وجود

... loading ...

وجود
وجود

طالبان کے جارحانہ رویئے کے اسباب کیا ہیں؟

هفته 26 دسمبر 2015 طالبان کے جارحانہ رویئے کے اسباب کیا ہیں؟

taliban

جس وقت اسلام آباد میں ’’ہارٹ آف ایشیا‘‘ کانفرنس جاری تھی ٹھیک اسی وقت افغان طالبان قندھار میں افغانستان کے سب سے بڑے ائیر پورٹ کا محاصرہ کئے ہوئے تھے اور شدید جنگ جاری تھی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پر امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈہ ہے اور سی آئی اے کے آپریٹر یہاں بھی موجود ہیں۔اس لئے اسے امریکا اور نیٹو کے حوالے حساس ترین علاقہ کہا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے اسلام آباد اور افغانستان میں ان واقعات کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔

بہرحال اطلاعات کے مطابق افغان طالبان نے دو سو کے قریب فوجیوں کو ٹھکانے لگا کر بے شمار جنگی نقصان کیا اور امریکا اور اشرف غنی حکومت کو واضح پیغام دے دیاکہ اس خطے میں افغانستان کے حوالے سے حقیقی فریق کون ہے۔یوں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے دوران افغانستان پوری طرح ’’ہارٹ اٹیک‘‘ کی صورتحال سے دوچار رہا۔یوں اسلام آباد میں یہ کانفرنس سب سے زیادہ بھارت افغان میلہ ثابت ہوئی اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔باوجود کہ یہ سب معاملات امریکاکی خواہش پر ہورہے تھے جس کا اگلا حصہ تاپی گیس پائپ لائن کی شکل میں ابھر کر سامنے آیا ہے جس کے ترکمانستان میں افتتاح کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف نے بھی حصہ لیا۔اسی دوران پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا دورہ بھارت اور وہاں مودی سے ملاقات کے بعد ان کے تاثرات کے بعد یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘۔اس دورے کی کیا افادیت ہے؟ اس کے بارے میں عمران خان ہی کچھ بیان کرسکتے ہیں بہرحال یہ ایک ایسا سیاسی فلر تھا جس کی ضرورت کیوں پیش آئی اس کے بارے میں پھر کسی وقت بات ہوگی۔۔۔

ا سرائیل مشرق وسطی میں ایک بڑی جنگ کرنے جارہا ہے۔ ایسی صورت میں اسرائیل یا اس کے عالمی صیہونی سرپرست کسی طور بھی امریکا کو افغانستان سے نکلنے کی اجازت نہیں دے سکتے ۔

اب صورتحال یہ ہے کہ ترکمانستان کی یہ گیس پائپ لائن افغانستان میں ہرات، قندھار، چمن، ژوب، ڈیرہ غازی خان، ملتان اور وہاں سے فاضلکہ کے مقام سے بھارت میں داخل ہوجائے گی ۔ اس کے بعد یہ بھارت میں کہاں کہاں جائے گی اس سلسلے میں بھارت نے کبھی پاکستان کو اعتماد میں لینے کی سرے سے ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔اس سے پہلے بھی بھارت نے براستہ پاکستان ایران سے آنے والی گیس پائپ لائن پر غیر سنجیدہ رویہ اختیار کیا تھا، تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کے ساتھ وہ کیا کرے گا یا امریکاکیا کروائے گایہ تو مستقبل میں ہی پتا چل سکے گا ۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے کہ امریکا کی ضمانت میں شروع ہونے والے اس منصوبے پر پاکستانی وزیر دفاع نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کی سیکورٹی کے حوالے سے پاکستان افغان طالبان سے بھی مذاکرات کرے گا۔ لیکن کیا اس کی سیکورٹی ذمہ داری کو افغان طالبان پر ڈالنا صحیح رہے گا۔ ان کے علاوہ ان افغان علاقوں میں جو دیگر چھوٹے لیکن بھارتی سرپرستی میں چلنے والے ہزارہ اور تاجک گروپ ہیں، کیا وہ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی پاکستان کے مفاد پر ضرب لگانے کی کوشش نہیں کریں گے؟یہ بھی یاد رہے کہ اس گیس منصوبے کی پائپ لائن نے ایرانی صوبوں کے قریب سے گزرنا ہے۔۔۔

