وجود

... loading ...

وجود

پاکستان میں عدلیہ :کامیابیوں اور ناکامیوں کا ملا جلا سفر

جمعه 05 دسمبر 2025 پاکستان میں عدلیہ :کامیابیوں اور ناکامیوں کا ملا جلا سفر

محمد آصف

اختیارات کی تقسیم جدید جمہوری طرزِ حکمرانی کا بنیادی ستون ہے ۔ اس نظریے کے مطابق ریاست کی تینوں شاخیں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ایک دوسرے سے الگ مگر باہمی ہم آہنگی کے ساتھ کام کرتی ہیں تاکہ طاقت کا ارتکاز کسی ایک ادارے کے ہاتھ میں نہ ہونے پائے اور شہریوں کے حقوق ایک غیر جانب دار اور خودمختار عدلیہ کے ذریعے محفوظ رہیں۔ پاکستان کے تناظر میں اختیارات کی تقسیم کی تاریخ
نہایت پیچیدہ اور نشیب و فراز سے بھری ہوئی ہے ۔ قیامِ پاکستان سے آج تک عدلیہ کی آزادی کا سفر سیاسی عدم استحکام، آئینی بحرانوں اور بار بار آنے والی فوجی آمریتوں کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے ۔ اس تاریخ کو سمجھنا پاکستان کی جمہوری ترقی اور ادارہ جاتی توازن کے مسائل کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے ۔
1947 میں پاکستان نے برطانوی کالونی کے دور کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کو اپنے عبوری آئینی ڈھانچے کے طور پر اپنایا، مگر یہ قانون جدید جمہوری چیک اینڈ بیلنس اور عدلیہ کی حقیقی آزادی فراہم نہیں کرتا تھا۔ ملک کے ابتدائی برسوں میں قیادت کو ریاست کی تنظیم، مہاجرین کی آباد کاری، اور معاشی مسائل نے گھیر رکھا تھا، جس کے سبب مضبوط آئینی اداروں کی تعمیر پر خاطر خواہ توجہ نہ دی جا سکی۔ عدلیہ ان سالوں میں محدود کردار ادا کر رہی تھی، اور اسے وہ آئینی اختیارات حاصل نہ تھے جو اسے مکمل طور پر خودمختار بنا سکتے تھے ۔ اسی سیاسی ناپختگی کے دور میں ملک کی پہلی بڑی آئینی اور عدالتی آزمائش سامنے آئی، جس نے مستقبل کی سول ملٹری سیاست کا رخ متعین کیا۔
مولوی تمیز الدین کیس (1954) پاکستان کی آئینی تاریخ کا پہلا بڑا موڑ تھا۔ جب گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کیا تو اس غیر آئینی اقدام کو سپریم کورٹ نے ، چیف جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں، درست قرار دے دیا۔ عدالت نے اس فیصلے کو ”نظریہ ضرورت”کے نام پر جواز فراہم کیا، جس نے مقننہ کی بالادستی اور عدلیہ کی خودمختاری کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس فیصلے نے ایک خطرناک مثال قائم کی یہ کہ غیر آئینی اقدامات بھی ”ضرورت”کے تحت جائز قرار دیے جا سکتے ہیں۔ یہی نظریہ بعد کی فوجی مداخلتوں کے لیے قانونی سہارا بنتا رہا اور اختیارات کی تقسیم مستقل طور پر متاثر ہوتی رہی۔1958، 1977اور 1999کی فوجی بغاوتوں نے پاکستان کے آئینی ڈھانچے کو بار بار نقصان پہنچایا، اور ہر دور میں عدلیہ کے سامنے یہ امتحان آیا کہ وہ جمہوریت کا ساتھ دے یا طاقتور قوتوں کے دباؤ میں آئے ۔ اکثر مواقع پر عدلیہ نے نظریۂ ضرورت کے تحت فوج کے اقدامات کو جائز قرار دیا۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز
مشرف تینوں ادوار میں عدالتوں نے مارشل لا کو قانونی حیثیت دی، جس سے عدلیہ کی آزادی پر سوالات اٹھے اور اختیارات کی تقسیم کمزور
ہوئی۔ تاہم عدلیہ ہمیشہ کمزور نہیں رہی۔ وقت گزرنے کے ساتھ عدلیہ نے کئی مواقع پر اپنی خودمختاری کااظہار بھی کیا۔ 1973 کا آئین عدلیہ کی آزادی کے لیے ایک سنگِ میل ثابت ہوا۔ اس آئین نے عدلیہ کو ایک الگ اور بااختیار ستون کے طور پر تسلیم کیا، اس کے اختیارات واضح کیے ، اور بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے سپریم کورٹ کو اصل دائرہ اختیار عطا کیا۔ یوں عدلیہ پہلی بار ایک آئینی محافظ کے طور پر سامنے آئی۔1990کی دہائی میں جب بار بار منتخب حکومتیں برطرف ہو رہی تھیں، عدلیہ نے کبھی کبھی انتظامیہ کے خلاف کھڑے ہوکر اپنی خودمختاری دکھائی۔ 1993 میں سپریم کورٹ نے تحلیل شدہ اسمبلی کو بحال کر کے حکومتِ وقت کو چیلنج کیا، جو عدلیہ کے خودمختار کردار کی ایک اہم مثال تھی۔ مگر اس کے باوجود عدالتی ادارے سیاسی دباؤ سے پوری طرح آزاد نہ ہو سکے ۔
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سب سے اہم موڑ 2007 کی وکلاء تحریک تھی۔ جب جنرل مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے استعفیٰ طلب کیا اور انہوں نے انکار کردیا، تو پورے ملک میں وکلاء اور سول سوسائٹی نے ایک تاریخی تحریک شروع کر دی۔ یہ تحریک نہ صرف چیف جسٹس کی بحالی پر منتج ہوئی بلکہ پہلی بار عدلیہ عوامی مزاحمت کی علامت بن کر ابھری۔ اس تحریک نے ثابت کیا کہ پاکستانی سماج عدلیہ کی آزادی کو ایک بنیادی جمہوری ضرورت کے طور پر تسلیم کر چکا ہے ۔ بحالی کے بعد عدلیہ نے مزید فعال کردار اختیار کیا اور از خود نوٹسز، عوامی مفاد کی درخواستوں اور حکومتی اہلکاروں کے احتساب کے ذریعے اپنی طاقت کا بھرپور استعمال کیا۔ کچھ حلقوں نے اسے عدلیہ کی مضبوطی قرار دیا، جبکہ بعض نے اسے جوڈیشل اوور ریچ کہہ کر تنقید کی کہ عدلیہ بعض اوقات مقننہ اور انتظامیہ کے اختیارات میں مداخلت کرتی ہے ۔ اس بحث سے قطع نظر، یہ دور عدلیہ کے نئے اعتماد اور بڑھتے ہوئے سماجی اثر کا عکاس تھا۔ عدلیہ کی آزادی کو آئینی طور پر مضبوط کرنے میں 18ویں ترمیم نے اہم کردار ادا کیا۔ اس ترمیم کے ذریعے عدالتی تعیناتی کا نیا طریقہ کار ترتیب دیا گیا، جس میں عدالتی کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی شامل ہوئیں، اور یوں انتظامیہ کے براہِ راست اثرات کو محدود کر دیا گیا۔ یہ ترمیم اختیارات کی علیحدگی کو مضبوط کرتی ہے اور عدلیہ کو ایک زیادہ خودمختار ادارہ بناتی ہے ۔
اگرچہ عدلیہ نے گزشتہ دہائیوں میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں، مگر چیلنجز اب بھی موجود ہیں۔ خاص کر 26 ویں اور پھر 27 ویں ترمیم سے مذید چیلنجز بڑھے ہیں ۔ سیاسی پولرائزیشن، طاقتور اداروں کا دباؤ، عدالتی تاخیر، مقدمات کا انبار اور بعض اوقات خود عدلیہ پر سیاسی جھکاؤ کے الزامات یہ تمام عوامل عدالتی آزادی کے سفر کو پیچیدہ بناتے ہیں۔ حقیقی اختیارات کی تقسیم کے لیے صرف آئینی تحفظات کافی نہیں، بلکہ ادارہ جاتی پختگی، سیاسی استحکام اور جمہوری ثقافت کی بھی ضرورت ہے۔ بالآخر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں عدلیہ کی آزادی کی تاریخ جدوجہد، ناکامیوں، کامیابیوں اور ارتقا کا ملا جلا سفر ہے ۔ 1954 کے کمزور فیصلوں سے لے کر وکلاء تحریک کی کامیابیوں تک، اور 18ویں ترمیم سے لے کر عدلیہ نے خود کو ایک زیادہ باوقار ادارے کے طور پر قائم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جبکہ موجودہ عدالتی فعالیت 26 ویں اور پھر 27 ویں ترمیم نے کئی قسم کے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے ۔ اور کئی وکلا نے اسے عدلیہ کی آزادی پر حملہ کرار دیا ہے ۔ اختیارات کی تقسیم نہ صرف آئینی اصول ہے بلکہ جمہوریت کی بقا اور ریاستی توازن کے لیے بنیادی ضرورت بھی ہے ۔ عدلیہ کی آزادی وہ ضمانت ہے جو بنیادی حقوق کا تحفظ کرتی ہے ، حکومتی طاقت کو محدود کرتی ہے اور ایک منصفانہ و بااعتماد معاشرہ تشکیل دینے میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
مہنگائی کی آگ اور غریب کا بجھتا ہوا چولہا وجود جمعه 05 دسمبر 2025
مہنگائی کی آگ اور غریب کا بجھتا ہوا چولہا

پاکستان میں عدلیہ :کامیابیوں اور ناکامیوں کا ملا جلا سفر وجود جمعه 05 دسمبر 2025
پاکستان میں عدلیہ :کامیابیوں اور ناکامیوں کا ملا جلا سفر

آسام میں نیلی کا قتل عام اور کشمیر کی سیاست وجود جمعه 05 دسمبر 2025
آسام میں نیلی کا قتل عام اور کشمیر کی سیاست

صرف رجسٹرڈ وی پی اینز کا استعمال کریں! وجود جمعه 05 دسمبر 2025
صرف رجسٹرڈ وی پی اینز کا استعمال کریں!

خیالات کو قید نہیں کیا جا سکتا وجود جمعرات 04 دسمبر 2025
خیالات کو قید نہیں کیا جا سکتا

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر