... loading ...
ماجرا/ محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔۔
نومبر کی سحر زدہ تاریخ نے ہمارے شب وروز جکڑ لیے ہیں۔ سیاسی منڈی میں مختلف ”سودے” مول تول میں ہیں مگر سب کچھ گول مول
بھی ہے۔ ابہام کی گہری پرت اس نوع کے سودوں میں ہمیشہ رہتی ہے۔ پاکستان کی ایک مقتدر شخصیت کے” سسر نامدار” جب لندن میں
سودا پٹا رہے تھے تو پاکستان کے سیاسی حالات پر بھانت بھانت کی بولیاں سنائی دے رہی تھیں۔ حالات کی کروٹ سودے پر منحصر تھی مگر ٹی
وی کے منڈوے پر الگ ہی طرح کی بحثیں تھیں۔ عدلیہ کی گہری تقسیم میں ججز کے رجحانات، سیاست کے آدرش ماحول کی تلاش، کرپشن،
حکمران جماعت کے اندرونی حالات، مہنگائی وغیرہ وغیرہ۔ مگر یہ سب مصنوعی گورکھ دھندے ثابت ہوئے۔ معاملہ سودا پٹانے کا ہی نکلتا ہے۔
اگست سے وسط نومبر کے حالات ہر تین سال بعد ایک جیسے ہو جاتے ہیں۔ سیاسی موسم پر فرق پڑنے کے مہینے یہی ہوتے ہیں۔ سیاسی
بارشیں، تصورات کے سیلابی ریلے اور کرپشن کے بہتے نالے اچانک اُبلتے لگتے ہیں۔ یہی تین ماہ برساتی مینڈکوں کے بھی ہوتے ہیں۔ جو
ٹی وی کے منڈوے پر ٹراتے ہیں۔ پھر کسی سنیاسی باوے کی طرح گوشہ ٔ گمنامی میں چلے جاتے ہیں۔ دلچسپ طور پر کلین شیو صوفی نامعلوم ”سیاحتوں ”سے لوٹ آتے ہیں۔ قیمتی گاڑیوں سے فقیرکی لفظیات لے کر اُترتے ہیں۔ اور اپنے ”بامراد”مریدوں کو حسابات کے لیکھے جوکھے سمجھاتے ہیں، کوئی ستاروں کے گشت پر ہوتا ہے ،کوئی عدد کی رتھ پر سوار رہتا ہے، کسی کو کارڈ کی ہیرا پھیری راس آتی ہے۔مدت ہوئی مذہبی روایت کے تمام شعبے طاقت وروں کے خدمت گار ہوگئے، صوفیانہ روایت میں روایت ہی نہیں صوفی بھی قبضے میں آگئے،نئے دور میں حاشیہ برداروں نے مکھوٹے اوڑھ لیے۔اب دعائیں سکھاتے اور افیون پلاتے ہیں۔ اس ہنرکاری میں مستقل تصورات کی آبیاری کی جاتی ہے۔ طاقت کتنی ہی مکروہ، بھیانک اور خطرناک ہو اُسے بقا کے لیے کوئی آئیڈیا ، آدرش درکار ہوتا ہے۔ چنانچہ مذہب کی تمام شعبے اس ”خدمت” میں بارہ ماہ چوبیس گھنٹے مصروف ہیں۔صوفیوں کی تو خیر کیا ہی بات ہے!
دلچسپ طور پر فرق ڈالنے والے ان مہینوں میں کرپشن کا صور سب سے زیادہ پھونکا جاتا ہے۔ گزشتہ کچھ ہفتوں سے یہ جاری ہے۔ مہنگائی کے ہندسے جگمگانے لگتے ہیں۔ اگر25کلو چاول کے تھیلے پر اوسطاًہزار روپے قیمت بڑھے اور20کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 1450 سے بڑھ کر 2500روپے تک جا پہنچے تو کان کھڑے تو ہوں گے۔کرپشن کے ساتھ مہنگائی کی ایک فطری تال میل ہوتی ہے۔ عدلیہ کی آزادی کا نغمہ بھی کچھ اجنبی نہیں۔نظام جب پوری کروٹ لے چکا، اور عدلیہ مکمل دست نگر بنائی جا چکی تو اب اچانک ”آزاد ججز” کی آواز اُبھری ہے۔ ،اہم نہیں کہ یہ اچانک کیوں بولنے لگے، سوال یہ ہے کہ یہ اب تک خاموش کیوں تھے؟انہوں نے عدلیہ پر غیر آئینی قبضے کو آئین کی مقدس عمارت میں بیٹھ کر خاموشی سے کیوں دیکھا؟ اگر اس کا کوئی جواب نہیں تو ان کی آوازیں کتنی ہی بھلی لگتی ہوں، ان مہینوں میں مشکوک بن جاتی ہیں۔ کیا واقعی ان کی خاموشی اور جادوئی مہینوںمیں گرم گفتاری کے درمیان کوئی ”نامیاتی رشتہ” ہے؟جسٹس اطہر من اللہ کی ہائبرڈ نظام پر گفتگو اچھی لگتی ہے۔ اگر اس کا مطلب ”ملک میں آمریت ہے اور آئین کی کوئی حکمرانی نہیں” تو پہلا سوال یہ ہے کہ اس ہائبرڈ نظام پر آئینی غلاف خود ان کے ادارے میں چڑھایا گیا، وہ اب تک خاموش کیوں تھے؟ جسٹس منصور علی شاہ کے خطوط کا زمانہ بھی لوٹ آیا ہے۔ ان کا سوال بالکل بجا ہے کہ’ 26ویں ترمیم کے خلاف درخواستیں تقریباً ایک سال تک سنی نہیں گئیں’۔ 26ویں ترمیم ہی وہ زہریلی آغوش ہے جس نے فارم 47 کی ناجائز حکومت کو سنبھالے رکھا ہے۔ سپریم کورٹ میںججز کی تقرری کا طریقۂ کار بھی اس ترمیم کے تحت بدل دیا گیا تاکہ کوئی آزاد جج غیر آئینی بندوبست کو چھیڑنے کے قابل نہ رہ جائے۔ جسٹس منصور علی شاہ خواب و خیال بن جانے والی آزاد عدلیہ کی آرزو میں اب ایک سال بعد خطوط لکھ رہے ہیں۔بات بالکل درست ہے مگر ایک سال بعد اب کیوں؟یاد کیجیے! چیف جسٹس افتخار چودھری کو آرمی ہاؤس راولپنڈی میں 9مارچ 2007کی صبح بلا کر جب استعفے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تو تمام سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ میں آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اشفاق پرویز کیانی ہی واحد شخص تھے جو پُر جوش نہ تھے۔تب چیف جسٹس نے دباؤ ڈالنے والے افسران پر نہیں بلکہ خاموش افسر پر توجہ مرکوز رکھی۔اُنہیں پانچ گھنٹے تک آرمی ہاؤس سے نکلنے نہیں دیا گیا۔ مگر جب وہ باہر نکلنے لگے تو اُن سے ہاتھ ملانے والے وہی ایک افسر تھے۔ حالات سے آگاہ لوگ اشارے دیتے ہیں کہ ”پیغامات” کا تبادلہ پہلے ہی ہو چکا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آزاد ججز ”سامری کے بچھڑے” تو نہیں جن میں جان ڈالی گئی ہو۔ ہماری آرزؤں کے مقتل میں جتنے بھی قاتل آنکھوں کے سامنے ہیں، سب وہی ہیں جن سے ماضی میں امیدیں وابستہ رکھی گئیں۔ اب سلیم کوثر کی زبان میں کوئی سوال کرتا ہے تو یہ غیر منطقی نہیں کہ
مری روشنی ترے خد و خال سے مختلف تو نہیں مگر
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے
عدلیہ کی سمٹتی آزادی، ہائبرڈ نظام کے نام پر اقتدار کے ارتکاز اور آمریت کے گہرے ہوتے سائے میں جسٹس منصور علی شاہ، منیب اختر، اطہر من اللہ اور عائشہ ملک کا دم خم پھر بھی غنیمت ہے، ان کے دستخطوں سے چیف جسٹس کو لکھے گئے ایک خط نے یہ واضح کر دیا ہے کہ سپریم کورٹ کے موجودہ بندوبست کو پوری طرح قبول نہیں کیا گیا۔ فل کورٹ میٹنگ میں ان کی عدم شرکت نے چیف جسٹس کے اقدامات کو آبرومند نہیں رہنے دیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا ہائبرڈ نظام کو غیر آئینی قرار دینااور جسٹس منصور علی شاہ کے خطوط کا وقت ایک ہی ہے۔ ایسے میں ایک وکلاء تحریک کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔ جس کے نقطۂ عروج پر کچھ ججز استعفے دینے پر غور کر سکتے ہیں۔ ان سرگوشیوں کے درمیان ہمیں ستمبر، اکتوبر ، نومبر کے مہینے گزارنے ہیں۔ یہ کافی کٹھن ثابت ہوں گے۔ کیونکہ مری سے شمیم جانفزا کے جس خوش نما جھونکے کی نوید دی گئی تھی، وہ ابھی بھی سموم کج ادا کے طوفانی جھکڑوں میں ہے۔
سیاسی محاذ بھی خاموش نہیں ۔ ایک طرف تمام سیاسی سرگرمیوں کے محور عمران خان نے اپنی جماعت کے تمام ارکان او رسینیٹرز کو تمام کمیٹیوں سے لاتعلق ہونے کا کہا ہے۔ اب بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ عمران خان نے ستمبر میں جلسہ کرنے کو کہا ہے۔ وقت یہاں بھی اہم ہے۔ آہستہ آہستہ تحریک انصاف کے وہ گھوڑے جو طاقت وروں کے اصطبل میں بندھے سمجھے جاتے ہیں، وہ بھی خوش دلی سے عمران خان کے” احکامات” پر عمل کرنے کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ کیا پیغام کے اندر کوئی اور پیغام بھی کام کر رہا ہے؟ یہ سوال شک کے ساتھ ذہنوں میں رہے گا۔ تحریک تحفظ آئین میں تحرک کے آثار پیدا ہو رہے ہیں۔ محمود خان اچکزئی ایک بار پھر اپنے لے بلند کر رہے ہیں۔ اکتوبر میں سپریم کورٹ بار کے انتخابات ہیں، جسے پچھلی بار انتہائی چابک دستی سے قابو کر لیا گیا تھا۔ اب ایک فعال تحریک سے ہی نتائج پر پہرے داری ممکن ہے۔ جس کے لیے سیاسی تحریک کا فعال ہونا ضروری ہے۔ کیا اپوزیشن، وکلاء تحریک اور دیگر محرکات مل کر سپریم کورٹ بار کے انتخابات کے ارد گردکوئی منصوبہ بناچکے ہیں۔آثار موجود ہیں مگر قطعی رائے ممکن نہیں۔
مری سے تازہ ہوا کی امید رکھنے والے سیاسی بازی گر بے وقوف نہیں ہو سکتے۔ ایک اتحادی حکومت میں اپنی بقا کا سامان رکھنے والے عوام کے مسترد شدہ تمام عناصر جانتے ہیں کہ کھیل میں ایک کارڈ بھی اِدھر سے اُدھر ہوا تو بازی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہاتھ سے چلی جائے گی۔ اس فضا میں اچانک سندھ کے شعبدہ باز گورنر کامران ٹیسوری کو ہٹانے کی خبر گردش کر رہی ہے۔ نظام سے صرف ”ایک طاقت ور شخص” کی حمایت نے کامران ٹیسوری کی چھوٹی آنکھوں میں بڑے خواب سجا دیے تھے۔ بڑی بڑی تبدیلیوں نے نظام کے اندر صف بندی کو التواء میں رکھا ہے جس کے باعث سیاسی مہرے بھی بساط پر الٹی سیدھی چالوں کے باوجود موجود ہیں۔ ایک دفعہ بازی لگانے والے صف بندی کر لیں تو یہ تعین ہو سکے گا کہ کون سا مہرہ ابھی کھیل میں ہے اور کون سا پٹ چکا ہے۔ ایم کیو ایم کی تازہ دھمکی بھی بلاوجہ نہیں کہ اگر گورنر سندھ کو چھیڑا گیا تو وفاقی حکومت کا حصہ نہیں رہیں گے۔ شہباز سرکار نے فوراً ہی وضاحت جاری کر دی ہے کہ سندھ میں کوئی تبدیلی زیر غور نہیں۔ بالکل درست!مگر یہ فیصلہ وفاقی حکومت کو کب کرنا ہے ،کیا بھول گئے ہائبرڈ نظام!سو جو فیصلہ کریں گے وہی جانیں۔ ہم تو بس یہ جانتے ہیں کہ یہی وہ موقع ہوتا ہے جب کچھ لوگوں کو یہ تسلی دلانے کا فریضہ سونپا جاتا ہے کہ حکومت اور طاقت ور حلقے ایک صفحے پر ہے۔
٭٭٭