... loading ...
رفیق پٹیل
۔۔۔۔۔
آج کل
عمران خا ن کے مخالفین بلا وجہ عمران خان کی رہائی کے خوف میں مبتلا ہیں۔بانی پی ٹی آئی خو د رہا ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ معاملات طے ہونے پر وہ جیل میںقید رہنے کو تیار ہوسکتے ہیں۔ یہ محض خام خیالی ہے کہ بانی تحریک انصاف کسی بات پر راضی نہیں ہورہے ہیں یا وہ جیل سے باہر آنا چاہتے ہیں۔ تحریک تحفظ آئین پاکستان کے اکابرین چند معمولی سی شرائط پر عمران خان کو خاموش رہنے اور طویل عرصے تک جیل میں قید رہنے پر راضی کر سکتے ہیں جن شرائط پر انہیں آمادہ کیا جا سکتا ہے وہ ممکنہ طور پر یہ ہوسکتی ہیں کہ ملک میں اقوام متحدہ کے طے کردہ اصولوں کے مطابق جمہوریت ، انسانی حقوق اورمنصفانہ آزادانہ شفاف انتخابی نظام کو بحال کردیا جائے۔ فروری 2024 کے انتخابات کی بے قاعدگیوںپر عالمی مبصرین اوعالمی ر میڈیا کی رائے کو تسلیم کیاجائے ۔آئینی ترامیم واپس لے لی جائیں۔ عدالتی نظام کو میرٹ پر تشکیل دے کر آزاد عدلیہ کا قیام عمل میں لایا جائے۔ تحریک انصاف کا انتخابی نشان بحال کیا جائے۔ ایسی صورت میں ساری زندگی جیل میں گزار دیں گے اور اس وقت تک کوئی بیان نہیں دیں گے جب تک ملک میں آئین اور قانون کی عملداری ہوگی۔ بدعنوانی ،رشوت اور لاقانونیت ، بیروزگاری اور غربت کے خاتمے کے قابل عمل اور نتیجہ خیز اقدامات جاری رہیں گے ۔یہ وہ معمولی شرائط ہیں جس سے عمران خان مائنس ہو سکتے ہیں۔
یہ معمولی شرائط وہ ہیں جس سے ملک تیز رفتار ترقی کر سکتا ہے لیکن یہ معمولی شرائط حکمران جماعتوں اور اعلیٰ عہدیداروں کو اس لیے بہت بھاری شرائط محسوس ہوتی ہیں کہ بحالی جمہوریت اور انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کی صورت میں ان کی سیاست میں کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ نئی نوجوان قیادت سامنے آجائے گی جن کا طرز زندگی سادگی پر مشتمل ہوگا۔ ان کے لیے کوئی پروٹوکول اور گاڑیوں کا ہجوم نہیں ہوگا۔ تمام سرکاری دفاتر میں آن لائن شفاف نظام رائج ہوگا۔ پولیس کارویہ عوام کے ساتھ دوستانہ ہوگا۔ وہ غریبوں کے ساتھ بھی عزت سے پیش آئے گی۔ خواتین جس طرح دبئی میں آزادانہ رات کے کسی بھی پہر سفر کرتی ہیں اور انہیں کسی قسم کاخطرہ نہیں ہوگا۔ لوگ کئی کلو سونا لے کر کسی جگہ بھی آجا سکیں گے ۔پاکستان میں بھی اس طرح کا تحفظ ہوگا عوام کی مرضی . خواہش اور مفادات کے مطابق حکومت کا م کرے گی اور ان کو ہر ممکن سہولیات فراہم کرے گی ۔سنگاپور کا طرز حکومت اس کی ایک مثال ہے۔ صرف حکمرانوں کو پختہ ارادے اعتماد جھوٹی شان وشوکت کی وقتی قربانی کی ضرورت ہے۔ عوام کوبھی کچھ عرصے کے لیے سادہ زندگی زندگی کے لیے تیار ہونا ہوگا پھر دولت کی ریل پیل ہوگی۔ سنگا پور نے یہ کرکے دکھایاہے ۔پاکستان کے لوگو ں میں بھی صلاحیت ہے ،پاکستان میں بے پناہ وسائل ہیں ،دولت ہے، ایماندا ر اور مقبول قیادت لوگوں کو متحرک اور زیادہ محنت پر آمادہ کرسکتی ہے ۔صرف ایسی مخلص قیادت کی ضرورت جسے دولت اور عہدے کی لالچ نہ ہو۔ اس کی تمام صلاحتیں ملک کو ترقی کی جانب لے جانے کی طرف مرکوز ہو، موجودہ حکمران بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔ وہ اپنی تما م دولت کسی ایسے ٹرسٹ کے حوالے کردیں جو عوام کی فلاح وبہبود کے لیے وقف ہو۔ ایسے ٹرسٹ میں ان کا اپناکوئی مفاد یا عہدہ نہیں ہونا چاہیے ۔وہ سادہ زندگی کا عملی نمونہ بن کر سامنے آئیں اور بغیر کسی بڑے پروٹوکول کے زندگی گزارنے پر آمادہ ہوں۔ ہو سکتا ہے وقتی طور پر انہیں اگر انتخابات میں بری طرح شکست بھی ہوجائے تو یہ وقتی ہوگی ۔اس وقت حکمراں جماعتوں کی ساکھ عوام میں تقریباً ختم ہو چکی ہے اور ہر آنے والے دن میں وہ اپنی عوامی مقبولیت کھورہی ہیں ۔مختلف مصنوعی طریقوں اور ریاست کی طاقت اور انتظامی مشینری کے ذریعے اپنے اقتدار کو طول دے رہی ہیں۔ یہ رویہ عوام میں ان کے لیے ایسی نفرت جنم دے رہا ہے جو مستقبل میں بڑے تصادم کی جانب جا سکتا ہے۔ حکمراں جماعتیں عوام میں لسانی تقسیم اور مذہبی جماعتوں کو استعمال کرکے اپنے مفادات اور سیاست کا تحفظ چاہتی ہیں۔طاقتور حلقوں کے ساتھ ساز باز اور مختلف سازشیں ان مقاصد کا حصہ ہیں جس کے دور رس نتائج انتہائی بھیانک ہو سکتے ہیں۔دنیاکے اہم ترین مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان میں ناقص حکمرانی اور بدعنوانی پر تصدیق کی مہر لگا دی ہے۔ یہ رپورٹ اگست میں ہی حکومت کو مل گئی تھی لیکن اسے پوشیدہ رکھا گیا تاکہ یہ خبروں میں نہ آسکے۔ آئی ایم ایف نے شرط لگادی تھی کہ رپورٹ کو عوام کے سامنے لایا جائے ۔ اب اس لیے مجبوراً یہ رپورٹ شائع کی گئی ہے ۔
حکومت کو بھی اس بات کا احساس تھا کہ رائے عامہ کی بھاری اکثریت پی ٹی آئی کی حامی ہے ۔حکمراں جماعتیں گزشتہ تین سال سے پی ٹی آئی کو انتظامیہ کی مدد سے کچلنے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ حکومت کو اس میں خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی اور اب جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کو اشارہ مل گیا ہے کہ وہ اپنی سیاسی سرگرمیا ں تیز کرکے تحریک انصاف کے حامیوں کو اپنے ساتھ ملا کر تحریک انصاف کو کچلنے میں پاکستان کے طاقتور حلقوں کی مدد کریں۔ ایک طرف جماعت اسلامی نے نظام بدلنے کی مبہم بات کی ہے جس کا کوئی تفصیلی منصوبہ سامنے نہیں ہے۔ نظام صرف ایک نئے آئین کے تحت بدلا جا سکتاہے ۔اگر جماعت اسلامی عوام سے رتی برابر بھی مخلص ہوتی اور خفیہ اشاروں پر کام نہ کر رہی ہوتی تو عوام کے حق رائے دہی کی بحالی کے لیے آواز بلند کرتی اور فروری دو ہزار چوبیس کے اصل نتائج کو سامنے لانے کی کوشش کرتی لیکن جس انداز سے جماعت اسلامی کے لیے مینار پاکستان پر جلسہ کر نے میں سرکاری سہولت کاری کی گئی ہے،یہ سب کچھ پس پردہ قوتوں کی آشیر باد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کا علیحدہ صوبے کا نعرہ بھی حقائق کے برخلاف اور کراچی کے عوام کو بے وقوف بنانے کی ناکام کوشش ہے سندھی مہاجر فسادات کرانے کی کوشش کی گئی تو یہ سازش بھی عوام کی رائے تبدیل نہیں کر سکے گی۔ سندھ کارڈ اور مہاجر کارڈ کا سیاسی ڈرامہ ناکام ہو چکا ہے۔ سندھ میں عوام اس طرح کی سازشوں اور سیاسی چالبازیوں کو سمجھ گئے ہیں ان کے سیاسی شعور میں اضافہ ہو چکا ہے اور وہ اب لوگ جان چکے ہیںکہ ہر فسادات میں بے گناہ معصوم شہری مارے جاتے ہیں اور فسادات کرانے والی سیاسی جماعتوں کے رہنمائو ںکے بنگلوں ، گاڑیوں اور دولت میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔وہ کسی ایسی سیاسی جماعت کے جھانسے میں آنے کو تیار نہیں ہیں جو عام شہریوں کے کو فائدہ پہنچانے کے بجائے اپنی دولت میں اضافے کے لیے کا م کرے جمعیت علماء اسلام نے بھی شریف اور زرداری خاندان کے اقتدار کو طول دینے کی آئینی ترامیم میں اپنا کردار اداکیا نتیجے میں پی ٹی آئی سے چھینی گئی کچھ نشستیں جے یو آئی نے حاصل کرلیں ۔پاکستان کے عوام کی پسماندنگی میں ان مذہبی جماعتوں کی مفاد پرست سیاست کا بھی دخل ہے ۔ حکمراں مسلم لیگ کی پوری کوشش ہے کہ ابتدائی طور پر تحریک لبیک کے ووٹ بینک کو اپنے حق میں استعمال کرسکے لیکن اس منصوبے پر عمل درآمد انتہائی مشکل اور تقریباً ناممکن ہے ۔موجودہ طرز حکمرنی ملک کو کسی خوفناک حادثے سے دوچار کر سکتاہے جس کا انہیں احساس نہیں۔
٭٭٭