... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
بیچارے بی جے پی والے ابھی راہل گاندھی کے ذریعہ غیر ملکی سرزمین پر ہندوستان کی بدنامی کا ڈھول پیٹ ہی رہے تھے کہ ان کی ناجائز اولاد بجرنگ دل نے کرسمس کے موقع پر گرجا گھروں پر حملے کرکے ملک کا نام دنیا بھر میں روشن کردیا ۔ وشو ہندو پریشد نے ملک کی عیسائی اقلیت پردورانِ تہوار بزدلانہ حملہ کرکے بھارت کو’وشو گرو ‘ تو نہیں نفرت پرستوں کا ‘وِش گرو'(نفرت کا عالمی سردار) بنادیا ۔ یہ وہی ہندو توا نواز ہیں کہ جو انگریزی اقتدارکے دوران عیسائی حکمرانوں کے تلوے چاٹتے تھے ۔ آزادی کی جنگ کے دوران ان کے لیے مخبری کرتے تھے ۔ ان کے عظیم ترین دانشور ونایک دامود ساورکر نے جیل سے رہائی کے لیے تاحیات وفاداری کا عہد کیا تھا ۔ وقت بدلا اور آزادی کی جنگ لڑنے والے گاندھی جی کو قتل کرنے والوں کے ہاتھ میں اقتدار آیا تو یہ اپنے پرانے آقاوں سے احسان فراموشی کرکے ان پر حملے کرنے لگے ۔ عیسائیوں پر حملے نئے نہیں ہیں ۔1999 میں اڑیشہ کے اندر گراہم اسٹینس کو ان کے معصوم بچوں سمیت زندہ جلانے والے دارا سنگھ نے اس نفرت انگیزی کوتیز کیا۔
دارا سنگھ کی بہیمانہ سفاکی کے پیش نظر سی بی آئی نے عدالتِ عظمیٰ میں اس کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا مگر اسے بچا لیا گیا ۔ عدالتِ عظمی ٰ اس کو بچانے کی خاطر بھولے بھالے قبائلیوں کو ورغلا کر مذہب تبدیلی کرنے کا راگ الاپا۔ اس طرح ایک سنگین جرم کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس کے خلاف ہنگامہ ہوا تو وہ تبصرہ ہذف کیا گیا مگر عدلیہ کی تنگ نظری کھل کر سامنے آگئی۔ اس کے بعد ملک بھر میں تبدیلیٔ مذہب کا ہواّ کھڑا کرکے مختلف ریاستوں میں نامعقول ظالمانہ قوانین بنائے گئے ۔ اس سے دارا سنگھ کے حوصلے اتنے بڑھے کہ اس نے الیکشن تک لڑا مگر ہار گیا ۔ اس وقت اڑیشہ کے اندر بجرنگ دل کی کمان دارا سنگھ کے گرو پرتاپ سارنگی کے ہاتھوں میں تھی۔ وہ اس قدر بددماغ انسان ہے کہ اس نے اسمبلی پر بھی حملہ کرکے اپنا نام روشن کیااور وہ بدبخت بالا سور سے پارلیمانی انتخاب جیت گیا۔ اس سے خوش ہوکر مودی نے اسے مرکزی وزیر بناکر اسے شاباشی دی۔ اس کے بعد عیسائیوں کے پر حملے کرنے والوں کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے ایک چور دروازہ ہاتھ آگیا اور بات آگے بڑھتے بڑھتے ا ب ہاتھ سے نکل گئی ۔
ملک کی ڈبل انجن سرکاروں میں ایک طرف عام عیسائیوں پر حملے ہورہے ہیں اور دوری جانب صدرِ جمہوریہ دروپدی مرمو، نائب صدرِ جمہوریہ سی پی رادھا کرشنن اور وزیرِ اعظم نریندر مودی کرسمس کی مبارکباد دینے ڈھونگ کررہے ہیں ۔ ایک سوشل میڈیا پوسٹ پر صدرِ جمہوریہ نے کہا کہ یہ تہوار بنی نوع انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے عیسیٰ مسیح کی قربانی کی یاد دلاتا ہے ۔ کیا سنگھ پریوارعیسیٰ کی قربانی کا بدلہ اس طرح چکاتا ہے ؟ کیا انسانی فلاح بہبود کے جواب میں احسانمندی کے عوض گرجا گھروں پر حملہ کیا جاتا ہے ؟ سارے ہندوستانیوں کو ہندو کہنے والے موہن بھاگوت ان کے بقول ہندووں پر ہونے والے ہندو بجرنگیوں کے حملوں خاموش کیوں ہیں؟ سرکار ان پر سخت کارروائی کیوں نہیں کرتی؟نائب صدرِ جمہوریہ سی پی رادھا کرشنن نے اپنے پیغام میں کہا کہ کرسمس لوگوں کو اِس بات کیلئے راغب کرتی ہے کہ وہ معاشرے کو اور زیادہ ہم آہنگ اور مضبوط بنائیں۔ سوال یہ ہے کہ نہتوں پر حملہ کرنے سے کون سی ہم آہنگی پیدا ہوتی اور سماجی تانا بانا مضبوط ہوتا ہے یا ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جاتا ہے ؟ کیاسنگھ پریوار سے آنے والے نائب صدر مملکت کا کام ان سماج دشمن عناصر پر کارروائی کروانا نہیں ہے ؟ اگر وہ صرف زبانی جمع خرچ سے اپنی شبیہ سدھارنا چاہتے ہیں تو یہ ناممکن ہے ۔
نائب صدر جمہوریہ سی پی رادھا کرشنن تمل ناڈو سے آتے ہیں اور اس بار بی جے پی ان کی ریاست کے ساتھ ساتھ کیرالہ سے بھی بہت پر امید ہے ۔ غالباً اسی لیے انہوں نے کرسمس سے ایک ہفتہ قبل 19 دسمبر کو اپنے انکلیو میں کرسمس لنچ کی میزبانی کی اور سب کو کرسمس کی مبارکباد کے ساتھ نئے سال کا تہنیتی پیغام بھی دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ کرسمس محبت، امید اور خیرات کا لازوال پیغام دیتا ہے ۔ ان کے مطابق کرسمس کی روح کو موسم سے آگے لے جایا جائے اور وہ روزمرہ زندگی میں بھی نظر آئے ۔ ان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے بجرنگ دل نے دہلی سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں کرسمس منانے والوں پر حملے شروع کردئیے اس طرح گویا گڑ گوبر سب ایک ہوگیا ۔ نائب صدر نے مسیحی برادری کی قوم سازی میں ، خاص طور پر تعلیم، طب، اور قبائلی برادریوں اور محروم طبقات کی ترقی کے شعبوں میں ، انمول خدمات کی ستائش کی لیکن منافقت نہیں تو کیا ہے کہ سنگھ پریوار اس سعیٔ جمیل کو تبدیلیٔ مذہب کی سازش قرار دے کران خدمات کی مخالفت کرتا ہے ۔
نائب صدر جمہوریہ نے مسیحی برادری کو قوم کی تعمیر میں اپنی قیمتی خدمات جاری رکھنے کی ترغیب دی۔ کاش کہ وہ اپنے بجرنگیوں کو بھی سمجھاتے جنہوں نے ان کے پاکھنڈ کی قلعی کھول دی۔ حالیہ حملوں کے بعد اس تقریب میں شریک ہونے والے کارڈینلز، آرچ بشپ، بشپ، پادری ، ریورینڈ فادرز اور سسٹرزنیزملک بھر کے مختلف چرچ انتظامیہ کے سینئر نمائندوں کو اپنے تضیع ا وقات کا احساس ہوگیا ہوگا ۔ نائب صدر نے تو خیر مسیحی رہنماوں کو اپنے پاس بلایا مگر منافقوں کے سرخیل وزیرِ اعظم نریندر مودی کرسمس کے دن بذاتِ خوددلّی میں کیتھرڈل چرچ اور ریڈیمپشن ( Cathedral Church of the Redemption) پہنچ گئے اور وہاں پر فجر کی سروس (عبادت) میں بھی شریک ہوئے ۔ اس موقع پر دہلی اور شمالی ہند کی مسیحی برادری کے افراد کی بڑی تعداد بھی وہاں موجود تھی۔ چرچ میں منعقدہ سروس میں دعائیں، کیرولزاور مذہبی حمد و ثنا کے روحانی اور پُرسکون ماحول میں دہلی کے بشپ رائٹ ریورنڈ پال سوارپ نے وزیر اعظم کے لیے خصوصی دعا کی اور ملک میں امن، بھائی چارے اور باہمی احترام کے فروغ کی خواہش کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے بھی کرسمس کے مقدس موقع پر مسیحی برادری کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تہوار کی خوشیوں میں شامل ہوئے ۔
کانگریس کے رہنما اور ترجمان پون کھیڑا نے کرسمس کے موقع پر شرپسندی پر سوال کیا ”کون ہیں یہ بے وقوف”؟ ان کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے وہ بولے ”رام نومی اور ہنومان جینتی پر یہ لوگ مسجدوں کے باہر جا کر ڈی جے پر اکسانے والے گانے بجاتے ہیں۔ کرسمس پر یہ لوگ چرچ کے باہر ہنومان چالیسا پڑھتے ہیں، سانتا کلاؤز کی ٹوپی کھینچتے اور، توڑ پھوڑ کرتے ہیں”۔چرچ اور مالز وغیرہ میں عیسائی طبقہ کے ساتھ کی جانے والی شر پسندی پر انہوں نے کہا ”یہ آر ایس ایس کے ذریعہ لگائے گئے زہریلے بیجوں سے نکلی کھر پتوار ہیں۔ یہ غنڈے نہ ہندو مذہب کے ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ہندوستانی تہذیب سے ان کا کوئی رشتہ ہے ”۔ کانگریس کے ذریعہ جاری کردہ ویڈیو میں پی ایم مودی کا عیسائیوں سے روحانی رشتہ والا بیان پیش کرنے کے بعد سوال کیا گیا ہے کہ ”آپ کی حکومت میں عیسائیوں پر ظلم کیوں ہو رہا ہے ”؟مذکورہ بالا واقعات کا تذکرہ کرنے کے بعد مودی حکومت سے کہا گیا کہ ”مودی جی، آپ کی حکومت میں عیسائیوں کے ساتھ برا سلوک بے حد شرمناک ہے ”۔ مودی پوری دنیا میں گھوم کر ہندوستان کا ڈنکا پیٹنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان واقعات کے ان پر غالب کا یہ شعر( مع ترمیم) صادق آتا ہے
یوروپ کس منہ سے جاوگے مودی
شرم تم کو مگر نہیں آتی
پون کھیڑا نے یاد دلایا کہ ”یہ ایسی روایت ہے جسے سوامی وویکانند ‘عیسو پرو’ کے نام سے مناتے تھے ، اور آج بھی ان کی یاد میں رام کرشن مشن پوری دنیا میں ‘عیسو پرو’، یعنی عیسیٰ مسیح کا یہ تہوار مناتاہے ”عالمی سطح پر ملک کی خراب شبیہ کو سدھارنے کی خاطر پون کھیڑا نے کہادنیا والے چند غنڈہ صفت لوگوں کی حرکتیں دیکھ کر یہ نہ سمجھیں کہ یہی ہندو تہذیب ہے ، نہ ہی یہ سمجھیں کہ ہندوستانی باشندے ایسے ہوتے ہیں۔غنڈہ گردی کرنے والوں سے متعلق وہ بولے یہ ہندو نہیں ہیں، ان کا مذہب ہی نفرت ہے ۔انہوں نے اپنے مذہب، اپنے ملک، اپنے سماج کو آر ایس ایس کے اس خاردار پودے سے بچانے کے عزم کا ا ظہار کیا کیونکہ پوری دنیا میں لوگ ہنس رہے ہیں۔ حیران ہو رہے ہیں کہ ہندوستان کو ہو کیا گیا ہے ، یہ تو بہت پرانی تہذیب ہے ۔ سنگھیوں کے اندر موجود خوف کا ذکر کرتے ہوئے پون کھیڑا نے بڑے پتہ کی باتیں کیں ۔ وہ بولے ”اتنا ڈر کہ سانتا کلاؤز کی ٹوپی سے خوفزدہ ہو گئے ۔ خیر، ٹوپی کی سیاست تو ‘صاحب’ نریندر مودی جی کرتے رہے ہیں۔ آج سے نہیں، لگاتار کر رہے ہیں۔ کپڑوں سے پہچاننا، شمشان، قبرستان، ٹوپی… یہی سب باتیں انھوں نے سیکھیں، یہی سب باتیں یہ سکھا رہے ہیں”۔ پون کھیرا کے مطابق کیرالہ کے انتخاب مودی کو چرچ تولے گئے لیکن وہ اپنے غنڈوں کو نہیں روک پائے ، یا پھر روکنا ہی نہیں چاہتے تھے یعنی
مودی کی ِ سیاست کا اتنا سا فسانہ ہے
بستی بھی جلانی ہے اور ماتم بھی منانا ہے