... loading ...
اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ
ارنسٹ ہیمنگوے نے ایک بار کہا تھا: آپ ایک جگہ سے دوسری جگہ جا کر خود سے دور نہیں ہو سکتے۔ آپ محض اپنے ماحول کو بدل کر خود سے بچ نہیں سکتے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ کہیں بھی جائیں، آپ اپنے خیالات، جذبات اور حل طلب مسائل اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ ظاہری ماحول بدل سکتا ہے — منظر، لوگ، زندگی کی رفتار — لیکن اندرونی لڑائیاں باقی ہیں۔ آپ ایک زہریلا کام چھوڑ سکتے ہیں، کسی مشکل رشتے سے دور جا سکتے ہیں، یا کسی نئے شہر میں نئے سرے سے شروعات کر سکتے ہیں، لیکن اگر آپ کے اندر موجود گہرے زخموں اور نمونوں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، تو وہ خاموشی سے اگلے باب تک آپ کا پیچھا کریں گے۔حقیقی آزادی بھاگنے سے نہیں ملتی۔ یہ اندر کی طرف دیکھنے سے آتا ہے۔ یہ درد، خوف، اور نمونوں کو تسلیم کرنے کے بارے میں ہے جو آپ کو روکتے ہیں اور ان کو ٹھیک کرنے کا عہد کرتے ہیں۔
کسی نئی جگہ پر منتقل ہونے سے آپ کو سکون کا عارضی احساس، صاف ستھرا سلیٹ مل سکتا ہے، لیکن حقیقی تبدیلی کے لیے اندرونی کام کی ضرورت ہوتی ہے۔ بصورت دیگر، آپ کو صرف ایک مختلف ترتیب میں، ایک ہی جدوجہد کو دوبارہ بنانے کا خطرہ ہے۔لیکن یہاں بااختیار سچائی ہے: آپ اپنے مستقل ہیں۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ کہیں بھی جائیں، آپ کو ہمدردی کے ساتھ اپنے آپ کا سامنا کرنے، اپنے تجربات سے سیکھنے اور بڑھنے کا موقع ملے گا۔ جب آپ داخلی چیلنجوں کے لیے بیرونی حل تلاش کرنا چھوڑ دیتے ہیں، تو آپ یہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ جس امن کی آپ تلاش کر رہے ہیں وہ منزل نہیں ہے — یہ دماغ کی حالت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تبدیلی قابل قدر نہیں ہے۔ ایک نیا ماحول نقطہ نظر، الہام، اور نقصان دہ اثرات سے دوری پیش کر سکتا ہے۔ لیکن دیرپا تبدیلی تب ہوتی ہے جب آپ بیرونی تبدیلی کو ترقی کی اندرونی وابستگی کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ آپ جہاں بھی ہوں، اس پر غور کرنے کے لیے وقت نکالیں کہ آپ کے لیے واقعی کیا اہمیت ہے۔ جریدہ کریں، مراقبہ کریں، رہنمائی حاصل کریں، اور ایسی عادات بنائیں جو آپ کی جذباتی اور ذہنی تندرستی میں معاون ہوں۔آپ اپنے آپ کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتے — لیکن آپ اپنے ساتھ اس طرح جینا سیکھ سکتے ہیں جو پورا کرنے، منسلک اور آزاد محسوس کرے۔ جب آپ اس کے ساتھ صلح کرتے ہیں کہ آپ کون ہیں، تو آپ دیکھیں گے کہ آپ اپنے اندر گھر کا احساس پیدا کر سکتے ہیں، چاہے زندگی آپ کو کہاں لے جائے۔ سفر صحیح جگہ تلاش کرنے کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ اپنے آپ کا صحیح ورژن بننے کے بارے میں ہے۔ اور جب آپ ایسا کرتے ہیں، تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ آپ جس سکون اور خوشی کا تعاقب کر رہے ہیں وہ آپ کے اندر ہی تھی۔
