وجود

... loading ...

وجود

منافع خور مافیا اور بھوکے عوام

جمعرات 11 ستمبر 2025 منافع خور مافیا اور بھوکے عوام

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

حکمرانوں نے غریب عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھین لیا ہے ۔پہلے ہی مہنگائی نے غریب عوام کی حالت بری کی ہوئی ہے ۔ حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ملک بھر میں آٹے کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ عام آدمی کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں۔ وہ آٹا جو ہر گھر کی بنیادی ضرورت ہے ، اب قیمتی شے بنتا جا رہا ہے ۔
وفاقی ادارہ شماریات کی پانچ ستمبر تک کی رپورٹ کے مطابق صرف تین ہفتوں میں بیس کلو کے تھیلے کی قیمت ہزاروں روپے بڑھ گئی ہے۔ یہ اضافہ پورے ملک میں دیکھا گیا اور کسی ایک علاقے تک محدود نہیں رہا۔اعداد و شمار کے مطابق بنوں میں بیس کلو کا تھیلا 1050 روپے مہنگا ہوا۔ پشاور اور لاڑکانہ میں 900 روپے تک اضافہ ہوا۔ سکھر میں 840، لاہور میں 830، ملتان میں 826 روپے 67پیسے ، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ میں 817، اسلام آباد میں 800، راولپنڈی اور کوئٹہ میں 740، جبکہ بہاولپور میں 866 روپے 67پیسے تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ آج ایک تھیلا زیادہ سے زیادہ 2500روپے میں فروخت ہو رہا ہے ، جو متوسط اور غریب طبقے کے لیے بہت بڑا بوجھ ہے ۔یہ مہنگائی صرف اعداد نہیں بلکہ ایک گھریلو المیہ ہے ۔ روٹی، نان یا پراٹھا کسی بھی کھانے کا لازمی حصہ ہیں اور جب آٹے کی قیمت بڑھتی ہے تو پورے گھرانے کی کچن مینجمنٹ متاثر ہوتی ہے ۔ محدود آمدنی والے خاندانوں کے لیے دو وقت کی روٹی بھی مشکل ہو گئی ہے ۔ خاص طور پر دیہاڑی دار مزدور اور نچلے طبقے کے لوگ براہِ راست متاثر ہو رہے ہیں۔
اس بحران کے کئی اسباب ہیں۔ ایک طرف ملک میں گندم کی پیداوار اور ذخائر کے حوالے سے خدشات ہیں، دوسری طرف ذخیرہ
اندوزی اور منافع خوری جیسے عوامل بھی اس صورتحال کو سنگین بنا رہے ہیں۔ کئی عناصر مصنوعی قلت پیدا کر کے عوام کو لوٹتے ہیں، گوداموں
میں گندم چھپا لی جاتی ہے اور مارکیٹ میں کمی دکھائی جاتی ہے ۔ اس کے ساتھ حکومتی کمزوری بھی ایک بڑا سبب ہے ۔ ادارے اگر موثر کردار
ادا کریں تو قیمتوں کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے ، مگر عموماً یہ صرف بیانات اور کاغذی کارروائی تک محدود رہتے ہیں۔آٹے کی بڑھتی قیمتیں صرف
گھریلو اخراجات ہی نہیں بڑھاتیں بلکہ معاشرے میں بے چینی اور جرائم میں بھی اضافہ کرتی ہیں۔ بھوک اور افلاس اکثر بدامنی کو جنم دیتے ہیں۔ یہ صورتحال ہمارے زرعی شعبے کی ناکامی کا بھی عکاس ہے ۔ پاکستان زرعی ملک ہے ، گندم ہماری بڑی فصل ہے ، پھر بھی آٹے کی قلت اور مہنگائی ہماری حقیقت ہے ۔ یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ زرعی پالیسیوں پر سنجیدگی سے نظرثانی کی ضرورت ہے ۔
ماضی کے حالات بھی گواہ ہیں کہ آٹے کی قیمتیں ہمیشہ سیاسی و معاشی دباؤ کے ساتھ جڑی رہیں۔ عالمی سطح پر اجناس کی قیمتیں بڑھیں یا ملکی معیشت کمزور ہوئی، تو اس کا اثر فوراً آٹے پر پڑا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے پاس طویل المدتی منصوبہ بندی نہیں۔ ہم وقتی اقدامات سے مسئلہ سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن پائیدار حکمت عملی کبھی سامنے نہیں لائی جاتی۔اب صورتحال یہ ہے کہ صرف آٹے ہی نہیں بلکہ سبزی، گوشت، دالیں اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ یوں عام آدمی کے لیے گھر چلانا ایک کڑا امتحان بن گیا ہے ۔اس سنگین صورتحال میں حکومت کو فوری اقدامات کرنے ہوں گے ۔ سب سے پہلے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی ناگزیر ہے ۔ ایسے عناصر کے خلاف عبرتناک سزائیں دی جائیں تاکہ دوسروں کے لیے مثال بن سکیں۔ دوسرا قدم یہ ہونا چاہیے کہ قیمتوں کی نگرانی کا مؤثر نظام بنایا جائے ۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے مارکیٹ کے رجحانات کو روزانہ چیک کیا جائے تاکہ کسی بھی غیر معمولی اضافے کو روکا جا سکے ۔ کسانوں کو سہولتیں فراہم کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے ۔ معیاری بیج، کھاد اور جدید مشینری ان کی پہنچ میں ہونی چاہیے تاکہ وہ زیادہ پیداوار دے سکیں۔ گندم کی خریداری کے نظام کو شفاف بنایا جائے تاکہ کسان اپنی محنت کا صحیح معاوضہ لے سکیں۔فوری ریلیف کے طور پر سبسڈی پیکجز دیے جا سکتے ہیں۔ یوٹیلٹی اسٹورز پر آٹا مناسب قیمت پر فراہم کیا جائے تاکہ غریب طبقہ کم از کم دو وقت کی روٹی خرید سکے ۔ اس کے ساتھ ساتھ خودکفالت پر زور دینا ہوگا۔ اگر زرعی پیداوار بڑھائی جائے اور ذخائر بہتر انداز میں سنبھالے جائیں تو مستقبل میں ایسے بحرانوں سے بچا جا سکتا ہے ۔
آخر میں یہی کہنا درست ہوگا کہ آٹا صرف خوراک نہیں بلکہ زندگی کی علامت ہے ۔ اس کی قیمتوں میں اضافہ عوامی مشکلات کو دوگنا کرتا ہے اور معیشت کو بھی کمزور کرتا ہے ۔ حکومت، اداروں اور عوام کو مل کر ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن سے یہ بحران ختم ہو اور عام آدمی کو ریلیف ملے ۔ بصورت دیگر مہنگائی کا یہ طوفان معاشرے کو ایک بڑے بحران کی طرف دھکیل سکتا ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
منافع خور مافیا اور بھوکے عوام وجود جمعرات 11 ستمبر 2025
منافع خور مافیا اور بھوکے عوام

قائد اعظم کا خواب، اسلامی فلاحی معاشرہ وجود جمعرات 11 ستمبر 2025
قائد اعظم کا خواب، اسلامی فلاحی معاشرہ

بھارتی آبی دہشت گردی وجود بدھ 10 ستمبر 2025
بھارتی آبی دہشت گردی

کواڈ اجلاس اور ٹیرف مسائلکواڈ اجلاس اور ٹیرف مسائل وجود بدھ 10 ستمبر 2025
کواڈ اجلاس اور ٹیرف مسائلکواڈ اجلاس اور ٹیرف مسائل

سنبھل فساد کے دلدل میں یوگی کا انتخابی دنگل وجود منگل 09 ستمبر 2025
سنبھل فساد کے دلدل میں یوگی کا انتخابی دنگل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر