... loading ...
حمیداللہ بھٹی
پاک امریکہ روابط کاثمر ہے کہ پاکستان کی عالمی ساکھ بہتر اور عالمی مالیاتی اِدارے قرض دینے میں بھی فیاض ہوئے ہیں۔ امریکی صدر کا فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کو ناشتے پر مدعو کرنے اوراب وزیراعظم شہباز شریف اور جنرل عاصم منیر سے ایک گھنٹہ سے زائد خوشگوار ملاقات کو اندرون و بیرونِ ملک حیرت سے دیکھا جارہا ہے جسے کچھ حلقے بھارت سے تعلقات میں بگاڑ کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں مگر شاید بات اتنی سادہ نہیں جس طرح ظاہر کی جارہی ہے۔ یہ درست ہے کہ امریکی صدرڈونلڈٹرمپ سیمابی فطرت کے مالک ہیں لیکن اِتنے سطحی اور بچگانہ نہیں ہو سکتے کہ تعلقات بگاڑتے اور سنوارتے جذبات کی رومیں بہہ جائیں ۔اِس حوالے سے اسرائیل کی نظیر ہمارے سامنے ہیں کہ کچھ بھی ہوجائے فلسطین اور غزہ کے حوالے سے جب عالمگیر سوچ کے وہ مخالف سمت میں کھڑے ہیں،آئندہ بھی حالات خواہ کچھ ہو جائیں امریکی قیادت اسرائیلی دفاع پرکسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔ اس تناظرمیں ایک مسلم جوہری ملک پر اچانک نوازشات کچھ ہضم نہیں ہو رہیں۔ بظاہر پاکستان ایک بارپھر امریکی ضرورت بن چکا ہے ۔اسی لیے قُربت و اُلفت کااظہار کیا جارہا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستانی قیادت ماضی کومد نظر رکھتے ہوئے ایسے اقدامات سے گریز کرے جن کے نتائج پاکستان کی بجائے صرف امریکہ کے لیے بہتر ہوں۔
پاکستان کوبخوبی تجربہ ہے کہ امریکی دشمنی سے زیادہ دوستی خطرناک ہوتی ہے مگروزیرِ اعظم لیاقت علی خان کے دورسے امریکی عشق میں مبتلا پاکستانی قیادت بار بار نقصان اُٹھا کر بھی روش بدلنے کو تیار نہیں۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان دولخت ہو گیا جبکہ امریکی بحری بیڑے کی آمد کامژدہ ہنوزپورا نہیں ہو سکا ۔ایف سولہ لڑاکا طیارے دیتے ہوئے پابند کیا جاتا ہے کہ بھارت پر حملے کے لیے استعمال نہ کریں چین سے امریکی روابط قائم کرانے اورافغان جنگ میںروس کے خلاف استعمال ہونے کے باوجود پاکستان آج بھی امریکہ کا اعتماد حاصل نہیں کر سکا ۔امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان پر حملے کے دوران بھی پاکستان سے بزورتعاون لیا گیا۔ اِس دوران شکوک وشبہات ظاہر کرتے ہوئے ڈومورجیسے مطالبا ت ہوتے رہے کیا یہ سمجھنے کے لیے ناکافی ہے کہ امریکہ سے معاہدے کرتے ہوئے احتیاط پسندی سے کام لیا جائے ؟
کچھ خوش فہم حلقے کہتے ہیں کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کی تکمیل میں امریکی تعاون کارفرما ہے وگرنہ یہ کسی صورت پایہ تکمیل کونہ پہنچتا اِس میں کوئی صداقت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ روس و افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان امریکہ کی ضرورت تھا۔اسی لیے امریکہ نے کچھ نرمی برتی۔ اگر پاکستان تعاون نہ کرتا تو نہ صرف روس دولخت نہ ہوتا بلکہ افغانستان سے روسی انخلا بھی ہر گز نہ ہوتا۔ اِس کے باوجود پاکستان جوہری پرو گرام مسلسل دبائو میں رہا اور ہربرس امریکی صدر اِس حوالے سے ایک خط جاری کرتا رہا جس میں تصدیق کی جاتی کہ پاکستان جوہری ہتھیار تیار نہیں کررہا۔ مگر روسی خطرہ ختم ہوتے ہی آنکھیں پھیر لی گئیں اور پاکستان پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کردی گئیں۔ مشرف دور میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلائوکا الزام لگا کرمجبور کیا گیاکہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی بے توقیری کی جائے اِس کے باوجود اگر کوئی امریکی خلوص پر یقین رکھتا ہے تو میرے خیال میں حقائق کوجھٹلانے کے مترادف ہے ۔
اب ایک بار پاکستان اہمیت اختیار کر گیا ہے جس کی کئی ایک وجوہات ہیں اول۔چین کامعاشی اور فوجی قوت بننا،دوم۔ایران کا اسرائیل کے لیے خطرہ ہونا،سوم ۔افغان انتظامیہ سے معدنیات میں شراکت داری۔چہارم بھارت کو پاکستان کے ذریعے مجبور کرنا کہ وہ غیر مشروط طورپر امریکہ کے زیرِ اثر رہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ پاکستانی قیادت پر فریفتہ ہے ۔رواں برس مئی کی پاک بھارت محدود جنگ نے امریکہ کو باور کرادیا ہے کہ روایتی اور غیر روایتی دونوں حوالے سے پاکستان کو بھارت پر برتری حاصل ہے جوامریکی مفاد کے منافی ہے ۔اسی لیے پاکستان کی فوجی قیادت سے روابط بڑھائے جارہے ہیں تاکہ بوقت ِ ضرورت اپنے مفاد کے مطابق فیصلے لیے جا سکیں لہٰذا ملکی مفاد ہرگزنظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ کرپٹو کرنسی کے حوالے سے پاکستان غیر ضروری رعایت دے چکا اب بھی ایسی افواہیں زبانِ زدو عام ہیں کہ معدنیات کے حوالے سے ہر امریکی مطالبے پر سرتسلیمِ خم کیا جارہا ہے۔ اگر یہ افواہیں درست ہیں تو ایسے معاہدوں سے اجتناب بہترہوگا جن سے ملک و قوم کا کچھ بھلا نہ ہو اور تمام وسائل امریکی کمپنیاں لوٹ کر نو دو گیارہ ہو جائیں۔
اِس وقت پاکستان غیر جانبدانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ روس،چین ،ایران سے لیکر سعودی عرب تک پاکستان سے تعلقات اور اشتراک کار بڑھانے میں سنجیدہ ہیں۔ یہ ایک اہم سفارتی کامیابی ہے۔ پاک چین سی پیک منصوبہ سے خطے میں معاشی سرگرمیوںمیں اضافہ یقینی ہے۔ مگر اِس حوالے سے امریکی خدشات کسی سے پو شیدہ نہیں۔پاک سعودیہ دفاعی معاہدے سے پاکستان کو معاشی فوائد حاصل ہونے کا بھی قومی امکان ہے ۔پاکستانی قیادت کوشش کرے کہ ملک کو فوجی قوت بنانے کے بعد اب معاشی طاقت بنانے کی طرف پیش رفت ہو۔ ایسا تبھی ممکن ہے جب پاکستان کسی ایک عالمی طاقت پر انحصار کرنے کی بجائے تمام آپشن کُھلے رکھے۔ ماضی کی طرح کسی ایک پر انحصار دستیاب مواقع ضائع کرسکتا ہے۔ ایک عالمی طاقت کاطرفدار بن کررہنااور دیگر کو ناراض کر دینا کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں۔
چین پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے ۔یہ ایک بڑی معاشی اور فوجی طاقت ہے اِس لیے کسی ملک سے دوطرفہ تعلقات میں علاقائی امور کو نظر انداز کرنا مناسب نہیں۔ ٹرمپ کے مسلم مخالف خیالات کسی سے مخفی نہیں ۔اقوامِ متحدہ سے خطاب کے دوران میئر لندن صادق خان پر خوبصورت تہذیبی شہر کوبرباد کرنا اور لندن میں شریعت نافذ کرنے کا الزام لگاناغیر معمولی حرکت ہے۔ ٹرمپ تو غیر قانونی تارکینِ وطن کے لیے سرحدیں کھولنے کے یورپی ممالک کے فیصلے کو اپنے ممالک جہنم بنانے کے مترادف قرادیتے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر مسلم ممالک غریب ہیں جن کے شہری بہتر روزگار کے لیے یورپ کا رُخ کرتے ہیں ۔یہ خیالات واضح کرتے ہیں کہ ٹرمپ سے کسی مسلم ملک پر نوازشات خالی ازعلت نہیں۔ پاک سعودیہ دفاعی معاہدے پر امریکہ اور اسرائیل کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ بہتر یہ ہے کہ فیصلوں میں ملکی اور قومی مفاد کو اولیت دی جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ تاریخ میں موجودہ قیادت کی داستان بُرے القابات کاباعث بنے۔
٭٭٭