... loading ...
حمیداللہ بھٹی
خودنمائی ایک ایسی بیماری ہے جس کاشکار ہر وقت نمایاں ہونے کے بہانے تلاش کرتاہے ۔اِس بیماری میں مبتلا شخص خود کو سب سے ذہین اور بالاتر تصور کرتا ہے اِس لیے خواہاں ہوتا ہے کہ ہر ملنے والا جُھک کر ملے سلام کرے اور مشاورت کرے وطن عزیز جیسے ممالک میں یہ ایک لاعلاج بیماری ہے کیونکہ یہاں اکثریت کا مسئلہ باعزت روزگار ،صاف پانی وخوراک ہے ۔یہ بیماری قوم پرستوں میں بُری طرح سرایت کرچکی ہے۔ اسی لیے قوم پرست اپنے سوا کوئی ذہین شخص دیکھنے سے قاصر ہیں ۔اِس بیماری میں مبتلا بظاہر آئین پسندی کی بات کرتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ آئین کی وہی شق پسند کرتے ہیں جو خودنمائی میں مددگار ہو، اِس بیماری کے کئی مریض خیبر پختونخواہ ،بلوچستان اور سندھ میںعشروں سے سرگرم ہیں۔ عام قیاس ہے کہ انھیں بیرونی اعانت حاصل ہے۔ بدقسمتی سے یہ بیماری اب آزادکشمیر تک پھیل چکی ہے ۔احتجاج کا مقصد بظاہرعوام کو حقوق دلانا بتایا جاتا ہے لیکن اِس آڑ میں بدامنی و انتشار کو فروغ دینے کا موجب بنتے ہیں جس پر جلد قابو پانا اِس لیے بھی ضروری ہے کہ آزادکشمیر جیسا حساس علاقہ کسی نئی مُہم جوئی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگر یہاں خود نمائی کی بیماری میں مبتلا چند شرپسندوں نے قومیت وعلاقائیت کی آگ زیادہ بڑھکالی تو بجھانا مشکل ہو سکتا ہے۔
پاکستان کا شروع سے موقف ہے کہ تقسیم ِ ہند کے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کوحقِ خودارادیت دیا جائے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کر سکیں کہ آیا پاکستان میں شامل ہونا ہے یا بھارت کی محکومی میں زندگی بسر کرنی ہے جموں و کشمیر کی بغاوت کے ایام میں بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ کشمیریوں کوحقِ خود ارادیت دے گا۔ اِس بارے اقوامِ متحدہ نے بھی ایک سے زائد بار قراردادیں پاس کیں مگر شملہ معاہدے نے سب کچھ بدل کررکھ دیا جس کے تحت پاک بھارت حکومتوں نے کسی عالمی فورم یا ثالث کے پاس لے جانے کی بجائے مسائل باہمی گفت وشنید سے حل کرنے پر اتفاق کیالیکن اِس معاہدے نے کشمیریوں کی منزل دورکردی، آٹھ عشروںکے بعدبھی حق خودارادیت کی جدوجہدبے نتیجہ ہے۔ اِ س دوران مقبوضہ کشمیر میںایک لاکھ سے زائد کشمیری جانیں قربان کر چکے۔ ہزاروں مائیں بہنیں اور بیٹیاں عصمتیں لُٹا چکیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیری بھارت کی دور دراز جیلوں میں بند ہیں۔ کشمیری قیادت کوقتل کیا جارہا ہے ۔یہاں مسلمان ہونا ہی جُرم اور غداری ہے نماز وروزے سے روکا جاتاہے عرصہ حیات تنگ ہونے کے باوجود کشمیری صدقِ دل سے آج بھی پاک وطن کا حصہ بننے کی جدوجہد کررہے ہیں، پاکستان بھی اُن کا مقدمہ پوری طاقت سے لڑرہا ہے، اپنے کشمیری بھائیوں کو آزاد کرانے کے لیے پاک فوج پانچ سے زائد چھوٹی وبڑی جنگیں لڑ چکیں۔ اِس دوران پاکستان دولخت ہو گیا مگر اپنے کشمیری بھائیوں کی حمایت پرثابت قدم ہے جس سے پریشان بھارت اب ریشہ دوانیوں پر اُتر آیا ہے۔ آزاد کشمیر میں سیاسی عدمِ استحکام ہو یا بدامنی ،دونوں صورتیں بھارت کے لیے پسندیدہ ہیں۔آزادکشمیر میں خود نمائی کی بیماری کا شکار عناصردانستہ یا نادانستہ طورپر بھارتی بیانیہ مضبوط کررہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر مسلم اکثریتی علاقہ ہے یہی وجہ ہے کہ جب بھی بھارت کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کرتا ہے تو پاکستان سفارتی سطح پر آواز بلند کرتااورحالات سے دنیا کوآگاہ کرتاہے۔ اب بھی مقبوضہ کشمیر کی وادی گزشتہ چھ برس سے عملی طورپر ایک جیل ہے۔ ہر کشمیری دیدہ و نادیدہ آہنی شکنجوں میں جکڑا ہے۔ لوگوں کی زمینیں چھین کر کاروبار تباہ کیے جارہے ہیں ۔جنت نظیر وادی میں تعینات لاکھوں بھارتی فوجی روزانہ کشمیریوں کی تذلیل کرتے ہیں۔ اپنے کشمیری بھائیوں کو بھارتی پنجہ ٔ استبداد سے جلد نجات دلانے کے لیے پاکستان مسلسل کوشاں ہے۔ اب جبکہ پاکستان رواں بر س ماہ مئی میں بھارت کو فضائی اور زمینی لڑائی کے دوران شکست فاش دے چکا تو آزاد کشمیر میں کچھ خود نمائی کی بیماری میں مبتلا لوگ متحرک ہوگئے ہیں۔ یہ لوگ شٹر ڈائون،پہیہ جام اوراحتجاجی ریلیوں سے عدمِ استحکام پیداکرناچاہتے ہیںتاکہ دو مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔ اول،اگر مقبوضہ کشمیر میں امن نہیں تو آزادکشمیر بھی پُرامن نہیں اِس طرح یہ ثابت کرنا آسان ہوجائے گا کہ دونوں طرف کے کشمیری امن کے دشمن ہیں ۔دوم، جب پاکستان سے آزاد کشمیر ہی سنبھالا نہیں جا رہا تومقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو کیسے سنبھال سکتاہے ؟ لہٰذا کشمیر کی موجودہ صورتحال کو مستقل تسلیم کرنابہترہوگا ۔نیز اقوامِ متحدہ اپنی پاس کی گئی قراردادوں کو بُھلا دے، ایسا ہونا بہت خطرناک صورتحال ہو گی۔ اِس طرح ناصرف کشمیری ہمیشہ کے لیے اپنی منزل سے دور ہو جائیں گے بلکہ پاکستان بھی نامکمل رہے گا اور پانی کے سرچشموں پرہمیشہ کے لیے اُس کا کنٹرول ہو جائے گا۔ اس طرح جب چاہے گا آزاد کشمیر اور پاکستان کے پچیس کروڑ لوگوں کونہ صرف پیاسا مارسکے گابلکہ زراعت کو تباہ کرنے کے بھی قابل ہو جائے گا ۔
آزادکشمیر میں عدمِ استحکام اِس لیے بھی ناقابل قبول ہے کہ جب آزادکشمیر کے لوگوں کو بخوبی معلوم ہے کہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں خودنمائی کی بیماری میں مبتلاقوم پرست ہیں بی ایل اے ،ٹی ٹی پی جیسے فتنہ ہندوستان اور خوارج فعال ہیں جن کی مالی سرپرستی نہ صرف بھارت کررہا ہے بلکہ افغان سرزمین کے زریعے ہتھیاروتربیت بھی فراہم کررہا ہے جس کے ناقابلِ تردیدشواہد موجود ہیں۔ اِن حالات میں خود نمائی کی بیماری میں مبتلالوگوں کامتحرک ہوناسمجھ سے بالاتر ہے جب پورا پاکستان مہنگی بجلی استعمال کررہا ہے مگر آزادکشمیر میں بجلی اور آٹے کے نرخ کم ترین ہیں ۔آزادکشمیر میں تعلیم وصحت کی سہولتیں پورے ملک سے بہتر ہیں ۔تیس فیصدریاستی آبادی کوسرکاری ملازمتیں حاصل ہیں۔ یہ شرح ملک کے تمام علاقوں سے زیادہ ہے۔ اِس کے باوجودٹیکس نہ دینے کی باتیں قابلِ ستائش نہیں۔ ارے بھئی جب آپ ٹیکس ہی نہیں دیں گے تو تعلیم وصحت ،ذرائع آمدو رفت کے لیے وسائل کیسے حاصل ہوں گے؟ خود نمائی کی بیماری میں مبتلا لوگوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے لوگ آزاد کشمیر کے وسائل ہڑپ کررہے ہیں جس میں کوئی صداقت نہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ امسال پاکستان نے اضافی اکیس ارب آزاد کشمیر حکومت کو دیے ہیںجہاں تک مہاجرین نشستوں اور کوٹہ سسٹم کا تعلق ہے تو اِن سے کشمیری ہی مستفیدہورہے ہیں۔ آزاد کشمیر میں کوئی پاکستانی جائید ادتک نہیں خرید سکتا مگر بھارت میں ایسی کوئی پابندی نہیں۔ وہ تو کشمیریوں کی شناخت ختم کرنے کے لیے جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ تک ختم کر چکا ہے ۔لہٰذا خود نمائی کی بیماری کا شکارہوش کے ناخن لیںاوراغیار کی سازشوں میں آلہ کار نہ بنیں ہر گز نہ بھولیں کہ بھارتی بھیڑیے مسلسل اِس تاک میں ہیں کہ آزاد کشمیر کو ہڑپ کر لیں۔ اِس لیے اپنے محدود مفاد کے لیے آزاد خطہ کو سیاسی عدمِ استحکام کی پاتال میں دھکیلنے سے گریز کیا جائے تاکہ پاکستان یکسوئی سے کشمیری بھائیوں کا مقدمہ لڑ سکے۔ اِدارے بھی غیرضروری نرمی کے بجائے ریاستی امن کوہرحال میں یقینی بنائیں تاکہ دشمن کو منفی پراپیگنڈے کا موقع نہ ملے ۔