وجود

... loading ...

وجود

تاریخ کے زخم

اتوار 28 دسمبر 2025 تاریخ کے زخم

محمد آصف

دنیا کی تاریخ انسانی کامیابیوں اور ترقیوں کے ساتھ ساتھ ایسے تلخ زخموں سے بھی بھری پڑی ہے جو قوموں کے دلوں میں ہمیشہ تازہ رہتے ہیں۔ جنگیں، نسلی تنازعات، سیاسی بدامنی، سامراجی قبضے ، ظلم و جبر، اور انسانی حقوق کی پامالیاں وہ زخم ہیں جو وقت کے ساتھ بھر تو جاتے ہیں، مگر ان کے نشان صدیوں تک باقی رہتے ہیں۔ ان زخموں سے پیدا ہونے والی تلخی، نفرت اور بداعتمادی نسلوں تک منتقل ہوتی رہتی ہے ، مگر انہی تاریکیوں میں امن کی روشنی بھی جنم لیتی ہے ۔ ایسی روشنی جو انسانیت کو نئی شروعات، معافی، ہم آہنگی اور پائیدار امن کی طرف لے جاتی ہے ۔ آج دنیا کو جس سب سے بڑی ضرورت کا سامنا ہے وہ یہی ہے کہ ماضی کے زخموں کو سمجھا جائے ، ان سے سیکھا جائے ، اور مستقبل کے لیے وہ راستہ اختیار کیا جائے جس میں انسانیت کی بقا اور امن کی مسلسل جستجو شامل ہو۔
تاریخ کے زخم صرف جسموں پر نہیں لگتے ، بلکہ یہ ذہنوں، اخلاقیات، اجتماعی شعور اور قوموں کی نفسیات پر گہرے اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ برصغیر کی تقسیم ہو یا فلسطین کا مسئلہ، کشمیر کی جدوجہد ہو یا برما کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم یہ سب مثالیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ظلم کا ایک لمحہ نسلوں کے لیے درد بن جاتا ہے ۔ ایسے زخم انسانی ذہن میں انصاف کی تلاش اور آزادی کی خواہش کو جنم دیتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان زخموں کو کس طرح بھرا جائے ؟ کیا صرف وقت کا گزرنا کافی ہے ؟ نہیں۔ زخم وقت سے نہیں، انصاف، مکالمے ، سمجھوتے ، انسانی
ہمدردی اور اجتماعی شعور کے بیدار ہونے سے بھرتے ہیں۔
امن کی کرن اسی وقت پھوٹتی ہے جب قومیں ماضی کی تلخیوں کو محض تاریخ کے صفحات تک محدود کرنے کے بجائے انہیں مستقبل کے لیے رہنما اصول بنا لیں۔ امن کا آغاز اس لمحے سے ہوتا ہے جب انسان نفرت کے مقابلے میں محبت کو چنتا ہے ، انتقام کے مقابلے میں معافی کو ترجیح دیتا ہے ، اور طاقت کے مقابلے میں انصاف کے اصول کو مقدم رکھتا ہے ۔ دنیا کے کئی خطوں میں طویل جنگوں کے بعد امن اسی وقت قائم ہوا جب دشمن قوموں نے ایک دوسرے کے دکھ کو سمجھا، مظلوموں کے قصے سنے ، اور حقیقت کا سامنا کیا۔ جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا نے نسلی امتیاز کے زخموں کو مٹانے کے لیے جس ”سچائی اور مصالحت کمیشن”کی بنیاد رکھی، وہ ایک عملی مثال ہے کہ امن تبھی آتا ہے جب قومیں دلوں سے نفرت کا بوجھ اتارنے کا فیصلہ کرتی ہیں۔
پاکستان بھی ایک ایسی ریاست ہے جس نے قیام کے فوراً بعد ہی بے شمار زخم دیکھے ۔ لاکھوں مہاجرین کا قتل عام، گھروں کا جل جانا، ماؤں کے سروں سے چادروں کا اتر جانا یہ سب زخم پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ مگر ان زخموں کے باوجود پاکستانی قوم نے امید کا دامن نہیں چھوڑا۔ یہی امن کی کرن تھی جس نے لوگوں کو دوبارہ اپنے گھروں، شہروں اور معاشرے کی تعمیر کے لیے کھڑا کیا۔ اس کرن نے ثابت کیا کہ انسانیت کا اصل حسن صبر، قربانی، برداشت اور مصالحت میں ہے ۔ لیکن پاکستان کی تاریخ میں داخلی اور خارجی چیلنج بھی کم نہیں رہے ۔ جنگیں، دہشت گردی، سیاسی انتشار اور مذہبی انتہا پسندی نے بار بار قوم کے اجتماعی احساس کو زخمی کیا۔ تاہم، پاکستانی قوم نے ہر مشکل کے بعد دوبارہ اٹھ کر امن کی طرف بڑھنے کی کوشش کی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ امن کی تمنا انسان کی فطرت میں رچی بسی ہے ۔
آج کا دور دنیا کے لیے ایک نئے فکری چیلنج کا دور ہے ۔ ایک طرف جدید ٹیکنالوجی اور ترقی نے قوموں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے ، مگر دوسری طرف اختلافات، غلط معلومات، شدت پسندی اور عالمی طاقتوں کی سیاست نے نئی نوعیت کے تضادات پیدا کر دیے ہیں۔ امن کا سفر پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے ، لیکن ناممکن نہیں۔ دنیا کو آج پہلے سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ ماضی کے زخموں کو صرف تاریخی المناک واقعات کے طور پر نہ دیکھے ، بلکہ ان سے سبق لے کر مستقبل کی نئی راہیں بنائے ۔ عالمی برادری کو ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں جو ظلم کے شکار افراد کو انصاف اور تحفظ دے سکیں، تاکہ دنیا ایک بار پھر خونریزی کے چکر میں نہ پھنسے ۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی عوام دہائیوں سے جمہوریت اور آمریت کے درمیان جھولتی رہی ہے ، اور اسی سیاسی بے یقینی نے قوم کو گہرے زخم دیے ہیں۔ ڈکٹیٹروں کے بلند و بانگ، کھوکھلے اور رنگ برنگے نعروں نے وقتی طور پر تو عوام کو امید دلائی، مگر انجام ہمیشہ مایوسی، سیاسی انتشار اور ادارہ جاتی بگاڑ کی صورت میں نکلا۔ جمہوریت کا راستہ بار بار روک کر جو تجربات کیے گئے ، انہوں نے نہ صرف ریاستی ڈھانچے کو کمزور کیا بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی شدید متاثر کیا۔
آج پاکستان کے لوگوں کے دل ان زخموں سے چور چور ہیں جنہیں جھوٹے وعدوں، غیر حقیقی نعروں اور اقتدار کی ہوس نے دیا۔ قوم اب ایسے سیاسی عمل کی متقاضی ہے جو شفاف، قانونی، آئینی اور حقیقی عوامی نمائندگی پر مبنی ہو، تاکہ مستقبل میں سیاسی استحکام اور ترقی کی راہ ہموار ہو سکے ۔
پاکستان کا موجودہ کرپٹ سیاسی نظام عوام کے لیے ایسے نہ ختم ہونے والے زخم چھوڑ گیا ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ کرپشن نے ریاستی اداروں کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے ، قانون کی حکمرانی کمزور پڑ گئی ہے اور میرٹ کا تصور مٹتا جا رہا ہے۔ طاقت ور طبقے وسائل پر قابض ہیں جبکہ عام شہری بنیادی سہولیات سے محروم رہتا ہے ۔ بدعنوانی نے عوام کے اعتماد کو چکنا چور کر دیا ہے ، نوجوان مایوسی کا شکار ہیں اور سماج تقسیم در تقسیم ہو چکا ہے ۔ ترقیاتی منصوبے کمیشنوں کی نذر ہوتے ہیں، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبے عدم
توجہی کا شکار رہتے ہیں، اور قوم معاشی دلدل میں مزید دھنس رہی ہے ۔ عوام ان زخموں کے ساتھ جینے پر مجبور ہیں جو اس کرپٹ نظام نے دیے ۔ایسے زخم جو صرف اس وقت بھر سکتے ہیں جب شفافیت، انصاف اور ایمانداری پر مبنی حقیقی سیاسی اصلاحات نافذ ہوں۔
امن کی کرن کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ قومیں اپنی نئی نسل کی تربیت اس طرح کریں کہ وہ نفرت کے بجائے انسانیت کو مقدم رکھیں۔ نصابِ تعلیم، میڈیا اور قومی بیانیہ اس طرح تشکیل دیا جائے کہ نوجوان ماضی کے زخموں سے آگاہ ہوں لیکن ان کے ذہنوں میں انتقام کے بجائے امن، ہم آہنگی اور برداشت کی اقدار پروان چڑھیں۔ جب نئی نسل جذبات سے نہیں بلکہ شعور سے فیصلے کرے گی، تو دنیا میں پائیدار امن ممکن ہوگا۔ پاکستان میں بھی نوجوانوں کو عالمی امن، معاشرتی ہم آہنگی، مذہبی رواداری اور عدل و انصاف کی بنیاد پر تربیت دینا ایک اہم ضرورت بن چکی ہے ۔
آخر میں، امن کی کرن اور تاریخ کے زخم ہمیں ایک بنیادی حقیقت کا درس دیتے ہیں: انسانیت کا مستقبل اسی وقت روشن ہو سکتا ہے جب ہم ماضی کی تلخیوں کو دبائیں نہیں بلکہ سمجھیں، ان پر مکالمہ کریں، انہیں انصاف کی روشنی میں دیکھیں، اور پھر مستقبل کی سمت نئے راستے تلاش کریں۔ ظلم و جبر کے زخم چاہے کتنے ہی گہرے کیوں نہ ہوں، امن کی روشنی ہمیشہ غالب آتی ہے ۔ یہ روشنی محبت، معافی، عدل، ہمدردی اور انسانی شعور سے پھوٹتی ہے ۔ دنیا کو آج اسی روشنی کی ضرورت ہے تاکہ نسلِ انسانی ایک بہتر، محفوظ اور روشن مستقبل کی جانب قدم بڑھا سکے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
پنجاب کی انگڑائی وجود اتوار 28 دسمبر 2025
پنجاب کی انگڑائی

تاریخ کے زخم وجود اتوار 28 دسمبر 2025
تاریخ کے زخم

بھارتی مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی وجود اتوار 28 دسمبر 2025
بھارتی مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی

میرے فکری اُستادڈاکٹر منظور احمد۔۔۔چند یادیں وجود اتوار 28 دسمبر 2025
میرے فکری اُستادڈاکٹر منظور احمد۔۔۔چند یادیں

بانی پی ٹی آئی 17سالہ سزاکے بعد وجود هفته 27 دسمبر 2025
بانی پی ٹی آئی 17سالہ سزاکے بعد

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر