... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
میانمار ، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے بعد اب نیپال میں بھی بغاوت ہوگئی ۔ جنوب کی آگ مشرق سے ہوتے ہوئے شمال تک پھیل گئی ۔ نیپالی بغاوت کی وجہ بظاہرروٹی ،کپڑا، مکان یا مذہب اور ذات پات وغیرہ نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر پابندی ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نئی نسل اس نشے کی ایسی عادی ہوگئی ہے کہ اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اور کوئی روک ٹوک کرے تو آپے سے باہر ہوجاتی ہے ۔ اس کے غصے کو بندوق کی گولیاں بھی رفع نہیں کرسکتی لیکن اگر ایسا ہوتا توپابندی کے ختم ہوجانے پر لوگوں کا کلیجہ ٹھنڈا ہوجاتا۔ عوام بہلانے کے لیے وزیر داخلہ استعفیٰ دیتے تو دل پسیج جاتا ۔صدر مملکت کو وزیر اعظم اپنا استعفیٰ پیش کرکے پتلی گلی سے نکلنے لگتے تو انہیں سمجھابجھا کر روکا جاتا لیکن ان نوجوان کو تو فوج کے حوالے ملک کی باگ ڈور سونپ کر اپنا راستہ ناپنے والے صدر پر بھی رحم نہیں آیا ۔مشتعل ہجوم نے سرکار کے تینوں ستونوں ایوان پارلیمان ، عدالت عظمیٰ کی عمارت، سرکاری دفاتر اور میڈیا ہاؤس کو اکھاڑ پھینکا۔ موجودہ اور سابق صدور و وزرائے اعظم کے گھربار کو ایک ایک کرکے پھونک دیا ۔ ایک ایک کرکے ظلم و جبر کے سارے قلعے ڈھا دیے گئے ۔ یہاں تک کہ سابق حکمرانوں کو سڑک پر دوڑا دوڑا کر مارا پیٹا گیا بلکہ ایک وزیر اعظم کی اہلیہ کو زندہ جلا دیا گیا۔
اس سفاکی کا مظاہرہ ابھی حال تک واحد ہندو راشٹر کے ہندو عوام نے کیا جن کے بارے میں سنگھی کہتے ہیں کہ ہندو تو متشدد ہوہی نہیں سکتا۔ خون خرابہ تو صرف گوشت کھانے والے مسلمانوں کا خاصہ ہے ۔یہ کہا جاتا ہے کہ دیگر قوموں کے خلاف ہندو اپنے دھرم کی رکشا (حفاظت) میں کبھی کبھار مجبوراً ہتھیار اٹھا لیتا ہے لیکن نیپال کے ہندو کس مسلمان یا عیسائی کے خلاف اپنا نزلہ اتار رہے ہیں ۔ وہ تو چن چن کر براہمنوں اور ٹھاکروں( چھتریوں ) کی کٹائی کررہے ہیں کیونکہ وہی برسوں سے سرکار دربار پر قابض ہوکر عوام کا استحصال کرتے رہے۔ نیپال میں 2008تک ملوکیت کا دور دورہ تھا لیکن اشتراکیوں نے لڑ بھڑ کر اسے جمہوری ملک بنایا۔ وہ کسی زمانے میں ہندوستان کا گرویدہ ہوا کرتا تھا پھر چین نواز ہوگیا بظاہر بہت کچھ بدلا مگر بباطن وہی برہمن اور چھتری سرکار پر قابض رہے ۔ 1951کے بعد سے 28 وزرائے اعظم گزرے ان میں ایک کو چھوڑ کر باقی سب برہمن یا چھتری تھے یعنی چولا زعفرانی ہو یا سرخ ان کے اندر ایک ایسا طبقہ چھپا ہوا تھا جس کی جملہ آبادی 27فیصد ہے اور باقی 70فیصد زندگی کے ہر شعبے میں حاشیے پردھکیل دیے گئے ۔
عدلیہ، انتظامیہ ، مقننہ اور ذرائع ابلاغ ہر جگہ اسی ایک طبقے کا بول بالا رہا ہے ۔ ان لوگوں کی اقرباء پروری نے ملک کی اکثریت کا خوب جی بھرکے استحصال کیا۔ ملوکیت سے لے کر جمہوریت تک میں سرکاری خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹاگیا ۔ ہندوتوا سے ماؤنوازی تک یہی طبقہ موج کرتا رہا یہاں تک کہ آتش فشاں کی مانند عوامی غصہ پھٹ پڑا کیونکہ ایک طرف عام لوگ مہنگائی اور بیروزگار ی کی آگ میں جھلس رہے تھے اور دوسری جانب حکمراں طبقہ عوام کے ٹیکس پر عیش کرتارہا ۔ حکمرانوں کی اولادیں بیرونِ ملک دادِ عیش دیتی رہیں اور عام نیپالی چوکیداری جیسی معمولی ملازمت کے لیے دنیا بھر میں ٹھوکریں کھاتا رہا۔ اس بغاوت کے پسِ پشت اقرباء پروری سے نفرت بھی کارفرما تھی ۔ ہندوستانی دانشور اس تلخ حقیقت سے کتراتے رہے کیونکہ وہ منہ کا مزہ خراب کردیتا ہے ۔
ان نام نہاد اعلیٰ ذات کے لوگوں میں اقتدار کی ہوس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے جمہوریت کا فائدہ اٹھاکر انہوں نے اقتدار کو ایک میوزیکل چیئر بنادیا تھا ۔ پچھلے 16سالوں میں 13وزرائے اعظم ہوئے ۔ لوگ ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑتے اور اپنے حریفوں سے مل کر حلیف کی ٹانگ کھینچ لیتے ۔ عوامی فلاح وبہبود کے بجائے نیپالی حکمرانوں کی توجہ خالصتاً کرسی کی جوڑ توڑ اور اس کے ذریعہ حاصل ہونے والی عیش و مستی تک محدود رہی تھی۔ ابھی حال میں فرار ہونے والے 73سالہ کے پی اولی شرما چار بار نیپال کے وزیر اعظم بنے ۔ موصوف بظاہر کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ ہیں اور مسلح جدوجہد کرکے ملوکیت کا خاتمہ کرنے پر فخر جتاتے ہیں مگر اپنے ہی نظریاتی حلیفوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر مخالف نظریہ کی حامل نیپالی کانگریس سے مفاہمت کرکے حکومت بنالی ۔ موصوف ابھی حال میں چین کی وکٹری پریڈ سے لوٹے تھے اور مہینے کے آخر میں ہندوستان آنے کا منصوبہ بنارہے تھے یعنی چین اور ہندوستان دونوں کو بیک وقت خوش کرنے کے فراق میں تھے مگردرمیان میں ٹکٹ کٹ گیا۔ مظاہرین نے ان کی بھی رہائش گاہ کو جلا کر خاک کردیا ۔ وہ جاتے جاتے اس امید کا اظہار کرکے گئے کہ ان کا استعفیٰ موجودہ بحران سے نکلنے اور آئینی حل کی راہ ہموار کرے گالیکن سوال اس سے پہلے ان کو ملک بدر کیوں ہونا پڑا؟ نیپال کے عوام کے پاس اس کا یہ جواب ہے کہ
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں؟
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
نیپال نے پچھلے 18سالوں میں ہندو ملوکیت اور اشتراکی جمہوریت کی قلعی کھول کر انہیں بیچ بازار میں برہنہ کردیا۔ اولی شرما کا دبئی فرار اور حسینہ واجد کی ہندوستان میں آمد بتاتی ہے کہ حکمرانوں کے نزدیک قومیت اور مذہب کی لڑائی عوام کو بیوقوف بنانے کا ایک معمولی ذریعہ ہے ۔ شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش سے جان بچا کر بھاگتی ہیں تو وہ پاکستان یا کسی مسلم ملک میں نہیں جاتیں بلکہ ہندوستان آجاتی ہیں ۔ یہاں ایک ایسی ہندوتوا نواز پارٹی برسرِ اقتدار ہے جس کو مسلمان پھوٹی آنکھ نہیں بھاتے لیکن حسینہ واجد کی مسلمانیت سے اسے کوئی پریشانی نہیں ہے ۔ شیخ حسینہ واجد کے عیش و آرام کی خاطر اس پاکھنڈی ہندو توا نواز حکومت نے دو کروڈ بنگلہ دیشی ہندووں کا چین و سکون غارت کردیا کیونکہ شیخ حسینہ کے سبب وہاں کے مظلوم مسلمان ہندوستانی حکومت سے برگشتہ اور اس سے ہمدردی رکھنے والی ہندو اقلیت سے متنفر ہوگئے لیکن مودی سرکار کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے ۔ حکومت ہند کو اگر بنگلہ دیش میں بسنے والے ہندووں کا مفاد عزیز ہوتا تو وہ کبھی بھی شیخ حسینہ کو اپنے یہاں پناہ نہیں دیتی ۔ اپنے ظلم و جبر کے سبب عام بنگلہ دیشیوں کے اندر شیخ حسینہ کے تئیں کہیں زیادہ نفرت ہے جو ہندوستان کے خلاف غم و غصے میں بدل گئی ہے لیکن مودی سرکار کو نہ تو احساس ہے اور اس کی پڑی ہوئی ہے ۔
وزیر اعظم لال قلعہ سے بہار و بنگال کے عام جلسوں تک میں گھس پیٹھیوں کا معاملہ اٹھا کر اپنی ناکامیوں کی پردہ داری کررہے ہیں حالانکہ یہ مدعا جھارکھنڈ میں ناکام ہوچکا ہے لیکن جب آپریشن سیندور تک فلاپ ہوگیا تو مرتا کیا نہ کر تاکے مصداق وہی ہندو مسلمان کا کھیل اور غریب بنگالی مسلمانوں کو بنگلا دیشی درا نداز بتا کر کے اس کی آنچ پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کا کھیل زور و شور سے کھیلا جارہا ہے ۔ وزیر داخلہ نے ملک کی مختلف ریاستوں میں غیر ملکیوں کے لیے عقوبت خانے تعمیر کرنے کا حکم دے دیا ہے لیکن اس بیانیہ کی دکھتی رگ شیخ حسینہ کی ہندوستان میں موجودگی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب بنگلا دیشی مسلمانوں کے نام پر نفرت انگیزی کرنے والے کیرٹ سومیا سے شیخ حسینہ واجد کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ منہ چھپاکر بھاگ کھڑا ہوا۔یہ ان کی منافقت اور ہندونوازی اور مسلم دشمنی کا ڈھونگ ہے جس کے ذریعہ ملک کی ہندو عوام کو احمق بنایا جارہا ہے لیکن جب اس کے عقل کی کھڑکی کھلے گی تو دہلی میں بھی کٹھمنڈو،ڈھاکہ اور کولمبو کے مناظر دکھائی دیں گے۔
شیخ حسینہ واجد کا ہندوستان میں آکر پناہ لینا جتنا حیرت انگیز اس سے زیادہ تعجب خیز اولی شرما کا دبئی بھاگ کر جانا ہے ۔بشار الاسد نے دمشق سے فرار ہونے کا فیصلہ کیا تو وہ ماسکو جاپہنچے ۔ یہ عین توقع کے مطابق تھا ۔ اسی طرح اولی شرما اگر بیجنگ بھاگ جاتے تو لوگ کہتے کہ اپنے نظریاتی آقا کی شرن میں گئے ہیں۔ ہندوستان آجاتے تو کہا جاتا کہ کچھ بھی ہوجائے تمام تر نظریاتی اختلاف کے باوجود ہندو تو آخر ہندو ہی ہوتا ہے اور اگر وہ برہمن ہوتو کیا کہنے ۔ اس کے علاوہ شیخ حسینہ کو پناہ دینے والی مودی سرکار ایک ہندو برہمن کو بھلا کس منہ سے منع کرتی لیکن ان کے درمیان خدا جانے کہ کیا کھچڑی پکی کہ شرما جی سرمایہ دارانہ ملوکیت کے زیر اثر مسلم دبئی میں چلے گئے ۔ اولی شرما کا یہ عدم اعتماد مودی اور سنگھ پریوار کے گال پر طمانچہ تو ہے مگر اول الذکر کی ملوکیت مخالف موقف کو بھی منہ چڑھاتا ہے ۔ان اقربا پرور برہمنوں اور شتریوں نے بدعنوانی اور مہنگائی اس قدر بڑھائی کہ نیپالی عوام کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا اور انہوں نے حبیب جالب کی نظم کے اس بند کو عملی جامہ پہنا کر آئینی جمہوریت کے پرخچے اڑا دیے ۔ اشتراکیت اور جمہوریت کی دہائی دینے والوں سے نیپالی نوجوان کہہ رہے ہیں
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے ،
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے ،
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
٭٭٭