... loading ...
عقیل کریم ڈھیڈی ملک کی معروف کاروباری شخصیت ہیں۔ اُن کی کمپنی اے کے ڈی سیکورٹیز، اسٹاک مارکیٹ کے چند بڑے اداروں میں سے ایک ہے۔ وفاقی ادارے ایف آئی اے نے ۴؍جنوری بروز پیر اے کے ڈی سیکورٹیز کے چیف ایگزیکٹو افسر سمیت تین ملازمین کو اچانک دھر لیا۔جسے حسب توقع جنگ گروپ نے اپنی اشاعتوں میں بڑھا چڑھا کر پیش کیاہے۔ ایگزیکٹ کے اسکینڈل کے بعد جنگ گروپ نے جس معاملے میں سب سے زیادہ دلچسپی اب تک دکھائی ہے وہ عقیل کریم ڈھیڈی کے مختلف معاملات سے متعلق ہے۔ مگر اس معاملے کے سیاق وسباق پر دھیان رکھنا نہایت ضروری ہے تاکہ یہ اندازا ہو سکے کہ اس کھیل کے پس پشت کون کون سے کردار متحرک ہیں؟ اور یہ معاملہ اصلاً کیا ہے؟

اے کے ڈی سیکورٹیز کے خلاف ایف آئی اے کے مقدمے کو سمجھنے کے لئے کسی اور کو نہیں خود جنگ گروپ کی اشاعت کو ہی بنیاد بناتے ہیں۔ جنگ نے اپنی اشاعت میں اے کے ڈی سیکورٹیز کے خلاف ایف آئی آر کی تفصیلات شائع کی ہیں ۔ جس کے مطابق ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی)کے شیئرز کی خریداری کے معاملے میں اے کے ڈی سیکورٹیز کے مجرمانہ کردار(ایف آئی اے خود ہی عدالت بن گئی اور تعین کر دیا کہ اے کے ڈی کا کردار مجرمانہ ہے)سے قومی خزانے کو 29کروڑ روپے کا نقصان پہنچا ۔ اس کی تفصیلات ایف آئی اے کی ایف آئی آر میں کچھ یوں درج ہے کہ میسرز ایمٹیکس کے مجموعی طور پر 17350000 حصص ای او بی آئی نے 337659914 روپے میں خریدے۔ایف آئی آر کے مطابق حصص کی یہ خریداری ای او بی آئی انوسٹمنٹ کمیٹی کی سفارش ومنظوری سے کی گئی۔ یہ کمیٹی ڈائریکٹر جنرل انوسٹمنٹ کنور خورشید وحید اور اس وقت کے چیئرمین ای او بی آئی ظفر اقبال گوندل پر مشتمل تھی۔ ان حصص کی مالیت 73.2 روپے فی حصص ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق اس عمل سے قومی خزانے اور ای او بی آئی کو 29 کروڑ روپے کا نقصان پہنچا ہے۔
ایف آئی اے کی لمبی چوڑی ایف آئی آر میں ایمکیپ اور ایمٹیکس لمیٹڈ کی ملی بھگت کا ذکر ہے جس کے مالکان باپ بیٹے بتائے گئے ہیں۔ اس لمبی چوڑی تفصیلات کا عملاً اے کے ڈی سیکورٹیز سے کوئی تعلق نہیں۔ اُنہیں ایک جرم کے سہولت کنندہ کے طور پر اس طرح مقدمے میں ماخوذ کیا گیا ہے کہ اے کے ڈی سیکورٹیز نے اپنی ایک ریسرچ رپورٹ میں ای پی ایس 10.7روپے اور 93.9روپے برائے سال2010ء اور 2011ء کے لئے پیشگوئی کی تھی۔ لیکن درحقیقیت میسر زایمٹیکس کو بھاری خسارہ ہوا۔ اور 2011ء میں ای پی ایس کم ہو کر منفی 17.7 روپے اور 2012ء میں4.10روپے ہو گئی۔
