... loading ...
پاکستان زلزلوں کی متحرک پٹی پر موجود ہے ۔ اس حوالے سے جس کے ذہن میں معمولی سا بھی شک تھا، وہ گزشتہ روز یقین میں بدل گیا ہوگا۔ 2005ء کے بدترین زلزلے کے ٹھیک 10 سال بعد انہی علاقوں کو زمین نے ایک مرتبہ پھر جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس کی خبر ملتے ہی جہاں ملک کے دیگر علاقوں میں مقیم افراد دل تھام کر بیٹھ گئے، وہیں کچھ مفاد پرست ایسے بھی تھے جن کی آنکھیں اس “موقع” کو دیکھ کر چمک اٹھیں۔ یہ وہی تھے جنہوں نے گزشتہ دس پندرہ سالوں میں ہر قدرتی آفت کے موقع پر لوگوں کی لاشوں پر اپنے محلات تعمیر کیے ہیں۔
دس سال قبل کشمیر اور ملحقہ علاقوں میں آنے والے زلزلے سے تقریباً 90 ہزار افراد جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ لاکھوں زخمی، بے گھر اور معذور ہوئے، ہزاروں خاندان بے آسرا ہوئے۔ لاکھوں ذہنوں پر اس آفت نے ان مٹ نقوش چھوڑے۔ گزشتہ روز جب 7.8 کی شدت کے زلزلے کی خبر آئی تو ہر کسی کے ذہن میں وہی 2005ء کا منظر گردش کر گیا۔ اِن گدھوں کے ذہنوں میں بھی، جو اسے ایک اور موقع کی صورت میں دیکھ رہےتھے۔
26 اکتوبر 2015ء کو زلزلہ آتے ہی جو پہلا گدھ میدان میں اترا، وہ ذرائع ابلاغ کا تھا۔ اس کا پورا زور محض اس بات پر تھا کہ کسی طرح اس زلزلے کو پاکستان کی تاریخ کا بدترین سانحہ ثابت کیا جائے۔ کیا یہ اس کی خواہش تھی؟ یا پھر ضرورت؟ یا بے وقوفی؟ یا آنے والے “موقع” کو دیکھ کر وہ حد سے زیادہ جذباتی ہو رہا تھا؟ بہرحال، اس کا تمام جوش و جذبہ ایک دن میں بیٹھ گیا ہے کیونکہ اعداد و شمار اور حقیقت اس سے کہيں مختلف ہے جس کا ڈھنڈورا وہ کافی دیر تک پیٹتا رہا۔ یہ زلزلہ بھی تھا تو اسی شدت کا، جتنا دس سال پہلے آیا تھا لیکن دونوں سے ہونے والے نقصان میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ 2005ء میں تقریباً 90 ہزار اموات ہوئی تھیں اور 2015ء میں محض 250۔ اس کی وجہ ہے زلزلے کی گہرائی۔ 10 سال پہلے آنے والے زلزلے کی گہرائی محض 15 کلومیٹر تھی جبکہ اس نئے زلزلے کی گہرائی 196 کلومیٹر تھی جس کی وجہ سے اس کی شدت میں کافی کمی آ گئی۔
اس حقیقت سے نظریں چراتے ہوئے ذرائع ابلاغ کا تمام تر زور زلزلے کی شدت اور اس کے نتیجے میں ہونے والے ابتدائی نقصان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے پر لگا رہا۔ پاکستان میں نجی ذرائع ابلاغ دس، پندرہ سالوں سے میدان عمل میں موجود ہیں جو کسی بھی ادارے کی پختگی کے لیے بڑا عرصہ ہے۔ لیکن ایک زلزلہ دیکھ کر حد سے زیادہ جذباتی ہوجانا ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی میڈیا آج بھی عہد طفلی میں ہے یا پھر اپنے ذاتی مفادات کا پجاری ہے۔
دوسرا گدھ جو متاثرہ علاقوں کی طرف لپکتا، لیکن اب ہاتھ ملتا رہ گیا ہے ، وہ ہے این جی اوز۔ 2005ء میں زلزلے اور 2010ء میں آنے والے سیلاب کے بعد ایک عظیم انسانی بحران نے جنم لیا، جس کے خاتمے کے لیے دنیا بھر سے امداد پاکستان پہنچیں۔ یہ نقد رقوم کی صورت میں بھی تھی، سازوسامان، اجناس اور ضروریات زندگی کی دیگر اشیا کی شکل میں بھی۔ کچھ امداد تیار سامان کی صورت میں آئی تو کچھ مقامی مارکیٹ سے حاصل کرکے ضرورت مند افراد تک پہنچانے کے لیے رقوم کی صورت میں۔ کیونکہ غیر ملکی ادارے پاکستان کے بارے میں بہت زیادہ معلومات نہيں رکھتے اس لیے انہوں نے مقامی این جی اوز کا سہارا لیا تاکہ اپنی امداد کو ضرورت مند افراد تک پہنچائیں۔ یہیں سے این جی اوز کا کردار شروع ہوگیا۔ انہوں نے تو ایسے قدم گاڑ لیے ہیں کہ آج دس سال گزر جانے کے بعدبھی آپ کو بالاکوٹ اور ملحقہ علاقوں میں این جی اوز کے دفاتر ملیں گے جنہوں نے اپنی روزی روٹی ہی “امدادی کاموں” سے وابستہ کرلی ہے۔
تیسرا گدھ وہ سرکاری حلقے ہیں، جو بیرون ملک سے آنے والی امداد کے سب سے بڑے وصول کنندہ ہوتے ہیں۔ ہر بڑی قدرتی آفت کے بعد مختلف ملکوں کی طرف سے پاکستان کے لیے بڑی بڑی امداد کے اعلانات کیے گئے اور اس امداد کو وصول کرنے والا سب سے بڑا “ادارہ” حکومت پاکستان ہے۔ ہمارے انتہائی “ایماندار” اور “محب وطن” وزراء اور افسران ہمیشہ بڑی تندہی کے ساتھ امدادی رقوم اور سازوسامان کی عوام کو فراہمی کے لیے کام کرتے نظر آئے ہیں اور اب انہیں بہت دکھ ہوا ہوگا کہ “عوام کی خدمت” کا ایک بڑا موقع ہاتھ آتے آتے رہ گیا۔
یہ اللہ کے حضور سجدۂ شکر بجا لانے کا وقت ہے کہ اس نے ہمیں اتنی بڑی مصیبت سے بچا لیا ہے اور ان گدھوں کے ہاتھوں اپنا گوشت نچوانے سے بھی۔ لیکن ساتھ ہی یہ اپنے گناہوں سے توبہ کرنے اور ایسے حفاظتی اقدامات اٹھانے کا بھی وقت ہے، جس کے نتیجے میں آئندہ کسی بھی زلزلے کی صورت میں نقصان کم سے کم ہو۔
قبائلی علاقوں ، خیبر پختون خواہ ، آزاد کشمیر اور پنجاب کے مختلف اضلاع میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کئے گئے ہیں۔ریکٹراسکیل پر اس کی شدت 6.2 ریکارڈ کی گئی۔ جبکہ اس کی گہرائی 82 کلومیٹر ریکارڈ کی گئی۔ زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے کا مرکزافغان تاجک سرحدی علاقہ ہے۔آخری اطلاعات کے م...
زلزلہ آگیا! ملک ریا ض کہیں نظر نہیں آئے۔ویگنوں اور رکشوں پر تحریریہ شعر ذرا گھسا پٹا اور وزن میں پورا نہیں مگر جن کے بارے میں ہیں ، وہ بھی وزن میں پورے نہیں ، اس لیے حسب حال ہی نہیں حسب وزن بھی ہے کہ خدا کرے حسینوں کے ماں باپ مر جائیں بہانا پُرسے کا ہو اور ہم اُن کے گھر جائیں ...
زلزلے کی مختلف توجیہات پر اِن دنوں ذرائع ابلاغ اپنی پوری توجہ صرف کر رہے ہیں۔ کچھ تجزیہ کار اِسے سائنس کے ایسے پُرانے اوردقیانوسی تصورات کے پیمانے سے جانچ رہے ہیں جو خود سائنس کی دنیا میں بھی اب ازکار ِ رفتہ سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستانی ماہرین موسمیات و ماحولیات کا حال تو اور بھی ناگ...
وقت کی جادو نگری کو اپنے اِذن سے تھامے رکھنے والا رب انسانوں کوجھنجوڑتا ہے، مگر بے خبر انسان خبردار نہیں ہوتے ۔ کیا دنیا کے کارخانے دائم غفلت کی کَل سے چلتے چلے آئے ہیں؟ ۸؍اکتو بر ۲۰۰۵ء کو اب دس برس اوپر اٹھار ہ دن بیتے ہیں۔ یہی ماہ تھا، کائنات کے رب نے اپنی ایک نشانی پوری کی ...
پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ہے جو جغرافیائی طور پر تمام اہم خدوخال رکھتے ہیں۔ دنیا کے بلند ترین پہاڑوں سے لے کر عظیم صحراؤں تک، ہرے بھرے کھیتوں سے لے کر بے آب و گیاہ میدانوں تک، گہرے سمندروں سے لے کر خوبصورت وادیوں تک، سب پاکستان میں موجود ہیں۔ 8 لاکھ مربع کلومیٹر سے بھی...
امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق پاکستان کے مختلف علاقوں میں ریکٹر سکیل پر 7.7 شدت کا زلزلہ آیا ہے۔ جبکہ محکمہ موسمیات کے مطابق زلزلے کی شدت 8.1 تھی۔ اگر ابتدائی ملنے والی یہ اطلاعات، خدانخواستہ، ٹھیک ہیں تو پھر یہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین زلزلہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ امریکی جی...
پاکستان اور افغانستان میں سوموار کو آنے والا زلزلہ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق 7.7 شدت کا تھا لیکن پاکستان محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ اس کی شدت 8.1 تھی۔ یعنی یہ بہت بڑے زلزلوں میں شمار ہوتا ہے۔ پاکستان میں 10 سال قبل اکتوبر کے مہینے میں ہی تاریخ کا ایک بدترین زلزلہ آیا تھا جس...
زلزلہ زمین کے جسم کے قابل پیمائش زمینی حرکات کو کہتے ہیں اور وہ ارضیاتی کمپن کی مخصوص شدت سے شروع ہوتا ہے۔ اور یہ ارضیاتی کمپن ہی ہوتی ہے جو بھاری تباہی کی سبب بن جاتی ہے۔ خلائی لہروں اور سطحی لہروں کے بیچ فرق پایا جاتا ہے۔ خلائی لہریں جنہیں بالعموم پی (پرائمری/ابتدائی) لہریں ک...