... loading ...
ریاض احمدچودھری
سفاک مودی کے دور میں بھارت پر ہندوتوا راج مسلط ہے جس سے تعلیمی ادارے بھی غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔فاشسٹ مودی نے بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی آزادیِ رائے کو جرم بنا دیا، آر ایس ایس کے ہاتھوں غاصب مودی نے تعلیمی اداروں کو انتہا پسندی کا گڑھ بنا دیا۔جنسی ہراسانی کے ملزم پروفیسروں کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر سٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا کے طلبا سراپا احتجاج بن گئے، پونڈیچری یونیورسٹی میں ایس ایف آئی کے طلبا پر پولیس نے حملہ کر دیا، متعدد طلبہ گرفتارکر لئے گئے۔ سکیورٹی فورسز نے بے رحمانہ تشدد کیا اور خواتین سے بدسلوکی کی، یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، ہراسانی کے الزامات کے باوجود ملوث اساتذہ تاحال عہدوں پر برقرار ہیں۔طلبہ تنظیم کے مطابق ڈاکٹر مدھوائیہ اور ڈاکٹر شیلندر سنگھ پر 16 سے زائد طلبا کے سنگین الزامات عائد ہیں، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے ضابطے کے باوجود ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے پر بھی سماعت نا مکمل ہے۔ دوسری طرف دہلی یونیورسٹی میں فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کرنے والے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے طلبا بھی بھارتی انتہا پسندی کا شکار ہو گئے، دہلی یونیورسٹی کے طلبا پر بھارتی انتہا پسند تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے ارکان نے حملہ کیا۔فلسطین کے حق میں احتجاج کرنے پر مقامی افراد اور دہلی پولیس نے مل کر طلبا پر لاٹھی چارج بھی کیا۔پنجاب یونیورسٹی کے نائب صدر اشمیت سنگھ کے مطابق پروفیسر سے لے کر وائس چانسلر تک ہر تقرری آر ایس ایس کی منظوری سے ہوتی ہے، اقتدار پر قابض مودی کے دور میں انتہا پسند آر ایس ایس اور بی جے پی نے بھارت کے ہر ادارے پر قبضہ جما لیا ہے۔طلبا پر پولیس تشدد مودی حکومت کے فاشسٹ چہرے اور اقلیت دشمنی کا واضح ثبوت ہے،نااہل مودی اور انتہا پسند تنظیموں نے بھارت کے نام نہاد سیکولرازم کا چہرہ بے نقاب کردیا۔
بھارت کی مودی سرکار کی جانب سے یونیورسٹی طلبہ کے لیے مولانا آزاد فیلو شپ ختم کیے جانے کے بعد مسلم طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔سابق بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کے دور حکومت میں قائم کی گئی سچر کمیٹی کی تجویز کردہ سفارشات کی روشنی میں 2009 میں مولانا آزاد فیلو شپ متعارف کرائی گئی تھی جو بھارت کی اقلیت مسلم، بودھ مت، عیسائی، جین مت، پارسی اور سکھ مذاہب سے تعلق رکھنے والے طالبعلموں کو فراہم کی جاتی تھی۔ اس فیلو شپ کو مودی کی متعصب حکومت نے بیک جنبش قلم ختم کردیا ہے۔یہ فیلو شپ اگرچہ تمام اقلیتی برادریوں کے طالب علموں کے لیے دستیاب تھی تاہم اس سے زیادہ تر مسلمان طلبہ ہی مستفید ہوئے۔ وزارت اقلیتی امور کی جانب سے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق سن 2018ـ2019 میں یہ فیلوشپ حاصل کرنے والے 70 فیصد سے زائد طالب علم مسلمان تھے۔
بھارت میں مذہبی تنظیم جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم، اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کے نیشنل سکریٹری، فواد شاہین کے مطابق، ”کئی برسوں کے دوران اس فیلو شپ سے ہزاروں ایسے پسماندہ مسلمان طالب علم مستفید ہوئے جو دوسری صورت میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہی رہتے۔اس حوالے سے وزیر برائے اقلیتی امورکا گزشتہ ماہ پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ ”حکومت کی جانب سے اعلیٰ تعلیم کے لیے جاری کئی دیگر فیلوشپ اسکیموں کے ساتھ مماثلت رکھتی ہے اور اقلیتی طالب علموں کو پہلے ہی اس طرح کی کئی اسکیموں سے مدد مل رہی ہے۔حکومت کی جانب سے اس گرانٹ کی منسوخی کے پیچھے دی جانے والی یہ وجہ کہ یہ فیلو شپ دیگر اسکیموں سے مماثلت رکھتی ہے پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔بھارتی وزیر خزانہ کے مطابق 31 مارچ 2022 سے قبل فیلو شپ کے لیے کوالیفائی کرنے والے طالب علم اس اسکیم سے اپنی باقی ماندہ تعلیمی مدت تک مستفید ہوتے رہیں گے تاہم اس کے باوجود اچانک اس گرانٹ کے خاتمے کے فیصلے نے بھارتی مسلمانوں میں کھلبلی مچا دی ہے۔
مودی حکومت کے اس فیصلے کے بعد کئی طلبہ تنظیمیں ملک بھر میں احتجاج کر رہی ہیں۔ کئی سیاسی رہنما اس معاملے کو پارلیمان میں اٹھاتے ہوئے حکومت سے اس فیصلے کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پارلیمانی رکن عمران پرتاب گڑہی نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس حکومتی فیصلے کو اقلیت اور طالبعلموں کے خلاف قرار دیا اور کہا کہ اس سے ہزاروں افراد متاثر ہوں گے۔ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کے تعلیمی اداروں میں باون فیصد غیر مسلم طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ رپورٹ تیار کرنے والوں کے مطابق اس رپورٹ نے مسلم اداروں کے حوالے سے بے بنیاد الزامات کو غلط ثابت کردیا ہے۔ دہلی کے ایک غیر سرکاری ادارے سینٹر فار اسٹڈی اینڈ ریسرچ (سی ایس آر) انڈیا نے ایک تحقیقاتی رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے زیر انتظام اعلیٰ تعلیمی اداروں میں غیر مسلم طلبہ کی تعداد مسلم طلبہ کے مقابلے زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق غیر مسلم طلبہ کی تعداد52.7 فیصد ہے جب کہ مسلم طلبہ کی تعداد صرف 42.1 فیصد ہے۔یہ رپورٹ ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب برصغیر کے معروف تعلیمی ادارے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں ایک مقدمے کی سماعت جاری ہے۔ اور دائیں بازو کی تنظیمیں دیگر مسلم اداروں کے اقلیتی کردار کو بھی ختم کرنے کے درپے ہیں۔سی ایس آر انڈیا کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد رضوان کے مطابق اس رپورٹ نے اس غلط تصور کو پاش پاش کردیا ہے کہ مسلم کالجوں میں صرف مسلمان ہی پڑھتے ہیں۔ انہوں نے کہا،”میں اس رپورٹ کو ‘متھ بسٹر’ کہتا ہوں کیونکہ ملک میں وسیع پیمانے پر یہ پروپیگنڈا پھیلایا جارہا ہے کہ مسلم تعلیمی اداروں میں تو صرف مسلم بچے اور بچیاں ہی پڑھتی ہیں۔ جبکہ اعدادوشمار سے ظاہرہے کہ مسلم تعلیمی اداروں میں مسلم لڑکیوں کے مقابلے غیر مسلم لڑکیوں بھی تعداد زیادہ ہے۔” بھارت کی 1113 یونیورسٹیز میں 23 مسلم اقلیتی ہیں، جہاں ہندو طلبہ کی تعداد 52.7 فیصد اور مسلم کی تعداد صرف 42.1 فیصد ہے۔ اسی طرح 1115 مسلم اقلیتی کالجوں میں غیر مسلم طلبہ اکثریت میں ہیں۔ ان کالجوں میں ہندو طلبہ کی تعداد 55.1 فیصد ہے جب کہ مسلم طلبہ کی تعداد صرف42.1 فیصد ہے۔ دیگر اقلیتی گروپ کے 2.8 فیصد طلبہ بھی مسلم تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ تعلیمی سال 2021ـ22 میں مسلمانو ں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلم لڑکوں کی تعداد 47.18 فیصد اور لڑکیوں کی تعداد 52.8 فیصد تھی۔