... loading ...
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
حکمرانوں نے غریب عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھین لیا ہے ۔پہلے ہی مہنگائی نے غریب عوام کی حالت بری کی ہوئی ہے ۔ حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ملک بھر میں آٹے کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ عام آدمی کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں۔ وہ آٹا جو ہر گھر کی بنیادی ضرورت ہے ، اب قیمتی شے بنتا جا رہا ہے ۔
وفاقی ادارہ شماریات کی پانچ ستمبر تک کی رپورٹ کے مطابق صرف تین ہفتوں میں بیس کلو کے تھیلے کی قیمت ہزاروں روپے بڑھ گئی ہے۔ یہ اضافہ پورے ملک میں دیکھا گیا اور کسی ایک علاقے تک محدود نہیں رہا۔اعداد و شمار کے مطابق بنوں میں بیس کلو کا تھیلا 1050 روپے مہنگا ہوا۔ پشاور اور لاڑکانہ میں 900 روپے تک اضافہ ہوا۔ سکھر میں 840، لاہور میں 830، ملتان میں 826 روپے 67پیسے ، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ میں 817، اسلام آباد میں 800، راولپنڈی اور کوئٹہ میں 740، جبکہ بہاولپور میں 866 روپے 67پیسے تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ آج ایک تھیلا زیادہ سے زیادہ 2500روپے میں فروخت ہو رہا ہے ، جو متوسط اور غریب طبقے کے لیے بہت بڑا بوجھ ہے ۔یہ مہنگائی صرف اعداد نہیں بلکہ ایک گھریلو المیہ ہے ۔ روٹی، نان یا پراٹھا کسی بھی کھانے کا لازمی حصہ ہیں اور جب آٹے کی قیمت بڑھتی ہے تو پورے گھرانے کی کچن مینجمنٹ متاثر ہوتی ہے ۔ محدود آمدنی والے خاندانوں کے لیے دو وقت کی روٹی بھی مشکل ہو گئی ہے ۔ خاص طور پر دیہاڑی دار مزدور اور نچلے طبقے کے لوگ براہِ راست متاثر ہو رہے ہیں۔
اس بحران کے کئی اسباب ہیں۔ ایک طرف ملک میں گندم کی پیداوار اور ذخائر کے حوالے سے خدشات ہیں، دوسری طرف ذخیرہ
اندوزی اور منافع خوری جیسے عوامل بھی اس صورتحال کو سنگین بنا رہے ہیں۔ کئی عناصر مصنوعی قلت پیدا کر کے عوام کو لوٹتے ہیں، گوداموں
میں گندم چھپا لی جاتی ہے اور مارکیٹ میں کمی دکھائی جاتی ہے ۔ اس کے ساتھ حکومتی کمزوری بھی ایک بڑا سبب ہے ۔ ادارے اگر موثر کردار
ادا کریں تو قیمتوں کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے ، مگر عموماً یہ صرف بیانات اور کاغذی کارروائی تک محدود رہتے ہیں۔آٹے کی بڑھتی قیمتیں صرف
گھریلو اخراجات ہی نہیں بڑھاتیں بلکہ معاشرے میں بے چینی اور جرائم میں بھی اضافہ کرتی ہیں۔ بھوک اور افلاس اکثر بدامنی کو جنم دیتے ہیں۔ یہ صورتحال ہمارے زرعی شعبے کی ناکامی کا بھی عکاس ہے ۔ پاکستان زرعی ملک ہے ، گندم ہماری بڑی فصل ہے ، پھر بھی آٹے کی قلت اور مہنگائی ہماری حقیقت ہے ۔ یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ زرعی پالیسیوں پر سنجیدگی سے نظرثانی کی ضرورت ہے ۔
ماضی کے حالات بھی گواہ ہیں کہ آٹے کی قیمتیں ہمیشہ سیاسی و معاشی دباؤ کے ساتھ جڑی رہیں۔ عالمی سطح پر اجناس کی قیمتیں بڑھیں یا ملکی معیشت کمزور ہوئی، تو اس کا اثر فوراً آٹے پر پڑا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے پاس طویل المدتی منصوبہ بندی نہیں۔ ہم وقتی اقدامات سے مسئلہ سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن پائیدار حکمت عملی کبھی سامنے نہیں لائی جاتی۔اب صورتحال یہ ہے کہ صرف آٹے ہی نہیں بلکہ سبزی، گوشت، دالیں اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ یوں عام آدمی کے لیے گھر چلانا ایک کڑا امتحان بن گیا ہے ۔اس سنگین صورتحال میں حکومت کو فوری اقدامات کرنے ہوں گے ۔ سب سے پہلے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی ناگزیر ہے ۔ ایسے عناصر کے خلاف عبرتناک سزائیں دی جائیں تاکہ دوسروں کے لیے مثال بن سکیں۔ دوسرا قدم یہ ہونا چاہیے کہ قیمتوں کی نگرانی کا مؤثر نظام بنایا جائے ۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے مارکیٹ کے رجحانات کو روزانہ چیک کیا جائے تاکہ کسی بھی غیر معمولی اضافے کو روکا جا سکے ۔ کسانوں کو سہولتیں فراہم کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے ۔ معیاری بیج، کھاد اور جدید مشینری ان کی پہنچ میں ہونی چاہیے تاکہ وہ زیادہ پیداوار دے سکیں۔ گندم کی خریداری کے نظام کو شفاف بنایا جائے تاکہ کسان اپنی محنت کا صحیح معاوضہ لے سکیں۔فوری ریلیف کے طور پر سبسڈی پیکجز دیے جا سکتے ہیں۔ یوٹیلٹی اسٹورز پر آٹا مناسب قیمت پر فراہم کیا جائے تاکہ غریب طبقہ کم از کم دو وقت کی روٹی خرید سکے ۔ اس کے ساتھ ساتھ خودکفالت پر زور دینا ہوگا۔ اگر زرعی پیداوار بڑھائی جائے اور ذخائر بہتر انداز میں سنبھالے جائیں تو مستقبل میں ایسے بحرانوں سے بچا جا سکتا ہے ۔
آخر میں یہی کہنا درست ہوگا کہ آٹا صرف خوراک نہیں بلکہ زندگی کی علامت ہے ۔ اس کی قیمتوں میں اضافہ عوامی مشکلات کو دوگنا کرتا ہے اور معیشت کو بھی کمزور کرتا ہے ۔ حکومت، اداروں اور عوام کو مل کر ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن سے یہ بحران ختم ہو اور عام آدمی کو ریلیف ملے ۔ بصورت دیگر مہنگائی کا یہ طوفان معاشرے کو ایک بڑے بحران کی طرف دھکیل سکتا ہے ۔
٭٭٭