... loading ...
محمد آصف
دنیا کی تاریخ انسانی کامیابیوں اور ترقیوں کے ساتھ ساتھ ایسے تلخ زخموں سے بھی بھری پڑی ہے جو قوموں کے دلوں میں ہمیشہ تازہ رہتے ہیں۔ جنگیں، نسلی تنازعات، سیاسی بدامنی، سامراجی قبضے ، ظلم و جبر، اور انسانی حقوق کی پامالیاں وہ زخم ہیں جو وقت کے ساتھ بھر تو جاتے ہیں، مگر ان کے نشان صدیوں تک باقی رہتے ہیں۔ ان زخموں سے پیدا ہونے والی تلخی، نفرت اور بداعتمادی نسلوں تک منتقل ہوتی رہتی ہے ، مگر انہی تاریکیوں میں امن کی روشنی بھی جنم لیتی ہے ۔ ایسی روشنی جو انسانیت کو نئی شروعات، معافی، ہم آہنگی اور پائیدار امن کی طرف لے جاتی ہے ۔ آج دنیا کو جس سب سے بڑی ضرورت کا سامنا ہے وہ یہی ہے کہ ماضی کے زخموں کو سمجھا جائے ، ان سے سیکھا جائے ، اور مستقبل کے لیے وہ راستہ اختیار کیا جائے جس میں انسانیت کی بقا اور امن کی مسلسل جستجو شامل ہو۔
تاریخ کے زخم صرف جسموں پر نہیں لگتے ، بلکہ یہ ذہنوں، اخلاقیات، اجتماعی شعور اور قوموں کی نفسیات پر گہرے اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ برصغیر کی تقسیم ہو یا فلسطین کا مسئلہ، کشمیر کی جدوجہد ہو یا برما کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم یہ سب مثالیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ظلم کا ایک لمحہ نسلوں کے لیے درد بن جاتا ہے ۔ ایسے زخم انسانی ذہن میں انصاف کی تلاش اور آزادی کی خواہش کو جنم دیتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان زخموں کو کس طرح بھرا جائے ؟ کیا صرف وقت کا گزرنا کافی ہے ؟ نہیں۔ زخم وقت سے نہیں، انصاف، مکالمے ، سمجھوتے ، انسانی
ہمدردی اور اجتماعی شعور کے بیدار ہونے سے بھرتے ہیں۔
امن کی کرن اسی وقت پھوٹتی ہے جب قومیں ماضی کی تلخیوں کو محض تاریخ کے صفحات تک محدود کرنے کے بجائے انہیں مستقبل کے لیے رہنما اصول بنا لیں۔ امن کا آغاز اس لمحے سے ہوتا ہے جب انسان نفرت کے مقابلے میں محبت کو چنتا ہے ، انتقام کے مقابلے میں معافی کو ترجیح دیتا ہے ، اور طاقت کے مقابلے میں انصاف کے اصول کو مقدم رکھتا ہے ۔ دنیا کے کئی خطوں میں طویل جنگوں کے بعد امن اسی وقت قائم ہوا جب دشمن قوموں نے ایک دوسرے کے دکھ کو سمجھا، مظلوموں کے قصے سنے ، اور حقیقت کا سامنا کیا۔ جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا نے نسلی امتیاز کے زخموں کو مٹانے کے لیے جس ”سچائی اور مصالحت کمیشن”کی بنیاد رکھی، وہ ایک عملی مثال ہے کہ امن تبھی آتا ہے جب قومیں دلوں سے نفرت کا بوجھ اتارنے کا فیصلہ کرتی ہیں۔
پاکستان بھی ایک ایسی ریاست ہے جس نے قیام کے فوراً بعد ہی بے شمار زخم دیکھے ۔ لاکھوں مہاجرین کا قتل عام، گھروں کا جل جانا، ماؤں کے سروں سے چادروں کا اتر جانا یہ سب زخم پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ مگر ان زخموں کے باوجود پاکستانی قوم نے امید کا دامن نہیں چھوڑا۔ یہی امن کی کرن تھی جس نے لوگوں کو دوبارہ اپنے گھروں، شہروں اور معاشرے کی تعمیر کے لیے کھڑا کیا۔ اس کرن نے ثابت کیا کہ انسانیت کا اصل حسن صبر، قربانی، برداشت اور مصالحت میں ہے ۔ لیکن پاکستان کی تاریخ میں داخلی اور خارجی چیلنج بھی کم نہیں رہے ۔ جنگیں، دہشت گردی، سیاسی انتشار اور مذہبی انتہا پسندی نے بار بار قوم کے اجتماعی احساس کو زخمی کیا۔ تاہم، پاکستانی قوم نے ہر مشکل کے بعد دوبارہ اٹھ کر امن کی طرف بڑھنے کی کوشش کی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ امن کی تمنا انسان کی فطرت میں رچی بسی ہے ۔
آج کا دور دنیا کے لیے ایک نئے فکری چیلنج کا دور ہے ۔ ایک طرف جدید ٹیکنالوجی اور ترقی نے قوموں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے ، مگر دوسری طرف اختلافات، غلط معلومات، شدت پسندی اور عالمی طاقتوں کی سیاست نے نئی نوعیت کے تضادات پیدا کر دیے ہیں۔ امن کا سفر پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے ، لیکن ناممکن نہیں۔ دنیا کو آج پہلے سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ ماضی کے زخموں کو صرف تاریخی المناک واقعات کے طور پر نہ دیکھے ، بلکہ ان سے سبق لے کر مستقبل کی نئی راہیں بنائے ۔ عالمی برادری کو ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں جو ظلم کے شکار افراد کو انصاف اور تحفظ دے سکیں، تاکہ دنیا ایک بار پھر خونریزی کے چکر میں نہ پھنسے ۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی عوام دہائیوں سے جمہوریت اور آمریت کے درمیان جھولتی رہی ہے ، اور اسی سیاسی بے یقینی نے قوم کو گہرے زخم دیے ہیں۔ ڈکٹیٹروں کے بلند و بانگ، کھوکھلے اور رنگ برنگے نعروں نے وقتی طور پر تو عوام کو امید دلائی، مگر انجام ہمیشہ مایوسی، سیاسی انتشار اور ادارہ جاتی بگاڑ کی صورت میں نکلا۔ جمہوریت کا راستہ بار بار روک کر جو تجربات کیے گئے ، انہوں نے نہ صرف ریاستی ڈھانچے کو کمزور کیا بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی شدید متاثر کیا۔
آج پاکستان کے لوگوں کے دل ان زخموں سے چور چور ہیں جنہیں جھوٹے وعدوں، غیر حقیقی نعروں اور اقتدار کی ہوس نے دیا۔ قوم اب ایسے سیاسی عمل کی متقاضی ہے جو شفاف، قانونی، آئینی اور حقیقی عوامی نمائندگی پر مبنی ہو، تاکہ مستقبل میں سیاسی استحکام اور ترقی کی راہ ہموار ہو سکے ۔
پاکستان کا موجودہ کرپٹ سیاسی نظام عوام کے لیے ایسے نہ ختم ہونے والے زخم چھوڑ گیا ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ کرپشن نے ریاستی اداروں کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے ، قانون کی حکمرانی کمزور پڑ گئی ہے اور میرٹ کا تصور مٹتا جا رہا ہے۔ طاقت ور طبقے وسائل پر قابض ہیں جبکہ عام شہری بنیادی سہولیات سے محروم رہتا ہے ۔ بدعنوانی نے عوام کے اعتماد کو چکنا چور کر دیا ہے ، نوجوان مایوسی کا شکار ہیں اور سماج تقسیم در تقسیم ہو چکا ہے ۔ ترقیاتی منصوبے کمیشنوں کی نذر ہوتے ہیں، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبے عدم
توجہی کا شکار رہتے ہیں، اور قوم معاشی دلدل میں مزید دھنس رہی ہے ۔ عوام ان زخموں کے ساتھ جینے پر مجبور ہیں جو اس کرپٹ نظام نے دیے ۔ایسے زخم جو صرف اس وقت بھر سکتے ہیں جب شفافیت، انصاف اور ایمانداری پر مبنی حقیقی سیاسی اصلاحات نافذ ہوں۔
امن کی کرن کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ قومیں اپنی نئی نسل کی تربیت اس طرح کریں کہ وہ نفرت کے بجائے انسانیت کو مقدم رکھیں۔ نصابِ تعلیم، میڈیا اور قومی بیانیہ اس طرح تشکیل دیا جائے کہ نوجوان ماضی کے زخموں سے آگاہ ہوں لیکن ان کے ذہنوں میں انتقام کے بجائے امن، ہم آہنگی اور برداشت کی اقدار پروان چڑھیں۔ جب نئی نسل جذبات سے نہیں بلکہ شعور سے فیصلے کرے گی، تو دنیا میں پائیدار امن ممکن ہوگا۔ پاکستان میں بھی نوجوانوں کو عالمی امن، معاشرتی ہم آہنگی، مذہبی رواداری اور عدل و انصاف کی بنیاد پر تربیت دینا ایک اہم ضرورت بن چکی ہے ۔
آخر میں، امن کی کرن اور تاریخ کے زخم ہمیں ایک بنیادی حقیقت کا درس دیتے ہیں: انسانیت کا مستقبل اسی وقت روشن ہو سکتا ہے جب ہم ماضی کی تلخیوں کو دبائیں نہیں بلکہ سمجھیں، ان پر مکالمہ کریں، انہیں انصاف کی روشنی میں دیکھیں، اور پھر مستقبل کی سمت نئے راستے تلاش کریں۔ ظلم و جبر کے زخم چاہے کتنے ہی گہرے کیوں نہ ہوں، امن کی روشنی ہمیشہ غالب آتی ہے ۔ یہ روشنی محبت، معافی، عدل، ہمدردی اور انسانی شعور سے پھوٹتی ہے ۔ دنیا کو آج اسی روشنی کی ضرورت ہے تاکہ نسلِ انسانی ایک بہتر، محفوظ اور روشن مستقبل کی جانب قدم بڑھا سکے ۔
٭٭٭