... loading ...
باسمہ تعالیٰ
۔۔۔۔۔۔۔
ماجرا/ محمد طاہر
۔۔۔۔۔
یہ دنیا کے لیے ایک علامتی لمحہ تھا، مغربی یونین میں شامل تمام ممالک کے دارالحکومتوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ بیجنگ میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن، چینی صدر شی جن پنگ اور شمالی کوریا کے رہنما کِم جونگ کی اکٹھ محض ایک فوجی پریڈ میں شرکت کا کوئی موقع نہ تھی۔ یہ عالمی سیاست میں ایک ہلچل کا باعث بنی۔
ٹرمپ کے بولنے کی عادت سے پریشان نہیں ہونا چاہئے ، موت کی افواہوں سے نکلنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ردِ عمل میں جو کچھ فرمایا وہ اُن کی قدرے پریشانی کا غماز تھا۔ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لکھا” چین کی فتح اور عظمت کی جستجو میں کئی امریکی جانیں قربان ہوئیں، امید ہے کہ ان کی بہادری اور قربانی کو درست طور پر یاد رکھا جائے گا!صدر شی اور چین کے شاندار عوام کو جشن کا ایک عظیم اور دیرپا دن مبارک ہو۔ براہ کرم میرا گرمجوشی سے سلام پوٹن اور کم جونگ اُن کو پہنچائیں، جب آپ امریکہ کے خلاف سازش کر رہے ہوں”۔ٹرمپ نے یاد دلایا” امریکا نے چین کو جاپان سے آزادی دلانے میں مدد دی تھی”۔ روس کا ردِ عمل مزے دار ہے” امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کاروس، چین اور شمالی کوریا کے رہنماؤں پر امریکہ مخالف سازش کا الزام ایک مذاق ہے ، انہوں نے یہ پوسٹ طنزاً کی ہوگی۔ ولادیمیر پیوتن، شی جن پنگ، اور کِم جونگ اُن بیجنگ میں امریکہ کیخلاف کوئی سازش نہیں کررہے” ۔یہ الفاظ مزے دار ہی نہیں زیادہ گہرے بھی ہیں۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کالاس کو اعتراف کرنا پڑا کہ ایک نیا عالمی نظام تشکیل پارہا ہے۔ اُن کے الفاظ چونکا دینے والے تھے ”بیجنگ کے مناظرعالمی نظام کو براہ راست چیلنج ہے”۔اُنہوں نے مزید وضاحت کی ”ہم صدر شی کو بیجنگ میں روس، ایران اور شمالی کوریا کے رہنماؤں کے ساتھ کھڑا دیکھتے ہیں تو یہ صرف مغرب مخالف مناظر نہیں ہیں بلکہ یہ قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام کو براہِ راست چیلنج ہے ۔ یہ صرف علامتی بات نہیں”۔کایاکالاس کے الفاظ میں قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام دراصل امریکا کی غنڈہ گردی میں مغربی اقوام کا اکٹھ ہے!کیا آپ کا تھوکنے کو دل چاہتا ہے۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے یہاں رُکی نہیں، مزید فرمایا: ” چین اور روس ایک ساتھ ایسی تبدیلیوں کی قیادت کی بات کرتے ہیں جو سو سال میں نہیں دیکھی گئیں ،وہ عالمی سلامتی کے ڈھانچے کی از سرِ نو تشکیل چاہتے ہیں۔یورپ کو اس عالمی ہلچل کے مقابلے میں اپنی جیو پولیٹیکل طاقت کا مظاہرہ کرنا ہوگا”۔یہ نئی سرد جنگ کا نرم گرم الفاظ میں اظہار ہے۔ مگر سرد جنگ تو پہلے سے جاری ہے۔ جی ہاں، واضح اشارہ ہے کہ یہ کافی نہیں۔
چین نے شنگھائی تعاون تنظیم کے دوروزہ اجلاس کی میزبانی کے فوراً بعد جاپان پر فتح کی یاد میں تیانمن اسکوائر پر ایک تاریخی پریڈ منعقد کی۔یہ دونوں واقعات عالمی سطح پر ہلچل پیدا کرنے والے ثابت ہوئے۔”کم مگر خوب گو” شی جن پنگ کے یہ الفاظ کافی تھے”چین رُکنے والا نہیں”۔ چینی صدر بھی نہیں رُکے۔ تیانمن اسکوائر میں توپ سے گولہ چلا اور چینی صدر نے نہایت گرمجوشی سے شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کا استقبال کیا۔ اگلا لمحہ روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات کا تھا۔ ایک مجموعی تصویر بن رہی تھی جس میں دنیا کے دو سب سے زیادہ پابندیوں کے شکار رہنما دنیا کی سب سے تیزی سے اُبھرتی طاقت چین کے سب سے طاقت ور صدر شی جن پنگ کے ہمراہ اپنی نشستیں سنبھالنے جا رہے تھے۔ اب کایاکالاس کے الفاظ ”قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام” یاد کیجیے!تینوں سربراہان کے قدم اپنی نشستوں کی جانب کم اور اس نظام کے سینے پر زیادہ پڑ رہے تھے۔ پریڈ میں اسلحہ کی نمائش جتنی مبہوت کرنے والی تھی اُس سے کہیں بڑھ کر پیوتن، شی جن پنگ اور کِم جونگ کے اکٹھ کا پیغام تھااور یہ غیر معمولی سے بھی کہیں بڑھ کر تھا۔ مغربی ذرائع ابلاغ میں چھپنے والے الفاظ کا محتاط خلاصہ تیار کیا جائے تو یہ” امریکا کے عالمی غلبے کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ایک منحرف گروہ” تھا۔ کہیں اِسے ”نیو کولڈ وار”کی تعبیر دی گئی۔گارجین نے اس کی ”رشیا’ز لائف لائن”سے تصریح کیا۔ کچھ اخبارات نے اِسے ”چیلنج فار واشنگٹن” کے پیرایے میں واضح کیا۔
واشنگٹن سے ہی امریکی صدر ٹرمپ نے ایک امریکی ٹی وی چینل کو ٹیلیفونک انٹرویو میں کہا:روسی اور یوکرینی صدور کے براہ راست مذاکرات کے امکانات پر غیر یقینی صورتحال بڑھ رہی ہے ۔ پیوتن اور زیلینسکی ابھی براہ راست مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہیں، لیکن ہم یہ کر کے دکھائیں گے” ۔ٹرمپ جب یہ فرما رہے تھے، تب پیوتن بیجنگ میں تھے، اُنہوں نے پیغام دیا کہ ” زیلنسکی سے ملاقات کیلئے تیار ہوں ، زیلنسکی ماسکو آئیں تو ان سے ملاقات ہو جائے گی، لیکن ان کے اختیارات ختم ہو چکے ہیں اس لیے ان سے ملاقات بے نتیجہ رہے گی”۔ ساری کہانی واضح ہے۔ ٹرمپ کے نوبل پرائز کا کیا ہوگا، کڈھب نریندر مودی کے بعد ایک ڈھب میں پیوتن جو کچھ کر رہے ہیں وہ محتاج بیان نہیں۔
یہاںایک لمحہ ٹہر کر مستقل زیر ملامت رہنے والے مودی کو تھوڑی دیر کے لیے یاد کر لیجیے، دعوت اُنہیں بھی تھی مگر وہ برصغیر پاک و ہند کی مشترکہ چلتی زبان میں ”پتلی گلی سے نکل گئے”۔وہ جانتے تھے کہ اس پیریڈ میں اُنہیں کسی موقع پر چینی فوجیوں کو سلیوٹ کرنا ہوگا۔ جن کے متعلق بھارتی فوج یہ دعویٰ کر چکی ہے کہ وہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان کے مدد گار تھے۔ یہ پہلے سے ہی تنقید کے شکار مودی کو بھارت میں مزید رسوا کرتا۔مگر مودی اتنی تھوڑی بے عزتی کی پروا نہیں کرتے۔ وہ جانتے تھے کہ ایک مرتبہ پھر مغربی دنیا کے سراسیمہ ہونے کا وقت ہے اور امریکا بھارت کی جانب پھر للچائی نظریں ڈالے گا۔بھارت میں کواڈ سربراہی اجلاس میں ٹرمپ کی جانب سے عدم شرکت کا فیصلہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ مودی موقع تاڑ گئے وہ پیریڈ میں باقی بیس ممالک کے ساتھ شریک نہیں ہوئے۔ بھارت کے لیے موقع کی ایک کھڑکی کھل چکی ہے۔ پاکستان میں احمقوں کو ابھی اس بحث میں اُلجھے رہنے دیں کہ کس تصویر میں کون کہاں موجود ہے اور کس نے کس کے ساتھ ہاتھ ملایا؟ یہ عالمی بساط ہے اور یہاں مہرے پُرکاری سے چلے جاتے ہیں۔ غلط فہمیوں اور خوش فہمیوں دونوں ہی کی اس بساط میں گنجائش رکھی جاتی ہے۔
اب اگر ایک بار پھر شی جن پنگ، پوتن اور کمِ جونگ کی تصویر ذہن میں لائیں تو یہ کیا تاثر پیدا کرتی ہے؟ وہاں مزید بیس ممالک کے سربراہان بھی موجود تھے۔مگر شی جِن پنگ نے فوجی پیریڈ کے موقع پر صرف پوتن اور کِم جونگ کو اپنے دائیں بائیں رکھا۔ پیغام واضح ہے۔ جو کردار ادا کرنے والے ہیں وہ چین کے دائیں بائیں ہیںاور جو درمیان میں رہ کر تفویض کردہ کردار سنبھالنے والے ہیں وہ چین کے لچکدار نظام میں رہنا چاہیں تودکھائی تو دیں گے مگر ذرا پیچھے ، پچھلے ہوں گے۔ عالمی بساط ترتیب پا رہی ہے۔ چین کی سیاسی چھتری، عسکری پیش قدمی ، روس کا جنگی تجربہ اور توانائی کے وسائل جبکہ شمالی کوریا کا کم لاگت اسلحہ اور عسکری مدد۔یہ ایک امتزاج کے ساتھ عالمی سطح پر اُبھرتا ہوا اتحاد ہے ۔ یہ امریکی غلبے کو چیلنج دے سکتا ہے اور مغربی قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام کے لیے سنجیدہ خطرہ بن سکتا ہے۔ شی جن پنگ کے الفاظ گونج رہے ہیں چین رُکنے والا نہیں۔ تاریخ میں ایک گونج ہنری کسنجرکی بھی ہے جو اُن کی کتاب ”آن چائنا” کے الفاظ نے پیدا کی ہے
کہ”چین ایک ایسا ملک ہے جس کی تاریخ نے اُسے یہ توقع سکھائی ہے کہ وہ دنیا میں مرکزی کردار ادا کرے گا”۔
٭٭٭