وجود

... loading ...

وجود

بدمعاشی کلچر اور پولیس کلچر

منگل 14 اکتوبر 2025 بدمعاشی کلچر اور پولیس کلچر

میری بات/روہیل اکبر

کیا پولیس کے رویے اور آشیر باد سادہ لوح اور شریف شہریوں کو بدمعاش ،قاتل اور ڈاکو بناتی ہے ؟ اس کے لیے لاہور کی مثال سامنے رکھتے ہیں لاہور، وہ شہر جو کبھی محبتوں، تہذیب، علم و ادب اور رواداری کا مرکز سمجھا جاتا تھا، وقت کے ساتھ ساتھ جرائم اور بدمعاشی کی ایک ایسی داستانوں کا گڑھ بن گیا جہاں طاقت، دولت اور اثر و رسوخ نے قانون کو اکثر پاؤں تلے روند ڈالا۔ انھی داستانوں میں ایک تازہ باب طیفی بٹ کے مبینہ پولیس مقابلے کی صورت میں بند ہوا ہے ایک ایسا واقعہ جس نے شہر کی پرانی یادوں کو تازہ کر دیا جب ”لاہوری بدمعاش” اپنی الگ پہچان رکھتے تھے۔طیفی بٹ، جس کا نام کئی سال سے لاہور کے مختلف علاقوں میں خوف اور اثرورسوخ کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ پولیس کے مطابق ایک مبینہ مقابلے میں مارا گیا مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی پولیس مقابلہ تھا یا پھر کسی طاقتور مافیا سے جڑے حساب کتاب کا اختتام؟ لاہور کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں ”بدمعاشی” ہمیشہ کسی نہ کسی سیاسی یا سماجی طاقت کے سائے میں پنپتی رہی انیس سو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ”شیرا بدمعاش”، ”چن بدمعاش” اور بعد ازاں ”پیرا بدمعاش” اور پھر ارشد امین چوہدری ،عاطف چوہدری جیسے نام شہر کے عام مکینوں کے لیے دہشت کا استعارہ تھے مگر یہ وہ زمانہ تھا جب بدمعاش بھی کسی ”اصول” کے تحت اپنی سرحدیں جانتے تھے ان کے پیچھے اکثر کوئی نہ کوئی سیاسی یا پولیس سرپرستی موجود ہوتی مگر شہر کی عام آبادی کو نسبتاً تحفظ میسر رہتاوقت گزرتا گیا اور لاہور کا ”بدمعاش کلچر” سیاسی و مالی مفادات کے تابع ہوتا چلا گیا۔ نوے کی دہائی میں یہ کلچر مافیاز کی شکل اختیار کر گیا۔ رئیل اسٹیٹ، منشیات، قبضہ گروپ اور لینڈ مافیا کے ساتھ جڑے عناصر نے ”بدمعاشی” کو ایک نفع بخش صنعت بنا دیا۔ طیفی بٹ اسی دور کی پیداوار تھا جس نے دولت، دبدبے اور تعلقات کے بل بوتے پر ایک ”لوکل پاور” کے طور پر خود کو منوایالیکن جب کسی کا دائرہ اختیار ریاستی حدوں سے تجاوز کرنے لگتا ہے تو انجام ہمیشہ ایک جیسا ہوتا ہے۔ طیفی بٹ کا انجام بھی اسی ”روایتی لاہوری انجام” سے مختلف نہ ہواپولیس کے مطابق یہ ایک کامیاب کارروائی تھی مگر شہر کے کئی حلقوں میں چہ مگوئیاں ہیں کہ یہ صرف ”اسٹیبلشمنٹ کے توازن” کا حصہ تھا لاہور میں اس سے قبل بھی کئی نامور کردار اسی طرح ”مبینہ مقابلوں” میں مارے گئے مگر ان کی جگہ لینے والے کردار کبھی ختم نہیں ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا لاہور کے بدمعاش ختم ہو گئے؟ نہیں وہ صرف شکل بدل چکے ہیں۔ آج کے بدمعاش سفید پوش ہیںکسی ہاؤسنگ سوسائٹی، کسی کنٹریکٹر نیٹ ورک یا کسی سیاسی دفتر کے پردے کے پیچھے۔طیفی بٹ کا مرنا ایک کہانی کا اختتام ضرور ہے مگر لاہور کی بدمعاشی کی تاریخ کا یہ باب ابھی بند نہیں ہوا۔ریاست اگر واقعی اس کلچر کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے صرف بندوق نہیں بلکہ انصاف، روزگار اور برابری کے مواقع سے بھی میدان میں اترنا ہوگا ۔ورنہ ہر طیفی بٹ کے بعد ایک نیا نام پیدا ہو جائے گاجو ”پاور” کے اس کھیل کا اگلا مہرہ بنے گا۔ یہ صرف ایک کردار کا اختتام ہواہے لیکن کہانی تو ابھی باقی ہے۔ کیونکہ آج کے ”بدمعاش” وردی یا گن کے ساتھ نہیں آتے۔ وہ فائلوں، نوٹیفکیشنز، ٹھیکوں اور سیاست کے پردے میں چھپے بیٹھے ہیں۔ ریاست اگر واقعی امن چاہتی ہے تو اسے صرف گولی نہیں ،انصاف دینا ہوگا ورنہ کل کسی اور گلی سے ایک نیا ”طیفی بٹ” جنم لے گا اور لاہور کی کہانی پھر وہیں سے شروع ہوجائیگی ،جہاں ختم ہوئی تھی۔
اب کچھ قصہ پولیس کا وہ بھی لاہور پولیس کا جو صوبائی دارالحکومت میں ہے انکا رویہ اگر اتنا خوفناک ہے تو باقی صوبے کا کیا حال ہوگا۔ آئی جی صاحب جتنے میٹھے اور ہنس مکھ ہیں اسی طرح سی سی پی او بھی خوش مزاج ہیں اسی طرح فیصل کامران بھی نفیس ہے لیکن آپ کے نیچے تھانوں میں لگنے والے ایس ایچ او بالکل مختلف ہیں ۔تھانہ ہیر کے سب انسپکٹر ایس ایچ اوعزیر کے رویہ کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ جو آپ لوگوں کی نیک نامی کو بدنامی میں بدلنے پر تلا ہوا ہے۔ ایسا رویہ جو نہ صرف اخلاقیات سے عاری ہوکر پورے نظام پر سوالیہ نشان بن گیا ہے پولیس وہ ادارہ ہے جس سے عوام انصاف، تحفظ اور عزت کی توقع رکھتے ہیں مگر جب اسی ادارے کے دروازے پر عوام کی عزت پامال ہو تو بھلا کون اس دہلیز پر قدم رکھنے کی ہمت کرے گا؟تھانوں میں اخلاق، برداشت اور شائستگی کی جگہ اب رعب، بدتمیزی اور طاقت کا مظاہرہ نظر آتا ہے تھانہ ہیر میں تعینات موجودہ ایس ایچ او کا طرزِ عمل بھی کچھ ایسا ہی ہے ،کہا جاتا ہے کہ پولیس کا چہرہ اس کے تھانے کا ایس ایچ او ہوتا ہے۔ اگر وہی چہرہ درشت، مغرور اور عوام دشمن ہو جائے تو پورا محکمہ بدنام ہو جاتا ہے، افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے افسران کی موجودگی میں وہ ایماندار اور دیانتدار پولیس اہلکار بھی بدنامی کا شکار ہو جاتے ہیں جو اپنی ڈیوٹی کو عبادت سمجھ کر انجام دیتے ہیں کیونکہ ایک بدتمیز افسر پورے ادارے کی ساکھ تباہ کر دیتا ہے اور عوام کے دلوں سے پولیس پر اعتماد کا آخری چراغ بھی بجھا دیتا ہے ۔کیا یہ وہ پولیس ہے جس کا خواب قائداعظم اور علامہ اقبال نے دیکھا تھا؟کیا یہ وہ ادارہ ہے جس سے عوام اپنے بچوں کے تحفظ کی امید رکھتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر سوال صرف ہے کہ ایسے افسران کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟محکمہ پولیس کے اعلیٰ حکام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ عوام دشمن رویہ رکھنے والا ایس ایچ او صرف ایک تھانہ نہیں پورے محکمہ کی بدنامی کا باعث بنتا ہے وقت آ گیا ہے کہ لاہور میں بدمعاش کلچر کے خاتمہ کی طرح تھانوں کا کلچر بھی بدل دیا جائے جہاں خوف نہیں احترام واپس لایا جائے کیونکہ عوام پولیس سے نہیں اس کے رویے سے ڈرتی ہے اگر پولیس واقعی ”عوام کی محافظ” ہے تو اسے اپنے چہرے پر لگے اس اخلاقی دھبے کو خود صاف کرنا ہوگا ورنہ یہ دھبہ آنے والی نسلوں کے اعتماد کو مٹا دے گا۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان اپنی سلامتی کے تحفظ کیلئے پرعزم ! وجود منگل 14 اکتوبر 2025
پاکستان اپنی سلامتی کے تحفظ کیلئے پرعزم !

بدمعاشی کلچر اور پولیس کلچر وجود منگل 14 اکتوبر 2025
بدمعاشی کلچر اور پولیس کلچر

ٹرمپ کا نوبیل خواب چکناچور وجود منگل 14 اکتوبر 2025
ٹرمپ کا نوبیل خواب چکناچور

پاکستان اور افغانستان کے حالیہ بگڑتے تعلقات وجود پیر 13 اکتوبر 2025
پاکستان اور افغانستان کے حالیہ بگڑتے تعلقات

اسرائیل کی غزہ جنگ کے دو سال:ٹرمپ کا فارمولہ وجود پیر 13 اکتوبر 2025
اسرائیل کی غزہ جنگ کے دو سال:ٹرمپ کا فارمولہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر