وجود

... loading ...

وجود
وجود

خدائے سخن، رئیس المتغزلین میر تقی میر کا دوسو پانچواں یوم وفات

اتوار 20 ستمبر 2015 خدائے سخن، رئیس المتغزلین میر تقی میر کا دوسو پانچواں یوم وفات

Mir-Taqi-Mir

محمد تقی المعروف میر تقی میر آج سے دوسو پانچ برس پہلے اس دنیا سے کوچ کر گئے تھے۔ مگر کہاں گئے تھے ۔ وہ اگلی کئی صدیوں تک زندہ ، تابندہ رہیں گے۔ اردو زبان میں اُن کے متعلق یہ جملہ بلاتردد بولا جاسکتا ہے کہ وہ اس زبان کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ اُن کے علاوہ اردو کی پوری شعری روایت میں کبھی ، کسی بھی شاعر کو خدائے سخن نہیں کہا گیا۔

میر تقی میر ۱۷۲۳ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔میر کی زندگی اور شاعری دونوں کو غم والم سے ایک خاص مناسبت رہی۔ میر کی ابتدائی تعلیم اُن کے والد کے دوست سید امان اﷲ کی صحبت میں ابھی جاری تھی کہ استاد کا انتقال ہوگیا ۔ تب میر صرف نو برس کے تھے۔ استاد کے انتقال کے بعد میر کی تعلیم و تربیت خود والد صاحب کی نگرانی میں جاری تھی کہ اُن کا بھی صرف چند ماہ میں انتقال ہو گیا۔تب میر تقی میر اپنے سوتیلے بھائی کے سلوک کی وجہ سے تلاش ِ معاش کی خاطر دہلی چلے گیے۔ جہاں وہ ایک نواب کے ہاں ملازمت کرنے لگے۔ نواب موصوف کسی جنگ میں مارے گئے تو میر واپس آگرہ لوٹ آئے۔ مگر یہاں بھی اُن کی گزر اوقات مشکل سے مشکل تر ہوتی گئی۔بآلاخر واپس دہلی اپنے خالو سراج الدین کے ہاں چلے گیے۔مگر یہاں پر بھی اُنہیں اپنے سوتیلے بھائی کے سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ ان ایّام میں اُن پر کچھ جنوں کی کیفیت بھی طاری رہی۔ان ہی شورشوں ، صعوبتوں اور مصیبتوں کے ٹوٹتے پہاڑوں کو اُٹھاتے اُٹھاتے وہ لکھنؤ چلے گیے۔ جہاں اُن کی شاعری کی ایک دھوم مچ گئی ۔ اور نواب آصف الدولہ نے اُن کاتین سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا۔ مگر سخن کا یہ شہنشاہ دربار سے بھی وابستہ نہ رہ سکا۔ اور زندگی کے آخری تین برسوں میں دو بڑے صدمے سہے۔ ایک جوان بیٹی کی موت اور پھربیوی کے انتقال نے اُنہیں غم سے نڈھا ل کر دیا۔ یہاں تک کہ سخن کا یہ بادشاہ ۲۰؍ ستمبر ۱۸۱۰ء کو لکھنؤ کی مٹی اوڑھ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سو گیا۔

میر تقی میر نے اپنی زندگی کے اِن ہی تجربات کو غزل کی ٹھیٹ روایت میں بدل دیا۔ اور عام زندگی کے عمومی مگر غیر شاعرانہ انسانی تجربات کو شاعری میں اس طرح برتا کہ یہ فارسی شاعری سے الگ اپنی منفرد روایت پر کھڑی ہوگئی:

مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا!

بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اُن کے متعلق ایک جگہ لکھا ہے کہ

’’اُن کا ہر شعر ایک آنسو ہے اور ہر مصرع خون کی ایک بوند ہے۔‘‘

بلاشبہ میر تقی میر دردوغم اور حزن والم کے ساتھ جواں مردی اور بلند حوصلگی کا شاعر ہے۔جس نے اپنے تجربے کی کٹھالی سے شعری روایت ہی قائم نہیں کی بلکہ اِسے ایک تصور حیات سے آراستہ کر دیا۔

جہاں سے دیکھیے ایک شعر شور انگیز نکلے ہے
قیامت کا سا ہنگامہ ہے ہر جا میرے دیواں میں


متصل روتے رہیے تو بجھے آتشِ دل
ایک دو اشک تو اور آگ لگا دیتے ہیں


روشن ہے اس طرح دلِ ویراں میں داغ ایک
اُجڑے نگر میں جیسے جلے ہے چراغ ایک


میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا استاد


جی میں آتا ہے کچھ اور بھی موزوں کیجیے
دردِدل ایک غزل میں تو سنایا نہ گیا


دوسو پانچ برس گزر گئے میر کے الفاظ اور اُن کے تصورات پوری طرح تروتازہ ہے اور شعری روایت میں امامت کرتے ہویے نظر آتے ہیں۔اُن کے بارے میں پورے اعتماد سے کہا جاسکتا ہے کہ اُن کا خود پر یہ اعتماد غلط نہیں تھاکہ

جانے کا نہیں شور سخن کا میرے ہرگز
تاحشر جہاں میں میرا دیوان رہے گا


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر