وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاکستان کے راجہ گدھ!

منگل 27 اکتوبر 2015 پاکستان کے راجہ گدھ!

pakistani-vulture

پاکستان زلزلوں کی متحرک پٹی پر موجود ہے ۔ اس حوالے سے جس کے ذہن میں معمولی سا بھی شک تھا، وہ گزشتہ روز یقین میں بدل گیا ہوگا۔ 2005ء کے بدترین زلزلے کے ٹھیک 10 سال بعد انہی علاقوں کو زمین نے ایک مرتبہ پھر جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس کی خبر ملتے ہی جہاں ملک کے دیگر علاقوں میں مقیم افراد دل تھام کر بیٹھ گئے، وہیں کچھ مفاد پرست ایسے بھی تھے جن کی آنکھیں اس “موقع” کو دیکھ کر چمک اٹھیں۔ یہ وہی تھے جنہوں نے گزشتہ دس پندرہ سالوں میں ہر قدرتی آفت کے موقع پر لوگوں کی لاشوں پر اپنے محلات تعمیر کیے ہیں۔

دس سال قبل کشمیر اور ملحقہ علاقوں میں آنے والے زلزلے سے تقریباً 90 ہزار افراد جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ لاکھوں زخمی، بے گھر اور معذور ہوئے، ہزاروں خاندان بے آسرا ہوئے۔ لاکھوں ذہنوں پر اس آفت نے ان مٹ نقوش چھوڑے۔ گزشتہ روز جب 7.8 کی شدت کے زلزلے کی خبر آئی تو ہر کسی کے ذہن میں وہی 2005ء کا منظر گردش کر گیا۔ اِن گدھوں کے ذہنوں میں بھی، جو اسے ایک اور موقع کی صورت میں دیکھ رہےتھے۔

26 اکتوبر 2015ء کو زلزلہ آتے ہی جو پہلا گدھ میدان میں اترا، وہ ذرائع ابلاغ کا تھا۔ اس کا پورا زور محض اس بات پر تھا کہ کسی طرح اس زلزلے کو پاکستان کی تاریخ کا بدترین سانحہ ثابت کیا جائے۔ کیا یہ اس کی خواہش تھی؟ یا پھر ضرورت؟ یا بے وقوفی؟ یا آنے والے “موقع” کو دیکھ کر وہ حد سے زیادہ جذباتی ہو رہا تھا؟ بہرحال، اس کا تمام جوش و جذبہ ایک دن میں بیٹھ گیا ہے کیونکہ اعداد و شمار اور حقیقت اس سے کہيں مختلف ہے جس کا ڈھنڈورا وہ کافی دیر تک پیٹتا رہا۔ یہ زلزلہ بھی تھا تو اسی شدت کا، جتنا دس سال پہلے آیا تھا لیکن دونوں سے ہونے والے نقصان میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ 2005ء میں تقریباً 90 ہزار اموات ہوئی تھیں اور 2015ء میں محض 250۔ اس کی وجہ ہے زلزلے کی گہرائی۔ 10 سال پہلے آنے والے زلزلے کی گہرائی محض 15 کلومیٹر تھی جبکہ اس نئے زلزلے کی گہرائی 196 کلومیٹر تھی جس کی وجہ سے اس کی شدت میں کافی کمی آ گئی۔

آج دس سال گزر جانے کے بعدبھی آپ کو بالاکوٹ اور ملحقہ علاقوں میں این جی اوز کے دفاتر ملیں گے جنہوں نے اپنی روزی روٹی ہی “امدادی کاموں” سے وابستہ کرلی ہے

اس حقیقت سے نظریں چراتے ہوئے ذرائع ابلاغ کا تمام تر زور زلزلے کی شدت اور اس کے نتیجے میں ہونے والے ابتدائی نقصان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے پر لگا رہا۔ پاکستان میں نجی ذرائع ابلاغ دس، پندرہ سالوں سے میدان عمل میں موجود ہیں جو کسی بھی ادارے کی پختگی کے لیے بڑا عرصہ ہے۔ لیکن ایک زلزلہ دیکھ کر حد سے زیادہ جذباتی ہوجانا ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی میڈیا آج بھی عہد طفلی میں ہے یا پھر اپنے ذاتی مفادات کا پجاری ہے۔

دوسرا گدھ جو متاثرہ علاقوں کی طرف لپکتا، لیکن اب ہاتھ ملتا رہ گیا ہے ، وہ ہے این جی اوز۔ 2005ء میں زلزلے اور 2010ء میں آنے والے سیلاب کے بعد ایک عظیم انسانی بحران نے جنم لیا، جس کے خاتمے کے لیے دنیا بھر سے امداد پاکستان پہنچیں۔ یہ نقد رقوم کی صورت میں بھی تھی، سازوسامان، اجناس اور ضروریات زندگی کی دیگر اشیا کی شکل میں بھی۔ کچھ امداد تیار سامان کی صورت میں آئی تو کچھ مقامی مارکیٹ سے حاصل کرکے ضرورت مند افراد تک پہنچانے کے لیے رقوم کی صورت میں۔ کیونکہ غیر ملکی ادارے پاکستان کے بارے میں بہت زیادہ معلومات نہيں رکھتے اس لیے انہوں نے مقامی این جی اوز کا سہارا لیا تاکہ اپنی امداد کو ضرورت مند افراد تک پہنچائیں۔ یہیں سے این جی اوز کا کردار شروع ہوگیا۔ انہوں نے تو ایسے قدم گاڑ لیے ہیں کہ آج دس سال گزر جانے کے بعدبھی آپ کو بالاکوٹ اور ملحقہ علاقوں میں این جی اوز کے دفاتر ملیں گے جنہوں نے اپنی روزی روٹی ہی “امدادی کاموں” سے وابستہ کرلی ہے۔

تیسرا گدھ وہ سرکاری حلقے ہیں، جو بیرون ملک سے آنے والی امداد کے سب سے بڑے وصول کنندہ ہوتے ہیں۔ ہر بڑی قدرتی آفت کے بعد مختلف ملکوں کی طرف سے پاکستان کے لیے بڑی بڑی امداد کے اعلانات کیے گئے اور اس امداد کو وصول کرنے والا سب سے بڑا “ادارہ” حکومت پاکستان ہے۔ ہمارے انتہائی “ایماندار” اور “محب وطن” وزراء اور افسران ہمیشہ بڑی تندہی کے ساتھ امدادی رقوم اور سازوسامان کی عوام کو فراہمی کے لیے کام کرتے نظر آئے ہیں اور اب انہیں بہت دکھ ہوا ہوگا کہ “عوام کی خدمت” کا ایک بڑا موقع ہاتھ آتے آتے رہ گیا۔

یہ اللہ کے حضور سجدۂ شکر بجا لانے کا وقت ہے کہ اس نے ہمیں اتنی بڑی مصیبت سے بچا لیا ہے اور ان گدھوں کے ہاتھوں اپنا گوشت نچوانے سے بھی۔ لیکن ساتھ ہی یہ اپنے گناہوں سے توبہ کرنے اور ایسے حفاظتی اقدامات اٹھانے کا بھی وقت ہے، جس کے نتیجے میں آئندہ کسی بھی زلزلے کی صورت میں نقصان کم سے کم ہو۔


متعلقہ خبریں


خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں سمیت لاہور اور اسلام آباد میں زلزلے کے شدید جھٹکے ! وجود - پیر 23 نومبر 2015

قبائلی علاقوں ، خیبر پختون خواہ ، آزاد کشمیر اور پنجاب کے مختلف اضلاع میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کئے گئے ہیں۔ریکٹراسکیل پر اس کی شدت 6.2 ریکارڈ کی گئی۔ جبکہ اس کی گہرائی 82 کلومیٹر ریکارڈ کی گئی۔ زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے کا مرکزافغان تاجک سرحدی علاقہ ہے۔آخری اطلاعات کے م...

خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں سمیت لاہور اور اسلام آباد میں زلزلے کے شدید جھٹکے !

زلزلہ آگیا ! ملک ریاض نظر نہیں آئے۔۔ امداد کے اعلانات کرنے کے شوقین پر کیا بیتی؟ باسط علی - جمعه 30 اکتوبر 2015

زلزلہ آگیا! ملک ریا ض کہیں نظر نہیں آئے۔ویگنوں اور رکشوں پر تحریریہ شعر ذرا گھسا پٹا اور وزن میں پورا نہیں مگر جن کے بارے میں ہیں ، وہ بھی وزن میں پورے نہیں ، اس لیے حسب حال ہی نہیں حسب وزن بھی ہے کہ خدا کرے حسینوں کے ماں باپ مر جائیں بہانا پُرسے کا ہو اور ہم اُن کے گھر جائیں ...

زلزلہ آگیا ! ملک ریاض نظر نہیں آئے۔۔ امداد کے اعلانات کرنے کے شوقین پر کیا بیتی؟

پاکستان میں زلزلہ، تصویروں کی نظر میں وجود - بدھ 28 اکتوبر 2015

 

پاکستان میں زلزلہ، تصویروں کی نظر میں

زلزلے کی توجیہات میں پاکستانی ذرائع ابلاغ پروپیگنڈے کے شکار رضوان رضی - بدھ 28 اکتوبر 2015

زلزلے کی مختلف توجیہات پر اِن دنوں ذرائع ابلاغ اپنی پوری توجہ صرف کر رہے ہیں۔ کچھ تجزیہ کار اِسے سائنس کے ایسے پُرانے اوردقیانوسی تصورات کے پیمانے سے جانچ رہے ہیں جو خود سائنس کی دنیا میں بھی اب ازکار ِ رفتہ سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستانی ماہرین موسمیات و ماحولیات کا حال تو اور بھی ناگ...

زلزلے کی توجیہات میں پاکستانی ذرائع ابلاغ پروپیگنڈے کے شکار

صرف ایک منٹ وجود - منگل 27 اکتوبر 2015

وقت کی جادو نگری کو اپنے اِذن سے تھامے رکھنے والا رب انسانوں کوجھنجوڑتا ہے، مگر بے خبر انسان خبردار نہیں ہوتے ۔ کیا دنیا کے کارخانے دائم غفلت کی کَل سے چلتے چلے آئے ہیں؟ ۸؍اکتو بر ۲۰۰۵ء کو اب دس برس اوپر اٹھار ہ دن بیتے ہیں۔ یہی ماہ تھا، کائنات کے رب نے اپنی ایک نشانی پوری کی ...

صرف ایک منٹ

امدادی کارروائیاں نہیں، حفظ ما تقدم وجود - منگل 27 اکتوبر 2015

پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ہے جو جغرافیائی طور پر تمام اہم خدوخال رکھتے ہیں۔ دنیا کے بلند ترین پہاڑوں سے لے کر عظیم صحراؤں تک، ہرے بھرے کھیتوں سے لے کر بے آب و گیاہ میدانوں تک، گہرے سمندروں سے لے کر خوبصورت وادیوں تک، سب پاکستان میں موجود ہیں۔ 8 لاکھ مربع کلومیٹر سے بھی...

امدادی کارروائیاں نہیں، حفظ ما تقدم

پاکستان کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے شدید جھٹکے وجود - پیر 26 اکتوبر 2015

امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق پاکستان کے مختلف علاقوں میں ریکٹر سکیل پر 7.7 شدت کا زلزلہ آیا ہے۔ جبکہ محکمہ موسمیات کے مطابق زلزلے کی شدت 8.1 تھی۔ اگر ابتدائی ملنے والی یہ اطلاعات، خدانخواستہ، ٹھیک ہیں تو پھر یہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین زلزلہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ امریکی جی...

پاکستان کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے شدید جھٹکے

تاریخ انسانی کے شدید اور بدترین زلزلے وجود - پیر 26 اکتوبر 2015

پاکستان اور افغانستان میں سوموار کو آنے والا زلزلہ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق 7.7 شدت کا تھا لیکن پاکستان محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ اس کی شدت 8.1 تھی۔ یعنی یہ بہت بڑے زلزلوں میں شمار ہوتا ہے۔ پاکستان میں 10 سال قبل اکتوبر کے مہینے میں ہی تاریخ کا ایک بدترین زلزلہ آیا تھا جس...

تاریخ انسانی کے شدید اور بدترین زلزلے

زلزلہ کیا ہے؟ وجود - پیر 26 اکتوبر 2015

زلزلہ زمین کے جسم کے قابل پیمائش زمینی حرکات کو کہتے ہیں اور وہ ارضیاتی کمپن کی مخصوص شدت سے شروع ہوتا ہے۔ اور یہ ارضیاتی کمپن ہی ہوتی ہے جو بھاری تباہی کی سبب بن جاتی ہے۔ خلائی لہروں اور سطحی لہروں کے بیچ فرق پایا جاتا ہے۔ خلائی لہریں جنہیں بالعموم پی (پرائمری/ابتدائی) لہریں ک...

زلزلہ کیا ہے؟

مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر