... loading ...
جہان دیگر
۔۔۔۔۔۔
زریں اختر
پہلی ملاقات ،پہلاسوال: حقیقت کسے کہتے ہیں؟
ڈاکٹر صاحب : کس چیز کی حقیقت ؟ اس میز کی حقیقت،(گلاس میں رکھے پانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اس پانی کی حقیقت۔ کسی چیز کی حقیقت ایک سے زائد ہوتی ہیں مثلاً اس میز کی ایک حقیقت تو یہ ہے کہ یہ لکڑی سے بنی ہے اور ایک حقیقت یہ کہ یہ لکھنے پڑھنے کے کام آتی ہے ،اس پانی کی ایک حقیقت یہ کہ یہ آکسیجن اور ہائیڈروجن سے مل کر بنا ہے اور ایک یہ کہ زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے ،اشیاء کی کئی حقیقتیں ہوتی ہیں۔
اس جواب کو سننے کے بعد حقیقت کی کھوج سے متعلق اگلی بات کئی برس بعد کی کہ جب ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ حقیقت کسے کہتے ہیں تو اس کا مطلب میز یا پانی کی حقیقت جاننے سے متعلق نہیں ہوتا بلکہ اس کا مطلب ہوتاہے کائنات کی حقیقت،ذات (انسان) کی حقیقت اور وجود(خالق) کی حقیقت، ڈاکٹر صاحب نے اس بات سے اتفاق کیا،شاید دل میں سوچا ہو کہ اس کو خود اپنے سوال کا مطلب اب سمجھ میں آیا۔ اور اس کے بھی کئی سال بعدڈاکٹر صاحب کی کتاب ”اسلام ، چند فکری مسائل” کا آخری باب بعنوان ”خدا” زیرِ مطالعہ ہے۔
اُن دنوں ڈاکٹر صاحب عثمان انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی(یو آئی ٹی) کی تعمیر میں مصروف تھے، ادارہ قائم ہوگیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بلامعاوضہ اپنا وقت اس ادارے کو بنانے میں دیا۔ڈیفنس میں اپنے گھر گفتگو میں اس استفسار پر کہ اب آپ یو آئی ٹی نہیں جاتے ، ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ عثمان میرا شاگرد تھا ، وہ نیپا سے گھوڑے پر سوار ہوکر جامعہ کراچی کیمپس اتوار کی صبح ملنے آتا تھا،ساتھ ناشتا کرتاتھا ، ایک دن وہ گھوڑے سے گر کر جاں بحق ہوگیا۔ اس کے لواحقین میرے پاس آئے اور کہا کہ یہ زمین ہے، آپ اس کے نام سے یہ ادارہ بنائیں اور آپ ہی چلائیں، یہ سب زبانی طے ہوا ۔ اور پھر ایک دن وہ آیا جب عثمان کے لواحقین ڈاکٹر صاحب کے دفتر آئے اور ڈاکٹر صاحب وہاں سے اپنا بریف کیس اٹھا کر گھر آگئے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر کے متعلق ڈاکٹر منظور احمد کاخیال تھا کہ وہ نرگسیت کا شکار ہوگئے ہیں۔ وہ کسی جگہ گئے تو وہاں ڈاکٹر عبدالقدیر کی قد ِآدم تصویر آویزاں تھیں، انہوں نے کہا کہ میں نے مسکراتے ہوئے پہلے دائیں طرف اور پھر بائیں طرف موجود اصحاب کی جانب دیکھا تو ان کے چہروں پر بھی مسکراہٹ تھی ۔ وہ وقت جب ڈاکٹر عبدالقدیر کو ان کے گھر نظر بند کردیا گیا تھا، ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ” مجھے کچھ اطلاعات تھیں کہ ایسا کچھ ہونے جارہا ہے ،میں اپنے ذاتی خرچے پر اسلام آباد گیا اور ان سے یہ کہنے کہ آپ ملک سے چلے جائیں ،لیکن وہ نہیں مانے ،شاید ان کو یقین نہیں تھا کہ ان کے ساتھ ایسا کچھ کیا جاسکتاہے۔
ایک مرتبہ انہوں نے بتایا کہ زرداری سے میرا براہِ راست رابطہ ہے ۔ نواز شریف کے مقابلے میں شہباز شریف کو معقول سمجھتے تھے ، محمود قریشی کے متعلق انہوں نے کہا کہ وہ تیز آدمی ہے، عمران خان ان کے نزدیک بد عنوان نہیں ۔ایم کیو ایم کے رہنما ان سے ملنے آئے تو انہوں نے مشورہ دیاکہ اس جماعت کا نام مہاجر قومی موومنٹ درست نہیں ۔ مشرف صاحب سے ملاقات میں (اب مجھے وہ بات یاد نہیں جو ڈاکٹر صاحب نے کہی تھی) لیکن ڈاکٹر صاحب نے چودھری شجاعت حسین کے بولنے کی نقل اتارتے ہوئے بتایا کہ اس نے میری بات سے اختلاف کیا تو تھوڑی دیر بعد پرویز مشرف نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب صحیح تو کہہ رہے ہیں۔مجھے ڈاکٹر صاحب کے اس طرح نقل اتارنے پر خوش گوار حیرت ہوئی۔
ایک مرتبہ وہ مولانا مودودی سے ملنے گئے ۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں آدھا ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑا اور ملاقات میں مولانا صاحب نے پانچ دس منٹ دیے تو اس کے بعد میں نے دوبار ہ ان سے ملاقات کی کوشش نہیں کی ۔ ان دنوں ڈاکٹر پیرزادہ قاسم جامعہ کراچی کے شیخ الجامعہ کے طور پر اپنا دوسرا دورگزار رہے تھے جب ڈاکٹر صاحب سے ملنے یو آئی ٹی آئے ۔ مجھ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے بتایاکہ وہ کہہ رہے تھے کہ میں یہ کروں گا ، میں وہ کروں گا، میں نے کہا کہ ضرور کریں ،آ پ کو یہ سب ضرور کرنا چاہیے۔ اور ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے کہا کہ اب تک ان کو یہ سب کرلینا چاہیے تھا،پتا نہیںکب کریں گے۔
ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کے دور میں ایک سلیکشن بورڈ میں پیرزادہ قاسم صاحب نے مجھ سے کہا کہ(الفاظ مختلف ہوسکتے ہیںمطلب وہی ہے) اب نتائج کا نظام تبدیل ہوگیا ہے ۔ میں نے یہ بات ڈاکٹر صاحب کو بتائی تو انہوں نے کہا کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ پہلے اوزان مختلف تھے اب مختلف ہیں، پہلے سیر تھا اب کلو،اسی طرح جب گریڈ اور ڈویژن تھے تو ان کو اس وقت کے حساب سے دیکھا جائے گا ناکہ آج کے حساب سے۔
ایک مرتبہ گئی تو بتانے لگے کہ ان کی جامعہ کے ایک ہم کار ملنے آئے تھے ، وہ حج پر جارہے تھے او ر ڈاکٹر صاحب سے یہ کہنے آئے تھے کہ اگر ان کی کسی بات یا کسی عمل سے ڈاکٹر صاحب کی دل آزاری ہوئی ہوتو،ڈاکٹر صاحب بتانے لگے کہ اس وقت یہ میرے خلاف وائس چانسلر کو خطوط لکھا کرتے تھے ،میں نے ان سے کہا کہ نہیں نہیں آپ کے لیے میرے دل میں ایسی کوئی بات نہیں،اور پھر ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ میں نے اپنے دل میں کہا کہ آپ جائیں اور پاک صاف ہوکر آجائیں ۔
ہمارے شعبے میں بھی پرچہ بازی (شکایتی خط) بہت ہوتی تھی ۔ کہنے لگے اس کا اثر ہمیشہ برعکس ہوتاہے ، لوگوں سے کام لینے کا طریقہ یہ نہیں کہ ان خلاف خطوط لکھے جائیں، انہوں نے بتایا کہ جب وہ جامعہ کراچی میں رئیس کلیہ فنون تھے تو وہ لوگوں کو بلاتے تھے اور کہتے تھے کہ مجھے اس کام کے لیے آ پ ہی موزوں معلوم ہوتے ہیں، وہ خوش بھی ہوجاتے تھے اور کام بھی ہوجاتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ جب بہ حیثیت رئیس کلیہ فنون ان کی دور ختم ہوا تو وہاں کا عملہ باقاعدہ رو رہا تھا۔
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر کا دور ختم ہوا تو بتایا کہ میں پہلے سے عہدے کی منتقلی کا خط بنو ا کے دراز میں رکھ لیتا ہوں ، ڈاکٹر فتح محمد ملک ایک دن پہلے ہی آگئے ، وہ سمجھ رہے ہوں گے کہ ایسا نہ ہو فیصلے میں کچھ تبدیلی ہوجائے ، وہ دفتر آئے اور میں نے دراز سے خط نکال کران کو دے دیا۔
ڈاکٹر صاحب کا کہامیرا عمل بنا۔ لوگ دھڑا دھڑ پی ایچ ڈی کررہے تھے ۔ بیدل لائبریری میں ایک صاحب نے کہا کہ تحقیق تو اِن تحقیقات پر ہونی چاہئیں ۔ میں نے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے غرض سے اپنے کمپیوٹر پر کسی کا پی ایچ ڈی مقالہ ڈائون لوڈ کرلیا ۔ پھر ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی اور یہ خیال ان کے گوش گزار کیا ۔ انہوں نے کہا کہ جوجو کر رہا ہے اسے کرنے دو ، انسان کو صرف اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے۔
ان کے خیال میں ڈاکٹر عطاء الرحمن نے ہائر ایجوکیشن کمیشن بنا کر تعلیم کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ الٹا ایک دوڑ مچوا دی۔
ایک معاملے کے بیان پر انہوں نے کہا کہ میں جھگڑے کی کسی چیز میں نہیں پڑتا۔ میں نے کہا کہ اپنے حق کے لیے بھی نہیں،انہوں نے جواب دیا کہ نہیں،میں نے کہا کہ یہ آپ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ آپ ڈیفنس میں بیٹھے ہیں اور باہر دو گاڑیاں کھڑی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ میرے پاس نہیں ہوتا میں تب بھی جھگڑا نہ کرتا۔
کوئی ڈاکٹر صاحب کے ایسا کہنے پر یقین کرے یا نہ کرے ،میرا ان کے کہے پر ایمان ہے۔
٭٭٭