... loading ...
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
آپریشن سندور کی ناکامی کے بعد مودی حواس باختہ ہو گیا ہے ۔الیکش مہم میں اپنی بیوقوف جنتا کو سنہری خواب دکھاتا ہے اور بڑے بڑے بلند بانگ دعویٰ کرتا ہے جس سے شیخ چلی کی آتما کو بھی تکلیف ہوتی ہوگی۔گزشتہ دنوں الیکش مہم میں مودی کا یہ بیان کہ ”میں بدلے کی آگ میں جل رہا ہوں، پاکستانی آرمی چیف میرا اصل ٹارگٹ ہے ”۔مودی مرنے سے پہلے ہی آگ میں جل رہا ہے۔ اُس کے ذہنی انتشار، نفرت اور شکست خوردگی کی واضح علامت ہے ۔ یہ جملہ صرف سیاسی غصے کا اظہار نہیں بلکہ اْس احساسِ ہزیمت کی جھلک ہے جو پاکستان کی عسکری کامیابیوں نے بھارت کے دل میں پیدا کی ہے ۔ بھارت کے حکمرانوں کے لیے سب سے بڑا صدمہ یہ ہے کہ وہ ہر سازش، ہر پروپیگنڈا اور ہر دباؤ کے باوجود پاکستان کو کمزور نہیں کر سکے ۔ رافیل کا غرور خاک میں ملنا مودی کے تکبر کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔جب طاقت اقتدار کے زعم میں اندھی ہو جائے تو انسان صرف دشمنوں سے نہیں، اپنی عقل سے بھی لڑنے لگتا ہے ۔ بھارت کے وزیرِاعظم نریندر مودی کا حالیہ بیان، جس میں انہوں نے کہا کہ ”میں بدلے کی آگ میں جل رہا ہوں” اور اشارہ پاکستان کی عسکری قیادت کی جانب تھا، اسی ذہنی انتشار، شکست خوردگی اور نفرت کے اس سفر کی تازہ قسط ہے ۔ اگرچہ بھارتی حکومت کے سرکاری ذرائع اس جملے کی براہِ راست تصدیق نہیں کرتے ، مگر مودی کی تقاریر اور بیانات میں حالیہ دنوں جو لب و لہجہ اختیار کیا گیا ہے وہ اس جذبہ انتقام اور شدت پسندی کا کھلا مظہر ہے ۔ اس طرح کے بیانات محض سیاسی اشتعال نہیں بلکہ ایک خطرناک نظریے کی علامت ہیں جو بھارت کو امن کے راستے سے مزید دور لے جا رہے ہیں۔
مودی کے سیاسی نظریے کی بنیاد ہندوتوا پر ہے ، جہاں طاقت، تشدد اور مذہبی برتری کو قومی سلامتی سے جوڑ دیا گیا ہے ۔ یہی سوچ انہیں ہر اس قوت کے خلاف بھڑکاتی ہے جو بھارت کے عظیم اکھنڈ ہندو راشٹر کے خواب میں رکاوٹ بنے ۔ پاکستان ہمیشہ سے اس نظریے کا سب سے بڑا ہدف رہا ہے ، کیونکہ مودی کی سیاست نفرت کے اس ایندھن سے ہی جلتی ہے ۔ مودی کی حکومت نے اپنے اقتدار کے دوران کبھی سرجیکل اسٹرائیک، پہلگام واقعہ اور کبھی پلوامہ کے نام پر عوام کے جذبات بھڑکائے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت کو آج بھی اپنے اندرونی تضادات، غربت، اور گرتی ہوئی معیشت کے مقابلے میں کوئی ٹھوس کامیابی نہیں ملی۔ جب اندرونی محاذ پر ناکامی بڑھتی ہے تو سیاست دان عوام کی توجہ بیرونی دشمن کی طرف موڑنے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہی مودی کی نفسیات کی اصل جڑ ہے ۔رافیل طیاروں کے سودے سے لے کر کسانوں کی تحریک تک، مودی حکومت نے عوامی سطح پر کئی بحرانوں کا سامنا کیا۔ ان کی معاشی پالیسیوں نے متوسط طبقے کو مایوسی میں دھکیل دیا۔ مگر ان تمام ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے مودی نے ہمیشہ پاکستان مخالف بیانات کو ایک نیا رنگ دیا۔ حالیہ بیان بھی اسی تسلسل کا حصہ ہے ، جو ان کے اندرونی دباؤ اور عالمی سطح پر کمزور ہوتے امیج کا نتیجہ ہے ۔ یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ بھارتی میڈیا، جو حکومتی بیانیے کا ترجمان بن چکا ہے ، ایسے بیانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے تاکہ مودی کی سخت گیر شبیہ برقرار رہے ۔ یہی میڈیا وہ پلیٹ فارم بن چکا ہے جہاں حقائق کے بجائے اشتعال انگیزی فروغ پاتی ہے ۔
مودی کے لیے سب سے بڑا دھچکا وہ عسکری برتری ہے جس کا خواب بھارت نے کئی برسوں سے دیکھا مگر کبھی پورا نہ کر سکا۔ پاکستان کی دفاعی حکمت عملی، خاص طور پر لائن آف کنٹرول پر تحمل اور سفارتی سطح پر مضبوط موقف نے بھارت کی جنگی خواہشات کو بارہا ناکام بنایا۔ بھارت نے 2019میں پلوامہ کے بعد جس طرح سرجیکل اسٹرائیک کا ڈھونگ رچایا، اُس کے بعد بین الاقوامی ذرائع نے خود اس کے جھوٹ کو بے نقاب کیا۔ مودی حکومت اس وقت سے اپنے عسکری وقار کو بحال کرنے کے لیے مسلسل اشتعال انگیزی پر اتر آئی ہے ۔ ان کا بدلے کی آگ والا لہجہ اسی شکست خوردگی کی علامت ہے جو زمینی حقیقتوں کے آگے بے بس ہے ۔
پاکستان کے لیے یہ کوئی نیا تجربہ نہیں کہ بھارت داخلی ناکامیوں کا ملبہ بیرونی دشمن پر ڈالے ۔ مگر مودی کے دور میں یہ رجحان خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے ۔ بھارت کا عسکری بجٹ 2025میں 91ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے ، مگر اس بھاری سرمایہ کاری کے باوجود بھارت اپنی سرحدی کشیدگیوں کو حل کرنے میں ناکام رہا۔ نہ چین کے ساتھ لداخ کا تنازع ختم ہوا، نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں بغاوت دبائی جا سکی۔ اس کے برعکس وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور میڈیا پر قدغنیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں مودی کی بدلے کی آگ والی سوچ کو سمجھنا چاہیے ایک ایسا سیاسی ہتھیار جو اندرونی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ۔عالمی سطح پر بھی مودی کے بیانات کو تنقید کا سامنا ہے ۔ یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے بھارت میں اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز رویے پر تشویش ظاہر کی ہے ۔ امریکی تھنک ٹینکس نے مودی کی خارجہ پالیسی کو reactionary nationalism قرار دیا ہے ۔ یہ اصطلاح ایسے حکمرانوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو داخلی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے بیرونی دشمنی کو ہوا دیتے ہیں۔ مودی کی تقاریر، جن میں وہ بار بار نئے بھارت کی بات کرتے ہیں، دراصل اس قومی تشخص کے کھوکھلے تصور کی نمائندگی کرتی ہیں جو نفرت اور دشمنی پر قائم ہے ۔پاکستان نے ہمیشہ صبر و تحمل کے ساتھ امن کی بات کی ہے ۔ افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آرنے واضح کیا ہے کہ پاکستان کسی اشتعال انگیزی کا حصہ نہیں بنے گا، لیکن اپنی خودمختاری کے دفاع کے لیے مکمل طور پر تیار ہے ۔ پاکستان کی پالیسی ہمیشہ یہی رہی ہے کہ بات چیت کے دروازے بند نہیں کیے جا سکتے ، مگر عزتِ نفس پر سمجھوتہ بھی ممکن نہیں۔ یہی وہ موقف ہے جس نے پاکستان کو دنیا بھر میں ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر پیش کیا، جبکہ بھارت کا امیج ایک جارحانہ اور غیر مستحکم قوت کے طور پر اُبھرا ہے ۔مودی کے انتقامی بیانات کے نتیجے میں خطے میں امن کے امکانات کمزور ہو رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا پہلے ہی ایٹمی تناؤ، معاشی عدم توازن، اور ماحولیاتی بحران سے دوچار ہے ۔ اگر بھارت اپنے سیاسی فائدے کے لیے جنگی جنون کو ہوا دیتا رہا تو اس کے اثرات صرف پاکستان پر نہیں بلکہ پورے خطے پر مرتب ہوں گے ۔ مودی کو یہ سمجھنا ہوگا کہ طاقت کے مظاہرے سے قومیں بڑی نہیں ہوتیں، بلکہ انصاف، رواداری اور مکالمے سے معاشرے مستحکم ہوتے ہیں۔
اب وقت ہے کہ عالمی برادری بھارت کی جنگی زبان کے بجائے امن کی ضرورت پر زور دے ۔ اقوامِ متحدہ، سارک اور عالمی طاقتوں کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ اگر جنوبی ایشیا میں ایک اور بحران بھڑکا تو اس کے اثرات سرحدوں سے بہت دور تک جائیں گے ۔ مودی کے سیاسی بیانات صرف انتخابی مہم کا حصہ نہیں بلکہ خطے کے مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ بھارت کے دانشور، صحافی اور سنجیدہ طبقات بھی اب یہ آواز اٹھا رہے ہیں کہ نفرت اور انتقام کی سیاست نے ملک کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا ہے ۔آخر میں ضروری ہے کہ پاکستان اپنی دفاعی تیاریوں کے ساتھ ساتھ سفارتی محاذ پر بھی فعال کردار ادا کرے ۔ عالمی میڈیا میں حقائق کو مؤثر انداز میں پیش کرنا، جنوبی ایشیا میں امن کے بیانیے کو مضبوط بنانا، اور خطے کے ممالک کو بھارت کی جارحانہ پالیسیوں سے آگاہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ پاکستان کو مودی کے اشتعال انگیز بیانات کا جواب حکمت، تدبر اور بین الاقوامی قانون کے دائرے میں رہ کر دینا ہوگا۔ کیونکہ طاقت کا اصل مظاہرہ میدانِ جنگ میں نہیں، بلکہ صبر، عقل اور امن کے تحفظ میں ہوتا ہے ۔
مودی کا یہ خواب فیلڈ مارشل عاصم منیر میرا ٹارگٹ ہیں تو یہ خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔مودی کے لیے فیلڈ مارشل عاصم منیر ایک ڈراونا خواب ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان فیلڈ مارشل عاصم منیر میرے پسندیدہ ہیں اب مودی کو اپنی آنکھیں کھول لینا چاہیں۔ عالمی دنیا فیلڈ مارشل عاصم کی فنی صلاحیتوں اور قابلیت کی معترف ہو گئی ہے ۔عالمی سطح پر فیلڈ مارشل عاصم منیر کو عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے ۔معرکہ حق کی کامیابی کا سہرا بھی فیلڈ مارشل عاصم منیر کے سر جاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