وجود

... loading ...

وجود

غزہ کی چیخیں ٹرمپ کا امن نوبل انعام یا خون کی تجارت!

پیر 29 ستمبر 2025 غزہ کی چیخیں ٹرمپ کا امن نوبل انعام یا خون کی تجارت!

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

غزہ کے مظلوم بے بس مسلمانوں پر بین الاقوامی سطح پر سیاست ہو رہی ہے۔ پاکستان عرب ممالک بظاہر تو عزہ کے معاملے میں بہت متحرک نظر آ رہے ہیں۔اس حوالے سے خاص طور وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے وفد نے ٹرمپ سے خوشگوار ماحول میں ملاقاتیں کی ہیں لیکن روزانہ عزہ کے مسلمانوں پر اسرائیلی دہشت گرد فوج کی جانب سے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور ان کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔ ابھی تک نیتن یاہو کو لگام نہیں ڈالی جا سکی ہیں۔ٹرمپ نے ابھی تک اسرائیلی فوج کے مظالم کے خلاف آواز بلند نہیں کی اور کسی بھی طرح کے عملی اقدامات نظر نہیں آ رہے ہیں۔جس کی حالیہ مثال غزہ کی سرزمین پر ایک بار پھر ظلم کی انتہا ہو گئی ہے ۔ صرف ایک دن میں 170صہیونی فضائی حملے ، درجنوں مکانوں، بستیوں اور اسپتالوں کو کھنڈر بنانے کے بعد عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے یہ کافی ہیں کہ وہاں خواتین اور بچوں سمیت 83 معصوم فلسطینی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر گئے ۔ شہدا کی مجموعی تعداد بڑھتے بڑھتے 65,502تک جا پہنچی ہے اور زخمیوں کی تعداد 167,376 تک جا پہنچی ہے ۔ ان اعداد و شمار کو پڑھتے ہوئے انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا دنیا واقعی اندھی اور بہری ہو گئی ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر اتنی بڑی انسانی تباہی کو دیکھنے کے باوجود خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ گزشتہ روز کے ہی دوران 83لاشیں اور 216 زخمی اسپتالوں میں لائے گئے۔ مگر افسوس کہ اسپتال بھی مسلسل بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں۔ مزید 7اسپتال بند ہونے سے غزہ کا صحت کا نظام مکمل طور پر بیٹھنے کے قریب ہے ۔یہ محض ایک دن کی تصویر نہیں بلکہ ایک تسلسل ہے جس نے فلسطینیوں کی زندگی کو ایک مستقل جنگی قید خانے میں بدل دیا ہے ۔ صرف 18 مارچ کو جنگ بندی ٹوٹنے کے بعد اب تک 12,939 فلسطینی شہید اور 55,335زخمی ہو چکے ہیں۔ ان اعداد و شمار کا مطلب یہ ہے کہ ہر لمحہ، ہر گھنٹے اور ہر دن فلسطین میں کسی نہ کسی خاندان پر قیامت ٹوٹ رہی ہے ۔ شہروں اور دیہاتوں میں بستیاں ملیا میٹ ہو رہی ہیں، بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں، اور بوڑھے اپنے پیاروں کو ملبے سے نکالنے کے بعد کفن ڈھونڈنے کے بھی قابل نہیں رہتے ۔صورتحال کا ایک اور اندوہناک پہلو یہ ہے کہ مغربی کنارے میں بھی صہیونی کارروائیوں کا سلسلہ تیز کر دیا گیا ہے ۔ وہاں 2فلسطینی شہید کر دیے گئے جبکہ ایک صحافی اور میئر کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبردار ادارے خاموش ہیں اور بڑی طاقتیں اپنے سیاسی و اسٹریٹجک مفادات کی وجہ سے اسرائیل کے جرائم پر آنکھیں بند کیے بیٹھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کو کھلی چھوٹ مل چکی ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ اس کے ہر جرم پر دنیا صرف مذمتی بیانات جاری کرے گی اور کچھ نہیں۔
تاہم ایک مثبت خبر یہ ہے کہ سلووینیا نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو پر سفری پابندی عائد کر دی ہے ۔ یہ چھوٹا سا قدم ہے لیکن کم از کم یہ اس بات کی علامت ہے کہ دنیا کے بعض حصوں میں اسرائیل کے خلاف ردعمل جنم لے رہا ہے ۔ اگر یورپ اور دیگر خطوں میں ایسے اقدامات بڑھتے ہیں تو اسرائیل پر عالمی دباؤ ڈالا جا سکتا ہے ۔ دوسری طرف گلوبل صمود فلوٹیلا نے بھی اسرائیلی حملے کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے عالمی اداروں سے فوری مداخلت کی اپیل کی ہے ۔ یہ فلوٹیلا غزہ کے محصور عوام کے لیے امداد لے کر جاتی ہے اور بارہا اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن چکی ہے ۔ ان کی جانب سے یہ خدشہ ظاہر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اسرائیل انسانی ہمدردی کے کاموں کو بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں۔اصل سوال یہ ہے کہ کب تک غزہ کے عوام کو اس ظلم کا سامنا کرنا پڑے گا؟ کب تک عالمی برادری صرف مذمت کے الفاظ پر اکتفا کرے گی؟ اور کب تک بڑی طاقتیں اپنے اسٹریٹجک مفادات کے نام پر اسرائیل کی پشت پناہی کرتی رہیں گی؟ یہ سوالات اس لیے زیادہ اہم ہیں کہ اس جنگ کے نتیجے میں ایک پوری قوم نسل کشی کا شکار ہو رہی ہے ۔ فلسطینی بچے ایک ایسا بچپن گزار رہے ہیں جس میں ان کے لیے کھیل، تعلیم یا مستقبل کا کوئی تصور باقی نہیں رہا۔ ان کے لیے ہر دن صرف بقا کی جنگ ہے ۔یہاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کردار بھی زیرِ بحث آتا ہے ۔ اگر وہ واقعی نوبل امن انعام حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں تو ان کے پاس سب سے بڑا موقع یہی ہے کہ وہ غزہ کی جنگ ختم کرانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا حامی اور مددگار ہے ۔ اس کے بغیر اسرائیل اتنی کھلی جارحیت کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ اگر ٹرمپ سچ میں امن کا ایجنڈا رکھتے ہیں تو انہیں اسرائیل کو فوری طور پر جنگ بندی پر مجبور کرنا ہوگا، فلسطین کے لیے انسانی امداد کے دروازے کھولنے ہوں گے اور دو ریاستی حل پر دوبارہ بات چیت شروع کرانی ہوگی۔ نوبل امن انعام محض تقریروں اور دعووں سے نہیں ملتا، بلکہ حقیقی اقدام سے حاصل ہوتا ہے ۔ اگر ٹرمپ اس موقع کو ضائع کر دیتے ہیں تو تاریخ انہیں ایک ایسے رہنما کے طور پر یاد کرے گی جو دنیا میں امن لا سکتا تھا مگر اس نے خاموشی کو ترجیح دی۔یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ فلسطین کی سرزمین پر جاری اس جنگ کا اثر صرف مشرقِ وسطیٰ تک محدود نہیں۔ یہ پوری دنیا کے امن کو متاثر کر رہا ہے ۔ جب انصاف نہیں ملتا تو انتہا پسندی بڑھتی ہے ، جب طاقت کے زور پر کمزور کو کچلا جاتا ہے تو نفرت اور بداعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اگر فلسطینی عوام کو ان کے بنیادی حقوق نہیں دیے جاتے تو یہ جنگ مزید کئی دہائیوں تک جاری رہ سکتی ہے ۔ اس کے اثرات دنیا کے ہر خطے تک پہنچیں گے ، چاہے وہ یورپ ہو یا ایشیا، امریکہ ہو یا افریقہ۔ اس لیے عالمی برادری کے لیے یہ محض ایک خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی امن کا سوال ہے ۔
فلسطین کے عوام نے اپنی تاریخ میں بارہا قربانیاں دی ہیں۔ وہ اپنے حقِ خودارادیت سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ ان کا صبر اور استقامت دنیا کے لیے مثال ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا ان کی قربانیوں پر مزید ظلم ڈالنے کی اجازت دیتی رہے ۔ عالمی اداروں، اقوام متحدہ، او آئی سی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوری طور پر ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں۔ سفری پابندیاں، اقتصادی بائیکاٹ، سیاسی دباؤ اور انسانی امداد کی فراہمی وہ اقدامات ہیں جو فوری طور پر کیے جا سکتے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ مسلم دنیا بھی محض بیانات سے آگے بڑھے ۔ فلسطینی عوام کے ساتھ عملی یکجہتی کا تقاضا یہ ہے کہ سفارتی سطح پر اسرائیل کو تنہا کیا جائے ، عالمی عدالتِ انصاف میں اس کے جرائم کی پیروی کی جائے اور اقتصادی و تجارتی بائیکاٹ کے ذریعے اسے جھکنے پر مجبور کیا جائے ۔ صرف زبانی مذمت یا وقتی احتجاج فلسطینی عوام کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتا۔
یادرکھیں! غزہ کے آسمان سے روزانہ ہونے والی بمباری دراصل انسانیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے ۔ اگر دنیا نے اب بھی اپنی آنکھیں نہ کھولیں تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے ایک قوم کو صفحہ ہستی سے مٹتے دیکھ کر کیسے خاموش رہ سکتے ہیں۔ فلسطینیوں کے خون کے ہر قطرے کا حساب ایک دن ضرور لیا جائے گا، چاہے وہ اس دنیا میں ہو یا تاریخ کے کٹہرے میں۔ لیکن اس سے پہلے کہ مزید معصوم جانیں ضائع ہوں، عالمی طاقتوں، مسلم ممالک اور خصوصاً امریکہ کو عملی اقدامات کرنے ہوں گے ۔ امن کا خواب اسی وقت شرمندۂ تعبیر ہوگا جب غزہ پر بمباری رکے گی، محصور عوام کے لیے راستے کھلیں گے اور فلسطین کو اس کا حق ملے گا۔ یہی وقت ہے کہ دنیا فیصلہ کرے کہ وہ انسانیت کے ساتھ کھڑی ہے یا ظلم کے ساتھ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
بیس نکات کی باسی کڑھی وجود جمعرات 02 اکتوبر 2025
بیس نکات کی باسی کڑھی

غزہ: موت کے سائے میں صحافت وجود جمعرات 02 اکتوبر 2025
غزہ: موت کے سائے میں صحافت

بے مقصد شہرت اور سطحی نمائش ایک گمراہ کن رجحان وجود جمعرات 02 اکتوبر 2025
بے مقصد شہرت اور سطحی نمائش ایک گمراہ کن رجحان

پاکستان کا ہر شہری مقروض وجود بدھ 01 اکتوبر 2025
پاکستان کا ہر شہری مقروض

آزاد کشمیر میں عدمِ استحکام ناقابلِ قبول وجود بدھ 01 اکتوبر 2025
آزاد کشمیر میں عدمِ استحکام ناقابلِ قبول

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر