... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
لداخ کے دارالخلافہ لیہہ میں مودی کے اقتدار میں ہوتے کھلے عام دفتر کے اوپر سے بھارتیہ جنتا پارٹی کا پرچم اکھاڑ کر پھینک دیا جائے گا یہ اس کے بدترین دشمن نے بھی نہیں سوچا ہوگا ۔ مشتعل ہجوم محض اس علامتی احتجاج پر اکتفاء کرنے کے بجائے پوری عمارت کو پھونک دے گا یہ تو کسی کے خواب و خیال میں نہیں تھا ۔ مذکورہ بالا مناظر کو دکھانے والی ویڈیو ہیکڑی باز نریندر مودی اور امیت شاہ کے ماتھے پر کلنک ہے ۔ ایوانِ پارلیمان کے اندر سینہ ٹھونک کر مقبوضہ کشمیر واپس لینے کی خاطر جان لڑانے کی دھمکی دینے والے وزیر داخلہ اور ان کے غیر حیاتیاتی آقا بے بسی کے ساتھ اپنے دفتر کو جلتا ہوا دیکھتے رہے اور اسے بچانے کی خاطر چار لوگوں کو گولیوں سے بھون دیاگیا۔ یہ تاریخ کے صفحات میں رقم ہوگیا ۔ ایک زمانے میں مرلی منوہر جوشی ایکتا (اتحاد) یاترا لے کر سرینگر گئے تھے ۔ وہاں لال چوک پر اپنی پارٹی کا پرچم لہرانے کی جرأت وہ نہیں دکھا سکے تھے ۔ ایک فوجی چھاونی میں نرسمھا راو نے اس کا اہتمام کروایا تو گھبراہٹ میں اوما بھارتی نے کانپتے ہاتھوں سے الٹا پرچم لہرا دیا تھا اور چند لمحات میں ڈنڈا ٹوٹنے کے سبب جھنڈا زمین پر آگیا ۔ یہ سارے مناظر کیمرے کی آنکھ نے قید کرلیے اور ایکتا یاترا کا مزہ کرکرا ہوگیا۔ لیہہ میں پرچم اکھاڑنے اور دفتر کے جلنے کا منظر اس سے بھی شرمناک تھا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما ان مناظر کو دیکھ کر اس قدر ناراض ہوگئے کہ ان کی زبان سے پولیس فائرنگ میں مرنے اور زخمی ہونے والے مظاہرین کے تئیں ہمدردی کا ایک حرف نہیں نکلا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے منی پور میں جاکر وہاں کے معتوب لوگوں کے زخموں پر تو مرہم نہیں رکھا مگر نیپال میں ہونے والے پُر تشدد مظاہروں میں جان گنوانے والے لوگوں کے تئیں گہری تعزیت کا اظہار کیا وہاں کے نوجوانوں کو امن و امان برقرار رکھنے کی اپیل کی مگر خود اپنے ملک کے تشدد پر وہ گونگے اور بہرے ہوگئے ۔ ایکس پر وزیر اعظم نریندر مودی نے نیپال میں امن اور استحکام بحال کرنے کی کوششوں کے لیے ہندوستان کی پوری حمایت کا اعلان کیا مگر لداخ کے اندر گولیوں سے ہلاک ہونے والوں کے سوگوار پسماندگان کے زخموں پر اپنی خاموشی سے نمک چھڑک دیا۔ لداخ کے پر تشدد احتجاج کی کئی وجوہات ہیں لیکن سرِ فہرست مرکزی حکومت کی بے حسی، سفاکی ، انا اور تکبر ہے۔
2019 کے انتخاب میں جب پلوامہ کے بعد گھر میں گھس کر مارا کا جھانسا دے کر بی جے پی نے پارلیمانی انتخاب جیت لیا تو وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے سب سے طاقتور حریف راجناتھ سنگھ کو ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کیا اور وہ کام ایسے کیا گیا ان سے وزارت داخلہ کا قلمدان چھین کر انہیں وزیر دفاع کی حیثیت سے سرحد پر بھیج دیا گیا ۔ اس خلا کو مودی جی نے اپنے سب قابلِ اعتماد ساتھی امیت شاہ سے پرُ کیا۔ اس تبدیلی کا جواز فراہم کرنے کی خاطر مودی اور شاہ کو کچھ ایسا کرنا تھا جو راجناتھ سنگھ نہیں کرسکتے تھے ۔اپنے آپ شکتی مان ثابت کرنے لیے امیت شاہ نے جموں کشمیر کی دفعہ 370کا خاتمہ کردیا۔ سرکار بننے کے بعد اولین پارلیمانی اجلاس میں ٥ اگست کو یہ زیادتی کی گئی۔ اس کے بعد گودی میڈیا نے امیت شاہ کو ایک نہایت طاقتور مرد آہن بناکر پیش کیا ۔ یہ قسمت کی ستم ظریفی ہے کہ پہلے پہلگام اور اب لیہہ کے مناظر نے ان کی اس جعلی شبیہ کو پوری طرح مسخ کردیا ہے ۔ عوام کی سمجھ میں آگیا کہ خود کو مودی کا ولی عہد بنا کر پیش کرنے والے کی کھال میں شیر نہیں کوئی اور ہے ۔ 370کے خاتمہ ایک ایسے دن کیا گیا کہ دس دن بعد لال قلعہ سے یوم ِ آزادی کے خطاب تھا اور اس کے بعد مہاراشٹر و ہریانہ میں کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے استعمال کرنا تھا ۔
لداخ کی آبادی ضرور کم ہے لیکن رقبے کے لحاظ سے یہ ملک کا سب سے بڑا حلقۂ انتخاب ہے ۔وہاں کے عوام کی بے چینی میں ابال ٦ سال قبل اس وقت آیا جب وزیر داخلہ امیت شاہ نے جموں کشمیر کی دفعہ 370کا خاتمہ کردیا۔ اس کے حق میں جتنے دلائل پیش کیے گئے تھے وہ سب دھرے کے دھرے رہ گئے ۔ سب سے بڑا دعویٰ یہ تھا کہ دہشت گردی اور تشدد کا خاتمہ ہوجائے گا ۔ اس کی ہوا تو پہلگام حملے نے نکال دی ۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا مرکزی حکومت کے تحت آجانے سے جموں کشمیر محفوظ ہوجائے گا ۔ گلوان میں چینی حملہ پہلے ہی اسے غلط ثابت کرچکا تھا،رہی سہی کسر آپریشن سیندور کے بعد دو مقامات پر رافیل کے ملبے نے پوری کردی۔کشمیر یوں سے فاصلے تو کم نہیں ہوئے الٹا پہلگام کے بعد وہاں کے طلبا و تاجروں پر ملک بھر میں حملوں سے اس میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا۔ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ، خوشحالی اور بیروزگاری کا خاتمہ ایسے خواب ہیں جن کو اب مودی اور شاہ نے بھی بیچنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ اس کا کوئی خریدار نہیں ہے ۔
لداخ دو ضلعوں پر مشتمل ہے ۔لیہہ میں بدھوں اور کارگل میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ۔ کارگل کا احتجاج نہایت پر امن تھا اور لیہہ میں تشدد ہوگیا ایسے میں اسے پاکستان سے جوڑنا بھی مشکل ہے۔ اس لیے نیپالی کنکشن ڈھونڈا جارہا ہے ۔ اتفاق سے وہ مسلم ملک نہیں ہے ۔ لیہہ کے احتجاج کو کوئی جنریشن زی سے جوڑ رہا ہے تو کوئی عرب بہار سے جوڑ رہا ہے تو کوئی نیپال سے اس کے تانے بانے ملا رہا ہے ۔ حالیہ احتجاج جن مطالبات کو لے کر چلایا جارہا ہے یہ نئے نہیں 53سال پرانے ہیں ۔تھپسٹان چیوانگ 1972 میں اسی مقصد کی خاطر مظاہرہ کرچکے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ سید میر قاسم کے آگے انہیں اہداف کے حصول کی خاطر احتجاج کیا تو ان پر گولی نہیں چلائی گئی بلکہ 20 دنوں کے لیے جیل بھیجا گیا این ایس اے نہیں لگایا گیا ۔ ملک کا دشمن یا غدار نہیں قرار دیا۔ لداخ کے لوگ جس مرکزی یا ریاستی حکومت کو اپنا دشمن سمجھتے تھے آج وہ انہیں اپنا دوست محسوس کررہے ہوں گے ۔
1972 میں چیوانگ چاہتے تھے لداخیوں کو قبائلی ریزرویشن ملے اور خود مختاری سمیت یونین ٹیریٹیری کا درجہ ملے ۔ آگے چل کر لداخیوں کو ریزرویشن تو مل گیا لیکن اگرنوکری ہی نہ ہو تو بیزروزگاری کیسے دور ہوگی؟ فی الحال انڈمان نکوبار کے بعد سب سے زیادہ یعنی 26فیصد بیروزگاری ہے جو قومی اوسط کے مقابلے دو گنا ہے ۔ یونین ٹیریٹیری بھی بن گئی مگر اختیارات پہلے سے کم ہوگئے ۔ ماضی میں کم ازکم سرینگر میں جاکر اپنی بات منوا لی جاتی تھی کیونکہ وہاں اسمبلی میں چار عدد ارکان ہوا کرتے تھے مگر اب تو سارے فیصلے دہلی سے ہونے لگے جہاں صرف ایک رکن پارلیمان ہوتا ہے ۔ اس نقار خانے میں طوطی کی آواز کوئی نہیں سنتا۔ لداخ کے لوگوں کو فی الحال ایسا محسوس ہورہا ہے گویا دور دیس میں بیٹھے انگریز ان پر حکمرانی کررہے ہیں۔ لداخیوں کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے 1995 میں خود مختارلداخ پہاڑی ترقیاتی کونسل کا قیام عمل میں آیا تو پتہ چلا کہ اس کو فیصلے کرنے کا حق نہیں بلکہ عملدر آمد کی ذمہ داری ہے ۔
چیوانگ کو ہی آگے چل کر1995 میں ترقیاتی کونسل اس کا سربراہ بنایا گیا لیکن انہوں نے کر 2000میں لداخ یونین ٹییٹیری فرنٹ بنایا اور2004میں اس کے تحت الیکشن لڑ کر ایوان پارلیمان میں پہنچ گئے مگر 2009میں سابق رکن پارلیمان حسان خان نے انہیں ہرا دیا۔ اس وقت بی جے پی کا وہاں نام و نشان نہیں تھا ۔ مودی شاہ نے سوچا کیوں نہ انہیں کو ٹکٹ دے کر قسمت آزمائی کی جائے اور 2014 میں وہ پھر سے جیت گئے ۔ یہ بی جے پی کا پرانا حربہ ہے ۔ ان لوگوں نے پہلے مہنت ادیتیہ ناتھ کو ہرانے کی کوشش کی مگر وہ وہ ہندو مہاسبھا کے ٹکٹ پر گورکھپور سے جیت گئے تو اگلے الیکشن میں جن سنگھ کا ٹکٹ پکڑا دیا ۔ آگے چل کر ان کا شاگرد یوگی بھی بی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے ہوئے وزیر اعلیٰ بن گیا۔ 2018 ساتھ رہنے کے بعد چیوانگ کو احساس ہوا کہ وہ غلط صحبت میں پڑگئے ہیں تو انہوں نے استعفیٰ دے دیا ۔
بی جے پی نے اس دوران لداخ میں قدم جمالیے تھے اس نے اپنے پہلے نوجوان صدر کو جامیانگ نامگیا ل کو پھر سے کامیاب کردیا لیکن ان سے یہ غلطی ہوگئی کہ گلوان کے معاملے میں مودی کے جھوٹ کو انہوں نے جھٹلا دیا ۔ اس کے بعد بی جے پی نے ان کا بھی ٹکٹ کاٹ دیا گیا۔ وہ سیٹ چونکہ کانگریس کے حصے میں چلی گئی اس لیے نیشنل کانفرنس کے آزاد امیدوارمحمد حنیفہ نے الیکشن جیت لیا ۔ اس طرح دس سال تک اپنا پارلیمانی امیدوار منتخب کروانے کے باوجود بی جے پی اپنے کٹھ پتلی لیفٹیننٹ گورنر سے دفتر کی حفاظت نہیں کروا سکی جو شرمناک ہے ۔معروف سماجی کارکن سونم وانگچوک ایک طویل عرصے سے لداخ کے لوگوں کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ وہ نہ صرف کئی بار ستیہ گرہ یعنی بھوک ہڑتال کے ذریعہ اپنا احتجاج درج کراچکے ہیں بلکہ ایک بار لیہہ سے دہلی تک پیدل مارچ بھی کرچکے ہیں۔ اس بار بھی انہوں نے 35 دنوں کی بھوک ہڑتال کا اعلان کیا ۔
وانگچوک سمیت لیہہ ایپیکس باڈی کے ستیہ گرہ کو 15دن گزر گئے مگر پہلے کی طرح سرکار نے اسے نظر انداز کرتی رہی ۔ تشدد کی واردات سے دو دن قبل مظاہرین نے سرکار کو خبردار کیا کہ لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا ہے ۔ پھر بھی سرکار خوابِ غفلت میں پڑی رہی۔ لیہہ کے جو رہنما بات چیت کررہے تھے ان کو اچانک ١١ دن بعد یعنی ٦ اکتوبر کی تاریخ دے دی گئی تاکہ بھوک ہڑتال کرنے والے مر کھپ جائیں یا اپنا ستیہ گرہ ختم کردیں۔ حکومت کے یکطرفہ فیصلے سے مظاہرین میں غم و غصہ پیدا ہوا اور اسی کے ساتھ دولوگوں کی حالت اتنی بگڑی کہ انہیں اسپتال پہنچانا پڑا۔ سرکار کے بلا مشورہ یکطرفہ اعلان نے بھی لوگوں کی ناراضی میں بے شمار اضافہ کردیا۔ یہیں سے حالات بگڑے اور اس کے لیے سرکار کی بے حسی اور رعونت ذمہ دار ہے لیکن اب مرکزی وزارت داخلہ اس بدامنی کی ذمہ داری سونم وانگچوک پر ڈال کرانہیں چار افراد کی ہلاکت کا مجرم بنا رہی ہے ۔
وزارت داخلہ کا بیان دیکھ کر الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والا محاورہ یاد آتا ہے ۔ حکومت اپنی مجرمانہ غفلت اور بھول چوک کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لیے وانگچوک کو موردِ الزام ٹھہرارہی ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ جن مطالبات کی خاطر موصوف بھوک ہڑتال پر تھے وہ اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی (ایچ پی سی) میں بحث کا لازمی حصہ ہیں۔ یہ کذب بیانی ہے ۔ سرکار ان کے دونوں بنیا دی مطا لبات پر تو بات ہی نہیں کرنا چاہتی بلکہ جزوی مسائل کو حل کرکے بہلانا پھسلاناچاہتی ہے ۔ حکومت کا الزام ہے کئی رہنماوں کی جانب سے بھوک ہڑتال ختم کرنے پر زور دینے کے باوجود انہوں نے بھوک ہڑتال جاری رکھی لیکن کیا ان لیڈروں میں وزیر اعظم یا وزیر داخلہ شامل تھے ؟ ویسے بی جے پی اگر اپنے منشور میں لکھے وعدوں سے پِھر جائے تو بات چیت بے معنی ہوجاتی ہے ۔ یہ دعویٰ غلط ہے کہ مظاہرین کو عرب بہاریہ اور نیپال کے جنریشن زیڈ تحریک کا حوالہ دے کر اشتعال انگیز طریقے سے گمراہ کیا گیا ۔ میڈیا کے ذریعہ اس دور میں جدوجہد کی شعلے جنگل کی آگ بن کر نوجوانوں کے اندر پھیل جاتے ہیں ۔
مرکزی حکومت یہ اوٹ پٹانگ الزامات اس لیے لگا رہی ہے کیونکہ 24 ستمبر کو تقریباً 11.30 بجے ایک ہجوم بھوک ہڑتال کے مقام سے نکل کر بی جے پی کے دفتر اور سی ای سی لیہہ کے سرکاری دفتر کی طرف گیا اور ان کو آگ لگا دی۔ یہ کہنا غلط ہے کہ ایسا وانگ چوک کی اشتعال انگیز تقریروں کے سبب ہوا سرکار اگر بروقت اقدام کرتی تو اس حملے کو ٹالا جاسکتا تھا ۔ وہاں پر سکیورٹی کا انتظام چوکس ہوتا تو اہلکاروں پر حملہ نہیں ہوتا اور نہ پولیس کی گاڑی کو نذر آتش کیا جاسکتا تھا مگر یہ انٹیلی جنس کی کوتاہی ہے کہ عوام کے غم غصے کا درست ا ندازہ نہیں لگایا جا سکا۔ وزیر اعظم کے حفاظتی صلاح کار اجیت ڈوول کو اس کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے مگر ان کے بجائے بے ضرر سونم وانگ چوک کو بلی کا بکرا بنایا جارہا ہے اور اب تو انہیں این ایس اے کے تحت گرفتار کرلیا گیاہے ۔ یہ دہلی کے فساد جیسا معاملہ ہے کہ اصلی فسادیوں کو تو بچا لیا گیا نیز بے قصور لوگوں پر پچھلے پانچ سال سے مقدمہ تک شروع نہیں ہوا۔ بے قابو ہجوم نے سکیورٹی اہلکاروں پر حملہ کیا جس میں 30سے زیادہ پولیس/سی آر پی ایف اہلکار زخمی ہوئے لیکن جو مظاہرین جان سے گئے یا زخمی ہوئے سرکار ان سے متعلق پوری طرح خاموش ہے ۔ کرفیو لگا ہوا ہے اور انٹرنیٹ بند ہے ۔
وزارت داخلہ نے سونم وانگچوک پر بھوک ہڑتال ختم کرنے کے باوجود تشدد پر قابو پانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کرنے کا تو الزام جڑ دیا مگر یہ نہیں بتایا کہ خود اس نے کیا کوشش کی اور نتیجہ کیوں نہیں نکلا؟ نظم و نسق قائم رکھنا بنیادی طور پر کسی فرد کی نہیں بلکہ حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ اس تشدد کے سبب سرکار نے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کی اگلی میٹنگ کو ٦ سے پہلے کرنے کا اعلان تو نہیں کیا ہاں 25 اور 26 ستمبر کو لداخ کے رہنماؤں سے ملاقاتوں کا منصوبہ بنایا لیکن اس کے تحت کس نے کس سے ملاقات کی اور کیا حاصل کیا یہ کوئی نہیں جانتا۔ اب یہ خبر آرہی ہے کہ لداخی رہنماؤں کا وفد دہلی جارہا ہے کیونکہ مودی اور امیت شاہ میں فساد زدہ علاقوں میں جانے کی ہمت نہیں ہے ۔ حکومت نے موسمیاتی کارکن سونم وانگچوک پر شکنجہ کستے ہوئے ان کے قائم کردہ اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل اینڈ کلچرل موومنٹ آف لداخ (SECMOL)کے غیر ملکی اعانت کی سہولت (FCRA)سرٹیفکیٹ منسوخ کر دیا گیا ۔
لداخ کے ضلع لیہہ میں سرکاری ظلم و ستم کے خلاف کرگل ضلع میں ڈیموکریٹک الائنس (کے ڈی اے ) نے اپنے مظلوم بھائیوں کے ساتھ یکجہتی اور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے بند کا اہتمام کیا۔کے ڈی اے کے مطابق یہ کال نہ صرف وزارت کو پیش کیے گئے اہم چار نکاتی ایجنڈے کے لیے مرکزی وزارت داخلہ پر دباؤ ڈالنے کے لیے تھی بلکہ لیہہ کے ان لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے بھی تھی، جنہیں حکام کی جانب سے وحشیانہ کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا۔کرگل ڈیموکریٹک الائنس کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ، ہم اس نازک موڑ پر اپنے اعلیٰ رہنماؤں اور لیہہ کے لوگوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں۔ یہ ایک مشترکہ جدوجہد ہے ، اور ہم اسے پرامن طریقے سے آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں، جمہوری طور پر، اور متحد طور پرہم لیہہ میں حالیہ تشدد کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں کئی ہلاکتیں ہوئیں۔کے ڈی اے نے حکومت ہند سے عوام کے جمہوری امنگوں کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا نیز کرگل بند کو غیر معمولی کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے عوام کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔یہ انسانی ہمدردی اسلامی شعار ہے جس کے تحت مشکل کی گھڑی میں بلاتفریق مذہب و ملت مظلوم کا ساتھ دیا جاتا ہے ۔ ایسی اخوت کا مظاہرہ کرنا 80/20کی سیاست کرنے والوں کے بس کا روگ نہیں ہے ۔