امریکا افغانستان میں ہاری ہوئی جنگ کو کس پہلو سے اپنے حق میں پلٹنے کے لئے بے چین ہے ، یہ کسی سے اب پوشیدہ نہیں۔ کہیں جمہوریت اور کہیں آمریت کے ذریعے وہ کسی طرح اپنا الو سیدھا کررہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس کی کیفیت اس شکست خوردہ فرعون کی سی ہوچکی ہے جو قدرتی آفات کی وجہ سے بنی اسرائیل کو ایک طرف مصر سے نکلنے کی اجازت دینے پربھی تیار تھا اور دوسری جانب ان کا تعاقب بھی کرنے سے بھی باز نہیں آرہا تھا۔

پاکستان کی حکومتیں اور کرتا دھرتا کچھ بھی کرلیں مودی سرکار ایک طے شدہ ایجنڈے پر کام جاری رکھے ہوئے ہے جو بہت سے واسطوں سے تل ابیب اور واشنگٹن سے جا ملتا ہے۔

جدید تاریخ کے جدید فرعون امریکا بھی اﷲ کی مخلوق پر اﷲ کا قانون نافذ نہیں ہونے دے رہا اور اس کا کہنا ہے کہ اس کا طرز سیاست یعنی نام نہاد جمہوریت اور معاشی اور معاشرتی نظام اختیار کیا جائے۔ یعنی ایک ایسا سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام جس میں خدا کا تصور نہ ہو اور اسی دجالی تصور کی ترویج کے لئے اس نے اسلامی دنیا پر جنگوں کی آگ بھڑکا دی ہے۔مغربی جمہوری نظام کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ نام نہاد جمہوریت اور آمریت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔اس مغربی طرز سیاست کا مزا پاکستانی قوم کیسے چکھ رہی ہے اس کا احوال سب کے سامنے ہے ۔پاکستانی قوم زرداری گروپ کے ہاتھوں جمہوریت کے وہ’’ثمرات‘‘ سمیٹنے کے بعدجس کا گمان کبھی اس نے خواب میں بھی نہیں کیا تھا۔ اب موجودہ حکمرانوں کو بھگت رہی ہے قوم اس وقت جن حالات کا شکار ہے اگر اس کے ہوش مند طبقے اس کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ یہ سب کچھ اﷲ رب العزت سے بغاوت کا نتیجہ ہے۔ کاش یہ قوم بلکہ امت مسلمہ اس حقیقت سے آگاہ ہوتی ۔

پاکستانی حفاظت کے ضامن اداروں کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ ’’ہارٹ آف ایشیا‘‘ کانفرنس اور اب تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کے معاملات خطے میں اس وقت ہورہے ہیں جب دنیا میں ایک آگ لگ چکی ہے اور اﷲ کے فضل وکرم اور پاکستانی سیکورٹی اداروں کی ان تھک محنت سے وطن عزیز بڑی حد تک اس آگ سے محفوظ تصور کیا جارہا ہے۔ ورنہ اس خطے کی بغل میں واقع مشرق وسطی حالات کی جس نہج تک پہنچ چکا ہے وہاں سے واپسی فی الحال ناممکن نظر آرہی ہے۔

یہ بات اب واضح ہوچکی کہ سکندر اعظم کے خواب کی مانند دنیا کو فتح کرنے کا امریکی خواب بھی چکناچور ہوچکا ہے۔ لیکن میسوڈینیا کی مانند واشنگٹن بھی اپنی دجالی جنگ کو مختلف جہات میں پھیلائے جارہا ہے تاکہ اسے یک نکاتی ایجنڈے کی حامل دنیا بنا سکے لیکن حالات امریکا کے ہاتھ سے تقریبا نکل چکے ہیں۔ امریکی پالیسی سازوں کو اب روس ایک بڑی سپر طاقت کی طرح نظر آرہا ہے اور وہ اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ جلد ہی وہ شام میں اسے دوبارہ سوویت یونین والے انجام سے دوچار کردیں گے۔

ایک امریکی محقق ڈاکٹر تھامس ایف لائنچ جو جنوبی ایشیا کے موضوع پر امریکا کے ایک ممتاز ریسرچ فیلو ہیں انہوں نے امریکی جریدے ’’فارن پالیسی‘‘ میں ایک مقالہ تحریر کیا ہے ۔ ’’فارن پالیسی‘‘ زیادہ تر جنوبی ایشیا میں پاکستان کے حوالے سے رپورٹیں شائع کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جنوبی اور مغربی ایشیا میں امریکی عسکری اور سیاسی روابط پر تحقیقی مواد بھی مہیا کرتا ہے ۔ ڈاکٹر تھامس نے اپنے مقالے میں امریکیوں کو مشورہ دیا تھا کہ’’ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلافات کو کم کرنے کی کوشش کرے کیونکہ افغانستان کے زمینی حقائق وہ نہیں ہیں جو بظاہر نظر آرہے ہیں۔ اسامہ کے بعد ’’القاعدہ‘‘ سے منسلک دیگر افراد اس تنظیم کا دائرہ دوبارہ وسیع کرنے پر تلے ہوئے ہیں جبکہ طالبان کی قوت میں بھی مزید اضافہ ہوا ہے ۔ ایسی صورت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی جس قدر زیادہ ہوگی اس کا سب سے زیادہ فائدہ ’’القاعدہ‘‘ اٹھائے گی۔ امریکا کو چاہئے کہ وہ افغانستان کو ’’انٹیلی جنس ایجنسیوں کی پراکسی وار‘‘ کا میدان نہ بننے دے۔ بلکہ اسے چاہئے کہ وہ ہر سطح کی القاعدہ لیڈر شپ کو نشانہ بنائے‘‘۔ڈاکٹرتھامس نے اپنے مقالے میں مزید لکھا تھا کہ ’’اسلام آباد افغان نیشنل آرمی کو بھارتی فوج کی توسیع سمجھتا ہے ۔ اسلام آباد کے اس خوف کو دور کرنے کے لئے امریکا کو چاہئے کہ وہ اس کا یہ خوف اعلی سفارتکاری کے ذریعے دور کرے اور اسے یہ باور کرائے کہ افغان نیشنل آرمی کوئی بھارتی خنجر نہیں جو اس کی پیٹھ میں گھونپ دیا جائے گابلکہ اس فورس کو پاکستان اور بھارت انتہا پسندی کے مقابلے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں کیونکہ اگلی ایک دہائی تک انہیں اس کا مل کر مقابلہ کرنا ہوگا‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر تھامس امریکا کو مشورہ دیتا ہے کہ ’’امریکاکو چاہئے کہ وہ افغانستان میں اپنے قیام کو مزید طول دے ،کم از کم اس دہائی کے آخر تک اسے افغانستان میں اپنا قیام بڑھانا چاہئے اور یہ قیام نیٹو کی شکل میں زیادہ نظر آنا چاہئے جبکہ اہداف کے حصول کے لئے بھی نیٹو کا اس دہائی کے آخر تک افغانستان میں رہنا انتہائی ضروری ہے۔اس سلسلے میں پاکستان اور بھارت کوبھی مکمل طور پر اعتماد میں لیا جائے۔ اس لئے امریکاکو چاہئے کہ وہ سب سے پہلے اس بات کا اہتمام کرے کہ اب افغانستان کی سرزمین بھارت اور پاکستان کی ’’پراکسی وار‘‘ کا حصہ نہ بن سکے۔ اسی صورت میں امریکا اور نیٹو افغانستان میں ’’انتہا پسندی‘‘ کے خلاف جنگ جیت سکتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر تھامس کا کہنا ہے کہ ان اہداف کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان، بھارت، افغان طالبان لیڈرشپ اور شمالی افغانستان کے قوم پرست گروپوں سے مذاکرات کئے جائیں۔ اب ان چیزوں کے سوچنے کا نہ صرف وقت آن پہنچا ہے بلکہ اسے کرگزرنا چاہئے‘‘۔

ڈاکٹر تھامس کی اس رپورٹ کے حوالے سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کا یہ مقالہ واشنگٹن میں موجودصیہونی لابی کی ان کوششوں کا آئینہ دار تھا جو امریکا اوراس کے صیہونی صلیبی اتحاد نیٹو کو ابھی افغانستان سے انخلا کی اجازت نہیں دے رہی۔اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نائن الیون کے ڈرامے کے بعد امریکا کی مسلمانوں کے خلاف جنگ میں اس کا معاشی ڈھرن تختہ ہوچکا ہے اور امریکی عوام کو محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے کہ ان کے ٹیکس کے پیسے سے امریکی جرنیل اور صیہونی سیاستدان عالمی سطح پر دہشت گردی کا ایک بازار گرم کرچکے ہیں جو جنوبی ایشیا سے لیکر مشرق وسطی تک دراز ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اوباما کے الیکشن کے دوران’’ تبدیلی‘‘ کا نعرہ امریکی عوام کو دھوکا دینے کے لئے لگایا گیا تھا۔ لیکن درحقیقت وہی کچھ ہوتا رہا جو عالمی صیہونیت کا ایجنڈا تھامگر جب دوبارہ امریکا اور یورپ میں امریکی جنگ کے خلاف عوامی رائے عامہ میں ردعمل ظاہر ہونا شروع ہوا تو اوباما نے افغانستان سے انخلاء کی تاریخ دیتے ہوئے اعلان کردیا تھا کہ 2014ء تک امریکی فوج افغانستان سے واپس چلی جائے گی لیکن درحقیقت یہ بھی ایک دھوکا تھا تاکہ امریکا اور یورپ کی عوام کو بتی کے پیچھے لگاسکے ۔ اس سلسلے میں ہم بھی اپنے تجزیات میں ذکر کرتے رہے ہیں کہ افغانستان سے امریکی انخلا صرف امریکیوں کی مرضی سے نہیں ہوسکتا اور نہ ہی امریکا کو افغانستان سے انخلا کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ اگر امریکیوں کا یا نیٹو کا جانی ومالی نقصان ہوتا ہے تو ہوا کرے ،اس سے عالمی صیہونیت کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ان کے نزدیک امریکی اور یورپین فوجی اور سیاستدان ان کی عالمی بساط کے اہم مہرے ہیں ۔ہمارے اندازے کے مطابق جس وقت امریکیوں کو اس بات کی ضرورت ہوئی کہ 2011ء تک افغانستان میں اپنے قیام کا کوئی ’’ثمر‘‘ امریکا اور یورپی عوام کے سامنے پیش کیا جائے تو ’’ایبٹ آباد‘‘ آپریشن کی شکل میں اس کا نتیجہ سامنے آتا ہے ۔۔۔

دنیا کے سامنے اسامہ کو موت سے ہمکنار کرنے کا سہرا امریکیوں نے اپنے سر سجاکر امریکی عوام کو باور کرا دیا کہ تمہارے ٹیکس کے پیسے رائیگاں نہیں گئے۔۔۔۔اس ڈرامے میں کون کون مقامی سطح پر امریکیوں کی اعانت کررہا تھا، یہ راز بھی شاید آئندہ برسوں میں کسی ’’وکی لیکس‘‘ میں ظاہر ہوجائے۔ ورنہ اکثریت تو یہی رائے رکھتی ہے کہ اسامہ تو اس آپریشن سے بہت پہلے ہی اس دنیا کو خیر باد کہہ چکے تھے، اب تو یہاں ان کے صرف اہل خانہ ہی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ امریکی جنہوں نے صدام حسین کو گرفتار کرنے کے بعد اس کا منہ کھلوا کر اس کے دانت اور داڑھیں تک عالمی میڈیا کو دکھا دی تھیں۔ وہ امریکی جنہوں نے قذافی کو مقامی باغیوں کے ہاتھوں گرفتار کروا کر اس کا تماشا تمام دنیا میں دکھا دیا تھا۔۔۔ اسامہ کی موت کے بعد اس کی ایک تصویر بھی دنیا کو پیش کرنے سے قاصر رہے۔۔ ۔۔!؟ اور اسامہ کے اہل خانہ کو گرفتار کرنے کے بعد بھی آزاد میڈیا کے سامنے پیش نہیں ہونے دیا گیا۔۔۔مبادا وہ دنیا کو اس حقیقت سے باخبر نہ کردیں کہ یہاں تو اسامہ تھا ہی نہیں۔۔یہاں تو صرف ہم قیام پزیرتھے ۔۔۔

حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل مشرق وسطی میں ایک بڑی جنگ کرنے جارہا ہے۔ ایسی صورت میں اسرائیل یا اس کے عالمی صیہونی سرپرست کسی طور بھی امریکا کو افغانستان سے نکلنے کی اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ اگر امریکا اور نیٹو افواج افغانستان سے نکلتی ہیں تو اس کا بہت بُرا اثر مشرق وسطی میں اسرائیل کی آنے والی جنگ پر پڑے گا۔ دوسرے وہ امریکا اور اسرائیل مخالف قوتیں جو اس وقت مشرق وسطی خصوصا شام میں روس اور بشار الاسد اور اس کے اتحادی ایران اور عراق کے خلاف برسرپیکار ہوچکی ہیں، انہیں خاصی تقویت حاصل ہوجائے گی یہی وجہ ہے کہ اب امریکی اور یورپی عوام کا ذہن تیار کرنے کے لئے اس قسم کے ’’تحقیقی ‘‘ مقالے مغربی میڈیا میں آنا شروع ہوگئے تھے کہ اگر امریکاجلد افغانستان سے نکلا تو القاعدہ اور دیگر انتہا پسند گروپ ایک مرتبہ پھر قوت پکڑ لیں گے اور پاکستان سے لیکر بھارت تک ’’اسلامی انتہا پسندی‘‘ پھر سے جڑ پکڑ جائے گی۔دوسری اہم بات مدنظر رکھناہوگی کہ مودی سرکار کسی حادثے کی بنا پر اقتدار میں نہیں لائی گئی تھی بلکہ اسے ایک سوچے سمجھے عالمی صیہونی ایجنڈے کے تحت دہلی کے تخت پر بٹھایا گیا تھا۔ اس سلسلے میں ہم نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتخابات میں ’’کامیابی‘‘ سے بہت پہلے آگاہ کردیا تھا کہ بھارت میں وہی اقتدار میں آسکتا ہے جسے وہاں کی برہمن اشرافیہ چاہئے وہ اپنے مقاصد کے لئے کبھی کانگریس کو آگے کرتے ہیں اور کبھی انتہا پسند ہندو جماعت جنتا پارٹی کو۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا امریکا میں صہیونی لابی کبھی ری پبلکن کے ساتھ اور کبھی ڈیموکریٹک کے ساتھ کرتی ہے۔ پاکستان کی حکومتیں اور کرتا دھرتا کچھ بھی کرلیں مودی سرکار ایک طے شدہ ایجنڈے پر کام جاری رکھے ہوئے ہے جو بہت سے واسطوں سے تل ابیب اور واشنگٹن سے جا ملتا ہے۔ مشرق وسطی کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں پاکستان کو خطے کی صورتحال میں پھنسائے رکھنا اس ایجنڈے کا اہم پہلو ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اگر تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل ہوجاتا ہے تو پاکستان کو بھی اس سے بھرپور فائدہ ہوگا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس منصوبے کو کہیں افغانستان میں پاکستان کے ہاتھ باندھنے کے لئے استعمال تو نہیں کیا جائے گا؟ بھارت اس منصوبے کے ساتھ آگے جاکر کیا کرے گا اس کی ضمانت کسی کے پاس نہیں۔ پاکستان کو یہاں کی فراڈ اور کرپٹ سیاسی جماعتوں کے حوالے سے جس صورتحال سے دوچار کردیا گیا ہے اس میں لگتا نہیں کہ اس وقت پاکستان افغانستان کے علاوہ اس سے آگے تک کچھ کرنے کے لئے موثر ہوگاکیونکہ یہاں حالات کی سنگینی کا اندازہ لگانے کی صلاحیت شاید سب سے کم رہ گئی ہے دوسری جانب اس ایک بات کو بھی یاد رکھا جائے کہ شام ایک زہر کا پیالہ ہے جسے روس سمیت خطے کے کئی ممالک اپنے اندر انڈیل چکے ہیں حالات تیزی کی طرف مزید بگاڑ کی طرف جارہے ہیں حالات کا کوئی پرامن حل نظر نہیں آرہا ایسے حالات میں اگر پاکستان کو محفوظ رکھنا ہے تو یہاں کرپشن کو بے دردی سے جڑ سے اکھاڑ کر کرپٹ افراد کو نشانہ عبرت بنانا ہوگا اس عمل میں مزیدتاخیر وطن عزیز کے لئے نقصان دے ہوگی۔


متعلقہ خبریں


قتل کی دھمکی کے ساتھ ملا برادر کو ان کی رہائش گاہ کی تصویر بھیجی تھی، ٹرمپ وجود - هفته 24 ستمبر 2022

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہوں نے طالبان کو دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے ان کے ساتھ کیا معاہدہ توڑا تو طالبان کے شریک بانی کو "مٹا دیا" جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دھمکی دینے کے ساتھ طالبان کے امیر کو ان کے ٹھکانے کی تصویر بھیجی تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ ہم ایسا کر سکتے ...

قتل کی دھمکی کے ساتھ ملا برادر کو ان کی رہائش گاہ کی تصویر بھیجی تھی، ٹرمپ

یو این کی جانب سے لڑکیوں کے اسکول کھولنے پر زور، طالبان نے نیا وزیر تعلیم مقرر کر دیا وجود - جمعه 23 ستمبر 2022

طالبان حکومت نے افغانستان میں نیا وزیر تعلیم مقرر کر دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق نور اللہ منیر کی جگہ قندھار کی صوبائی کونسل کے موجودہ سربراہ حبیب اللہ آغا کو افغانستان کا نیا وزیر تعلیم مقرر کیا گیا ہے۔غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان کی جانب سے یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی طرف س...

یو این کی جانب سے لڑکیوں کے اسکول کھولنے پر زور، طالبان نے نیا وزیر تعلیم مقرر کر دیا

13 طالبان رہنماؤں کو حاصل سفری پابندیوں کا استثنیٰ ختم وجود - هفته 20 اگست 2022

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 13 طالبان رہنماؤں کو حاصل سفری پابندیوں کا استثنیٰ ختم کر دیا۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق چین اور روس کی جانب سے طالبان رہنماؤں کی سفری پابندیوں کے استثنیٰ میں توسیع کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سلامتی کونسل نے 2011 میں 135 طالبان رہنماؤں پر پابندیا...

13 طالبان رہنماؤں کو حاصل سفری پابندیوں کا استثنیٰ ختم

سپریم لیڈر لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے حامی ہیں،سینئر طالبان رکن وجود - پیر 18 اپریل 2022

ایک سینئر طالبان رکن نے کہا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم اتنا حساس معاملہ ہے کہ اس پابندی کے خاتمے کے فیصلے پر طالبان ہی میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی تھی، جس کے بعد خود سپریم لیڈر کو مداخلت کرنا پڑی تھی۔ میڈیارپورٹس کے مطابق ایک سینئر طالبان رکن نے بات چیت میں کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم اتنا حس...

سپریم لیڈر لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے حامی ہیں،سینئر طالبان رکن

افغان طالبات کے ہائی اسکول دوبارہ کھولنے کا حکم واپس وجود - جمعرات 24 مارچ 2022

افغان حکام نے طالبات کیلئے بدھ سے ہائی اسکول دوبارہ کھولنے کا حکم واپس لے لیا، بدھ کی صبح صبح اسکول پہنچنے والی طالبات کو گھر جانے کا حکم دیا گیا۔غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق افغان وزارت تعلیم نے طالبات کیلئے ہائی اسکول تاحکم ثانی بند رکھنے کانوٹس جاری کردیا۔نوٹس میں کہا گیا کہ اسل...

افغان طالبات کے ہائی اسکول دوبارہ کھولنے کا حکم واپس

طالبان نے افغان شہریوں کے انخلا پر عارضی پابندی عائد کردی وجود - پیر 28 فروری 2022

طالبان نے کہا ہے کہ جب تک بیرون ملک موجود افغان شہریوں کے حالات بہتر نہیں ہوجاتے وہ مزید شہریوں کو انخلا کی اجازت نہیں دیں گے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ شہریوں کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے تو جب تک اس بات کی ضمانت نہ مل جائے کہ ان کی زندگی...

طالبان نے افغان شہریوں کے انخلا پر عارضی پابندی عائد کردی

دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے دہشت گردی بڑھی، عمران خان کا سی این این کو انٹرویو وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کبھی نہ کبھی تو افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ہوگا، عالمی براردی کو افغان حکومت کے ساتھ ''کچھ لو اور دو'' کی بنیاد پر کام کرنا چاہیے۔امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان افغانستان اور طالبان حکومت سے متعلق بات ک...

دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے دہشت گردی بڑھی، عمران خان کا سی این این کو انٹرویو

افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کو مکمل آزادی حاصل ہے، ماہرین اقوام متحدہ وجود - بدھ 09 فروری 2022

٭داعش کا افغانستان میں محدود علاقے پر کنٹرول ہے جس نے مربوط حملے کرنے کی مسلسل صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے ٭طالبان نے ملک میں غیر ملکی دہشت گرد جنگجوؤں کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا اقوام متحدہ کے ماہرین نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ حال ہی میں اقتدار میں آنے وا...

افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کو مکمل آزادی حاصل ہے، ماہرین اقوام متحدہ

افغانستان سے دہشت گردوں کی فائرنگ، 5 فوجی شہید وجود - پیر 07 فروری 2022

ضلع کرم میں پاک افغان بارڈر پر سرحد پار سے دہشت گردوں کی فائرنگ میں پاک فوج کے 5جوان شہید ہوگئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق ضلع کرم میں افغانستان سے دہشت گردوں نے سکیورٹی فورسز پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 5جوان شہید ہوگئے۔آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ فورسز کی بھرپور جوا...

افغانستان سے دہشت گردوں کی فائرنگ، 5 فوجی شہید

طالبان کی نیوزی لینڈ کی حاملہ غیرشادی شدہ صحافیہ کوپناہ کی پیش کش وجود - پیر 31 جنوری 2022

افغانستان کے حکمران طالبان نے قطر چھوڑنے والی نیوزی لینڈ کی حاملہ مگرغیرشادی شدہ صحافیہ کو پناہ کی پیش کش کردی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق صحافیہ شارلٹ بیلس کو یہ معلوم ہونے کے بعد قطر چھوڑنا پڑا تھا کہ وہ ایک ایسے ملک میں حاملہ ہیں جہاں بغیرشادی سے بچے کو جنم دینا غیرقانونی ہے۔ بیلس...

طالبان کی نیوزی لینڈ کی حاملہ غیرشادی شدہ صحافیہ کوپناہ کی پیش کش

افغانستان میں امریکی شہری کا قبولِ اسلام، اسلامی نام محمد عیسیٰ رکھا وجود - پیر 24 جنوری 2022

امارت اسلامیہ افغانستان میں امریکی شہری کرسٹوفر نے اسلام کی حقانیت کا اقرار کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے ہاتھوں اسلام قبول کرلیا۔افغانستان کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق طویل عرصے سے افغانستان میں مقیم امریکی شہری کرسٹو فر نے اسلام کے آفاقی پیغام کی حقانیت کو پہچ...

افغانستان میں امریکی شہری کا قبولِ اسلام، اسلامی نام محمد عیسیٰ رکھا

طالبان کا مارچ سے ملک بھر میں لڑکیوں کے اسکول کھولنے کا اعلان وجود - پیر 17 جنوری 2022

ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے اعلان کیا ہے کہ رواں برس مارچ سے ملک بھر میں لڑکیوں کے تمام اسکول کھول دیئے جائیں گے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امارت اسلامیہ افغانستان کے نائب وزیر اطلاعات اور ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے انٹرویو میں بتایا کہ لڑکیوں کے اسکول کھولنے کے انت...

طالبان کا مارچ سے ملک بھر میں لڑکیوں کے اسکول کھولنے کا اعلان

مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر