... loading ...
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
پاکستان کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس کی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہے ۔ روزانہ اخبارات میں مختلف عالمی اور ملکی اداروں کے سروے شائع ہوتے ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ پاکستان خطے کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک ہے ، اور کچھ رپورٹس میں تو اسے بہتری کی رفتار کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر قرار دیا گیا ہے ۔موقر امریکی جریدے بلوم برگ نے کہا ہے کہ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جس کے دیوالیہ ہونے کے خدشات میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے اور پاکستان کی کارکردگی دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں دوسرے نمبر پر ہے ۔
سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان ( اے پی پی ) کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلوم برگ کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اُن چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے دیوالیہ ہونے کے خدشات میں سب سے بڑی کمی دکھائی ہے ۔بلومبرگ کے مطابق پاکستان کی کارکردگی دنیا بھر کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں دوسرے نمبر پر رہی ہے ،صرف ترکیہ پاکستان سے آگے ہے ۔حکومت کے نمائندے ، وزراء اور ترجمان ان اعدادوشمار کو فخریہ بیان کرتے نہیں تھکتے ۔ لیکن جب یہی خوش کن دعوے ایک عام شہری کی زندگی سے جوڑ کر دیکھے جائیں تو ایک تلخ تضاد سامنے آتا ہے ۔ ترقی کے یہ اعدادوشمار عوام کے خالی برتنوں میں کیوں نہیں جھلکتے ؟ کیا معیشت کی بہتری کا مطلب صرف سرکاری رپورٹوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے اشارے ہیں، یا پھر اس کا عکس عوام کی روزمرہ زندگی میں بھی نظر آنا چاہیے ؟
حقیقت یہ ہے کہ ملک میں مہنگائی نے ہر سمت سے عوام کو جکڑ رکھا ہے ۔ حکومت کے بقول افراطِ زر کی شرح میں معمولی کمی آئی ہے ، مگر بازار کی گواہی کچھ اور ہے ۔ آٹا جو بنیادی ضرورت ہے ، اس کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔آٹا کے ساتھ ساتھ دیگر اشیائے ضروریہ جیسے سبزیاں، دالیں، چاول، چینی اور گھی بھی عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں۔ مرغی، انڈے اور دودھ کی قیمتیں روزانہ کی بنیاد پر تبدیل ہوتی ہیں، اور عام شہری کے لیے اپنے محدود بجٹ میں گھر کا خرچ چلانا ایک کٹھن مرحلہ بن چکا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ادویات کی قیمتوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔ جان بچانے والی ادویات، جو کبھی متوسط طبقے کی پہنچ میں تھیں، اب لگژری بن چکی ہیں۔ اسپتالوں میں مفت علاج کی سہولتیں کم ہو رہی ہیں، اور نجی ہسپتال عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے میں آزاد ہیں۔ ایسے میں عام آدمی کی زندگی مسائل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن گئی ہے ۔مہنگائی کا جن واقعی قابو سے باہر ہو چکا ہے ۔ حکمرانوں کے بیانات میں اگرچہ تسلی کے الفاظ ہیں، مگر عملی طور پر صورتِ حال روز بروز بگڑ رہی ہے ۔ روپے کی قدر میں کمی، عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کا اتار چڑھاؤ، اور اندرونی بدانتظامی نے معیشت کو نچوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ حکومت عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاہدے کرتی ہے ، سبسڈی ختم کرتی ہے ، اور محصولات بڑھاتی ہے ۔ نتیجتاً عوام سے ہر سطح پر مزید قربانیاں مانگی جاتی ہیں۔ ٹیکس دینے والے طبقے پر دباؤ بڑھتا ہے ، جب کہ امیر طبقہ بدستور مراعات کا فائدہ اٹھاتا ہے ۔ اس طبقاتی تفریق نے پاکستان میں معاشی عدم توازن کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے ۔اگر معیشت واقعی ترقی کر رہی ہے تو اس ترقی کا فائدہ کہاں جا رہا ہے ؟ یہ سوال ہر شہری کے ذہن میں ابھر رہا ہے ۔ ترقی کے دعوے اُس وقت حقیقی معنوں میں معتبر ہوتے ہیں جب ان کے اثرات عام آدمی تک پہنچیں۔ لیکن آج صورتِ حال یہ ہے کہ سرکاری اعدادوشمار خوش کن ہیں مگر عوام کے اعداد و شمار خوفناک غربت کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے ، بیروزگاری بڑھ رہی ہے ، متوسط طبقہ سکڑ کر نچلے طبقے میں شامل ہو رہا ہے ۔ دوسری طرف اشرافیہ کے محلات اور بینک اکاؤنٹس پھل پھول رہے ہیں۔ یہ منظرنامہ کسی بھی ترقی یافتہ معیشت کا نہیں بلکہ غیر متوازن نظام کا عکاس ہے ۔اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی بنیادی وجوہات صرف بیرونی قرضے یا درآمدی مہنگائی نہیں بلکہ داخلی بدانتظامی، ذخیرہ اندوزی، منافع خوری اور غیر مؤثر پالیسی سازی بھی ہیں۔ جب اشیائے خورونوش کا ذخیرہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہو جائے تو مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے ، اور قیمتیں بڑھا کر عوام سے ناجائز منافع کمایا جاتا ہے ۔ اس عمل میں کئی بااثر افراد شامل ہوتے ہیں جنہیں سیاسی سرپرستی حاصل ہوتی ہے ۔ نتیجتاً عام صارف کے لیے بازار میں اشیاء نہ صرف مہنگی ہو جاتی ہیں بلکہ معیار میں بھی کمی آ جاتی ہے ۔حکومت اگر واقعی معیشت کو بہتر بنانا چاہتی ہے تو سب سے پہلے اسے عوامی معیشت کو مستحکم بنانا ہوگا۔ اعدادوشمار کی ترقی سے پیٹ نہیں بھرتے ۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ایک مزدور، ایک استاد، ایک سرکاری ملازم یا ایک چھوٹے دکاندار کی قوتِ خرید کم ہو چکی ہے ۔ ان کی آمدنی وہی ہے لیکن اخراجات کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ بجلی کے بل، گیس کے نرخ، ٹرانسپورٹ کے کرائے ، تعلیمی اخراجات اور علاج کے بل سب کچھ مہنگا ہو چکا ہے ۔ ایسے میں ترقی کا نعرہ عوام کے لیے طنز بن جاتا ہے ۔پاکستان کی معیشت کو پائیدار ترقی کی طرف لے جانے کے لیے چند بنیادی اقدامات ناگزیر ہیں۔ سب سے پہلے ، حکومت کو مہنگائی کے اصل اسباب کا تعین کرکے مؤثر حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے ، چاہے وہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں۔ دوسرا، زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے کسانوں کو سستی کھاد، معیاری بیج اور بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جائے تاکہ خوراک کی قلت نہ پیدا ہو۔ تیسرا، درآمدات پر انحصار کم کرکے مقامی صنعتوں کو فروغ دیا جائے تاکہ روزگار کے مواقع بڑھیں اور زرِ مبادلہ کا ضیاع کم ہو۔اس کے علاوہ، حکومت کو سماجی تحفظ کے پروگراموں کو وسعت دینی چاہیے تاکہ کم آمدنی والے خاندانوں کو مہنگائی کے بوجھ سے وقتی سہارا مل سکے ۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں عوامی سرمایہ کاری بڑھانے سے انسانی ترقی کے اشاریے بہتر ہوں گے ، جو کسی بھی مضبوط معیشت کی بنیاد ہیں۔ صرف ترقی کے اعدادوشمار دکھا کر حقیقت نہیں بدلی جا سکتی، اس کے لیے انصاف، شفافیت اور عملی اقدامات ضروری ہیں۔پاکستان کی معیشت بلاشبہ ایک نازک موڑ پر ہے ۔ اگر اس موقع پر سنجیدہ اور عوام دوست پالیسیاں نہ بنائی گئیں تو یہ بظاہر ترقی کرتی معیشت عوام کی زندگیوں کو مزید تباہی کی طرف دھکیل سکتی ہے ۔ معیشت کی اصل ترقی وہی ہے جو روٹی، روزگار، تعلیم اور علاج میں آسانی پیدا کرے ورنہ یہ ترقی محض الفاظ کا کھیل ہے ، حقیقت نہیں۔
اشیائے خورونوش کے نرخوں میں استحکام کے لیے مؤثر پرائس کنٹرول نظام نافذ کیا جائے ۔ ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے خلاف غیر جانبدار مہم چلائی جائے ۔کم آمدنی والے طبقے کے لیے سبسڈی اور ریلیف پیکیج فوری طور پر بحال کیے جائیں۔ زرعی شعبے کو ترجیحی بنیادوں پر سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ خوراک کی قیمتیں قابو میں رہیں۔عوامی فلاحی منصوبوں میں شفافیت لائی جائے اور ترقی کے ثمرات نچلے طبقے تک پہنچائے جائیں۔یہی وہ اقدامات ہیں جو پاکستان کی معیشت کو محض اعدادوشمار کی ترقی سے نکال کر حقیقی خوشحالی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
٭٭٭