وجود

... loading ...

وجود

بھارت میں ٹرمپ لینڈ

منگل 30 دسمبر 2025 بھارت میں ٹرمپ لینڈ

ریاض احمدچودھری

بھارت میں اقلیتوں کے خلاف پر تشدد واقعات ہندوتوا نظریے کے تحت ایک منظم منصوبہ بندی سے کیے جا رہے ہیںسکھ فار جسٹس تنظیم کی جانب سے بھارت میں عیسائیوں کے لیے محفوظ وطن ”ٹرمپ لینڈ” کا مطالبہ سامنے آ گیا۔اقوامِ متحدہ کے تسلیم شدہ حقِ خود ارادیت کے تحت سکھ فار جسٹس تنظیم نے شمال مشرقی بھارت میں ایک محفوظ عیسائی وطن ”ٹرمپ لینڈ” کا نقشہ جاری کردیا ہے۔ سکھ فار جسٹس جو عالمی خالصتان ریفرنڈم کا انعقاد کر رہا ہے ، نے باضابطہ طور پر ”ٹرمپ لینڈ ” کی تجویز پیش کی ہے۔تنظیم کے مطابق یہ مجوزہ خطہ امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کے نام سے منسوب کیا جائے گا۔ سکھ فار جسٹس کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے امریکی صدر سے اس معاملے میں براہِ راست مداخلت کی اپیل بھی کی ہے۔گرپتونت سنگھ پنوں کا کہنا ہے کہ جب دنیا کرسمس منا رہی تھی، اس وقت بھارت میں عیسائی برادری کو منظم تشدد، حملوں اور جبر کا سامنا تھا۔ مودی کے دور حکومت میں نہ صرف عیسائیوں بلکہ بھارتی پنجاب میں سکھوں کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔ یہ خطہ ”سیون سسٹرز اسٹیٹس” کے نام سے جانا جاتا ہے جہاں عیسائی آبادی مقامی اور تاریخی طور پر علیحدہ ہیں۔ سیون سسٹر اسٹیٹس ناگالینڈ، میزورم، میگھالیہ، منی پور، تریپورہ اور آسام اور اکثریتی عیسائی آبادی پر مشتمل ہیں۔ ”ٹرمپ لینڈ” کو ایک محفوظ عیسائی کوریڈور کے طور پر تجویز کیا گیا ہے تاکہ لاکھوں عیسائیوں کو پناہ دی جا سکے۔گرپتونت سنگھ پنوں نے کہا کہ یہ عیسائی آبادی اس وقت ظالم بھارتی ریاستی پالیسیوں کے نتیجے میں ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ مودی کے بھارت میں بائبل کی تبلیغ جرم ،گرجا گھروں کو نذرِ آتش ، عیسائی بستیوں پر حملے جب کہ لوگوں کو بے گھر اور خوفزدہ کیا جا رہا ہے۔
سکھ فار جسٹس کی تنظیم نے بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے پر تشدد واقعات کو ہندوتوا نظریے کے تحت ایک منظم منصوبہ قرار دیا۔ گرپتونت سنگھ پنوں نے آر ایس ایس کے سربراہ کے بیان کا حوالہ بھی دیا جس میں موہن بھاگوت نے بھارت کو ہندو ریاست قرار دیا تھا۔ بھارت میں رہنے والوں سے رام کو خدا ماننے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جب کہ حضرت عیسی پر ایمان رکھنے والوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے اپیل کی کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ واحد عالمی رہنما ہیں جن کے پاس اس صورتحال میں مداخلت کی جرات، اختیار اور وسائل موجود ہیں۔ سکھ فار جسٹس اس وقت دنیا بھر میں عالمی خالصتان ریفرنڈم کا انعقاد کر رہی ہے جسے مودی حکومت نے غیر قانونی قرار دے رکھا ہے۔کرسمس کے موقع پر میڈیا میں رواداری اور ہم آہنگی کا درس دینے والی مودی حکومت پر ایک بار پھر اقلیت دشمن پالیسیوں اور انتہا پسند عناصر کی پشت پناہی کے سنگین الزامات سامنے آئے ہیں۔ مودی حکومت کی انتہا پسندی پالیسیوں نے سیکولر بھارت کا گھنائونا چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔
حکومتی سرپرستی میں آر ایس ایس کے غنڈوں نے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ دیگر اقلیتوں کی زندگی بھی اجیرن کر دی ہے۔ ہندو توا ایجنڈے کے تحت ناصرف مسلمانوں کا معاشی اور سماجی بائیکاٹ کیا جا رہا ہے بلکہ گائو رکھشا کے نام پر مسلمانوں پر پرہجوم تشدد کے واقعات میں بھی تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ مودی حکومت کے اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کی تصدیق بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور خود امریکہ کے سرکاری ادارے بھی کر رہے ہیں۔ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے بعد مودی حکومت کے مظالم اب دیگر اقلیتوں تک بڑھتے جا رہے ہیں۔ مودی دور میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے رپورٹ میں 25دسمبر کو بھارت کی مختلف ریاستوں آسام چھتیس گڑھ کیرالہ سمیت متعدد مقامات پر عیسائیوں کی تقریبات پر ہندو انتہا پسندوں کے حملوں کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت بھارت کو ہندو راشٹریہ بنانے کے ایجنڈا پر عمل پیرا ہے۔ بہتر ہو گا عالمی برادری مودی حکومت کی نفرت انگیز پالیسیوں کا نوٹس لے اورعالمی قوانین کے تحت بھارت پر پابندیاں لگائے تاکہ بھارت میں اقلیتیں سکھ کا سانس لے سکیں۔
نریندر مودی کے دور حکومت میں بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور نچلی ذات کے ہندوئوںسمیت اقلیتوں پر ظلم و ستم میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا گیاہے۔جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے اقتدار سنبھالا ہے، ہندوتوا قوتوں نے اقلیتوں کی بقاء کے لیے خطرہ پیدا کر دیا ہے جس سے وہ مسلسل خوف ودہشت اور عدم تحفظ کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔آر ایس ایس کی حمایت یافتہ بھارتی حکومت نے امتیازی قوانین اور پالیسیوں کے ذریعے منظم طریقے سے اقلیتوں کو دیوارکے ساتھ لگا دیا ہے۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے نفرت انگیز جرائم میں اضافہ ہوا ہے جس نے بھارت کو اپنی اقلیتوں کے لیے ایک غیر محفوظ ملک بنا دیا ہے۔بھارتی مسلمانوں کو خاص طور پر گائے کے گوشت کے استعمال یا مویشیوں کی نقل و حمل کے خلاف قوانین کے تحت تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہندوتوالیڈروں کی طرف سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی مذہبی شخصیات اور علامتوں کی توہین کرنا ایک تکلیف دہ معمول بن چکاہے۔ مساجد اور گرجا گھروں کو مسمارکیاجارہا ہے جس سے ملک کے سیکولر تانے بانے کوتباہ کیا گیا ہے۔ہیومن رائٹس واچ نے ماضی میں اقلیتوں کے تحفظ میں حکومت کی ناکامی کو اجاگر کرتے ہوئے بھارت کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی مذمت کی ہے۔ عالمی برادری کو مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے بھارت میں ہندوفسطائیت کو تسلیم کرنا اور اس کا جواب دینا چاہیے۔بھارت کے جمہوری اور سیکولر نظریات کا زوال جاری ہے۔رپورٹ میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مداخلت کریں اور اقلیتی برادریوں کے حقوق کی حفاظت کریں۔ دنیا کو بھارت میں مذہبی اقلیتوں پر مظالم کو تسلیم کرنا چاہیے اور بھارتی حکومت سے ان سلسلے میں ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کرنا چاہیے۔وزیر اعظم مودی کا بنیادی مقصدبھارت کو ایک ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا ہے جو ملک کے تنوع اور تکثیریت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارت میں ہندوتوا کے سائے میں غنڈہ راج وجود منگل 30 دسمبر 2025
بھارت میں ہندوتوا کے سائے میں غنڈہ راج

جنت یا دوزخ ۔۔۔؟ وجود منگل 30 دسمبر 2025
جنت یا دوزخ ۔۔۔؟

کرسمس پر سیاست:بستی بھی جلانی ہے اور ماتم بھی منانا ہے! وجود منگل 30 دسمبر 2025
کرسمس پر سیاست:بستی بھی جلانی ہے اور ماتم بھی منانا ہے!

چینی صدر اور ڈی این اے وجود منگل 30 دسمبر 2025
چینی صدر اور ڈی این اے

بھارت میں ٹرمپ لینڈ وجود منگل 30 دسمبر 2025
بھارت میں ٹرمپ لینڈ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر