وجود

... loading ...

وجود

''داخلہ لیجیے'' …ایک تعلیمی مرثیہ

اتوار 26 اکتوبر 2025 ''داخلہ لیجیے'' …ایک تعلیمی مرثیہ

محمد آصف

تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد ہوتی ہے ، مگر بدقسمتی سے پاکستان کا تعلیمی نظام کئی دہائیوں سے زوال کا شکار ہے ۔ یہ زوال کسی اتفاق یا وقتی بحران کا نتیجہ نہیں بلکہ پالیسی کی مسلسل ناکامیوں، بجٹ میں کٹوتیوں، سیاسی مداخلت اور سماجی بے حسی کا حاصل ہے ۔ آج ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں تعلیم کو قومی ترقی کا ذریعہ نہیں بلکہ کاروبار بنا دیا گیا ہے ۔
تعلیم کو کبھی ترجیح نہ دینا :پاکستان کی قومی پالیسی میں تعلیم کو کبھی حقیقی ترجیح حاصل نہیں رہی۔ تعلیمی بجٹ ہمیشہ دوسرے شعبوں کے مقابلے میں کم رکھا گیا۔ یونیسف کے مطابق پاکستان اپنی مجموعی قومی پیداوار (GDP)کا صرف 2 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے ، جو جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے ۔ جب سرمایہ کاری ناکافی ہو تو نظام ترقی نہیں کر سکتا، نتیجتاً تعلیمی ڈھانچے کی تباہی، پرانے نصاب، اور غیرمتوجہ اساتذہ سامنے آتے ہیں۔
نجکاری اور طبقاتی خلیج میں اضافہ:تعلیم اب ایک منافع بخش جنس (commodity) بن چکی ہے ۔ مہنگے نجی اسکول اور یونیورسٹیاں صرف امیر طبقے کے لیے دستیاب ہیں، جبکہ غریب اور متوسط طبقہ کمزور سرکاری اداروں میں پسماندگی کا شکار ہے ۔ اس دوہری تعلیمی ساخت نے معاشرتی طبقاتی خلیج کو مزید گہرا کر دیا ہے ایک تعلیم امیروں کے لیے جدید اور مہنگی، اور دوسری باقی قوم کے لیے فرسودہ اور ناکافی۔ اس نظام نے سماجی ترقی اور برابری کے امکانات کو ختم کر دیا ہے ۔
استحصال کا شکار معلم :جو پیشہ کبھی معمارِ قوم کہلاتا تھا، آج بدترین معاشی حالات میں ہے ۔ سرکاری اور نجی دونوں شعبوں میں اساتذہ کم تنخواہوں، غیر یقینی معاہدوں، اور بغیر سہولیات کے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اساتذہ کے وقار کے ساتھ ساتھ تعلیم کے معیار میں بھی شدید کمی آئی ہے ۔ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس کے اساتذہ عزت اور تحفظ کے ساتھ زندگی نہ گزاریں۔ عوامی ذمہ داری کا تجارتی استحصال : نجکاری کو عموماً کارکردگی بہتر بنانے کے نام پر پیش کیا جاتا ہے ، مگر پاکستان میں یہ دراصل ریاست کی آئینی ذمہ داری سے فرار کا ذریعہ بن چکی ہے ۔ مفت اور معیاری تعلیم فراہم کرنا ریاست کا فرض تھا، مگر نجی اداروں کو کنٹرول سونپ کر حکومت نے تعلیم کو منافع بخش کاروبار بنا دیا ہے ۔ تعلیم اب خدمت نہیں، تجارت ہے ۔
نجی تعلیم کا فریب :نجی ادارے بظاہر جدید عمارات، یونیفارم اور انگریزی تعلیم کے ذریعے اپنی برتری ظاہر کرتے ہیں، مگر اکثر میں علمی معیار کا شدید فقدان ہے ۔ والدین ظاہری چمک دمک سے متاثر ہوتے ہیں، جبکہ طلبہ کو محض رٹّے اور امتحان کے نمبروں تک محدود کر دیا گیا ہے ۔ نتیجتاً ڈگریاں تو چمکتی ہیں، مگر مستقبل اندھیروں میں ڈوبا رہتا ہے ۔ تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت :سرکاری اداروں میں میرٹ کی جگہ سیاست نے لے لی ہے ۔ یونیورسٹیوں میں تعیناتیاں، تبادلے ، اور انتظامی فیصلے اکثر سیاسی وفاداری کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ وائس چانسلر سے لے کر استاد تک، قابلیت کے بجائے تعلقات کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ یہ رجحان علمی اداروں کی خودمختاری اور ساکھ دونوں کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے ۔
پرانا نصاب اور غیر متعلقہ تعلیم:پاکستان کا نصاب جدید دنیا کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ حفظ اور رٹّے پر مبنی ہے ، تخلیق اور عملی مہارتوں سے خالی۔ ٹیکنالوجی، اختراع اور عملی تربیت پر توجہ نہ ہونے کے باعث طلبہ عالمی معیار کی مسابقت تو کیا، مقامی منڈی میں بھی مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ نوجوان نسل کی بے سمتی اور بدلتے نمونے : آج کے نوجوان تعلیم کے بجائے فری لانسنگ، سوشل میڈیا، یوٹیوب اور ٹک ٹاک جیسے غیر رسمی ذرائع آمدن کی طرف مائل ہیں۔ جب ایک یوٹیوبر کسی پروفیسر سے بیس گنا زیادہ کماتا ہے تو نوجوان کیوں تعلیم حاصل کرے ؟ نتیجتاً تعلیمی اداروں سے دلچسپی کم ہو رہی ہے اور معاشرتی سطح پر ”بغیر ڈگری کے کامیابی” ایک نیا معیار بن چکا ہے ۔
”داخلہ لیجیے” … ایک تعلیمی مرثیہ: داخلہ لیجیے … آدھی فیس میں، قسطوں پر، اسکالرشپ کے ساتھ… بہترین عمارتیں، پی ایچ ڈی فیکلٹی، کشادہ کیمپس… یہ نعرے آج سوشل میڈیا پر گونجتے ہیں۔ مگر یہ اشتہارات نہیں، ایک زوال پذیر نظام کی آہ و بکا ہیں۔ وہ نظام جس میں کبھی عزت یافتہ اساتذہ آج سیلز مین بن کر داخلوں کی بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ تدریس کا مقدس پیشہ اب معاشی شکست خوردہ طبقے کا آخری سہارا بن چکا ہے ۔ یہ آوازیں تاجروں کی نہیں، اساتذہ کی ہیں انبیاء کے وارث، جو اب عزت بچانے کے لیے غربت کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ کبھی حکومتی کالجز کو خودمختاری دینے کے وعدے ہوئے ، یونیورسٹیاں تیزی سے قائم کی گئیں، فنڈز بھی آئے ، مگر جلد ہی وہ رُک گئے ۔ اب یونیورسٹیاں مکمل طور پر فیسوں پر چل رہی ہیں، جو عام عوام کے لیے ناقابلِ برداشت ہو چکی ہیں۔ دوسری طرف، وہ کالجز جو کم فیس والے BS پروگرام چلا رہے ہیں، یونیورسٹیوں کے دباؤ کا شکار ہیں۔ ایک خاموش”تعلیمی جنگ”جاری ہے جہاں ادارے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
خاموش ریاست: اس تمام تباہی میں ریاست خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ تعلیم جو قوموں کو عروج دیتی ہے حکمرانوں کی نظر میں بوجھ بن چکی ہے ۔ فلاحی ریاست کا خواب اشرافیہ کے شاہانہ اخراجات میں دفن ہو چکا ہے ۔ روم جل رہا ہے ، اور نیرو بانسری بجا رہا ہے ۔ یوں اساتذہ ۔۔۔ جو نبیوں کے وارث ہیں ۔۔۔ بے بسی سے پکار رہے ہیں:”;داخلہ لیجیے … داخلہ لیجیے …
نتیجہ:تعلیم کو قومی بقا کی حکمتِ عملی بنانا ہوگا پاکستان کا تعلیمی بحران دراصل نظام کے مکمل انہدام کی علامت ہے ۔ جب تک میرٹ، اساتذہ کا احترام، نصاب کی جدیدیت، اور حقیقی عوامی سرمایہ کاری بحال نہیں ہوتی، ہم جہالت اور ناانصافی پر مبنی مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہمیں مزید نجکاری نہیں چاہیے ۔ ہمیں مقصد میں انقلاب چاہیے ۔تعلیم کو کاروبار یا بوجھ نہیں بلکہ قومی بقا کی حکمت ِعملی کے طور پر اپنانا ہوگا۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
''داخلہ لیجیے'' …ایک تعلیمی مرثیہ وجود اتوار 26 اکتوبر 2025
''داخلہ لیجیے'' …ایک تعلیمی مرثیہ

مقبوضہ کشمیر، صحافیوں کے لیے خطرناک مقام وجود اتوار 26 اکتوبر 2025
مقبوضہ کشمیر، صحافیوں کے لیے خطرناک مقام

ٹرمپ کے شخصی اقتدار کے خلاف احتجاج وجود اتوار 26 اکتوبر 2025
ٹرمپ کے شخصی اقتدار کے خلاف احتجاج

کوئی بادشاہ نہیں ! وجود هفته 25 اکتوبر 2025
کوئی بادشاہ نہیں !

بھارت میں علیحدگی کی تحریکیں وجود هفته 25 اکتوبر 2025
بھارت میں علیحدگی کی تحریکیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر