... loading ...
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
مودی بزدل لیڈر ہے جو صرف اپنے ملک میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا ہے اور گِیدَڑ بَھبکیاںدیتا ہے ،گذشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے دم دبا کر بھاگ گیا اس کی ہمت نہیں تھی کہ وزیراعظم شہباز شریف کا سامنا کرے اور اپنے جھوٹے پہلگام بیانیہ کو ثابت کرے ۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس دنیا کے بڑے اور اہم ترین سیاسی اجتماعات میں شمار ہوتا ہے ۔ یہاں دنیا کے سربراہان مملکت اور وزرائے اعظم اپنی اپنی حکومتوں کی پالیسیوں، ترجیحات اور عالمی مسائل پر مؤقف پیش کرتے ہیں۔ اس اجلاس میں کی جانے والی تقریریں صرف رسمی نہیں ہوتیں بلکہ اکثر نئی عالمی سمت متعین کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ کسی ملک کا سربراہ اگر اس موقع پر موجود نہ ہو تو یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آخر وہ کیوں غیر حاضر رہا۔ بھارت جیسے بڑے ملک کے وزیراعظم نریندر مودی نے اس بار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا اور اس کی بجائے اپنے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کو نمائندگی کے لیے بھیجا۔ یہ فیصلہ محض ذاتی مصروفیت کا معاملہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے کئی سیاسی، سفارتی اور داخلی محرکات کارفرما ہیں۔مودی کی غیر حاضری کی ایک بڑی وجہ امریکہ اور بھارت کے درمیان تجارتی تنازعات سمجھی جا رہی ہے ۔ پچھلے کچھ عرصے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پر اضافی محصولات عائد کر کے تعلقات میں تناؤ پیدا کر دیا تھا۔ امریکہ کا موقف ہے کہ بھارتی منڈیوں میں امریکی مصنوعات کو کھل کر جگہ نہیں مل رہی جبکہ بھارت اپنی مصنوعات کے لیے رعایتیں چاہتا ہے ۔ یہ ٹیرف وار ایسی نوعیت کی تھی کہ اگر مودی خود جنرل اسمبلی میں شریک ہوتے اور وہاں امریکہ کے ساتھ ایک ہی اجلاس یا تقریب میں براہِ راست گفتگو ہوتی تو اس کا نتیجہ غیر ضروری تلخی یا میڈیا میں منفی سرخیوں کی صورت نکل سکتا تھا۔ اس لیے بھارتی حکومت نے سوچا کہ بہتر یہی ہے کہ وزیر اعظم ذاتی طور پر اس بحث کا حصہ نہ بنیں اور یہ بوجھ نمائندہ سطح پر وزیر خارجہ اٹھائیں تاکہ تناؤ کم ہو۔
اس فیصلے کی ایک اور جہت بھارت کی موجودہ سفارتی پالیسی ہے ۔ مودی حکومت خطے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتی ہے اور وہ یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ بھارت کسی بھی عالمی دباؤ کا شکار نہیں ہوتا۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کے دوران لازمی طور پر فلسطین، اسرائیل، یوکرین، ماحولیاتی تبدیلی اور انسانی حقوق جیسے حساس موضوعات پر بات ہونی تھی۔ ان معاملات پر براہ راست بیان دینا بھارت کو کسی نہ کسی ملک کی ناراضگی مول لینے پر مجبور کر دیتا۔ مثال کے طور پر اگر یوکرین پر روس کی کارروائی کو زیادہ سختی سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تو روس ناراض ہوتا اور اگر زیادہ نرم بات کی جاتی تو امریکہ اور یورپی یونین معترض ہوتے ۔ اسی طرح اسرائیل اور فلسطین کے حوالے سے غیر جانبداری برقرار رکھنا بھی مشکل تھا کیونکہ بھارت اسرائیل کے ساتھ دفاعی تعلقات رکھتا ہے اور فلسطینی عوام کے ساتھ روایتی ہمدردی بھی اس کی پالیسی کا حصہ رہی ہے ۔ چنانچہ مودی نے یہ مناسب جانا کہ اس مشکل صورت حال میں کسی بھی تنازع کو وزیر خارجہ کے ذریعے سنبھالا جائے تاکہ وزیراعظم کی ذات پر براہِ راست تنقید نہ آئے ۔
مودی کی غیر شرکت کی ایک اور وجہ داخلی سیاست سے بھی جڑی ہوئی ہے ۔ بھارت میں آنے والے عام انتخابات اور ریاستی سطح کے ضمنی انتخابات نے وزیراعظم کی مصروفیات بڑھا دی ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی انتخابی مہم کے لیے عوامی جلسوں، منصوبوں کے افتتاح اور مقامی سطح پر سیاسی حکمت عملی پر زیادہ توجہ دینا چاہتی ہے ۔ ایسے وقت میں وزیراعظم کا طویل دورہ امریکہ میں گزارنا پارٹی کے لیے فائدہ مند نہ سمجھا گیا۔ مودی کی سیاسی حکمت عملی ہمیشہ یہ رہی ہے کہ وہ عوامی رابطے کو اپنی طاقت بناتے ہیں، اس لیے انہوں نے اپنی مصروفیات کا جھکاؤ اندرون ملک رکھا۔یہ فیصلہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کو اب صرف ایک پلیٹ فارم سمجھتا ہے ، مکمل عالمی پالیسی کا مرکز نہیں۔ مودی حکومت خطے میں Quad، BRICS، G20 اور دیگر علاقائی اتحادوں پر زیادہ فوکس کر رہی ہے جہاں براہِ راست مفادات اور عملی تعاون کی گنجائش زیادہ ہے ۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اگرچہ ایک اہم علامتی مقام ہے مگر یہاں اکثر تقریریں محض بیانات کی حد تک رہ جاتی ہیں۔ عملی سطح پر کوئی فوری تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ بھارت کی قیادت چاہتی ہے کہ اپنی توانائیاں ان فورمز پر خرچ کی جائیں جہاں سے براہِ راست معاشی، تجارتی یا دفاعی فوائد حاصل ہوں۔مودی کی غیر موجودگی کو کچھ حلقے کمزوری سمجھتے ہیں اور یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر بھارت عالمی سیاست میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اس کا وزیراعظم کیوں پیچھے ہٹ رہا ہے ۔ تاہم بھارتی حکومت اس تاثر کو کم کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ وزیر خارجہ ایک تجربہ کار سفارتکار ہیں اور وہ بھارت کا مؤقف بہتر انداز میں پیش کر سکتے ہیں۔ ایس جے شنکر کی تقرری اس مقصد کے لیے کی گئی کہ وہ دنیا کو بتا سکیں کہ بھارت ترقی، امن، ماحولیاتی تحفظ اور غربت کے خاتمے کے لیے پالیسیوں پر عمل پیرا ہے ۔ مودی کے اس فیصلے سے عالمی سطح پر یہ پیغام بھی گیا کہ بھارت اپنے مؤقف کو محتاط انداز میں پیش کرنا چاہتا ہے اور وہ کسی بھی تنازع میں براہ راست الجھنے سے گریز کرتا ہے ۔ یہ پالیسی بعض ماہرین کے نزدیک محتاط حکمت عملی ہے اور بعض اسے کمزوری قرار دیتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ عالمی سیاست میں الفاظ اور علامتوں کی بڑی اہمیت ہے ۔ اگر بھارت مستقل طور پر اس پلیٹ فارم کو ثانوی حیثیت دیتا رہا تو اس کی عالمی آواز کمزور ہو سکتی ہے ۔ لیکن اگر یہ صرف ایک وقتی فیصلہ ہے تو پھر اسے ایک سفارتی چال کہا جا سکتا ہے ۔
دنیا کے دیگر رہنما اس موقع پر اپنی موجودگی کو اہمیت دے رہے تھے ۔ امریکہ، یورپ اور چین کے سربراہان نے اپنی تقاریر کے ذریعے اپنے مؤقف کو اجاگر کیا۔ ایسے میں بھارت کے وزیراعظم کی غیر حاضری نے عالمی میڈیا میں سوال ضرور پیدا کیے ۔ کچھ تجزیہ نگاروں نے کہا کہ یہ فیصلہ بھارت کی جانب سے امریکہ کو ایک خاموش پیغام ہے کہ اگر تجارتی دباؤ بڑھایا گیا تو بھارت براہِ راست تعلقات کو ٹھنڈا بھی کر سکتا ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ پیغام اندرونی سیاست کے لیے تھا کہ وزیراعظم عالمی اجلاس سے زیادہ اپنے عوام کے ساتھ ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ بھارت جیسا بڑا ملک اگر اپنی قیادت کو عالمی فورمز پر نمایاں رکھے تو اس کے مؤقف کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے ۔ جنرل اسمبلی میں کی جانے والی تقریر دنیا بھر کے میڈیا میں نمایاں طور پر رپورٹ ہوتی ہے اور اس سے ایک ملک کی نرم طاقت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اگرچہ وزیر خارجہ کی موجودگی اہم ہے مگر وزیراعظم کی شخصیت کا اثر اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر یہ سوال ضرور رہا کہ مودی کیوں نہیں گیا ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت آئندہ برسوں میں کیا رویہ اپناتا ہے ۔ اگر یہ روایت قائم ہو گئی کہ بھارتی وزیراعظم بار بار اس اجلاس سے غیر حاضر رہا تو یہ اس کی عالمی ساکھ پر اثر انداز ہو گی۔ تاہم اگر یہ صرف اس بار کا فیصلہ ہے اور مستقبل میں مودی یا کوئی اور بھارتی وزیراعظم دوبارہ اس پلیٹ فارم پر بھرپور شرکت کرے تو یہ خلا پر ہو سکتا ہے ۔اس وقت بھارت کو چاہیے کہ اپنی سفارت کاری کو دو سطحوں پر متوازن رکھے ۔ ایک طرف علاقائی اور عملی اتحاد جیسے Quad، BRICS اور G20 پر فعال کردار ادا کرے اور دوسری طرف اقوام متحدہ جیسے عالمی فورمز کو بھی نظر انداز نہ کرے ۔ کیونکہ یہ وہ پلیٹ فارم ہے جہاں دنیا کے چھوٹے بڑے تمام ممالک یکساں طور پر بات کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ بھارت اگر مستقل اپنی غیر موجودگی سے دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ ان فورمز کو غیر اہم سمجھتا ہے تو یہ اس کے عالمی اثر و رسوخ کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
مودی کی غیر حاضری محض ایک وقتی حکمت عملی ہے جس کا مقصد تجارتی تنازعات اور حساس عالمی موضوعات پر غیر ضروری دباؤ سے بچنا تھا۔ مگر بھارت کو مستقبل میں یہ حقیقت یاد رکھنی ہوگی کہ عالمی پلیٹ فارمز پر ذاتی موجودگی علامتی ہی سہی مگر بے حد ضروری ہے ۔ یہ موجودگی کسی بھی ملک کے لیے عالمی سیاست میں طاقت اور اثر کی علامت ہوتی ہے اور بھارت جیسا ملک اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس موقع پر عالمی برادری کے سامنے اپنا موقف بھرپور انداز سے پیش کیا، دنیا معترف ہو گئی ہے ۔
٭٭٭