اب صرف ایف آئی آر کو بنیاد بنایا جائے تو اے کے ڈی وہ کمپنی ہے جس کی ریسرچ رپورٹ کو اس کا ذمہ دار سمجھا گیا ہے کہ اُس کے باعث ای او بی آئی کو نقصان پہنچا۔ ایف آئی اے کے سندھ کے ڈائریکٹر اور اپنے تئیں خود کو’’ ایماندار‘‘باور کرانے والے شاہد حیات نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ اے کے ڈی سیکورٹیز کو اس معاملے میں سہولت کنندہ سمجھتے ہیں اور اُن کا یہ جُرم مرکزی مجرموں جیسا ہے۔ حیرت انگیز طور پر شاہد حیات سے پروگرام کے ذہین اینکر ندیم ملک نے یہ نہیں پوچھا کہ ایسا وہ صرف اسی مقدمے میں سمجھتے ہیں یا پھر وہ ہر ایف آئی آر میں سہولت کنندہ کو مرکزی ملز م کے طو رپر لیتے ہیں ۔ اب ذرا دیکھ لیجئے کہ مقدمے کی اس جہت میں خامیاں کتنی ہیں؟ اور یہ معاملہ کتنی دیر تک قانون کی نگاہوں میں ٹک پائے گا۔ سب سے پہلی بات ریسرچ رپورٹ کی ہے۔ آخر یہ کیا ہوتی ہے؟
ریسرچ رپورٹ دراصل کسی بروکریج ہاؤس کی طرف سے اعداوشمار کی بنیاد پر ایک اندازا ہوتا ہے جس کی کبھی بھی ذمہ داری نہیں لی جاتی۔ اس میں کسی کمپنی کے شیئرز کے امکانات اور خدشات دونوں کا تجزیہ ہوتا ہے۔ جس میں مجموعی طور پر مذکورہ صنعت کا ایک مکمل جائزہ بھی شامل ہوتا ہے۔ یہ ساری تفصیلات مختلف گرافس کے ذریعے واضح کردی جاتی ہے۔ پھر آخر میں ایک Disclaimer یعنی اعلان لاتعلقی بھی دے دیا جاتا ہے جس سے ریسرچ رپورٹ دینے والی کمپنی خود کو بری الذمہ قرار دے لیتی ہے۔ دنیا بھر میں یہ اسٹاک مارکیٹ کا ایک مجموعی اور قابل اعتبار نمونہ ہے جس کی بنیا د پر سرمائے یا حصص کا کاروبار ہوتا ہے۔ اس میں سرمایہ پھیلتا اور مزید منافع کے ساتھ دگنا اور کئی گنا بھی ہوتا ہے اور ڈوب بھی جاتا ہے۔ مگر آج تک دنیا میں کہیں پر بھی اسٹاک مارکیٹ کے اس مسلمہ طریقے میں ریسرچ رپورٹ کے اس طرح غلط ثابت ہونے پر کبھی کسی ادارے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں پر ریسرچ رپورٹ کی بنیاد پر اس نوع کی کارروائی ہوئی ہے۔ اب اس سے جو سوالات پیدا ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ
ریسرچ رپورٹ کے اس مجموعی تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سوال جائز طور پر اُٹھایا جاسکتا ہے کہ آخر ایف آئی اے کو مرکزی ملزمان سے زیادہ بقول اُن کے ریسرچ رپورٹ کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی کرنے میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟اوپر یہ بات تحریر کی جاچکی ہے کہ خود شاہد حیات نے ٹی وی کے ایک پروگرام میں یہ کہا کہ وہ اس معاملے میں سہولت کنندہ کے ’’جرم‘‘ (وہ اِسے جرم کہنے کے مجاز کیسے ہوگئے)کو مرکزی مجرموں کے طور پر دیکھتے ہیں۔اس تناظر میں جنگ گروپ جہانگیر صدیقی کے ساتھ اپنے خاندانی تعلقات کے باعث جو دباؤ استعمال کر رہا ہے ، اُس کے کردار پر بھی بطور سہولت کنندہ کے ایک جائز سوال اُٹھتا ہے ۔

اگر سہولت کنندہ ہونے اور ایک ریسرچ رپورٹ کے باعث اے کے ڈی سیکورٹیز پر ایف آئی اے کی تفتیش جائز ہے تو پھر جنگ گروپ اور جیو میں آنے والے اشتہارات پر یقین کر کے جولوگ اپنی سرمایہ کاری کرتے ہیں، مختلف تعمیراتی منصوبوں میں جاکر پیسے لگاتے ہیں، اگر وہ ادارے لوگوں کے پیسے بٹور کر غائب ہو جائیں اور اُن تعمیراتی منصوبوں میں لوگوں کے پیسے ڈوب جائیں تو کیا یہ ادارے اس جعلسازی میں سہولت کنندہ کے طور پر اپنی ذمہ داری قبول کریں گے؟اگر ایسی ماضی کی بہت سی مثالیں پیش کی جائیں جس کے اشتہارات صرف جنگ میں لگے اور لوگوں کے ساتھ دھوکے ہوئے ہیں تو کیا ایف آئی اے اس پر تفتیش کرے گی؟ کیا ایماندار افسر کے ایمان میں اس سے کچھ جوش پیدا ہوگا؟

اس مزے دار سوال سے قطع نظر اب یہاں اصل سوال اُٹھاتے ہیں کہ شاہد حیات ایک ریسرچ رپورٹ میں موجود اعلان لاتعلقی یعنی (disclaimer) کے باوجود ایسا کس قانون کے تحت کر رہے ہیں؟ اُن کی اس معاملے میں دلچسپی مرکزی ملزم کمپنی یعنی ایمٹیکس سے زیادہ اے کے ڈی سیکورٹیز کے خلاف کیوں ہے؟ وہ چائے سے زیادہ کیتلی پر کیوں گرم ہیں؟یہ سوالات بنیادی طور پر ہمیں شاہد حیات کے کردار کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔

پاکستان کے جعلی ذرائع ابلاغ نے شاہد حیات کو ایک ایماندار افسر کے طور پر متعارف کرارکھا ہے۔ وہ کراچی کے سب سے زیادہ متنازع اور مخصوص مفاداتی گروہوں کے لئے کارگزار رہنے والی ایک شخصیت کا پس منظر رکھتے ہیں۔ مگر ہمارے جعلی ذرائع ابلاغ دراصل طاقت کے مراکز اور اُن ہی مفاداتی گروہوں سے فائدے کشید کرنے کے باعث یکطرفہ طو ر پر دن کو رات اور رات کودن باور کراتے رہتے ہیں۔ شاہد حیات پر عقیل کریم ڈھیڈی نے کچھ براہِ راست الزامات عائد کئے ہیں۔
شاہد حیات نے ایک ٹی وی چینل پر یہ کہا کہ وہ ٹی وہ چینل پر نہیں عدالت میں مقدمہ لڑیں گے۔ اور اس طرح اُنہوں نے خود پر عائد الزامات کابراہ راست جواب دینے سے گریز کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ مقدمہ عدالت میں ہی لڑنا چاہتے تھے تو پورا وقت ٹی وی پروگرام میں کیوں موجود رہے؟ اُنہوں نے وہ بھی باتیں کرنا کیوں ضروری سمجھا جو وہ اس مقدمے سے متعلق وہاں کرتے رہے۔ اگر وہ اتنے ہی اُصول پسند افسر ہیں تو سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ اُنہوں نے اب تک ایگزیکٹ کے خلاف جو جو الزامات عائد کئے تھے اُن میں سے کتنے مقدمات عدالت میں لڑے؟ اُنہوں نے ایگزیکٹ پر جو جو الزامات عائد کئے اُن میں سے کتنے مقدمات کے چالان عدالت میں پیش کئے؟ کیا وہ اپنے اس دعوے کے مطابق ذرا اپنے اُ س کردار کاجائزہ لینا بھی پسند کریں گے جو وہ ایگزیکٹ کے خلاف عدالت کے بجائے اسی میڈیا میں اپنا مقدمہ لڑ کر ظاہر کرتے رہے ہیں۔ شاہد حیات کی پوری زندگی اسی طرح کے تضادات پر مبنی ہے۔ شاہد حیات اسی طرح کی ہشیاری برتنے والے ایک پولیس افسر بھی رہے ہیں۔ جن کے متعلق بہت سی کہانیاں کراچی میں زیرگردش رہتی ہیں۔ یہاں محض ایک واقعہ پیش نظر رہے تاکہ اس اُصول پسند اور ایماندار افسر کی شہرت رکھنے والے شخص کے کردار کی جھلک میں حالیہ مسئلہ بھی سمجھنے میں آسانی ہو۔کراچی کے لوگوں کو اچھی طرح یاد ہے کہ مرتضیٰ بھٹو 20ستمبر 1996 ء کو کس طرح ایک سازش کے تحت 70۔ کلفٹن کے نزدیک پولیس کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔ مرتضیٰ بھٹو کے ایک ساتھی نور محمد کی ایک ایف آئی آر میں وہ شاہد حیات کو اُن ملزمان میں شامل کیا گیا تھا جو اس جعلی پولیس مقابلے کے ذمہ دار تھے۔ اس مقابلے کے وقت اے ایس پی صدر یہی شاہد حیات تھے جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اس مقابلے میں اُنہیں ایک گولی لگی اور وہ زخمی ہوئے۔ شاہد حیات کی اس میڈیکو لیگل رپورٹ کو چیلنج کیا گیا اور مقتول کے ورثاء کی طرف سے عدالت کو استدعا کی گئی کہ وہ ایک آزاد میڈیکل بورڈ سے تحقیق کروائے کہ کیا شاہد حیات کو گولی کسی مقابلے میں لگی ہے یا نہیں۔ اس پر آغاخان اسپتال سے ایک بورڈ تشکیل دیا گیا جس نے رپورٹ پیش کی کہ شاہد حیات کو یہ گولی دور سے نہیں بلکہ بہت قریب سے لگی ہے جو وہ خود ہی اپنے آپ کو مار سکتے تھے۔ اس رپورٹ کو بدلوانے کے لئے بے پناہ دباؤ کا استعمال ہوا مگر آغاخان میڈیکل بورڈ نے اپنی رپورٹ میں کسی ردوبدل کو گوارا نہیں کیا یہاں تک کہ اس کے دوڈاکٹر زنے اس دباؤ میں اپنا فیصلہ تبدیل کرنے کے بجائے استعفیٰ دے دیئے۔ یہ اس ایماندار افسر کی کہانی جو ذرائع ابلاغ کے جعلی کہانیوں میں ایک ہیرو کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں۔

شاہد حیات کے اس ماضی کو دھیان میں رکھتے ہوئے ایگزیکٹ کی تازہ کارگزاری کوبھی سامنے رکھ لیا جائے جس میں وہ اب تک اس اداے پر عائد الزامات میں سے کسی ایک کو بھی درست ثابت کرنے میں ناکام رہے مگر اِسے پاکستان کے طاقت ور میڈیا یعنی جنگ گروپ اور ایکسپریس گروپ کی ایماء پر ٹھکانے لگانے کے لئے جعلسازی پر مبنی ایک میڈیا مہم میں اس کی امیج کو بالکل تباہ کرنے کا موجب بنے ہیں۔ تو پھراے کے ڈی سیکورٹیز والے مقدمے میں دھیان اُن الزامات پر جاتا ہے جو براہِ راست عقیل کریم ڈھیڈی نے شاہد حیات پر عاید کئے ہیں۔
یہ کوئی معمولی الزامات نہیں بلکہ ایک قانونی ادارے کی طاقت کو اپنے منافع بخش تعلقات کے لئے غیرقانونی طور پر استعمال کرنے سے متعلق ہیں۔ کیا ایسی صورت میں خود شاہد حیات پر عائد الزامات کی بھی تحقیق نہیں ہونی چاہئے؟
یہ اس پورے معاملے کے محض چند ایک اہم پہلو ہیں۔ مگر اس معاملے کی مجموعی تصویر اس سے بھی کہیں زیادہ بھیانک ہے جس میں سیاسی ، کاروباری اور صحافتی اکٹھ سے پاکستان کے تمام کاروباری اور سیاسی مفادات پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے لئے ایک منظم مافیا حرکت میں ہے جس کے ڈانڈے ایوان وزیراعظم سے میر شکیل الرحمان کے گھر تک میں جاتے ہیں۔ ان تفصیلات کو آئندہ پر اُٹھا رکھتے ہیں۔
سیاسی قوت کے طور پر مضبوط ہونا عوام اور سیاست دانوں کا حق ہے، فلسطین فوج بھیجنے کی غلطی ہرگز نہ کی جائے،نہ 2018 نہ 2024 کے الیکشن آئینی تھے، انتخابات دوبارہ ہونے چاہئیں کوئی بھی افغان حکومت پاکستان کی دوست نہیں رہی،افغانی اگر بینکوں سے پیسہ نکال لیں تو کئی بینک دیوالیہ ہوجائیں،...
ایف بی آر نے کسٹمز قوانین میں ترامیم کیلئے 10فروری تک سفارشات طلب کرلی فیلڈ فارمیشن کا نام، تجاویز، ترامیم کا جواز، ریونیو پر ممکنہ اثرات شامل ،ہدایت جاری نئے مالی سال کے بجٹ کی تیاریاں شروع کر دی گئیں، ایف بی آر نے نئے بجٹ کے حوالے سے ٹیکس تجاویز مانگ لیں۔ایف بی آر کے مطابق...
کراچی، حیدرآباد، سکھر، میرپورخاص، شہید بینظیر آباد اور لاڑکانہ میں مظاہرے بانی کی ہدایت پر اسٹریٹ موومنٹ کا آغاز،پوری قوم سڑکوں پر نکلے گی،حلیم عادل شیخ پاکستان تحریک انصاف کے سرپرستِ اعلی عمران خان، ان کی اہلیہ بشری بی بی، اور اس سے قبل ڈاکٹر یاسمین راشد، اعجاز چوہدری، میاں ...
عوام متحد رہے تو پاکستان کبھی ناکام نہیں ہوگا،ہماری آرمڈ فورسز نے دوبارہ ثابت کیا کہ ہماری سرحدیں محفوظ ہیں قوم کی اصل طاقت ہتھیاروں میں نہیں بلکہ اس کے کردار میں ہوتی ہے، کیڈٹ کالج پٹارو میں تقریب سے خطاب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کیڈٹ کالج پٹارو م...
تحریک تحفظ کانفرنس کے اعلامیے کا علم نہیں،غلط فیصلے دینے والے ججز کے نام یاد رکھے جائیں گے عمران کو قید مگر مریم نواز نے توشہ خانہ سے گاڑی لی اس پر کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟میڈیا سے گفتگو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے کہا ہے کہ مذاکر...
پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز کے تحت کراچی ایکسپو سینٹر میں جاری پانچ روزہ کراچی ورلڈ بک فیٔر علم و آگاہی کی پیا س بجھا تا ہو ا کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔ کراچی ورلڈ بک فیٔر نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ساڑھے 5لاکھ افراد نے پانچ روز...
اصل سوال یہ ہے کہ حکومت کس کی ہے اور فیصلے کون کر رہا ہے، آئین کیخلاف قانون سازی کی جائے گی تو اس کا مطلب بغاوت ہوگا،اسٹیبلشمنٹ خود کو عقل کل سمجھتی رہی ،سربراہ جمعیت علمائے اسلام عمران خان سے ملاقاتوں کی اجازت نہ دینا جمہوری ملک میں افسوس ناک ہے، میں تو یہ سوال اٹھاتا ہوں وہ گ...
سہیل آفریدی اور ان کے وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوئے،تفتیشی افسر پیش سینئر سول جج عباس شاہ نے وزیراعلیٰ پختونخوا کیخلاف درج مقدمے کی سماعت کی خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کے خلاف ریاستی اداروں پر گمراہ کن الزامات اور ساکھ متاثر کرنے کے کیس میں عدم حاضری پر عدالت ن...
حکومت ایک نیا نظام تیار کرے گی، وزیرِ داخلہ کو نئے اختیارات دیے جائیں گے، وزیراعظم تشدد کو فروغ دینے والوں کیلئے نفرت انگیز تقریر کو نیا فوجداری جرم قرار دیا جائیگا،پریس کانفرنس آسٹریلوی حکومت نے ملک میں نفرت پھیلانے والے غیر ملکیوں کے ویزے منسوخ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔...
حملہ آور کا تعلق حیدرآباد سے تھا، ساجد اکرم آسٹریلیا منتقل ہونے کے بعدجائیداد کے معاملات یا والدین سے ملنے 6 مرتبہ بھارت آیا تھا،بھارتی پولیس کی تصدیق ساجد اکرم نے بھارتی پاسپورٹ پر فلپائن کا سفر کیا،گودی میڈیا کی واقعے کو پاکستان سے جوڑنے کی کوششیں ناکام ہوگئیں، بھارتی میڈی...
سہیل آفریدی، مینا آفریدی اور شفیع اللّٰہ کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کی جا رہی ہے عدالت نے متعدد بار طلب کیا لیکن ملزمان اے ٹی سی اسلام آباد میں پیش نہیں ہوئے وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا سہیل آفریدی کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کردی گئی۔اسلام آباد کی انسدادِ...
سور کے سر اور اعضا رکھ دیے گئے، قبرستان کے دروازے پر جانوروں کی باقیات برآمد مسلم رہنماؤں کا حملہ آوروں کی میتیں لینے اوران کے جنازے کی ادائیگی سے انکار آسٹریلیا کے بونڈی بیچ پر حملے کے بعد سڈنی میں موجود مسلمانوں کے قبرستان کی بے حرمتی کا واقعہ سامنے آیا ہے۔جنوب مغربی س...