... loading ...
بے لگام / ستار چوہدری
یہ صرف اشیاء کی فروخت نہیں
یہ تاریخ کی تقسیم ہے
ایک طرف
وہ لوگ
جو میز پر دستخط کرتے ہیں
اور دوسری طرف
وہ نسلیں
جن کے ہاتھ خالی رہ جاتے ہیں
نشئی
اپنے گھر کا سامان
بیچتے ہوئے
کسی کو آنکھ میں نہیں دیکھتا
ریاست بھی
قوم کی آنکھ سے
آنکھ نہیں ملاتی
کہا جاتا ہے
” یہ مجبوری ہے ”
مگر مجبوری
ہمیشہ کمزور کی ہوتی ہے
طاقتورہمیشہ فیصلہ کرتا ہے
ادارے
جب بکنے لگیں
تو صرف عمارتیں نہیں جاتیں
انصاف کی زبان
محنت کی قدر
اور خودداری کی آخری لکیر
بھی مٹ جاتی ہے
کتابوں میں لکھا جائے گا
” بحران تھا ”
مگر تاریخ کے حاشیے میں
یہ بھی لکھا ہوگا
” یہ بحران نہیں
کردار کی شکست تھی ”
نشئی اگر مر بھی جائے
تو صرف ایک گھر برباد ہوتا ہے
ریاست
اگر اپنا ضمیر بیچ دے
تو پوری قوم
یتیم ہو جاتی ہے
اور یتیم قومیں
نہ وراثت مانگتی ہیں
نہ حساب لیتی ہیں
بس
خاموشی اوڑھ کر
زندہ رہنے کی مشق کرتی ہیں
جب سب کچھ بک جائے گا
تو صرف ایک سوال بچے گا
کہ جو گھر ہم نے خود نیلام کیا
کیا اس کے ملبے پر
ہم واقعی
ریاست طیبہ بنانا چاہتے تھے ۔۔؟
یہ نظم کسی حکومت کے خلاف نہیںیہ اس سوچ کے خلاف ہے جو گھر بیچ کرخودکو مالک سمجھتی ہے ۔
نجکاری کوئی بُری چیز نہیں،دنیا بھر میں حکومتیں نجی اداروں سے مل کر ادارے چلا رہی ہیں،لیکن ایسے نہیں،جیسے ہم کرتے ہیں،نوازشریف نے میاں منشا کو ایم سی بی فروخت کیا تھا،ہزاروں سوالات اٹھے ، سب سے بڑا سوال،ایم سی بی سے ہی قرض لے کر ایم سی بی خرید لیا،پی ٹی سی ایل ایل منافع بخش ادارہ کیسے فروخت کیا گیا،غیرملکی کمپنی کو بغیر ادائیگی ایک اسٹریٹجک قومی ادارے کا کنٹرول دے دیا گیا تھا،پینتیس سال ہوگئے ،ابھی تک پوری رقم نہیں مل سکی،سمجھیں ایم سی بی اور پی ٹی سی ایل تحفے میں دے دیے گئے ۔ چند روز قبل ہی خواجہ آصف اینڈ کمپنی قوم کو خوشخبری سنا رہے تھے پی آئی اے نے 2024میں 26ارب کا منافع کمایا،64روٹس بحال ہوگئے ،اگر ادارے نے منافع کمانا شروع کردیا تھا،64روٹس بحال ہوگئے تھے توفروخت کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی ۔۔۔ ؟
عارف حبیب نے توخود بتادیا،حکومت کو10ارب دینے پڑے ،125ارب توپی آئی اے پرہی خرچ ہونگے ،اتنی تو ایک جہاز کی قیمت نہیں بنتی ،25فیصد شیئر باقی ہیں، وہ بھی90دن میں خرید لیے جائینگے ،تین ماہ تک مکمل پی آئی اے عارف حبیب گروپ کے پاس ہوگی،آٹھ عمارتیں ہیں، جن میں ایک بلیو ایریا میں ہے۔ 20ارب روپیہ پراویڈنٹ فنڈ پڑا ہے ، 10 ارب کے سپیئرپارٹس پڑے ہیں۔ قصہ مختصر،چھوٹے میاں نے اسی طرح پی آئی اے کو فروخت کیا جیسے بڑے میاں نے ایم سی بی کو فروخت کیا تھا،یہ ہوتا ہے وژن۔مبارکباد تو بنتی ہے ،سنا ہے ،اصل مالک تو کھاد بنانے والی کمپنی ہوگی،خیر !! مجھے تو یہ سن کو کوئی حیرانی نہیں ہوئی،ابن انشاء نے تو ایک عرصہ قبل بتادیا تھا۔۔!! جنگل تیرے ،پربت تیرے ،بستی تیری،صحرا تیرا۔۔۔
پی آئی اے کوئی عام ادارہ نہیں تھا، یہ ریاست کی شناخت تھا۔ ایک زمانہ تھا جب ایشیا، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کی کئی ایئرلائنز نے اڑنا پی آئی اے سے سیکھا۔ پی آئی اے کی فروخت میں سب سے بڑا سوال قیمت کا نہیں، نیت کا ہے ۔ اگر ادارہ واقعی ناقابلِ اصلاح تھا تو پھر دہائیوں تک اس میں سیاسی مداخلت کیوں جاری رہی؟ اگر نقصان ملازمین کی وجہ سے تھا تو حکمرانوں کے لگائے گئے منیجرز کا احتساب کیوں نہ ہوا؟ اور اگر خسارہ نااہلی کا نتیجہ تھا تو نااہلوں کو پالنے والا نظام آج بھی کیوں سلامت ہے ؟حیرت یہ ہے کہ حکومت نے پی آئی اے کو بیچتے وقت اسے قومی وقار نہیں بلکہ اسکریپ سمجھا۔ ایک ایسی ایئرلائن جس کے روٹس، برانڈ ویلیو، لینڈنگ رائٹس اور اثاثے موجود تھے ، اسے قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر سستے داموں پیش کیا گیا ،بالکل ویسے ہی جیسے گھر کا مالک خود سامان توڑ کر پھر رونے لگے کہ قیمت نہیں مل رہی۔
یہ فروخت دراصل ادارے کی نہیں، ریاستی ناکامی کی رسید ہے ۔ کیونکہ ریاست اگر ادارہ نہیں چلا سکتی تو سوال ادارے پر نہیں، ریاست پر اٹھتا ہے ۔ پہلے ایم سی بی،پی ٹی سی ایل کسی کو تحفے میں دے دیے ،اب پی آئی اے دے دی،کل کوا سٹیل ملز،پھر ریلوے ۔ پھر بندرگاہیں ۔ ۔ ۔ بات تو تلخ ،لیکن حقیقت یہی۔جہاں ریاست کے اختیارات نیلام ہوچکے ہوں ،وہاں پی آئی اے ،پی ٹی سی ایل،ایم سی بی،اسٹیل ملز، ریلوے ،بندرگاہوں کی کیا حیثیت ہے ۔۔۔ ؟
پی آئی اے کی فروخت ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ ادارہ ناکام تھا، بلکہ یہ بتاتی ہے کہ نظام دیوالیہ ہو چکا ہے ۔
٭٭٭