وجود

... loading ...

وجود

بھارت کا سیکولر چہرہ ہندوتوا انتہا پسندی کی نئی شکل

جمعرات 25 ستمبر 2025 بھارت کا سیکولر چہرہ ہندوتوا انتہا پسندی کی نئی شکل

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

 

بھارت کے مسلمان پاکستان کے خلاف زہر اُگلنے اور ہرزہ سرائی کر کے جتنی بھی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کر لیں لیکن اپنی وفاداری ثابت نہیں کر سکتے ۔بھارت کے مسلمان اور وہاں کا نام نہاد مسلم رہنما اسد الدین اویسی زہریلا انسان ہے اور مودی کا ایجنٹ ہے بہت فخریہ انداز میں دو قومی نظریہ کی مخالفت کرتا ہے ۔اپنے آپ کو محب وطن بھارتی کہتا ہے لیکن آج تک مسلمانوں کے حقوق اور ہندوتوا سوچ سے آزادی نہیں دلا سکا۔صرف میڈیا پر بھاشن جھاڑتا ہے ۔بھارت کے مولوی بھی دوغلے ہیں ۔یہ پاکستان مخالفت میں اسلام کی غلط تشریح کرتے ہیں، ان کا ایجنڈا بھی پاکستان مخالف بیانیہ ہے ۔اسی وجہ سے بھارتی متعصب ہندو لیڈروں اور تنظیموں کی وجہ سے وہاں شر پھیلاتا ہے ۔گزشتہ دنوں ایسا ہی واقعہ رونما ہوا جس کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ۔
بھارت میں( I Love Muhammad) کے جملے نے جس تیزی سے ایک تحریک کی شکل اختیار کی ہے ، وہ محض نبی کریم ۖ سے محبت اور عقیدت کا اظہار تھا مگر اس نے ملک کے سیاسی، سماجی اور مذہبی منظرنامے کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ ابتداء ایک سادہ سی کارروائی سے ہوئی جب اُتر پردیش کے شہر کنپور کے علاقے راوت پور میں عید میلاد النبی ۖ کے جلوس کے دوران ایک برقی بورڈ پر I Love Muhammad تحریر نمایاں کی گئی۔ مقامی پولیس اور انتظامیہ نے اسے نئی روایت قرار دیتے ہوئے مخالفت کی اور کچھ افراد کے خلاف مقدمات درج کیے ۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ اس طرح کی علامتی اشیاء پہلے کبھی جلوس کے روایتی راستے پر استعمال نہیں کی گئیں اور اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے ۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ایک محبت بھرا پیغام تنازع کا شکار ہو کر پورے ملک میں پھیل گیا۔کنپور کے بعد یہ معاملہ صرف ایک شہر تک محدود نہ رہا بلکہ جلد ہی اتر پردیش کے دیگر اضلاع جیسے انّاؤ، کاوشامبی، مہرّاج گنج، بَرے لی اور لکھنؤ تک پھیل گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد، مہاراشٹر کے شہر ناگ پور اور اتراکھنڈ کے کاشی پور میں بھی یہی نعرہ بلند ہوا۔ جگہ جگہ مسلمان نوجوان اور مذہبی تنظیمیں بینرز لے کر سڑکوں پر نکل آئے ۔ ان کا مؤقف یہی تھا کہ یہ ان کا آئینی اور مذہبی حق ہے کہ وہ اپنے نبی ۖ سے محبت کا اظہار کریں اور اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔دوسری طرف متعصب ہندو تنظیموں کا ردعمل انتہائی سخت اور جارحانہ تھا۔ انہوں نے اسے ایک نئی روایت قرار دے کر مخالفت شروع کر دی۔ بعض جگہوں پر ہندو انتہا پسند گروپوں نے بینرز کو پھاڑنے اور جلوس روکنے کی کوششیں کیں۔ کنپور میں ایک ہندوتوا تنظیم نے کھلم کھلا ایک بورڈ توڑ ڈالا لیکن اس کے باوجود پولیس نے کارروائی مسلمانوں کے خلاف ہی کی اور ایف آئی آر میں صرف ان کے نام درج کیے گئے ۔ ان گروپوں کا دعویٰ تھا کہ ایسی نئی روایات جلوسوں میں شامل کرنا سماجی امن کو نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ یوں یہ معاملہ فرقہ وارانہ کشیدگی کی شکل اختیار کر گیا اور ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے ۔
اس تحریک میں کئی مسلم سیاسی رہنما اور جماعتیں بھی سامنے آئیں۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ I Love Muhammad کہنا کسی بھی صورت جرم نہیں ہے ، یہ محض ایک جذباتی اظہار ہے اور اس پر ایف آئی آر کاٹنا غیر آئینی اور امتیازی رویہ ہے ۔ سماج وادی پارٹی کے رہنماؤں نے بھی اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور انتظامیہ مسلمانوں کو بلاوجہ ہراساں کر رہی ہے اور ان کے بنیادی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔ صوفی تنظیموں اور مذہبی اداروں جیسے ورلڈ صوفی فورم اور جماعت رضا مصطفی نے بھی اپنے بیانات میں واضح کیا کہ مسلمانوں کا یہ اظہار پرامن ہے اور اسے روکنے کی بجائے اس کا احترام کیا جانا چاہیے ۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنے ماننے والوں کو صبر اور تحمل کا دامن تھامنے کی تلقین کی تاکہ کسی طرح کا تشدد یا انتشار نہ پھیلے ۔ادھر بی جے پی اور ریاستی حکومتوں کا مؤقف اس کے برعکس رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ جلوس اور مذہبی تقریبات میں نئی چیزیں شامل کرنا سماجی ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے اور اس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کارروائی کا حق ہے ۔ بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے اسے امن و امان کا مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ ریاستی حکومتیں صرف اپنا آئینی فرض ادا کر رہی ہیں۔مرکزی حکومت یعنی مودی سرکار نے اگرچہ اس معاملے پر کھلا بیان دینے سے گریز کیا لیکن اس کا عمومی مؤقف یہی رہا کہ ریاستی حکومتیں اپنے دائرہ کار میں قانون کے مطابق کارروائیاں کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں اصل اعتراض بینر کے الفاظ پر نہیں بلکہ جلوس میں نئی روایت شامل کرنے پر تھا۔ تاہم اس وضاحت نے مسلمانوں کو مطمئن نہیں کیا بلکہ ان کے خدشات کو مزید بڑھا دیا کہ حکومت دراصل تعصب کا شکار ہے اور اقلیتوں کو اپنے عقیدے کے اظہار کا حق نہیں دیا جا رہا۔یہ تمام صورتحال بھارت کے آئین میں درج مذہبی آزادی اور اظہار رائے کے حق کو سوالیہ نشان بنا رہی ہے ۔
ایک طرف مسلمان پرامن طریقے سے اپنے نبی ۖ سے محبت کا اظہار کر رہے ہیں تو دوسری طرف انتظامیہ اسے جرم بنا کر پیش کر رہی ہے۔ اگر ریاست اس قدر امتیازی رویہ اپنائے گی تو یہ تحریک محض ایک نعرے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ایک بڑے سیاسی اور سماجی دباؤ میں بدل جائے گی۔ اس وقت بھارت کو دراصل سب سے زیادہ ضرورت مذہبی رواداری اور یکجہتی کی ہے ۔ اگر ہر طبقہ دوسرے کے جذبات کا احترام کرے تو ایسے تنازعات جنم ہی نہ لیں۔
آخر میں یہ بات واضح ہے کہ I Love Muhammad تحریک صرف ایک بینر یا بورڈ نہیں بلکہ کروڑوں مسلمانوں کے دل کی آواز ہے ۔ اس آواز کو دبانے کی کوشش دراصل ایک ایسی چنگاری کو ہوا دینا ہے جو ملک کے سماجی تانے بانے کو نقصان پہنچا سکتی ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس تحریک کو تعصب کی عینک سے دیکھنے کے بجائے اسے ایک پرامن مذہبی اظہار سمجھے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انتظامیہ ایف آئی آر واپس لے ، مسلمانوں کے بنیادی حقوق کا احترام کرے اور متعصب عناصر کو قابو میں کرے ۔ عوام کو بھی چاہیے کہ صبر اور تحمل کا مظاہرہ کریں اور احتجاج کو پرامن رکھیں تاکہ مخالفین کو الزام تراشی کا کوئی موقع نہ ملے ۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ معاملہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے اور بھارت کی سیکولر شناخت پر ایک بڑا سوال کھڑا ہو سکتا ہے ۔ بھارتی مسلمان ذہنی غلامی سے ابھی تک آزاد نہیں ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے متعصب ہندو ان کو مذہبی دباؤ میں رکھتے ہیں۔بھارت کے مسلمان اور وہاں کے مسلم رہنما پاکستان کی فکر چھوڑیں اور اپنے حقوق کے حصول مسائل پر توجہ دیں۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
بیس نکات کی باسی کڑھی وجود جمعرات 02 اکتوبر 2025
بیس نکات کی باسی کڑھی

غزہ: موت کے سائے میں صحافت وجود جمعرات 02 اکتوبر 2025
غزہ: موت کے سائے میں صحافت

بے مقصد شہرت اور سطحی نمائش ایک گمراہ کن رجحان وجود جمعرات 02 اکتوبر 2025
بے مقصد شہرت اور سطحی نمائش ایک گمراہ کن رجحان

پاکستان کا ہر شہری مقروض وجود بدھ 01 اکتوبر 2025
پاکستان کا ہر شہری مقروض

آزاد کشمیر میں عدمِ استحکام ناقابلِ قبول وجود بدھ 01 اکتوبر 2025
آزاد کشمیر میں عدمِ استحکام ناقابلِ قبول

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر