وجود

... loading ...

وجود

پانی بطور ہتھیار

جمعرات 04 ستمبر 2025 پانی بطور ہتھیار

محمد آصف

پانی زندگی، زراعت اور صنعتی ترقی کے لیے سب سے بنیادی وسیلہ ہے ۔ اکیسویں صدی میں پانی کی قلت دنیا کے سب سے سنگین مسائل میں سے ایک کے طور پر سامنے آئی ہے ، خاص طور پر ان
خطوں میں جہاں سرحد پار دریا مختلف ممالک میں بہتے ہیں۔ ایسے علاقوں میں پانی کی تقسیم اور کنٹرول صرف وسائل کے انتظام کا مسئلہ نہیں رہتا بلکہ یہ طاقت، خودمختاری اور بقا کا سوال بھی بن جاتا ہے ۔ ”;پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا”اس حکمت ِعملی کو کہا جاتا ہے جس میں پانی کے بہاؤ یا رسائی کو جان بوجھ کر سیاسی دباؤ یا سزا کے طور پر استعمال کیا جائے ۔ روایتی ہتھیاروں کے برعکس، پانی ایک خاموش لیکن انتہائی طاقتور ذریعہ ہے جو معاشروں کو عدم استحکام اور انسانی بحران میں مبتلا کر سکتا ہے ۔تاریخ کے مختلف ادوار میں پانی کے وسائل پر قبضہ اور کنٹرول تنازعات کی بڑی وجہ رہا ہے ۔ قدیم تہذیبیں دریاؤں کے کنارے آباد ہوئیں اور آبپاشی کے نظام پر جھگڑے عام تھے ۔ جدید دور میں ڈیموں کی تعمیر اور پانی کے رخ موڑنے کے منصوبے اکثر ہمسایہ ریاستوں کے درمیان کشیدگی کا باعث بنے ۔ مصر اور ایتھوپیا کے درمیان دریائے نیل، ترکی اور عراق کے درمیان دریائے فرات، اور بھارت اور پاکستان کے درمیان دریائے سندھ کا تنازع اس بات کی مثالیں ہیں کہ سرحد پار بہنے والے دریا کس طرح جغرافیائی و سیاسی محاذ آرائی کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ سب اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ پانی جہاں زندگی کا ذریعہ ہے وہاں طاقت کے کھیل میں ایک مہلک ہتھیار بھی بن سکتاہے ۔
پانی کو دو بنیادی طریقوں سے ہتھیار بنایا جا سکتا ہے : اضافی اخراج اور پانی روکنا۔ اگر کوئی ملک اچانک ڈیموں سے ذخیرہ شدہ پانی چھوڑ دے تو نیچے کے علاقوں میں تباہ کن سیلاب آ سکتا ہے جس سے کھیت، بستیاں اور انفراسٹرکچر تباہ ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس، اگر زرعی موسم میں پانی روک لیا جائے تو قحط اور خشک سالی پیدا ہو سکتی ہے ، جو خوراک کی کمی اور معاشی نقصان کا باعث بنتی ہے ۔ یہ دوہری صلاحیت سیلاب اور خشک سالی پیدا کرنے کیپانی کو ایک منفرد غیر فوجی ہتھیار بناتی ہے ۔ اس کے اثرات فوری نقصانات سے بڑھ کر غربت، ہجرت اور سماجی بے چینی جیسے دیرپا مسائل کو جنم دیتے ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان میں موسمی بارشوں کی شدت پہلے ہی انتہا کو پہنچی تھی، اور بھارت نے چند مقامات سے پانی جاری کرنے کا اعلان کیا، جس سے دریا جیسے ستلج، راوی اور چناب کے بہاؤ میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ خصوصاً ستلج، چناب اور راوی دریاوں کے کنارے آبادی اور زرعی علاقوں میں شدید سیلابی کیفیت پیدا ہوئی۔ تقریباً 250,000افراد بے گھر ہوئے ، اور تقریباً 1.2 ملین لوگ متاثر ہوئے 1400 گاؤں پانی میں ڈوب گئے ۔ 90لاکھ سے زائد افراد کی بڑے پیمانے پر بحفاظت منتقلی کی گئی۔ جس میں افواج پاکستان کے ساتھ ساتھ فلاحی تنظیموں منہاج ویلفیئر فاونڈیشن، الخدمت، ملی مسلم لیگ، لبیک، دعوت اسلامی کے رضاکارشانہ بشانہ اپنی عوام کی خدمت میں اور امدادی سرگرمیوں میں شریک تھے ۔
