وجود

... loading ...

وجود

پاکستان کے خلاف را، خاد گٹھ جوڑ

جمعه 17 اکتوبر 2025 پاکستان کے خلاف را، خاد گٹھ جوڑ

ریاض احمدچودھری

آج کل پاک افغان تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔ ویسے تو یہ تعلقات کبھی بھی بہترین حالت میں نہیں رہے ۔ اس کی وجہ افغان معاملات میں بھارتی مداخلت اور پشت پناہی ہے۔ اپریل میں اسحاق ڈار کے دور کابل کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات کے درمیان جمی برف تیزی سے پگھلنا شروع ہوئی جس کے بعد مئی میں اسحاق ڈار نے کابل کا دورہ کیا اور پاکستان ازبکستان کے درمیان براستہ افغانستان ٹرین چلانے کا اعلان بھی کیا گیا۔لیکن اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات شدید کشیدگی کا شکار ہیں، جو 11 اور 12 اکتوبر کو شدید فوجی کشیدگی کے بعد خراب تر ہو گئے۔ دونوں اطراف نقصان ہوا لیکن زیادہ نْقصان افغانستان کی طرف ہوا جنہوں نے پاکستان سے جنگ بندی کی درخواست کی جس کو قبول کیا گیا۔چند روزقبل افغان وزیرِخارجہ نے بھارت میں کھڑے ہو کر مسئلہ کشمیر پر بھارتی موقف کی حمایت کر دی اور ایسا کرنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا تو دوسری طرف پاکستان نے اپنی اِس خواہش کا اظہار کر دیا کہ وہ افغانستان میں تمام فریقوں پر مشتمل ایک ہمہ جہت حکومت چاہتا ہے یعنی افغانستان کے اندر طالبان کی ساتھ ساتھ دوسرے فریقوں کو بھی حکومت میں شامل کیا جائے۔کیا پاکستان اور افغانستان کے درمیاں حالات کی بہتری کا کوئی اِمکان ہے اور کیا دونوں ممالک بات چیت میں آنے والے تعطل کو دوبارہ شروع کر سکتے ہیں، یہ ایک سوال ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے مستقل کو طے کرے گا۔
حالیہ تصادم میں دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر بلا اشتعال حملوں الزام لگایا ہے۔ پاکستان نے اس فوجی تنازع کے دوران مبیّنہ طور پر خارجی تشکیلات کو پاکستان میں داخلے سے روکتے ہوئے حملہ پسپا کیا بلکہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر بھی حملے کیے۔ کابل کا یہ کہنا ہے کہ یہ حملے اْن کی خود مختاری اور سالمیت کے خلاف تھے۔اپریل اور مئی میں پاکستان نے بہت سے معاملات جیسا کہ بارڈر پر داخلے کے حوالے سے نرمی اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے مطالبات تسلیم کئے لیکن اس عرصے کے دوران پاکستان کا افغانستان سے صرف ایک ہی مطالبہ رہا کہ افغان طالبان حکومت افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں سے روکے، جس پر افغان حکومت نے اِتفاق بھی کیا۔
تاہم فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کی کاروائیوں میں افغان سرزمین کے استعمال کو روکا نہ جا سکا اور پاکستان میں ٹی ٹی پی حملوں میں درجنوں فوجی جوان، آفیسرز ، پولیس افسران اور عام شہری جامِ شہادت نوش کرتے رہے۔
پاکستان کی سکیورٹی فورسز کئی دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ اس جنگ میں ہزاروں جوانوں اور افسران نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے تاکہ ملک میں امن قائم ہو سکے۔ یہ قربانیاں پاکستان کے اس غیر متزلزل عزم کی عکاس ہیں کہ کوئی بھی قوت، چاہے وہ اندرونی ہو یا بیرونی، ہمارے قومی اتحاد اور سلامتی کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ پاکستان میں ہونے والی بیشتر دہشت گردی کی کارروائیوں کے پیچھے بھارت اور افغانستان میں موجود دہشت گرد نیٹ ورکس کے ہاتھ ہیں۔ ان ممالک کی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کے لیے پراکسی جنگوں کے ذریعے ملک دشمن عناصر کو مالی، عسکری اور لاجسٹک مدد فراہم کرتی ہیں۔ بھارتی ایجنسی ”را” طویل عرصے سے پاکستان کے مختلف حصوں میں بدامنی پھیلانے کی سازشوں میں ملوث رہی ہے۔ بلوچستان سے لے کر خیبر پختونخوا تک بھارتی پراکسی نیٹ ورکس نے انتشار پھیلانے کی کوشش کی مگر پاکستانی عوام اور فورسز نے ان تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا۔
پاکستان عالمی برادری سے بارہا یہ مطالبہ کرتا آیا ہے کہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور پاکستان کے خلاف پراکسی جنگوں کا نوٹس لیا جائے۔ دنیا کو سمجھنا ہوگا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اسی وقت ممکن ہے جب بھارت اپنی جارحانہ پالیسیوں سے باز آئے اور خطے میں استحکام کے لیے تعمیری کردار ادا کرے۔ پاکستانی قوم اور افواج متحد ہو کر دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنا رہی ہیں۔ شہداء کی قربانیاں اس قوم کا سرمایہ? افتخار ہیں۔ میجر سبطین حیدر جیسے بہادر سپوتوں نے اپنی جان دے کر یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان کی سلامتی ناقابلِ تسخیر ہے۔ آج پوری قوم اپنے شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اس عہد کی تجدید کرتی ہے کہ ہم اپنی دھرتی کے دفاع، امن اور ترقی کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارا ازلی مکار دشمن بھارت، جو شروع دن سے پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری ختم کرنے کے درپے ہے اور اس مقصد کے لیئے پاکستان پر تین جنگیں مسلط کرنے اور اسے سانحہ سقوطِ ڈھاکہ سے دوچار کرنے کے بعد اس ارضِ وطن پر اپنی پراکسیز کے ذریعے دہشت گردی پھیلانے اور حالیہ سیلاب کے دوران پاکستان پر آبی دہشت گردی کرنے کا بھی مرتکب ہو چکا ہے، اپنے گذشتہ مئی والے جنگی جنون میں پاکستان کی جری و بہادر مسلح افواج کے ہاتھوں عبرت ناک شکست سے دوچار ہوکر دنیا بھر میں ہزیمت اٹھا چکا ہے اور کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ وہ اب پاکستان کے خلاف آتشِ انتقام میں جل رہا ہے اور اس پر دوبارہ جنگ مسلط کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے جس کی اطلاعات عالمی میڈیا کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر موصول ہو رہی ہیں۔طالبان کی جانب سے پاکستان پر حملے کے الزام میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ کابل پر پاکستانی فورسز نے حملہ کیا ہے، تاہم اس کے کوئی ثبوت پیش نہیں کیے گئے۔ حملے کے وقت افغان وزیرِ خارجہ بھارت میں موجود تھے۔پاکستان پر حملوں کے پس منظر میں بھارت کے کردار کو کسی طرح نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ رواں سال مئی میں ہونے والی پاکستان بھارت جنگ کے دوران افغان نائب وزیرِ داخلہ نے خفیہ دورہ بھارت کیا تھا۔ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغان۔بھارت گٹھ جوڑ اب کسی پردے میں نہیں رہا۔ بھارت خطے میں امن تباہ کرنے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ہر حد پار کر رہا ہے، اور اب وہ طالبان حکومت کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ظلم کے خلاف آزادی قلم صحافت کے مجاہد ہیروز وجود جمعه 17 اکتوبر 2025
ظلم کے خلاف آزادی قلم صحافت کے مجاہد ہیروز

پاکستان کے خلاف را، خاد گٹھ جوڑ وجود جمعه 17 اکتوبر 2025
پاکستان کے خلاف را، خاد گٹھ جوڑ

بھینس چوری سے سیاست کی سزا تک وجود جمعرات 16 اکتوبر 2025
بھینس چوری سے سیاست کی سزا تک

دُکھ ہے ۔۔۔ وجود جمعرات 16 اکتوبر 2025
دُکھ ہے ۔۔۔

بھارتی و افغانی، باہم شیروشکر وجود جمعرات 16 اکتوبر 2025
بھارتی و افغانی، باہم شیروشکر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر