... loading ...
حمیداللہ بھٹی
شنگھائی تعاون تنظیم کا 25واں دوروزہ سربراہی اجلاس ہر پہلو سے اہمیت کا حامل ہے جو چین کے شمالی بندرگاہی شہر تیانجن میں منعقد ہوا۔یہاں چین کاایک بڑابحری اڈا ہے یہ شہر چینی دارالحکومت بیجنگ کی طرح جدید ترین سہولتوں سے آراستہ ہے۔ 2001میںقیام کے بعد اِس بناپر شنگھائی تعاون تنظیم کی حالیہ سربراہی کانفرنس کو تاریخ کاسب سے بڑااجلاس کہنا مناسب ہے کہ پہلی بار دنیا کے چھبیس رہنماشریک ہوئے ،جن میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان اور اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس شامل ہیں ۔حالیہ اجلاس میں چین ،روس ،بھارت،پاکستان ،قازقستان،کرغزستان، تاجکستان،ازبکستان اور بیلا روس کے علاوہ سولہ ممالک کو بطور مبصر شرکت کی دعوت دی گئی جسے قبول کرتے ہوئے تمام مدعو ممالک نے اعلیٰ سطحی شرکت کو یقینی بنایا جو چینی رسوخ کی طرف اِشارہ ہے۔ اِس سے تنظیم کی اہمیت بھی اُجاگر ہوتی ہے ۔اگر تیانجن اجلاس کو امریکہ اور مغربی ممالک کے لیے خطرہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ چین نے ورلڈ آرڈرکو غنڈہ گردی کہہ دیاہے جبکہ روسی صدرپہلے ہی یوکرین تنازع بڑھنے کی وجہ مغرب کوقراردیتے ہیں ۔اجلاس میںچین نے پہلی بارگلوبل گورننس کاتصورپیش کیاجوممکن ہے فی الحال یہ تصورقبل از وقت قرار پائے مگر یہ ناقابلِ عمل نہیں۔
جس طرح گزشتہ دنوں نو یورپی ممالک کے سربراہوں کی امریکہ صدر ٹرمپ سے ملاقات کے اغراض و مقاصد جاننے کے لیے دنیاکی نظریں مرکوزرہیں ۔اُس سے زیادہ شنگھائی تعاون تنظیم کے فیصلوں کو جاننے کے لیے دنیابے تاب محسوس ہوئی روس اور چین کچھ اِس طرح اہداف کی طرف گامزن ہیں کہ بھارت جیسا امریکی حلیف بھی ہمراہ چلنے میں عافیت تصور کرتا ہے ۔یہ چینی قیادت کا کمال ہے کہ مقابلے کا دعویدار بھی چین کی معاشی وفوجی طاقت تسلیم کرنے پر مجبورہے جس میں پاکستانی کرداربھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
بظاہر ٹرمپ ٹیرف نے مودی کوچین کی طرف مائل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ و بھارت لاکھ الگ ہونے کا تاثر دیں۔ یہ دونوں ماضی میں بھی ایک تھے اب بھی ایک ہیں اور مستقبل میں بھی ایک رہیں گے کیونکہ دونوں کے مزاج، مقاصد اور اہداف یکساں ہیں ۔ٹرمپ ٹیرف وقتی ہے جس کانہ صرف جلدخاتمہ یقینی ہے بلکہ مذکورہ دونوں ممالک ازسرے نو چین کونقصان پہنچانے کی تگ ودو کرسکتے ہیں ۔ظاہر ہے یہ پہلو چین سے پوشیدہ نہیں ہو گا۔ شاید اسی لیے چینی صدر نے عالمی رہنمائوں کے اعزاز میں دیئے عشایے سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ حالیہ سربراہی اجلاس کا مقصد رُکن ممالک میں اتفاق پیدا کرناہے۔ ایسے حالات میں جب چین اور بھارت میں کشیدگی ہے ،دوجوہری طاقتوں پاک بھارت تعلقات تاریخ کے اِس حد تک کم ترین درجے پر ہیں کہ پاک بھارت وزرائے اعظم نے اجلاس میں شرکت کے باوجودرسمی ملاقات تو درکنارایک دوسرے سے ہاتھ تک نہیں ملایا، ایسے میں تنظیم کیسے اتفاق کا مقصد حاصل کرپائے گی ؟یہ سمجھنے کے لیے دنیا کی نظریں چین پر ہیں جو شنگھائی تعاون تنظیم کامعمار بھی ہے۔
یہ بتانے کے لیے کہ امریکہ کے پاس امریکہ کا متبادل ہے مودی نے چین کی کئی ایسی شرائط تسلیم کر لی ہیں جن سے بھارت کو تجارتی حوالے سے فائدہ نہیں ہو سکتا۔ اب بھی چین سے بھارت کو99.2 ارب کے تجارتی خسارے کاسامنا ہے۔ بھارتی بازار چینی اشیا سے بھرے ہیں ۔اِن حالات میں چین سے آزادانہ تجارت کا مطلب بھارتی منڈیوں پر مکمل غلبہ حاصل کرنے کاموقع دیناہے ۔چین جیسی معاشی ودفاعی سُپر پاور کو روسی دفاعی طاقت کی بھی اعانت حاصل ہے ۔کچھ حلقوں کاخیال ہے کہ بھارت کے چین کی طرف جھکائو میں روسی عمل دخل ہے۔ لہٰذادیرپاثابت ہو سکتاہے مگر امریکہ اور بھارت ایک دوسرے کی ضرورت ہیں ۔اِس لیے زیادہ دیرایک دوسرے سے الگ یا دوررہ ہی نہیں سکتے۔ لہٰذا قبل اِس کے کہ بھارت دوبارہ امریکہ سے رجوع کرلے چینی کوشش ہوگی کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں بھارتی کردار کو محدود رکھا جائے ،تاکہ سارک کی طرح اگر کبھی جمودلانے کی کوشش کرے تو کامیاب نہ ہو سکے۔ بھارت کے تما م ہمسایہ ممالک سے چین کے قریبی تعلقات میں بھی یہی سوچ کارفرما لگتی ہے۔ اِس لیے حالیہ سربراہی اجلاس مودی سے برتائوصاف سمجھ میں آتاہے۔
مودی گزشتہ نصف عشرے کے دوران شنگھائی تعاون تنظیم سے دانستہ دوررہے اب اچانک مصروفیات ترک کرنااور تیانجن پہنچ جاناثابت کرتا ہے کہ شرکت میں خلوص نہیں ۔امریکہ کومتبادل جتانامقصودہے مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ چین جیسا حسابی کتابی ملک ایسی چالوں سے آشنا نہ ہو۔ چینی فاشزم کے خاتمے کی 80 ویںسالگرہ کے مہمانوں کی فہرست میں مودی کانام شامل نہ کرنے سے بہت کچھ واضح ہوتاہے۔ روسی صدرپوٹن،شہباز شریف،کم جونگ ان،مسعود پزشکیان سمیت دنیا کے چھبیس ممالک کے سربراہان اور اعلیٰ رہنما ئوں میں سے واحد مودی کوشامل نہ کرنادراصل ناخوشی کاایساپیغام ہے جو خطے ہی نہیں عالمی سیاست کے تناظر میں نہایت اہم ہے ،جس سے بہرحال اِس تاثر کی تو نفی ہوئی ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ سربراہی اجلاس کامقصد رُکن ممالک میں اتفاق پیداکرنا ہے۔ نیزچین کا اعتماد حاصل کرنے کی مودی بھاگ دوڑ بھی اکارت جاتی محسوس ہوتی ہے۔ شاید امریکہ بھی اب مودی حرکتوں سے کچھ زیادہ بلیک میل نہ ہو کیونکہ مودی سے فاصلہ رکھنا ثابت کرتا ہے کہ خطے میں آج بھی چین کے لیے پاکستان زیادہ قابلِ اعتماد دوست جبکہ بھارت ناقابلِ اعتبارہمسایہ ہے ۔
پاکستان نے ہمیشہ چینی مفادکے منافی کام کرنے سے گریز کیا ۔عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کرنے والا پاکستان پہلا مسلم ملک قرارپایا۔ سرد جنگ میں تمام تر مغربی دبائو کے باوجود چین سے اپنے تعلقات بہتر رکھے۔ یہاں تک کہ چین اور امریکہ کے مابین سفارتی روابط قائم کرانے میں کلیدی کردارادا کیا۔ پی آئی اے دنیاکی وہ پہلی ائیر لائن قرار پائی جس نے بیجنگ تک براہ راست پروازیں شروع کیں۔ اب بھی غالب امکان یہی ہے کہ عالمی دبائو ،معاشی مشکلات اور خطے میں بڑھتی کشیدگی کے دوران بھی پاک چین یکساں موقف اختیار کریں کیونکہ اِن کی دوستی وقتی مفاد نہیں بلکہ خلوص پرمبنی ہے۔ دونوں کے75 برس کے تعلقات میںاعتماد اور تعاون جھلکتاہے ۔چین چاہتا ہے پاکستان معاشی طورپر مستحکم ہو،اِس کے لیے عملی طورپر بھی کوشاں ہے جس کی نظیرسی پیک کا منصوبہ ہے جو توانائی،انفراسٹرکچراورصنعتی ترقی کا باعث ہے ۔یہ روزگار کے مواقع بڑھانے کا زریعہ ہے ۔حالیہ شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس پاک آرمینیا سفارتی تعلقات کا موجب بنا ۔اسی بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ چینی تعاون سے پاکستان کو نہ صرف اپنی عالمی ساکھ اور معاشی حالت بہتر بنانے کا موقع ملے گا بلکہ خطے کی غالب دفاعی طاقت ہونے کے ناطے گلوبل گورننس جیسے خیال میں بھی اہم کرداراداکرنے کے قابل ہو سکتا ہے ۔
٭٭٭