... loading ...
ماجرا/ محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سوال کبھی موجود ہی نہیں تھاکہ عالم اسلام کے سینے میں خنجر کی طرح پیوست اسرائیل کیا کر رہا ہے؟ سوال ہمیشہ سے یہی تھا کہ عالم اسلام اور عالم عرب کیا کر رہا ہے؟ قطر حملے کے بعد بھی سوال یہی ہے۔ اس باب میں بھیانک حقیقت یہ ہے کہ قطر اور اسرائیل دونوں کا سرپرست ایک یعنی امریکا ہے۔سفاکانہ سچ یہ بھی ہے کہ صرف قطر پر موقوف نہیں،بلکہ قطرسے حملے کے بعد اظہارِ یکجہتی کرنے والے عرب اور مسلم ممالک بھی امریکا کی چھتری تلے رہتے ہیں۔ منظر واضح ہے۔ حملہ آور اسرائیل کا مشرق ِ وسطی میں سرپرست امریکا ہے۔ حملے کے ہدف ملک قطرکا بھی امریکا پر انحصار ہے، جہاں دوحہ سے جنوب مغرب میں مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا امریکی فوجی مستقر العدید ائیر بیس ہے۔ یہ 60 ایکڑ پر محیط ہے، جو 1996ء میں تعمیر ہونا شروع ہوا، اور2001ء سے امریکا کے زیر استعمال ہے۔ یہ یو ایس سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کا فارورڈ ہیڈکوارٹر ہے جو مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی اور فضائی آپریشنز کی نگرانی کر تا ہے،یہاں ہمہ وقت دس ہزار امریکی فوجی تعینات رہتے ہیں۔
ایک حساس نکتے کی طرف توجہ ضروری ہے۔ قطر کے امریکا کو مہیاکردہ العدید ائیر بیس سے جن ممالک کے خلاف عسکری اور فضائی نگرانی یا مختلف آپریشن میں مدد فراہم کی جاتی ہے وہ تمام کے تمام مسلم ممالک ہیں۔ امریکا نے کبھی نہیں چھپایا کہ یہ اڈہ عراق ، شام اور افغانستان کے خلاف کارروائیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مگر جن امور کو مخفی رکھا جاتا ہے ، ان میں یہ پہلو شامل ہے کہ اسی اڈے سے اسرائیل کو بھی
مدد فراہم کی جاتی ہے۔اب اگر قطر پر اسرائیل حملہ کرتا ہے تو العدید ائیربیس کی معاونت کوئی خارج از امکان نہیں۔کیونکہ اسرائیل کو 2021ء میں’ سینٹ کام’ کی ذمہ داری کی حامل حدود میں شامل کر لیا گیا تھا۔ اب ذرا اس کو یوں پڑھ کر دیکھیں۔ اسرائیل کا قطر کی مدد سے قطر پرحملہ۔ کچھ عجیب لگے گا مگر غلط ہر گز نہیں۔چونکہ یہ یو ایس سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کا فارورڈ ہیڈکوارٹر ہے، لہٰذا یہ سینٹ کام کے پورے علاقے کی فضائی ، فوجی آپریشنز کی نگرانی اور معاونت کرتا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اب ذرا یوں پڑھ کر دیکھیں کہ قطر میں قائم امریکا کا العدید ائیر بیس افغانستان ، عراق اور شام کی مانند پاکستان کی بھی نگرانی کرتا ہے۔یہ کیسا لگ رہا ہے؟ چلیں چھوڑیں اور خوش ہوں کہ پاکستان کے وزیراعظم(فارم (47 شہباز شریف اظہارِ یکجہتی کے لیے فوراً ہی قطر پہنچے ہیں۔ ایک دورہ تو بنتا ہی ہے۔
عالم عرب کے جو حکمران قطر میں حماس رہنماؤں کو نشانہ بنائے جانے کے بعد اپنا ردِ عمل ظاہر کر رہے ہیں۔ وہ تمام ممالک امریکی مقاصد کی چھتری تلے آسودہ ہیں۔ درحقیقت اُن تمام ممالک میں امریکا کے عسکری مقاصد کے حامل خطرناک اڈے قائم ہیں۔ ذرا ایک نظر ڈال لیں۔
بحرین میں منامہ کے قریب امریکا کا بحری بیڑے کا ہیڈ کوارٹر 152 ایکڑ پر محیط ہے۔یہاں پانچواں بحری بیڑہ تعینات ہے۔ کویت میں کیمپ عارفجان امریکی آرمی کے سینٹرل اور’علی السلیم ایئر بیس’ کا فارورڈ ہیڈکوارٹر ہے ، یہ 1999ء سے قائم ہے۔ یہ عراق کی سرحد سے تقریباً 40کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔اس کے علاوہ، عراق جنگ کے دوران کویت کے شمال مغربی علاقے میں 2003ء میں ایک اور امریکی فوجی اڈہ بھی قائم کیا گیا تھا جو عراق اور شام میں تعینات امریکی فوج کے یونٹس کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے۔امریکی فضائیہ کا ایک اہم ترین مرکز متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی کے جنوب میں واقع ‘الظفرہ ایئر بیس’ ہے۔ یہاں پانچ ہزار سے زیادہ امریکی اہلکار تعینات ہیں۔امریکی فضائیہ کی سینٹرل کمانڈ کے مطابق، الظفرہ ایئر بیس خطے میں جاسوسی سے متعلق تمام تعیناتیوں کے لیے اہم ہے ۔اسی طرح دبئی میں جبل علی بندرگاہ کو باقاعدہ امریکی فوجی اڈہ نہیں کہا جاتا مگر مشرق وسطیٰ میں یہ امریکی بحریہ کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے جو امریکی بحری جہازوں کی باقاعدگی سے میزبانی کرتاہے ۔
سعودی عرب کو بھولیں نہیں!ریاض سے تقریباً 60 کلومیٹر جنوب میں واقع ‘پرنس سلطان ایئر بیس’ میں 2ہزار 321امریکی فوجی تعینات ہیں، یہ امریکی فوجی فضائی اور میزائل دفاعی صلاحیتیں فراہم کرتے ہیں۔ امریکی فوج کے فضائی ،دفاعی اثاثوں کی نگرانی کرتے ہیں جس میں پیٹریاٹ میزائل بیٹریاں اور ٹرمینل ہائی ایلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس سسٹم شامل ہیں۔اسی طرح امریکا کا عراق کے مغربی صوبے الانبار میں’عین الاسد ایئر بیس’پر موجودہے جہاں وہ نیٹو کے اہداف میں شامل رہتا ہے۔ ایران نے 2020ء میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد اس بیس کو نشانہ بھی بنایا تھا۔اسی طرح شمالی عراق کے نیم خودمختار کردستانی علاقے میں واقع ‘اربیل ایئر بیس’ امریکی اور اس کی اتحادی افواج کے لیے تربیتی اور جنگی مشقوں کا ایک مرکز ہے ۔ امریکا نے شام میں بھی اپنا ایک چھوٹا مرکز قائم کر رکھا ہے، جو تزوریرانی طور پر عراق، اردن اورشام کے تین طرفہ سرحدی علاقے کے قریب واقع ہے۔اردن کے دارالحکومت عمان سے 100کلو میٹر شمال مشرق میں ازراق کے مقام پر ‘مووفق السلطی ایئر بیس’ امریکی فضائیہ کے اہم ترین مشنز کی میزبانی کرتاہے۔
عالم اسلام میں ارطغرل اور عثمان کے ڈراموں سے اپنی چھوی اُجالنے والے طیب اردوگان کے ملک ترکیہ میں 3,320 ایکڑ پر محیط سب سے بڑا امریکی مرکز ”انجرلیک ایئر بیس” موجود ہے۔ یہ نیٹو کی حکمت عملی کا بھی حصہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ خطے میں اکثر فضائی کارروائیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ الغرض مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے 19سے زائد مقامات پر فوجی اڈے موجود ہیں، جن میں سے تقریباً آٹھ کو مستقل نوعیت کا سمجھا جاتا ہے۔ذرا نگاہ بھر کر جائزہ لیں کہ عرب دنیا کی انچ انچ پر امریکی اثر موجود ہے، اور یہ اسرائیل کی حفاظت کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ العدید ائیربیس یا خطے میں موجود تمام اڈے مسلمان ملکوں کی حفاظت کے لیے نہیں ہیں۔ بلکہ یہ دراصل مسلمان ملکوں کے خلاف قائم کیے گئے ہیں۔ اگر یہ مرکز قطر کی حفاظت کرنے کے لیے ہوتا تو اسرائیل حملہ نہیں کر سکتا تھا۔ مگر اس اڈے نے تو اسرائیلی حملے کی نگرانی کی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے امریکا کے تمام اڈے خود اُن ممالک کے لیے زیادہ خطرہ ہیں جہاں یہ قائم ہیں۔یہی وہ ممالک بھی ہیں جو قطر کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کر رہے ہیں۔
عالم عرب ہی نہیں پورا عالمِ اسلام ایک دھوکے میںہے، یہ دھوکا جتنا تیرہ تر ہے اُتنا ہی محیط تر بھی ہے۔عالم اسلام کے تمام حکمران بشمول پاکستان دراصل امریکی مقاصد کی پست سطح میں تیرتے ہیں۔ ان کا شور شرابہ محض اپنے عوام کو ایک دکھاوے کے طور پر ہوتا ہے۔ وہ کوئی حقیقی ریاستی مقصد نہیں رکھتے۔ یہ تمام حکمران اپنے عوام کی مرضی کے برخلاف قومی ریاست کے ایک منظم استبداد کے ذریعے اپنی حکومتیں سنبھالے اور بچائے ہوئے ہیں۔ وہ کیونکر امریکا کے خلاف، اسرائیل کی مزاحمت کر سکتے ہیں۔ پاکستان، سعودی عرب اور نہ ہی ارطغرل و عثمان غازی کی تاریخ کا ترکیہ اس راہ میں مزاحم ہو سکتا ہے۔ قطر تو بیچارہ 2.8 ملین آبادی کا ملک ہے۔
پاکستان میں کچھ لوگ ریاست کی قومی قوت کا حوالہ دے کر ایک رومانوی فضا بناتے ہیں۔ وہ کیا غلطی کرتے ہیں اور ان کا تاریخی و عصری شعور کیا ہے، اس کا گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ یہ اتنے ذہنی طور پر اپاہج لوگ ہیں کہ وہ ریاستی مقاصد کے صرف ہونے کا آنکھوں دیکھا حال بھی سمجھنے کی بصارت و بصیرت نہیں رکھتے۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ طاقت کوئی نظریاتی اسٹرکچر میں نہیں بلکہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہیں اور وہ ہاتھ اپنے جواز کے لیے امریکا کے آگے سوالی بن کر رہتے ہیں۔ عرب سربراہی اجلاس سے لے کر دنیائے اسلام کے قومی سطح کے ردِ عمل پر اگر ٹرمپ مسکراتا ہے اور نتین یاہو مذاق اڑاتا ہے تو یہ بالکل حسب ِ حال ہے۔ ہماری قطر سے اظہارِ یکجہتی بجائے خود ایک بھونڈا مذاق ہی تو ہے۔
٭٭٭