وجود

... loading ...

وجود
وجود

قابل اجمیری: عجب نہیں کہ مری موت زندگی ہو جائے

هفته 03 اکتوبر 2015 قابل اجمیری: عجب نہیں کہ مری موت زندگی ہو جائے

qabil-ajmeri

قابل اجمیری کا اصل نام عبدالرحیم تھا۔ قابل، تخلص تھا۔ وہ 27؍ اگست1931ء کو ضلع اجمیر کے قصبہ چرلی میں پیدا ہوئے۔ اِسی مناسبت سے قابل اجمیری کہلائے۔ وہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے۔ ضلع اجمیر میں قابلِ اجمیری کے مکان کاعقبی دروازہ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کے سامنے کھلتا تھا۔ قابل اجمیری کے سوانح نگاروں کے مطابق درگاہ سے سنی جانے والی نعتوں ، غزلوں اور قوالیوں نے قابل اجمیری کے شعری ذوق کو پرواز دی۔یہاں سنا جانے والا بہت سا کلام قابل اجمیری کی یادداشت میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوا۔

قابل کی شاعری میں درد اُن کی زندگی کی عطا ہے۔ وہ جب سات برس کے تھے تو اُن کے والد دق کے مرض میں زندگی ہار گئے۔ کچھ دنوں بعد والدہ اور پھر چھوٹی ہمشیرہ بھی جان کی بازی ہار گئیں۔ قابل کی زندگی کا کچھ عرصہ یتیم خانے میں بھی گزرا۔ پھر اپنے بھائی کے ساتھ ہجرت کرکے اجمیر شریف سے ہجرت کر کے حیدرآباد سندھ آبسے۔ قابل نے چودہ برس کی عمر میں شاعری شروع کردی تھی۔ارمان اجمیری اور مولانا مانی اجمیری نے اُن کی شاعری کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کیا۔حیدرآباد سندھ میں اُنہیں ایک ادبی حلقہ میسر آیا۔ اُنہوں نے اخبارات وجرائد کے لیے قطعات بھی لکھے۔ اُن کی صحت 1960ء کا سال شروع ہونے سے پہلے ہی خراب رہنے لگی۔ چنانچہ وہ کوئٹہ کے سینوٹوریم میں علاج کے لیے داخل ہوگئے۔ اُنہیں بھی اپنے والد کی طرح دق کا مرض لاحق ہو چکاتھا مگر یہاں ایک عیسائی نرس نرگس سوزن سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ قابل اجمیری بیماری میں مبتلا تھے اور وہ اُن کی شاعری کی مداح بن کر اُن کے مرضِ عشق میں مبتلا ہوگئیں۔ خاتون نے اسلام قبول کرکے قابل اجمیری کو اپنالیا۔ تب دق کے مرض میں مبتلا شاعر کی زندگی میں امید نے کروٹ لی اور وہ زندگی کو پیار کی نگاہوں سے دیکھنے لگے۔

تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے
جی رہا ہوں اس اعتماد کے ساتھ
زندگی کو مری ضرورت ہے

نرگس بیگم سے قابل اجمیری کے ایک صاحبزادے ظفر اجمیری نے جنم لیا۔ مگر قابل کی زندگی نے کچھ زیادہ وفا نہیں کی۔ وہ صرف اکتیس برس کی عمر میں 3؍ اکتوبر 1962ء کی عمر میں وفات پاگئے۔ بلاشبہ کلامِ قابل شعری دنیا میں نرگس بیگم کے طفیل ہی پہنچا۔ کیونکہ اُن کے انتقال کے بعد نرگس بیگم کی کوششوں سے اُ ن کے شعری مجموعے ’’دیدۂ بیدار‘‘ اور’’ خونِ رگِ جاں ‘‘ شائع ہوسکے۔ اس طرح اُن کا یہ اعتماد اپنے اوپر غلط ثابت نہیں ہوا کہ

اجل کی گود میں قابلؔ ہوئی ہے عمر تمام
عجب نہیں کہ مری موت زندگی ہو جائے

قابل اجمیری کی شاعری افسردگی اور رومانوی امتزاج کے ساتھ ایک منفرد تخیلاتی اُپج رکھتی ہے۔ اُن کی شاعری کا یہ کارنامہ ہے کہ وہ ایک برہم ذہن اور منتشرروح کے باوجود اپنے جذبے کو یکجا اور فکر کو مربوط رکھتے ہیں۔ اس نے اُن کے احساس کو جتنا بھی کرب آشنا رکھا ہو مگر اُن کے تخیل کو منظم رکھا۔ اِسی عمل نے اُن کی شاعری کو ایک رومانوی کارنامہ بنا دیا۔ وہ اِسی لیے اردو کے آخری رومانوی شاعر بھی کہلائے۔ اگر چہ اس میں کچھ مبالغہ بھی ہے۔ مگر قابل کی شاعری اُن کے لیے اس مبالغے کو روا بناتی ہے۔ اُن سے جگر مراد آبادی بلاوجہ متاثر نہ ہوئے تھے، جب اُنہوں نے کہا کہ

’’قابل کے کلام سے اُن کی انفرادیت نمایاں ہے اور یہی خصوصیت شاعر کے لیے اہم اور اہم تر ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اُن کی زندگی اور فن دونوں کا درست تجزیہ کیا ہے کہ

’’اُن کاجسم جتنا نحیف تھا، اُن کی روح اتنی ہی قوی تھی۔وہ باہر سے جتنے پژمردہ تھے، اندر سے اتنے ہی زندہ تھے۔ اُن کے چہرے پر نقاہتِ جسمانی کی زردی تو تھی، بے دلی کے آثار نہ تھے۔ ‘‘

بس یہی عنصر اُن کی زندگی اور شاعری دونوں میں ایک کارنامے کی طرح جلوہ گر ہے۔

منتخب کلام


تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے

راستا ہے کہ کٹتا جاتا ہے
فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا


مجھی پہ اتنی توجہ مجھی سے اتنا گریز
مرے سلام سے پہلے مرے سلام کے بعد
فضا تمام نشیمن فضا تمام قفس
خیالِ دام سے پہلے خیالِ دام کے بعد


اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں
اشک بہہ جاتے ہیں لیکن آنکھ تر ہوتی نہیں
رنگِ محفل چاہتا ہے اک مکمل انقلاب
چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں


ہم نے اس کے لب و رخسار کو چھو کر دیکھا
حوصلے آگ کو گلزار بنا دیتے ہیں


ان کی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پر ہنسی
قصۂ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آگئے


ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے


حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آگئے
ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آگئے


اجنبی اجنبی ہے سارا وجود
مجھ کو اپنا رہی ہے تیری یاد


اجل بھی اس کی بلندی کو چھو نہیں سکتی
وہ زندگی جسے احساسِ زندگی ہو جائے


حادثے زیست کی توقیر بڑھا دیتے ہیں
اے غمِ یار تجھے ہم تو دعا دیتے ہیں


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر