... loading ...
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
مودی حکومت کو عالمی چیلنجز کا سامنا ہے۔ بھارت کی ناکام خارجہ اور معاشی پالیسی تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔مودی کی پریشانیوں میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے۔بین الاقوامی سیاست کے میدان میں کبھی کوئی فیصلہ محض ایک جملہ یا شیڈول کی تبدیلی نہیں ہوتا، بلکہ اس کے پیچھے کئی محرکات پوشیدہ ہوتے ہیں۔ یہی صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اچانک بھارت کا متوقع دورہ منسوخ کر دیا، جہاں وہ 2025 کے کوآڈ سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے جانے والے تھے ۔ یہ اجلاس بھارت کے لیے نہ صرف سفارتی کامیابی سمجھا جا رہا تھا بلکہ مودی حکومت نے اسے اپنی خارجہ پالیسی کے بڑے کارنامے کے طور پر پیش کرنے کی تیاری بھی کر رکھی تھی۔ مگر یہ فیصلہ نئی دہلی کے لیے مایوسی کا پیغام بن گیا۔
امریکی میڈیا نے ابتدا میں اس منسوخی کی وجہ صدر ٹرمپ کے انتہائی مصروف گھریلو شیڈول اور پالیسی ترجیحات کو قرار دیا۔ بتایا گیا کہ ٹرمپ اس وقت اپنی توجہ زیادہ تر چین اور مشرق وسطیٰ پر مرکوز رکھنا چاہتے ہیں اور ایشیا کے دیگر معاملات فی الحال ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ لیکن درحقیقت پس پردہ کہانی اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کا یہ اقدام واشنگٹن اور نئی دہلی کے تعلقات میں سرد مہری کا عکاس ہے جو پچھلے چند برسوں میں رفتہ رفتہ گہری ہوتی گئی۔
یہ اجلاس بھارت میں ہونا تھا اور اس میں امریکا، جاپان اور آسٹریلیا کے سربراہان شریک ہونا تھے ۔ بھارت کے لیے یہ نہ صرف اپنی علاقائی اہمیت اجاگر کرنے کا موقع تھا بلکہ امریکا کے ساتھ قریبی تعلقات کو دنیا کے سامنے نمایاں کرنے کا بھی ایک بہترین پلیٹ فارم سمجھا جا رہا تھا۔ مگر صدر ٹرمپ کی اچانک انکار نے مودی سرکار کی تمام تیاریاں دھری کی دھری رہنے دیں۔ بھارتی میڈیا اور حکام کے بیانات میں چھپی مایوسی صاف جھلک رہی ہے ۔ مودی کا غرور خاک میں مل گیا۔مودی کی بربادی شروع ہو گئی ہے۔جب سے آپریشن سندور اجڑا ہے مودی دنیا میں رسوا ہو رہا ہے۔
اصل تنازع دراصل پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ برسوں میں ہونے والی کشیدگی اور جنگ بندی پر ٹرمپ کے دعوؤں سے جنم لیتا ہے ۔ ٹرمپ بارہا کھلے عام یہ بیان دیتے رہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین فوجی تنازع ان کی کوششوں سے ختم ہوا اور وہ اس دیرینہ تنازع کو سلجھانے میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں۔ ان دعوؤں نے بھارتی قیادت کو سخت چراغ پا کر دیا کیونکہ نئی دہلی کے نزدیک یہ معاملہ مکمل طور پر دوطرفہ نوعیت کا تھا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک اہم فون کال میں ٹرمپ کو صاف الفاظ میں بتایا کہ پاکستان اور بھارت نے یہ معاملہ براہ راست حل کیا ہے اور امریکا کا اس میں کوئی کردار نہیں۔
مزید برآں، ٹرمپ نے اس کال میں نوبل انعام کے حوالے سے بھی بات چیت کی اور ذکر کیا کہ پاکستان انہیں امن کا نوبل انعام دلوانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ ان کا اشارہ یہ تھا کہ مودی بھی اس سمت میں حمایت کریں۔ لیکن مودی کے لیے یہ مطالبہ ناقابلِ قبول تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر وہ ٹرمپ کے کردار کو تسلیم کر لیں تو یہ ان کی سیاسی پوزیشن کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔ بھارتی سیاست میں ان کی طاقتور شناخت ہمیشہ پاکستان مخالف سخت رویے سے وابستہ رہی ہے ، اس لیے ٹرمپ کا مطالبہ مودی کے لیے گویا ”ہتھیار ڈالنے ” کے مترادف تھا۔ اسی موقع پر دونوں رہنماؤں کے تعلقات میں تلخی نے جنم لیا۔
یہ تنازع اس وقت اور زیادہ حساس ہو گیا جب امریکا اور بھارت کے درمیان تجارتی مذاکرات چل رہے تھے ۔ ٹرمپ بھارت سے تجارتی چھوٹ اور ٹیرف پر رعایت چاہتے تھے مگر مودی سرکار اپنے داخلی دباؤ اور انتخابی سیاست کے پیشِ نظر زیادہ جھکنے پر تیار نہ تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اعتماد کی فضا ٹوٹتی گئی اور رابطے محدود ہونے لگے ۔ یہاں تک کہ بھارتی حکام نے ٹرمپ کے ساتھ مزید فون کالز کرنے سے بھی احتراز برتنا شروع کر دیا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ ٹرمپ کسی بھی بات کو اپنی مرضی سے ٹروتھ سوشل پر عام کر دیں گے ، جس سے بھارت کو اندرونی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکا اور بھارت کے تعلقات میں ایک اور خلیج اُس وقت پیدا ہوئی جب ٹرمپ انتظامیہ نے بھارتی طلبہ اور تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا۔ امریکا میں مقیم بھارتی کمیونٹی، جو ہمیشہ امریکی سیاست میں اثر و رسوخ رکھتی آئی ہے ، اس پالیسی سے سخت نالاں ہوئی۔ نئی دہلی نے بھی اس پر ناراضی کا اظہار کیا لیکن ٹرمپ اپنے موقف پر ڈٹے رہے ۔ان سب معاملات کے بیچ، مودی نے محسوس کیا کہ ٹرمپ کے ساتھ تعلقات زیادہ دیر قائم رکھنا ممکن نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھارت بیجنگ اور ماسکو کی طرف جھکاؤ دکھا رہا ہے اور مودی صدر شی جن پنگ اور صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ملاقاتوں کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ یہ منظرنامہ واشنگٹن کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں کیونکہ امریکا کی پالیسی ہمیشہ یہ رہی ہے کہ بھارت کو چین اور روس کے خلاف ایک قریبی اتحادی کے طور پر کھڑا رکھا جائے ۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے بھارت کا دورہ منسوخ کرنے کے اعلان کو بھارتی میڈیا میں بڑی ہزیمت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔ جہاں مودی حکومت اس اجلاس کو اپنی سفارتی کامیابی کا سہرا بنانا چاہتی تھی، وہاں اب اسے دنیا کے سامنے اس ناکامی کی وضاحت دینی پڑ رہی ہے ۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق، بھارتی حکام کو سب سے زیادہ تشویش اس بات پر ہے کہ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کمزور پڑنے سے ان کی علاقائی سیاست پر منفی اثر پڑ سکتا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے تاحال یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ امریکا کی نمائندگی اس اجلاس میں کون کرے گا۔ اس ابہام نے نئی دہلی کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے ۔ اگر امریکا کی نمائندگی کسی نچلے درجے کے عہدیدار کے ذریعے ہوتی ہے تو یہ بھارت کے لیے ایک اور دھچکا ثابت ہوگا۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ دونوں رہنماؤں کے ذاتی رویوں اور ترجیحات میں ہے ۔ ٹرمپ اپنی کامیابیوں کو نمایاں کرنے کے عادی ہیں اور انہوں نے پاکستان و بھارت تنازع میں اپنی ”ثالثی” کو ایک بڑا کارنامہ قرار دیا، جب کہ مودی اس بات کو کسی طور قبول کرنے پر تیار نہ تھا ۔ اس کے علاوہ تجارتی کشیدگی، نوبل انعام کا شوشہ اور طلبہ کے خلاف امریکی اقدامات سب مل کر تعلقات کو تناؤ کی طرف دھکیلتے رہے ۔اب صورت حال یہ ہے کہ واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان بداعتمادی کی ایک گہری خلیج پیدا ہو چکی ہے ۔ مودی حکومت کو اندازہ ہو گیا ہے کہ ٹرمپ کے ساتھ زیادہ دور تک چلنا ممکن نہیں رہا، اسی لیے وہ ماسکو اور بیجنگ کے قریب جا رہے ہیں۔ لیکن یہ حکمت عملی بھارت کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ امریکا کے ساتھ فاصلے بڑھانا عالمی سیاست میں اس کے لیے مشکلات پیدا کرے گا۔
یہ تمام مناظرہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ عالمی سیاست میں ذاتی انا اور سیاسی ترجیحات کس طرح ریاستی تعلقات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ٹرمپ اور مودی دونوں نے اپنی اپنی سیاست اور داخلی دباؤ کو مدنظر رکھ کر فیصلے کیے مگر اس کا نتیجہ دو بڑی جمہوریتوں کے تعلقات میں سرد مہری کی صورت میں سامنے آیا۔ پاکستان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ اپنی سفارت کاری کو مزید مؤثر بنائے اور اس خطے میں اپنی اہمیت کو اجاگر کرے ۔ عالمی امن کے لیے ضروری ہے کہ بڑے رہنما اپنے ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر فیصلے کریں اور یہ تسلیم کریں کہ خطے کے مسائل محض ایک دعوے یا کریڈٹ لینے کے رویے سے حل نہیں ہوتے بلکہ سنجیدہ اور مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے ۔
٭٭٭