوراق پر آزادی کا عنوان رقم کیا ہے۔ میری قوم نے گزشتہ 69برسوں سے لاکھوں جانوں کی قربانیاں پیش کی ہیں، اربوں روپے مالیت کی املاک زمیں بوس ہوئی اور بھارتی فوجیوں نے چادر اور چاردیواری کی حرمت پامال کی۔ کیا یہ سب یونہی رائیگاں جائے گی۔ نہیں ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ قانون فطرت غاصب و جابر قوت کو ڈھیل دے سکتی ہے لیکن بہرحال باطل کو حق و انصاف کے آگے سرنگوں ہونا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آزادی کا سورج طلوع ہوگا اور شہدائے کشمیر کے خون سے میرے وطن میں آزادی کی بہار چھائے گی انشا اللہ۔


متعلقہ خبریں


پسند نا پسند سے بالاتر ہوجائیں،تاجروں کی وزیراعظم کو عمران خان سے ہاتھ ملانے کی تجویز وجود - جمعرات 25 اپریل 2024

وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب نے معاشی استحکام کے لیے بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز دے دی۔تفصیلات کے مطابق کراچی میں وزیراعظم شہباز شریف نے تاجر برادری سے گفتگو کی اس دوران کاروباری شخصیت عارف حبیب نے کہا کہ آپ نے اسٹاک مارکیٹ کو ریکارڈ سطح پر پہنچایا ...

پسند نا پسند سے بالاتر ہوجائیں،تاجروں کی وزیراعظم کو عمران خان سے ہاتھ ملانے کی تجویز

نواز اور شہباز میں جھگڑا چل رہا ہے، لطیف کھوسہ کا دعویٰ وجود - جمعرات 25 اپریل 2024

تحریک انصاف کے رہنما لطیف کھوسہ نے نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان جھگڑا چلنے کا دعوی کر دیا ۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹے بھائی نے دھوکا دیکر نواز شریف سے وزارت عظمی چھین لی ۔ شہباز شریف کسی کی گود میں بیٹھ کر کسی اور کی فرمائش پر حکومت کر رہے ہیں ۔ ان...

نواز اور شہباز میں جھگڑا چل رہا ہے، لطیف کھوسہ کا دعویٰ

امریکی طالبعلموں کا اسرائیل کے خلاف احتجاج شدت اختیار کرگیا وجود - جمعرات 25 اپریل 2024

غزہ میں صیہونی بربریت کے خلاف احتجاج کے باعث امریکا کی کولمبیا یونیوسٹی میں سات روزسے کلاسز معطل ہے ۔سی ایس پی ، ایم آئی ٹی اور یونیورسٹی آف مشی گن میں درجنوں طلبہ کو گرفتار کرلیا گیا۔فلسطین کے حامی طلبہ کو دوران احتجاج گرفتار کرنے اور ان کے داخلے منسوخ کرنے پر کولمبیا یونیورسٹی ...

امریکی طالبعلموں کا اسرائیل کے خلاف احتجاج شدت اختیار کرگیا

پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پولیس نے مداخلت کی، یہاں جنگل کا قانون ہے ،عمران خان وجود - بدھ 24 اپریل 2024

بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ پنجاب کا الیکشن پہلے سے پلان تھا اور ضمنی انتخابات میں پہلے ہی ڈبے بھرے ہوئے تھے۔اڈیالہ جیل میں میڈیا سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ جمہوریت، قانون کی بالادستی اور فری اینڈ فیئر الیکشن پر کھڑی ہوتی ہے مگر یہاں جنگل کا قانون ہے پنجاب کے ضمنی ...

پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پولیس نے مداخلت کی، یہاں جنگل کا قانون ہے ،عمران خان

ایرانیوں کے دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں ایرانی صدر وجود - بدھ 24 اپریل 2024

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی لاہور پہنچ گئے، جہاں انہوں نے مزارِ اقبال پر حاضری دی۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ایرانیوں کے دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ غزہ کے معاملے پر پاکستان کے اصولی مؤقف کو سراہتے ہیں۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے علامہ اقبال انٹرنیشنل ائرپورٹ پر مہمان ایرا...

ایرانیوں کے دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں ایرانی صدر

سپریم کورٹ، کراچی میں 5ہزار مربع گز پلاٹ پر پارک بنانے کا حکم وجود - بدھ 24 اپریل 2024

سپریم کورٹ نے کراچی میں 5 ہزار مربع گز پلاٹ پر پارک بنانے کا حکم دیدیا۔عدالت عظمی نے تحویل کے لئے کانپور بوائز ایسوسی ایشن کی درخواست مسترد کردی۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کانپور اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کو زمین کی الاٹمنٹ کیس کی سماعت کے دوران وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انیس سو اک...

سپریم کورٹ، کراچی میں 5ہزار مربع گز پلاٹ پر پارک بنانے کا حکم

بھارت کا انٹرنیشنل ڈیتھ اسکواڈز چلانے کا اعتراف وجود - منگل 23 اپریل 2024

بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کااعتراف کہ بھارت غیر ملکی سرزمین پر اپنے ڈیتھ اسکواڈز چلاتا ہے، حیران کن نہیں کیونکہ یہ حقیقت بہت پہلے سے عالمی انٹیلی جنس کمیونٹی کے علم میں تھی تاہم بھارت نے اعتراف پہلی بار کیا۔بھارتی چینل کو انٹرویو میں راج ناتھ سنگھ نے کہاکہ بھارت کا امن خراب ...

بھارت کا انٹرنیشنل ڈیتھ اسکواڈز چلانے کا اعتراف

پاکستان، ایران کا دہشت گردی کیخلاف مشترکہ کوششوں پر اتفاق وجود - منگل 23 اپریل 2024

پاکستان اور ایران نے سکیورٹی، تجارت، سائنس و ٹیکنالوجی، ویٹرنری ہیلتھ، ثقافت اور عدالتی امور سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لئے 8 معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کر دیئے جبکہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ ہم نے پہلے مرحلے میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی ح...

پاکستان، ایران کا دہشت گردی کیخلاف مشترکہ کوششوں پر اتفاق

سعودی اور غیرملکی سرمایہ کاری کی آمد،اسٹاک مارکیٹ میں ڈھائی ماہ سے تیزی کا تسلسل جاری وجود - منگل 23 اپریل 2024

پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں تیزی کے نئے ریکارڈ بننے کا سلسلہ جاری ہے اوربینچ مارک ہنڈریڈ انڈیکس بہترہزار پوانٹس کی سطح کے قریب آگیا ہے اسٹاک بروکرانڈیکس کو اسی ہزار پوانٹس جاتا دیکھ رہے ہیں۔اسٹاک مارکیٹ میں ڈھائی ماہ سے تیزی کا تسلسل جاری ہے انڈیکس روزانہ نئے ریکارڈ بنارہا ہے۔۔سر...

سعودی اور غیرملکی سرمایہ کاری کی آمد،اسٹاک مارکیٹ میں ڈھائی ماہ سے تیزی کا تسلسل جاری

وزیراعلیٰ کا اسٹریٹ کرائم کیخلاف دوطرفہ کارروائی کا فیصلہ وجود - منگل 23 اپریل 2024

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اسٹریٹ کرائم کیخلاف دوطرفہ کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔تفصیلات کے مطابق وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی زیرصدارت اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے صوبے میں امن وامان سے متعلق بریفنگ دی۔اجلاس میں وزیر اعلی مرادعلی ...

وزیراعلیٰ کا اسٹریٹ کرائم کیخلاف دوطرفہ کارروائی کا فیصلہ

ضمنی انتخابات، پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کے پی کے میں پی ٹی آئی برتری وجود - پیر 22 اپریل 2024

ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے 21 حلقوں پر پولنگ ہوئی، جبکہ ووٹوں کی گنتی کے بعد غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج موصول ہونا شروع ہوگئے ۔الیکشن کمیشن کے مطابق قومی اسمبلی کی 5 اور صوبائی اسمبلی کی 16 نشستوں پر پولنگ صبح 8 بجے شروع ہوئی جو بغیر کسی وقفے کے شام 5 بجے تک جاری رہ...

ضمنی انتخابات، پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کے پی کے میں پی ٹی آئی برتری

ضمنی الیکشن دو سیاسی جماعتوں کے کارکنوں میں جھگڑا، ایک شخص جاں بحق وجود - پیر 22 اپریل 2024

ظفروال کے حلقہ پی پی 54 میں ضمنی الیکشن کے دوران گائوں کوٹ ناجو میں دو سیاسی جماعتوںکے کارکنوں میں جھگڑے کے دوران ایک شخص جاں بحق ہو گیا۔ جھگڑے کے دوران مبینہ طور پرسر میں ڈنڈا لگنے سے 60 سالہ محمد یوسف شدید زخمی ہو اجسے ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لا کرجان کی بازی...

ضمنی الیکشن دو سیاسی جماعتوں کے کارکنوں میں جھگڑا، ایک شخص جاں بحق

مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر