وجود

... loading ...

وجود

کیا کھچڑی پک رہی ہے؟

جمعرات 28 اگست 2025 کیا کھچڑی پک رہی ہے؟

باسمہ تعالیٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔
ماجرا/ محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گردشِ لیل و نہار میں وقت اپنی ہی رفتار سے بہتا ہے۔ اس درمیان ‘وارداتیں’ وقت کی شدت و حدت کا اندازا کراتی ہے۔ یہ رفتار سست بھی محسوس ہوتی ہے اور گاہے اتنی تیزبھی کہ لمحوں پر صدیوں کا گمان پیدا کرتی ہے۔کوئی لمحۂ موجود میںکہاں صدیوں کی مسافت طے کر سکتا ہے، مگر شاعر خیال باندھتا ہے اور داد پاتا ہے۔کیا واقعی پاکستانی سیاست کے لمحے، صدیوں کی تیزی دکھانے کو بے تاب ہیں؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے!
پہلا حملہ ایوانِ صدر کے مکین پر تھا، جو نسبتاً صحت مند ہونے پرجنرل کیانی کے دور میں بھی اس امتحان سے گزارا گیا، تب وہ بندوق تھامے ایمبولینس میں ایوانِ صدر سے باہر نکلنے کا چیلنج دیتا تھا۔ اب بھی وہی مکین ہے اور صحت مند بھی نہیں۔ پھر تاریخ کی تمام ذلتیں اپنی جماعت کے ورثے میں ڈال چکا ہے، ایسے میں کیا بُرا ہے کہ کچھ ٹکراؤ سے عزت کو سنبھالا دیں۔ چنانچہ حکومت کے سب سے طاقت ور وزیر محسن نقوی کی طرف سے ہی نہیں بلکہ دیگر حیلوں، حوالوں سے بھی وضاحتیں جاری کرا دی گئیں۔ مگر اس سے کیا ہوتا ہے، محاذ گرم ہے۔
مقابلے کا سادہ اُصول سب کو معلوم ہے، ایک ساتھ زیادہ محاذ نہیں کھولے جاتے ۔حکومت دو جماعتوں کے اتحاد کا نام ہے، ایوان صدر کے مکین کے لیے زمین گرم کرنے کے بعد پیپلزپارٹی قدرے خفا خفا اور پرے پرے ہے۔ ایسے میں اچانک دوسری جماعت یعنی مسلم لیگ نون کے خلاف بھی نشانے سادھے جانے لگے۔ کیوں؟ کیا بے چینی ہے؟ سب سے پہلے 500 ارب چینی کا اسکینڈل آیا۔پھر 1700 ارب کے گندم اسکینڈل نے سر اُٹھایا۔ حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی تو پیٹرولیم سیکٹر میں دو ہزار پچاس ارب کی مالی بے ضابطگیاں منہ پر ماری گئیں۔ اس دوران میں ایک ‘بھونپو’ سے دو ہزار ارب کی بدعنوانیوں کی فائلیں تیار ہونے کا ڈراوا دیا گیا۔ جمع تقسیم کر لیں،یہ غالباً چھ ہزار دو سو پچاس ارب کے کرپشن کی بات ہو رہی ہے۔ ہندسوں میں بھی پڑھ لیں!6250ارب۔مگر اب پروا کون کرتا ہے؟
کیا معاملہ یہاں رُک گیا۔ جواب نفی میں ہے۔ اب نئے صوبوں کی باسی کڑھی میں اُبال دیا ہے۔ اگر یہ بحث سنجیدگی سے ہو رہی ہو تو اس سے بڑا موضوع کوئی نہیں۔ مگر سب جانتے ہیں کہ یہ راگ مخصوص وقت کے لیے چھیڑا گیا ہے، جس پر دھمال بھی بناؤٹی ہوگی۔ اس لیے
یہ اُن اینکرز پر چھوڑیں جو بحث کے برساتی مینڈک بن کر ٹرّاتے پھرتے ہیں۔ معاملہ صوبوں کی جیب اور وفاق کے پیٹ کا ہے۔ وفاق گائے کے لیے چارے اور دودھ کی تقسیم ٹھیک چاہتا ہے۔ بات وفاق کی ہو تو یہ اُن کی نہیں ہوتی جس کی ذمہ داری شہبا زشریف نے اپنے کاندھوں پر اُٹھائی ہے بلکہ یہ اُن کی ہوتی ہے جن کی تعریف و توصیف میں شہباز شریف رطب اللسان رہتے ہیں، سمجھا کریں!نشانے پر این ایف سی ایوارڈ ہے۔ نیا قومی مالیاتی ایوارڈ تشکیل نو چاہتا ہے۔ وفاق اپنے حصے یعنی ساڑھے 42فیصد میں نمایاں اضافہ چاہتا ہے، دوسری طرف صوبے ساڑھے ستاون فیصد حصے کے ساتھ مختلف گرانٹس کی وصولی سے مزید آگے بڑھ جاتے ہیں۔وفاق کی مالی مشکلات ظاہر و باہر ہیں۔ موثر حلقوں میںدو تجاویز زیر غور ہیں۔اولین ترجیح کے طور پر صوبوں کے حصے میں کمی ہے، ظاہر ہے کہ صوبے تیار نہیں۔ چنانچہ دوسری تجویز کے طورپر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور ہائر ایجوکیشن کمیشن سمیت دیگر اداروں کے اخراجات میں صوبوں کی شراکت پر زور ہے۔ آئی ایم ایف کا اِصرار ہے کہ وفاق کا حصہ بڑھایا جائے۔ اِ دھر صوبے ٹیکس وصولیوں میں اضافہ اور اخراجات کی منتقلی پر تو متفق ہیں، مگر اس سے زیادہ مزید کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ وفاق کی ضرورتیں شاید اس سے کچھ زیادہ کا تقاضا کرتی ہیں۔ مجبوری یہ ہے کہ قومی مالیاتی ایوارڈ میں کوئی بھی فارمولا صرف اتفاق رائے سے ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اختلاف یقینی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم میں آئین کی دفعہ 160کی شق 3میں تبدیلی کی غوغا آرائی ہے۔ یہ ترمیم بظاہر این ایف سی ایوارڈ کی تشکیل نو کا اشارہ بھی دیتی ہے، جس میںاختلافات اٹھارویں ترمیم کی منظوری (8اپریل 2010 )سے چلے آتے ہیں۔ اب یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کی حکومت کے لیے ہر کسی بات سے زیادہ اہم پیپلزپارٹی کی خوشنودی ہے۔ تو پھر 27ویں آئینی ترمیم میں پیپلزپارٹی کو راضی کون کرے گا؟ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ نون لیگ خود بھی اس آئینی ترمیم کے حق میں ہے یا نہیں؟ وزیر خارجہ اسحق ڈار نے لندن میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ ابھی تو چھبیسویں ترمیم بھی ہضم نہیں ہوئی،ستائیسویں کی کیا ضرورت ہے؟ ستائیسویں ترمیم کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ محض این ایف سی ایوارڈ کی تشکیل نو سے متعلق نہیں بلکہ نئے انتظامی یونٹس کے ‘خطرے’ سے بھی منسلک ہے اور یہ بحث بھی زور و شور سے جاری ہے۔کہا جا رہا ہے کہ آئین پاکستان کی دفعہ 239 کی ذیلی شق چار بھی ستائیسویں ترمیم کا ہدف ہے جو صوبہ بنانے کیلئے متعلقہ صوبے کی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ قرارداد کی منظوری ضروری قرار دیتی ہے۔ مگر اِسے پاکستان کے بنیادی مسائل کے حل کی پیش رفت نہیں بلکہ” مخصوص مقاصد’ ‘ کے حصول کے لیے خوف پیدا کرنے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ عہد قدیم میں پیغام رسانی کا کام کبوتروں سے لیا جاتا تھا، اب مخصوص اینکرز ہیں جو خطرات کی نشاندہی کے لیے اسکرینز پرتماشا لگاتے ہیں۔ نئے صوبوں کا تماشا بھی لگا ہوا ہے۔
گویا ساجھے داری کی ہنڈیا میں جو کچھ پکایا جا رہا ہے،اس میں قومی مالیاتی کمیشن ہے اور نئے صوبے۔ جبکہ اِسے آگ ستائیسویں ترمیم سے دی جا رہی ہے۔ اسلام آباد کی سیاسی راہداریوں میں سرگوشیوں کو سن لیں، اس میں سے کسی ایک چیز پر بھی نون لیگ او رپیپلزپارٹی سنجیدہ نہیں۔ جبکہ طاقت کے مرکز میں اِسے ریاست کی زندگی و موت کے مسائل کے طور پر باور کیا جا رہا ہے۔ اس دوران میں ایک بحث دھیمے سروں اور سرگوشیوں میں اہم عہدوں پر تعینات افسران کی مدت ملازمت سے بھی جڑی ہے۔ اگرچہ ایک ”خبر” کے ذریعے وفاقی حکومت نے خود پر دباؤ کم کرنے کی کوشش ضرور کی ہے مگر وفاقی حکومت کے سب سے بڑے منصب پر براجمان وزیراعظم شہباز شریف انتہائی کمزور مقام پر ہے۔ وہ ایک طرف طاقت کے محور پر طواف کرنے کے عادی ہیں اور دوسری طرف اُنہیں ناراض نوازشریف کی خوشنودی بھی حاصل کیے رکھنی ہے جن کے قریبی حلقے عجیب و غریب اشارے دے رہے ہیں۔’سب اچھا ہے ‘کی گردان میں ایک کھینچا تانی کا منظر ہے۔ کھچڑی تو پک رہی ہے!
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کیا کھچڑی پک رہی ہے؟ وجود جمعرات 28 اگست 2025
کیا کھچڑی پک رہی ہے؟

جب زوال آتا ہے تو۔۔۔۔ وجود جمعرات 28 اگست 2025
جب زوال آتا ہے تو۔۔۔۔

ہماری حدود مصنوعی ہیں! وجود جمعرات 28 اگست 2025
ہماری حدود مصنوعی ہیں!

چھتیس گڑھ میں سرچ آپریشن اور قبائیلیوں کی شامت وجود جمعرات 28 اگست 2025
چھتیس گڑھ میں سرچ آپریشن اور قبائیلیوں کی شامت

بگٹی کے بعد! وجود بدھ 27 اگست 2025
بگٹی کے بعد!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر