وجود

... loading ...

وجود

تعلیمی میدان میں ہندوتوا نظریات

بدھ 31 دسمبر 2025 تعلیمی میدان میں ہندوتوا نظریات

ریاض احمدچودھری

ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے برصغیر کی تاریخ کو حکمراں گروہ کے ہندوتوا نظریے کے مطابق ڈھالنے اور جدید سائنس کی تحقیر اور اس کی اہمیت کم کرنے کی مسلسل کوشش ہو رہی ہیں۔ نئی تعلیمی نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2020 کے اطلاق نے تو ان کوششوں کو ایک طرح سے لائسنس فراہم کر دیا ہے۔
دنیا بھر میں تعلیم سے متعلق پالیسیاں معاشی خوشحالی، مثالی شہری بنانے نیز سائنسی مزاج پیدا کرنے کی بنیاد پر استوار کی جاتی ہیں۔ تاہم بھارت میں اس کا محور ‘پراچین سبھیتا’ یعنی قدیم تہذیب اور قدیم علوم ہیں۔ہر مرض کے علاج کے حوالے سے یوگا اور قدیم طریقہ علاج کے پوسٹر بوائے بابا رام دیو اور انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے درمیان جاری بالا دستی کی جنگ کو اسی تناظر میں دیکھاجانا چاہیے۔ اسی طرح حکمران جماعت کے بعض ارکان پارلیمان اور اسمبلی کھلے عام گائے کے پیشاب سے علاج کی تلقین کر رہے ہیں۔ بی جے پی کی رکن پارلیمان پرگیہ ٹھاکر کا آئے دن اس بارے میں بیان آتا رہتا ہے۔جدید سائنس کا کس طرح مذاق اڑایا جا رہا ہے، میں اس کی یہاں ایک واضح مثال کے طور پر خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی اس تقریر کے ایک اقتباس کو نقل کیا جاتا ہے ، جو انہوں نے انڈین سائنس کانگریس کے 2019 کے سالانہ اجلاس کا افتتاح کرتے وقت کی تھی۔ وزیراعظم مودی کا کہنا تھا، ”نیوٹن نے قوت کشش ثقل کو صحیح طور پر نہیں سمجھا، البرٹ آئن سٹائن نے دنیا کو گمراہ کیا، بھارت نے ہزاروں سال پہلے ٹیسٹ ٹیوب بی بی اور پلاسٹک سرجری ایجاد کی تھی۔
بھارت کے قومی تعلیمی ادارے این سی ای آر ٹی اور صوبائی تعلیمی بورڈز کے تعلیمی نصابوں میں ایسا مواد شامل کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں ایک مخصوص فرقے اور ایک ہمسایہ ملک کے خلاف نفرت پیدا ہونا فطری عمل ہے۔ بطور مثال گجرات میں آٹھویں کلاس کی تاریخ میں درج ہے کہ دہلی کا قطب مینار ہندو بادشاہ سمندر گپت نے تعمیر کیا اور اس کا اصل نام ویشنو استھمب تھا۔ اسی طرح تاج محل اور مسلم ادوار حکومت کی دیگر عمارتوں کے بارے میں اسی نوع کی بے بنیاد باتیں پھیلائی گئی ہیں اور جاری ہیں۔ مثلاً جنوبی بھارت کے صوبہ کرناٹک میں ایک نصابی کتاب میں گائے کا تقدس بڑھانے کے حوالے سے ایک عجیب و غریب واقعہ شامل ہے، جس میں ایک شیر اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ آئندہ کبھی گائے کا گوشت نہیں کھائے گا۔جواہر لعل یونیورسٹی کے سابق استاد اور ممتاز تاریخ داں پروفیسر ڈی این جھا، جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، نے اپنی کتاب قدیم ہند میں کھانے کی عادات پر مفصل لکھا ہے۔ اس میں انہوں نے ہندو مقدس کتابوں کے حوالے سے اس بات کو اجاگر کیا کہ ”ویدک دھرم میں گائے کو ذبح کرنا ممنوع نہیں تھا اور گائے کے گوشت سے مہمانوں کی تواضع کرنے کو توقیر کی نگاہ سے دیکھاجاتا تھا۔” انہوں نے لکھا کہ گائے کے گوشت پر پابندی لگانی ہے تو تمام مقدس کتابوں سے پرانے مواد کو ہٹانا پڑے گا۔مزید برآں یہ کہ بھارتی حکمراں جماعت کی سرپرست آر ایس ایس کے تحت چلنے والے چھ ہزار سے زائد اسکولوں میں، جو سرکاری امداد پر چلتے ہیں، معصوم ذہنوں کو مسموم کیا جاتا ہے۔ نیز ششو مندروں (بچوں کے اسکولوں) کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ ان میں کیا پڑھایا جاتا ہے وہ ملاحظہ کریں، ”بر صغیر میں مسلمان بادشاہوں کا مقصد ہندوؤں کی نسل کو ختم کرنا تھا۔ افغانستان میں تمام ہندو قتل کر دیے گئے تھے۔ دکن کی سلطنت نے ہر سال ایک لاکھ ہندوؤں کو قتل کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا”۔
بھارت کے ممتاز مورخین اور دانشوران ایک عرصے سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ تعلیمی نصاب اور تاریخ کی کتب سے زہریلے مواد کی تطہیر کے لیے ایک نیشنل کمیشن قائم کیا جائے۔ تاہم نئی قومی تعلیمی پالیسی اس پر خاموش ہے۔ بلکہ اس میں پورے تعلیمی نظام کو حکمراں جماعت کے نظریے کا جامہ پہنانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ ہندوتوا نظریے کے زیرِ اثر بھارت میں اقلیتوں کے خلاف مذہبی تعصب اور نفرت انگیزی میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے جس سے نام نہاد سیکولر ریاست کا تصور بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔انتہا پسند عناصر کی جانب سے مسلم اور مسیحی برادری کی مذہبی آزادی پر مسلسل حملے کیے جا رہے ہیں جس کے باعث بھارت اقلیتوں کے لیے ایک غیر محفوظ ملک بنتا جا رہا ہے۔
دہلی میں انتہاپسند ہندو تنظیم بجرنگ دل کے کارکنوں نے مسیحی خواتین اور بچوں کو مذہبی تہوار منانے سے روک دیا۔ سانتا کلاز کے لباس میں ملبوس مسیحی خواتین اور بچوں کو عوامی مقامات پر ہراساں کیا گیا اور انہیں زبردستی وہاں سے بے دخل کر دیا گیا، بجرنگ دل کے شرپسندوں نے توہین آمیز رویہ اختیار کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں کو واپس گھروں کو جانے پر مجبور کیا۔ بجرنگ دل ماضی میں بھی کرسمس کے مواقع پر مسیحی برادری کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے میں ملوث رہی ہے، گزشتہ برس مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، اتر پردیش، اتراکھنڈ، گجرات اور ہریانہ میں بھی مسیحی برادری کے خلاف ہراسگی کے متعدد واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔اسی طرح ممبئی میں کرسمس کے ایک پروگرام کے دوران معصوم بچوں کو زبردستی ہنومان چالیسہ پڑھنے پر مجبور کرنے کا واقعہ بھی سامنے آیا تھا۔
عالمی جریدے دی ڈپلومیٹ کے مطابق بھارت میں مسلم اور مسیحی برادری کے خلاف انتہاپسندانہ واقعات خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد اقلیتوں کے خلاف مظالم میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔دی ڈپلومیٹ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ہندو انتہا پسند عناصر مسلم اور مسیحی شہریوں کو بھارتی شہری تسلیم کرنے کے بجائے انہیں عرب اور فلسطینی ریاستوں سے جوڑنے جیسے نفرت انگیز بیانیے کو فروغ دے رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق ہندوتوا نظریے کے زیرِ اثر بھارت میں اقلیتوں کی مذہبی آزادی کو منظم انداز میں کچلا جا رہا ہے جو خطے میں سماجی ہم آہنگی اور انسانی حقوق کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
آر ایس ایس کی گرفت اور بھارتی جمہوریت وجود بدھ 31 دسمبر 2025
آر ایس ایس کی گرفت اور بھارتی جمہوریت

بانی پی ٹی آئی مائنس ہونے کو تیار؟ وجود بدھ 31 دسمبر 2025
بانی پی ٹی آئی مائنس ہونے کو تیار؟

بنگلہ دیش کاموجودہ سیاسی مزاج وجود بدھ 31 دسمبر 2025
بنگلہ دیش کاموجودہ سیاسی مزاج

تعلیمی میدان میں ہندوتوا نظریات وجود بدھ 31 دسمبر 2025
تعلیمی میدان میں ہندوتوا نظریات

بھارت میں ہندوتوا کے سائے میں غنڈہ راج وجود منگل 30 دسمبر 2025
بھارت میں ہندوتوا کے سائے میں غنڈہ راج

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر