... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
کیا اسے ہم ذی جنریشن کی بیداری کہہ کر حقائق سے جان چھڑا سکتے ہیں ؟
شاید ایسا نہیں اگر ہم اس منطق کو لیکر حقائق سے جان چھڑانا بھی چاہیں تو نہیں چھڑا پائیں گے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جو خطہ ایسے حالات سے نبرد آزما ہوتا ہے اس کے باسی ایسے حالات کی زد میں آنے سے بچ نہیں پاتے ،زمینی حقائق آپ کے سامنے آئینے میں اُبھری تشبیہ کی طرح سامنے کھڑے ہوتے ہیں ،یہ بحث اب پاکستان میں شدو مد سے جنم لے رہی ہے کہ نیپال میں ایسے حالات نے کیوں جنم لیا ،نیپال کا ایک غیرمعمولی صورتِ حال سے دوچارہونا چہ معنی دارد ۔ یہ حقیقت اپنی جگہ ایک وجود رکھتی ہے کہ ایک طرف عبوری حکومت نے ملک میں بگڑتے حالات کو سنبھالنے کے لیے سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر پابندیاں لگائیں ، تو نوجوان نسل—یعنی ذی جنریشن—نے اس اقدام کو اپنی آزادیٔ اظہار پر کاری ضرب سمجھا۔ یہ راکھ میں دبی وہ چنگاری تھی جس نے سب کچھ جلا کر خاکستر کردیا ۔ یہ احتجاج محض پابندیوں کے خلاف نہیںتھا ، بلکہ اس کے پس منظر میںدبا ایک گہرا سماجی تضاد تھا : ذی جنریشن بمقابلہ ”نیپو کڈز”۔ وہ مراعات یافتہ طبقہ جو سیاست، کاروبار اور اقتدار کے ایوانوں تک وراثتی رسائی اپنا حق سمجھتا ہے، جنوبی ایشیا میں سری لنکا ،بنگلہ دیش سے لیکر انڈونیشیا یا نیپال جہاں جہاں ایسے حالات نے جنم لیا وہاں فرشی طبقہ کے عام نوجوان کو دانستہ رکاوٹوں کے بھنور میں پھنسا یا گیا ۔
نیپال کے نوجوان، خصوصاً ذی جنریشن، تیزی سے بدلتی دنیا سے جڑے ہوئے تھے ۔ یہ نسل انٹرنیٹ کو صرف تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ اپنی شناخت، کاروبار اور اظہارِ رائے کا سب سے اہم پلیٹ فارم سمجھتی ہے۔ جب عبوری حکومت نے 26 بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز—جن میں فیس بک، یوٹیوب، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک شامل ہیں—پر اچانک پابندی عائد کی تو نوجوان نسل کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
ملک بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوا، جس میں طلبائ، عام مزدور، اور شہری طبقے کے نوجوان سڑکوں پر نکل آئے۔ ان مظاہروں میں افسوسناک طور پر کئی جانیں ضائع ہوئیں اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ مگر اس قربانی نے یہ پیغام دیا کہ نیپال کی نئی نسل اب اپنی آواز کو دبنے نہیں دے گی۔
یہ احتجاج صرف سوشل میڈیا پابندیوں تک محدود نہیں۔ اس کے ساتھ ہی ”nepo kids” کا بیانیہ بھی ابھر کر سامنے آیا۔ یہ اصطلاح اُن بچوں کے لیے استعمال ہو رہی ہے جو بااثر سیاستدانوں اور طاقتور خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے لیے قانون کے دروازے کھلے ہیں، کاروباری مواقع ہموار ہیں اور وسائل کی دستیابی آسان ہے۔ اس کے برعکس ایک عام نوجوان اگر کوئی چھوٹا سا کاروبار شروع کرنا چاہے تو سرخ فیتے، کرپشن اور عدم مساوات اور بے جا ٹیکس کے جال میں الجھ جاتا ہے۔یہی تضاد عوامی غصے کا بنیادی سبب بنا ۔ نوجوان سوال اٹھا رہے تھے کہ آخر کب تک ایک چھوٹا طبقہ اپنے خاندانی اثرورسوخ کے ذریعے پورے معاشرے پر حکمرانی کرتا رہے گا؟ سوشل میڈیا پر ہزاروں پوسٹس اور ویڈیوز نے ان نیپو کڈز کی عیاشیوں اور غیرمنصفانہ مراعات کو ہدفِ تنقید بنایا، جس نے تحریک کو مزید شدت اور جلا بخشی۔
ایک سوالیہ اُٹھتا ہے کہ کیا یہ سماج کا تضاد اور عبوری حکومت کا بحران ہے ؟ اس کا جوان نفی کی صلیب پر مصلوب ہے ۔جنوبی ایشیا کے خطہ میں اس خطرناک تبدیلی یا کشمکش کو ہم محض نسلوں کے بیچ تنازع کہنے سے قاصر ہیں۔ جنوبی ایشیا کے خطے میں جہاں جہاں یہ تبدیلی آئی ہے وہاں یہ تبدیلی واضح طور پر معاشرے کی تقسیم کو عیاں کر رہی ہے۔ ایک طرف وہ نوجوان ہیں جو مساوات، شفافیت اور مواقع کی برابری کے لیے اشرافیہ کی لگائی اس آگ میں کود گئے ہیںجہاں صدیوں کے تسلط سے اشرافیہ رشتہ داری اور طبقاتی اجارہ داری کو اپنی ڈھال بنائے ہوئے ہے۔
جو حکومتیں عوامی حقوق کو نظر انداز کرتی ہیں وہ ایک مشکل دو راہے پر کھڑی ہوتی ہیں ۔ وطن عزیز میں جو حکمران عوامی رائے کو بائی پاس کرکے اقتدار پر بٹھائے گئے ایک طرف وہ امن و امان قائم رکھنے کے لیے سخت اقدامات کر رہے ہیں ،تو دوسری طرف یہ اقدامات ہی عوامی اعتماد کو مجروح کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پابندی جیسے فیصلے نہ صرف آزادی اظہار کو محدود کرتے ہیں بلکہ نئی نسل کے ریاستی اداروں سے فاصلے کو مزید بڑھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نیپال میں مظاہرے قابو میں آنے کے بجائے بڑھتے چلے گئے ۔
یہ مسئلہ صرف نیپال تک محدود نہیں۔ دنیا بھر میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا نسل ِنو اپنے خوابوں کے لیے واقعی آزاد ہے یا پھر اسے مراعات یافتہ طبقے کی دیواریں مسلسل روکتی رہیں گی۔ پاکستان، بھارت یا یورپ میں بھی ”nepo babies” کی اصطلاح عام ہو چکی ہے۔ ہر جگہ یہ تضاد ایک ہی کہانی سناتا ہے: عام نوجوان اپنی صلاحیت کے باوجود پیچھے رہ جاتا ہے، اور اشرافیہ اپنی نسل در نسل طاقت کے بل بوتے پر آگے بڑھتی ہے۔
نیپال میں اگر عبوری حکومت اس عوامی غصے کو محض وقتی شور شرابہ سمجھ کر نظرانداز کرے گی تو یہ خطرہ موجود ہے کہ نوجوان نسل ریاستی نظام سے مکمل طور پر بداعتماد ہو جائے۔ لیکن اگر یہ موقع اصلاحات کا پیش خیمہ بن جائے، تو ملک ایک نئے سماجی معاہدے کی طرف بڑھ سکتا ہے— جہاں موقع سب کے لیے یکساں ہو اور ریاستی ادارے عوام کے اعتماد کو بحال کریں۔
یہ سوال نیپال کے گلی کوچوں میں گونج رہا ہے کہ یہ تحریک صرف وقتی بغاوت ہے یا پھر ایک بڑے انقلاب کا آغاز۔ ذی جنریشن اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے بتا چکی ہے کہ وہ محض خاموش تماشائی نہیں رہ سکتی۔ دوسری جانب نیپو کڈز کی طاقت اور اثرورسوخ بھی ابھی کمزور نہیں ہوا۔فیصلہ اب عبوری حکومت اور نئی قیادت کے ہاتھ میں ہے۔ یا تو وہ عوامی مطالبات کو تسلیم کر کے شفافیت اور برابری کی راہ ہموار کرے گی، یا پھر یہ تضاد ملک کو مزید سیاسی اور سماجی بحران میں دھکیل دے گا۔ مگر ایک بات طے ہے: نیپال کی نوجوان نسل نے اپنے عزم اور قربانی سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اب انہیں نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ یہ وقت ہے کہ نیپال اپنی سمت درست کرے—ورنہ تاریخ اسے اس بغاوت کو دبانے والی حکومت کے طور پر یاد رکھے گی، نہ کہ ایک نئے دور کے آغاز کا سبب بننے والی ریاست کے طور ایسے لمحات تب آتے ہیں جب حکمران غریب کا ہاتھ تھامنے سے انکار کر دیتے ہیں ،جب بھوکے بے بس عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے تو انجام خونی اور بھیانک ہوتا ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تاریخ چیخ چیخ کر بتاتی ہے کہ انقلاب فرانس میں محلات زمین بوس ہوئے ،ایسے لمحات تب آتے ہیں جب عوام کے صبر کا پیمانہ چھلکتا ہے ،پھر تخت و تاج اُچھالے جاتے ہیں اور راکھ باقی بچتی ہے۔