پانچویں صدی ق م میں ایتھنز میں کچھ ایسی سماجی تبدیلیا ں رونما ہوئیں جنہوں نے فکر کا دھارا طبعی فلسفے سے انسان اور انسانی سماج میں ہونے والی تبدیلیوں کی طرف موڑ دیا پانچویں صدی ق م کے آخری نصف میں ایتھنز کی شہری ریاست میں زبردست صنعتی ، زرعی اور تجارتی ترقی ہوئی یہ ایک معاشی انقلاب تھا جہاں قانون اور فرد کا نئے طورپر سامنا ہوا جہاں فرد کو اپنے حق کے لیے کچھ کہنا تھا اس کے لیے ایک نئے اظہار ، لعنت ، منطق اور زبان کی ضرورت تھی اور ساتھ ساتھ پر انے طور طریقوں ،سو چ اور اقدار پر کاری ضرب لگانے کی ضرورت تھی مسئلہ ایسی فکر سامنے لانے کا تھا جو پرانے دقیا نوسی فکر کی جگہ آس پاس رواں دواں زندگی کا ترجمان ہو جو انسانی تعلقات اور سماج میں پیدا ہونے والے نئے روابط کا احا طہ کرسکے اور انہیں آگے بڑھا سکے اس لیے سقراط اور دیگر فلسفیوں نے آکر تمام پرانے نظریات اور اقدار کو چیلنج کر دیا اور انہیں عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی طرف راغب کیا۔ اسی زمانے میں چین ، ہندوستان ،ایران اور فلسطین میں بھی بیک وقت انسا ن کی نئی ارتقائی منزلیں تشکیل پارہی تھیں چین میں کنفیو شس اور لاوزے اور ان کے بعد موزلے اور چوانگ زلے نے پورے چینی فلسفے کا تارو پو دتیا رکیا ہندوستان میں یہ اپشندوں اور بدھ مت کا زمانہ تھا ۔ یہاں بھی چین کی طرح نئے رحجانات پیدا اور پروان چڑھ رہے تھے ایران میں زردشت نے نیکی اور بدی کی ازلی پیکار کا تصور پیش کیا فلسطین میں بنی (ایلیجا ہ ، حرمیاہ ، اشعیا) پیدا ہو ئے اس عہد کی سب سے بڑی یہ تھی کہ انسان کو پہلی بار اپنی عظمت کا احساس اور شخصیت کے لا محدود امکانات کا علم ہوا ہندوستان کے رشی چین کے جہاں گرد راہب، اسرائیلی بنی اور یونانی فلسفی اپنے باہمی امتیازات کے باوجود دنیا کو ایک ہی پیغام دیتے سنائی دئیے کہ انسان اپنی ذات میں سمٹ کر اور نفس کی پنہا ئیوں میں کھو کر کا ئنا ت کے رازوں کا امین بن سکتا ہے اور نور باطن اور فکر وہ جدان ہی و ہ مشعل رہ ہے جس کی روشنی میں چل کر اس مسرت لازوال کو پاسکتا ہے جس کی جستجو وہ ازل سے کرتا آیا ہے ۔ پھر اس کے بعد سے تقریباً پوری دنیا میں رجعت و قدامت پسند نظریات ، عقل دشمن باتوں ، بوسیدہ روایات کو عبرتنا ک شکست کا سامنا کر نا پڑا اور آج پوری دنیا پر نئے نظریات ، نئی روایات اور عقل کا راج قائم ہے لیکن اس کے بر عکس ہمارے ملک میں آ ج تک عقل کو فتح نصیب نہیں ہوسکی ہے اور آج بھی ہمارے سماج میں وہ ہی صدیوں پر انے نظریات ،توہمات اور بوسیدہ روایات کی اجارہ داری قائم ہے اور عقل آج بھی ہمارے سماج میں چھپتی پھرتی ہے ۔ اور اس کے سامنے بنیاد پرست خیالات دندانتے پھرتے ہیں حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب اچھے خاصے پڑھے لکھے حضرات بھی اپنے بوسیدہ خیالات اور رجعت پسند روایات کو ترک کرنے سے انکار کرتے نظرآتے ہیں اور اپنی باتوں اور رہن سہن میں اس کا اظہار کرتے پھرتے ہیں ۔ سمجھ میں نہیں آتا آیا اسے عقل کی شکست کہاجائے یا اسے ہٹ دھرمی اور ماضی سے چمٹے رہنا کہنا جائزہے ۔ دونوں ہی صورتوں میں یہ وہ انسانی المیہ ہے جس پر جتنا ماتم کیاجائے کم ہے ۔ اس پر جتنی آہ و بکا کی جائے اتنی کم ہے ۔
مشتاق احمد یوسفی کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ حالت حاضرہ پہ تبصر ہ کرتے وقت جو شخص اپنا بلڈ پر یشر اور گالی پر قابو رکھ سکے وہ یا تو ولی اللہ ہے یا پھر خود حالات کا ذمہ دار ہے ۔ جبکہ افلاطون نے کہا تھا ” کسی شخص پر اس سے بڑی اور کوئی مصیبت نا زل نہیں ہوسکتی کہ وہ عقل و خرد کی مخالفت کرنے لگے”ذہن نشین رہے آج جو عذاب اور مسائل ہمیں درپیش ہیں یہ نہ تو آسمان سے ٹپکے ہیں اور نہ ہی زمین پھاڑ کر باہر نکلے آئے ہیں اور نہ ہی یہ پاکستان بننے کے بعد ہمارے ملک میں پھینک دئیے گئے تھے ان تمام مسائل اورعذاب کے خالق ہم خود ہیں کیونکہ ہماری دشمن عقل سے ہوگئی تھی اسی لیے ہماری ان تھک محنت، جدو جہد ، کا وشوں ، چاہتوں اور ارمانوں کے نتیجے میں یہ سب عذاب ہمارے نصیب میں آگئے ہیں یہ انتشار ، انتہاپسندی ، دہشت گردی ، فرقہ واریت، تعصب، نفرت ہمارے اعمال اور فکر و سو چ کی پیداوار ہیں ظاہر ہے جب آپ کی عقل سے دشمنی ہوجائیگی تو عقل انتقام تو لے ہی گی اور یہ عقل کا ہی انتقام ہے جو ہمارے سامنے ہم پر منہ پھاڑے قہقہے لگا رہا ہے جب یہ سب کچھ ہمارا اپنا کیا دھر ا ہے تو پھراس پر چیخنا چلانا کیسا ، رونا کیسا ، دہائیاں دینا کس لیے کر پشن ، لوٹ مار ، انتہاپسندی ، دہشت گردی پر غم و غصہ کس لیے ظاہر ہے جو آپ بوئیں گے وہ ہی تو کاٹیں گے جب آپ محبت اخوت ، رواداری ، مساوات ، بر داشت ، احترام کے بجائے نفرت ، تعصب ،تنگ نظری ، جہالت کے بیج ڈالیں گے تو وہ ایک دن دیو بن کر زمین پھاڑ کر ہی تو نکل آئیںگے اور جب نکل آئے ہیں تو رو نا دھونا چھو ڑیں آئیں مل کر جشن منائیں کہ ہم کامیاب ہوگئے سر خرو ہوگئے ہماری خود کی وجہ سے آج شرافت ایک گالی بن چکی ہے۔ ایمانداری قابل نفرت جرم بن کے رہ گئی ہے۔ سچائی کی ہر چوراہے پر بے حرمتی ہورہی ہے۔ اخلاقی اقدار ، تہذیب و تمد ن اور اصولوں کو گلی گلی ننگا گھسیٹا جارہا ہے۔ رواداری اور برداشت کی لاش کو نو چ نو چ کر اودھیڑا جارہاہے۔ ہم سب کو ایک دوسرے کو رشک ، تعریف اور تحسین کی نگاہوں سے دیکھنا چاہیے کہ ہم نے اپنا حال کیا سے کیا کر دیا ہے اور کیا معصومیت ہے ہماری کہ ہم اپنی ساری خرابیوں اور برائیوں کا ملبہ اپنے آپ پر ڈالنے کے بجائے غیر ملکیوں پر ڈال دیتے ہیں اور بڑی ہی بے شرمی سے کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک غیر ملکی سازش کے تحت ہورہاہے ۔ساری دنیا ہماری دشمن بن گئی ہے ہمیں مٹانے پہ تلی بیٹھی ہے ہمارے خلاف دن رات سازشیں کررہی ہے ۔ معاف کیجئے گا عقل سے دشمنی کا نتیجہ اس کے علاوہ کوئی اور نکل ہی نہیں سکتا تھا ۔ اگر آپ اب بھی اپنے حالات کو تبدیل کرنا چاہتے اور پو ری دنیا کی طرح خو شحال ، پر امن ، ترقی سے بھر پور زندگی گذارنا چاہتے ہیں تو آئیں آج ہی عقل سے دوستی کرلیں ،بو سیدہ ، رجعت اور قدامت پر ست خیالات کو کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیں اور روشن خیالی کو اپنا لیں ۔ اور پوری دنیاکے ہمسفر بن جائیں پھر دیکھیں کس طرح راتوں رات آپ کے نصیب بدلتے ہیں ۔
٭٭٭