... loading ...
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
غزہ کے مظلوم بے بس مسلمانوں پر بین الاقوامی سطح پر سیاست ہو رہی ہے۔ پاکستان عرب ممالک بظاہر تو عزہ کے معاملے میں بہت متحرک نظر آ رہے ہیں۔اس حوالے سے خاص طور وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے وفد نے ٹرمپ سے خوشگوار ماحول میں ملاقاتیں کی ہیں لیکن روزانہ عزہ کے مسلمانوں پر اسرائیلی دہشت گرد فوج کی جانب سے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور ان کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔ ابھی تک نیتن یاہو کو لگام نہیں ڈالی جا سکی ہیں۔ٹرمپ نے ابھی تک اسرائیلی فوج کے مظالم کے خلاف آواز بلند نہیں کی اور کسی بھی طرح کے عملی اقدامات نظر نہیں آ رہے ہیں۔جس کی حالیہ مثال غزہ کی سرزمین پر ایک بار پھر ظلم کی انتہا ہو گئی ہے ۔ صرف ایک دن میں 170صہیونی فضائی حملے ، درجنوں مکانوں، بستیوں اور اسپتالوں کو کھنڈر بنانے کے بعد عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے یہ کافی ہیں کہ وہاں خواتین اور بچوں سمیت 83 معصوم فلسطینی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر گئے ۔ شہدا کی مجموعی تعداد بڑھتے بڑھتے 65,502تک جا پہنچی ہے اور زخمیوں کی تعداد 167,376 تک جا پہنچی ہے ۔ ان اعداد و شمار کو پڑھتے ہوئے انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا دنیا واقعی اندھی اور بہری ہو گئی ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر اتنی بڑی انسانی تباہی کو دیکھنے کے باوجود خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ گزشتہ روز کے ہی دوران 83لاشیں اور 216 زخمی اسپتالوں میں لائے گئے۔ مگر افسوس کہ اسپتال بھی مسلسل بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں۔ مزید 7اسپتال بند ہونے سے غزہ کا صحت کا نظام مکمل طور پر بیٹھنے کے قریب ہے ۔یہ محض ایک دن کی تصویر نہیں بلکہ ایک تسلسل ہے جس نے فلسطینیوں کی زندگی کو ایک مستقل جنگی قید خانے میں بدل دیا ہے ۔ صرف 18 مارچ کو جنگ بندی ٹوٹنے کے بعد اب تک 12,939 فلسطینی شہید اور 55,335زخمی ہو چکے ہیں۔ ان اعداد و شمار کا مطلب یہ ہے کہ ہر لمحہ، ہر گھنٹے اور ہر دن فلسطین میں کسی نہ کسی خاندان پر قیامت ٹوٹ رہی ہے ۔ شہروں اور دیہاتوں میں بستیاں ملیا میٹ ہو رہی ہیں، بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں، اور بوڑھے اپنے پیاروں کو ملبے سے نکالنے کے بعد کفن ڈھونڈنے کے بھی قابل نہیں رہتے ۔صورتحال کا ایک اور اندوہناک پہلو یہ ہے کہ مغربی کنارے میں بھی صہیونی کارروائیوں کا سلسلہ تیز کر دیا گیا ہے ۔ وہاں 2فلسطینی شہید کر دیے گئے جبکہ ایک صحافی اور میئر کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبردار ادارے خاموش ہیں اور بڑی طاقتیں اپنے سیاسی و اسٹریٹجک مفادات کی وجہ سے اسرائیل کے جرائم پر آنکھیں بند کیے بیٹھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کو کھلی چھوٹ مل چکی ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ اس کے ہر جرم پر دنیا صرف مذمتی بیانات جاری کرے گی اور کچھ نہیں۔
تاہم ایک مثبت خبر یہ ہے کہ سلووینیا نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو پر سفری پابندی عائد کر دی ہے ۔ یہ چھوٹا سا قدم ہے لیکن کم از کم یہ اس بات کی علامت ہے کہ دنیا کے بعض حصوں میں اسرائیل کے خلاف ردعمل جنم لے رہا ہے ۔ اگر یورپ اور دیگر خطوں میں ایسے اقدامات بڑھتے ہیں تو اسرائیل پر عالمی دباؤ ڈالا جا سکتا ہے ۔ دوسری طرف گلوبل صمود فلوٹیلا نے بھی اسرائیلی حملے کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے عالمی اداروں سے فوری مداخلت کی اپیل کی ہے ۔ یہ فلوٹیلا غزہ کے محصور عوام کے لیے امداد لے کر جاتی ہے اور بارہا اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن چکی ہے ۔ ان کی جانب سے یہ خدشہ ظاہر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اسرائیل انسانی ہمدردی کے کاموں کو بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں۔اصل سوال یہ ہے کہ کب تک غزہ کے عوام کو اس ظلم کا سامنا کرنا پڑے گا؟ کب تک عالمی برادری صرف مذمت کے الفاظ پر اکتفا کرے گی؟ اور کب تک بڑی طاقتیں اپنے اسٹریٹجک مفادات کے نام پر اسرائیل کی پشت پناہی کرتی رہیں گی؟ یہ سوالات اس لیے زیادہ اہم ہیں کہ اس جنگ کے نتیجے میں ایک پوری قوم نسل کشی کا شکار ہو رہی ہے ۔ فلسطینی بچے ایک ایسا بچپن گزار رہے ہیں جس میں ان کے لیے کھیل، تعلیم یا مستقبل کا کوئی تصور باقی نہیں رہا۔ ان کے لیے ہر دن صرف بقا کی جنگ ہے ۔یہاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کردار بھی زیرِ بحث آتا ہے ۔ اگر وہ واقعی نوبل امن انعام حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں تو ان کے پاس سب سے بڑا موقع یہی ہے کہ وہ غزہ کی جنگ ختم کرانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا حامی اور مددگار ہے ۔ اس کے بغیر اسرائیل اتنی کھلی جارحیت کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ اگر ٹرمپ سچ میں امن کا ایجنڈا رکھتے ہیں تو انہیں اسرائیل کو فوری طور پر جنگ بندی پر مجبور کرنا ہوگا، فلسطین کے لیے انسانی امداد کے دروازے کھولنے ہوں گے اور دو ریاستی حل پر دوبارہ بات چیت شروع کرانی ہوگی۔ نوبل امن انعام محض تقریروں اور دعووں سے نہیں ملتا، بلکہ حقیقی اقدام سے حاصل ہوتا ہے ۔ اگر ٹرمپ اس موقع کو ضائع کر دیتے ہیں تو تاریخ انہیں ایک ایسے رہنما کے طور پر یاد کرے گی جو دنیا میں امن لا سکتا تھا مگر اس نے خاموشی کو ترجیح دی۔یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ فلسطین کی سرزمین پر جاری اس جنگ کا اثر صرف مشرقِ وسطیٰ تک محدود نہیں۔ یہ پوری دنیا کے امن کو متاثر کر رہا ہے ۔ جب انصاف نہیں ملتا تو انتہا پسندی بڑھتی ہے ، جب طاقت کے زور پر کمزور کو کچلا جاتا ہے تو نفرت اور بداعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اگر فلسطینی عوام کو ان کے بنیادی حقوق نہیں دیے جاتے تو یہ جنگ مزید کئی دہائیوں تک جاری رہ سکتی ہے ۔ اس کے اثرات دنیا کے ہر خطے تک پہنچیں گے ، چاہے وہ یورپ ہو یا ایشیا، امریکہ ہو یا افریقہ۔ اس لیے عالمی برادری کے لیے یہ محض ایک خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی امن کا سوال ہے ۔
فلسطین کے عوام نے اپنی تاریخ میں بارہا قربانیاں دی ہیں۔ وہ اپنے حقِ خودارادیت سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ ان کا صبر اور استقامت دنیا کے لیے مثال ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا ان کی قربانیوں پر مزید ظلم ڈالنے کی اجازت دیتی رہے ۔ عالمی اداروں، اقوام متحدہ، او آئی سی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوری طور پر ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں۔ سفری پابندیاں، اقتصادی بائیکاٹ، سیاسی دباؤ اور انسانی امداد کی فراہمی وہ اقدامات ہیں جو فوری طور پر کیے جا سکتے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ مسلم دنیا بھی محض بیانات سے آگے بڑھے ۔ فلسطینی عوام کے ساتھ عملی یکجہتی کا تقاضا یہ ہے کہ سفارتی سطح پر اسرائیل کو تنہا کیا جائے ، عالمی عدالتِ انصاف میں اس کے جرائم کی پیروی کی جائے اور اقتصادی و تجارتی بائیکاٹ کے ذریعے اسے جھکنے پر مجبور کیا جائے ۔ صرف زبانی مذمت یا وقتی احتجاج فلسطینی عوام کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتا۔
یادرکھیں! غزہ کے آسمان سے روزانہ ہونے والی بمباری دراصل انسانیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے ۔ اگر دنیا نے اب بھی اپنی آنکھیں نہ کھولیں تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے ایک قوم کو صفحہ ہستی سے مٹتے دیکھ کر کیسے خاموش رہ سکتے ہیں۔ فلسطینیوں کے خون کے ہر قطرے کا حساب ایک دن ضرور لیا جائے گا، چاہے وہ اس دنیا میں ہو یا تاریخ کے کٹہرے میں۔ لیکن اس سے پہلے کہ مزید معصوم جانیں ضائع ہوں، عالمی طاقتوں، مسلم ممالک اور خصوصاً امریکہ کو عملی اقدامات کرنے ہوں گے ۔ امن کا خواب اسی وقت شرمندۂ تعبیر ہوگا جب غزہ پر بمباری رکے گی، محصور عوام کے لیے راستے کھلیں گے اور فلسطین کو اس کا حق ملے گا۔ یہی وقت ہے کہ دنیا فیصلہ کرے کہ وہ انسانیت کے ساتھ کھڑی ہے یا ظلم کے ساتھ۔
٭٭٭