بھارت نے انڈس واٹر ٹریٹی معطل کرتے ہوئے جو پانی جاری کیا وہ غیر معیاری چینلز جیسے ڈپلومیٹک چینلز کے ذریعے پاکستان کو مطلع کیا گیا، نہ کہ Indus Waters Commission کے
ذریعہ۔ بھارت کے اس رویے کو پاکستان نے معاہدے کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔ کئی ماہرین نے اسے پانی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی ایک مثال قرار دیا، کہ پاکستان نے 6 رافیل طیارے تباہ کیے جبکہ انڈیا نے 60 شہر پانی میں ڈبو دیئے ۔ پاکستان کو سنجیدہ لیکر کام کرنا ہوگا اور ڈیم بنانے ہونگے ۔ورنہ یہ مستقبل میں ہمیشہ خطرہ رہے گا۔بھارت اور پاکستان کا تنازع پانی کے ہتھیار بننے کی ایک بڑی مثال ہے ۔ دونوں ممالک کے درمیان دریائے سندھ کا نظام ہے جسے انڈس واٹر ٹریٹی 1960 کے تحت منظم کیا گیا۔ کئی جنگوں اور سیاسی تنازعات کے باوجود یہ معاہدہ قائم رہا، مگر بھارتی قیادت کی جانب سے بار بار پاکستان کا پانی روکنے یا اس کا رخ موڑنے کی دھمکیاں تشویش کا باعث رہی ہیں۔ قانونی طور پر بھارت پاکستان کے حصے کے مغربی دریاؤں کا پانی مکمل طور پر نہیں روک سکتا، لیکن ڈیم بنا کر پانی کے بہاؤ کو مؤخر یا کم کر سکتا ہے ۔ سیاسی کشیدگی کے وقت اس طرح کے اقدامات یا بیانات پاکستان میں خوف اور غیر یقینی کو بڑھا دیتے ہیں۔ 2025 کے پنجاب کے سیلاب کے دوران اچانک اوپری سطح سے پانی چھوڑنے کے الزامات نے ایک بار پھر اس بحث کو زندہ کر دیا کہ آیا پانی کو دباؤ ڈالنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔
پانی کو ہتھیار بنانے کا سب سے زیادہ اثر عام شہریوں پر پڑتا ہے نہ کہ حکومتوں پر۔ سیلاب گھروںکو تباہ کر دیتا ہے ، آبادیوں کو بے گھر کرتا ہے اور وبائی امراض پھیلاتا ہے ۔ دوسری طرف پانی روکنے سے کھیت برباد ہوتے ہیں، پینے کے پانی کی قلت ہو جاتی ہے اور لوگ غربت میں دھکیل دیے جاتے ہیں۔ فوجی حملوں کے برعکس، پانی ایک ایسا ہتھیار ہے جو اندھا دھند ہے اور سب سے پہلے کمزور طبقات کو متاثر کرتا ہے ۔ اس کے دیرپا اثرات صحت، غذائیت، تعلیم اور سماجی استحکام تک پھیلتے ہیں، جو معاشروں کو کئی دہائیوں تک متاثر کرتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی نے پانی کو ہتھیار بنانے کے خطرے کو اور بڑھا دیا ہے ۔ گلیشیئرز کے پگھلنے ، بے قابو مون سون بارشوں اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے دریاؤں کے نظام کو غیر متوازن کر دیا ہے ۔ پانی کی بڑھتی ہوئی کمی کے باعث ممالک اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے جارحانہ آبی
پالیسیوں پر اتر سکتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں ہمالیہ سے نکلنے والے دریا اربوں افراد کو پانی فراہم کرتے ہیں، لیکن برفانی پگھلاؤ نے ان کے بہاؤ کو غیر یقینی بنا دیا ہے ۔ ایسی صورتحال میں پانی کو سیاسی ہتھیار بنانے کا رجحان مزید بڑھ سکتا ہے ، جس سے علاقائی تنازعات میں شدت آنے کا امکان ہے ۔
بین الاقوامی قوانین کے مطابق پانی ایک مشترکہ وسیلہ ہے جسے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ جنیوا کنونشنز اور اقوام متحدہ کی مختلف قراردادیں پانی کے بنیادی انسانی حق کو تسلیم کرتی ہیں اور اس پر حملے کو ممنوع قرار دیتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ طاقتور ممالک اکثر ان اصولوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اخلاقی اعتبار سے پانی کو ہتھیار بنانا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے کیونکہ یہ لوگوں کی بنیادی ضروریات کو نشانہ بناتا ہے ۔ قانون اور حقیقت کے درمیان یہ خلا لاکھوں انسانوں کو خطرے میں ڈال دیتا ہے ۔ اگرچہ پانی کو ہتھیار بنایا جا سکتا ہے ، لیکن یہ تعاون اور امن کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے ۔ مشترکہ دریا مینجمنٹ، شفاف معلومات کا تبادلہ اور تعاون پر مبنی ڈیم منصوبے پانی کو تنازع کے بجائے امن کی بنیاد بنا سکتے ہیں۔ انڈس واٹر ٹریٹی اس بات کا ثبوت ہے کہ سخت دشمن بھی پانی پر مستقل معاہدے کر سکتے ہیں۔ خطے کی تنظیمیں، عالمی ثالث اور سول سوسائٹی پانی کی سفارتکاری کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جدید آبپاشی نظام، پانی کے تحفظ اور مؤثر انتظام پر سرمایہ کاری کر کے پانی کے ہتھیار بننے کے امکانات کم کیے جا سکتے ہیں۔
”پانی بطور ہتھیار”اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ انسانیت کے سب سے قیمتی وسیلے کو بھی تباہی کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے ۔ ماحولیاتی تبدیلی، آبادی کے دباؤ اور جغرافیائی سیاست کے اس دور میں پانی کو سیاسی دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کا رجحان بڑھنے کا امکان ہے ۔ لیکن اس کے نتائجانسانی المیے ، خوراک کی کمی، ہجرت اور علاقائی عدم استحکاماتنے شدید ہیں کہ انہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اقوام کو چاہیے کہ پانی کو ہتھیار بنانے کے بجائے اسے تعاون اور باہمی احترام کا ذریعہ بنائیں۔ انتخاب ہمارے سامنے ہے : پانی زندگی اور امن کا ذریعہ بن سکتا ہے یا اجتماعی تباہی کا خاموش ہتھیار۔ مستقبل کا دارومدار اسی انتخاب پر ہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
80 لاکھ کشمیری محصور وجود جمعرات 04 ستمبر 2025
80 لاکھ کشمیری محصور

ایس سی او اجلاس اور گلوبل گورننس وجود جمعرات 04 ستمبر 2025
ایس سی او اجلاس اور گلوبل گورننس

پانی بطور ہتھیار وجود جمعرات 04 ستمبر 2025
پانی بطور ہتھیار

ٹرمپ کا دورہ بھارت منسوخ وجود بدھ 03 ستمبر 2025
ٹرمپ کا دورہ بھارت منسوخ

آسام میں بنگالی مسلمانوں کا جینا حرام وجود بدھ 03 ستمبر 2025
آسام میں بنگالی مسلمانوں کا جینا حرام

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر