وجود

... loading ...

وجود

بانی پی ٹی آئی سمجھوتے کے لیے تیار؟

بدھ 27 اگست 2025 بانی پی ٹی آئی سمجھوتے کے لیے تیار؟

آج کل
۔۔۔۔۔۔۔
رفیق پٹیل

حکمران طبقے کا خیال یہ ہے کہ اگر بانی پی ٹی آئی سمجھوتے کے لیے تیا ہوجائیں تو تمام مسائل حل ہوجائیں گے حقائق اس خیال کی نفی کرتے ہیں ۔مسائل کے حل کاوا حد طریقہ کاراچھی اور معیاری حکمرانی کے ذریعے ممکن ہے جس پر دنیا بھر کے ماہرین محققین کاتقریباًاتفاق پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی تحقیق سے بھی یہی نتیجہ اخذکیا گیا ہے ۔
پاکستان میں بھی اچھی ا ور معیاری حکمرانی (Good Governance ( ہو تو موجودہ حکمرانوں کو عوامی پذیرائی مل سکتی ہے اور بانی پی ٹی آئی کاطلسم ٹوٹ سکتا ہے۔ ممکن ہے بانی پی ٹی آئی ایسی صورت میں سمجھوتے پر بھی آمادہ ہوجائیں ۔اچھی اور معیاری حکمرانی کی بنیاد آئین اور قانون کی بالادستی ہے ۔ ریاست کے بنیادی ستونوں میں (1)انتظامیہ جس میںافسران اور قانون نافذکرنے والے ادارے، (2) مقننہ یعنی قومی صوبائی اسمبلیاں ،سینٹ جیسے قانون ساز ادارے شامل ہیں اسی طرح (3)عدلیہ بھی ریاست کا اہم ستون ہے جو بلا امتیاز اور مکمل آزادی کے ساتھ انصاف کی فراہمی کے ذریعے قانون کی حکمرانی کو یقینی بناتی ہے۔ آج کے دور میں میڈیا کو بھی ریاست کا چوتھا ستون تصور کیا جاتا ہے جو حکومت اور اعلیٰ عہدیداروں کی کارکردگی کے بارے میں عوام کو آگاہ رکھتاہے ۔
اگر یہ ادارے موثر ہو آئین اور قانون کے مطابق کام کریں ان میں میرٹ ہو اور بدعنوانی سے پاک ہو تو یہ ادارے مستحکم اور مضبوط رہتے ہیں جس کی وجہ سے ملک بھی مستحکم رہتا ہے ،معیشت بھی فروغ پاتی ہے، ملک میں خوشحالی آتی ہے۔ اگر یہ ادارے غیر مستحکم اور کمزور ہو جائیں تو ملک بھی کمزور اور غیر مستحکم ہوجاتا ہے ۔پاکستان کے آئین کے مطابق حاکمیت خداکی ہے جس کے بعد عوام کی حاکمیت ہے اور وہ اپنا اختیار اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے کرتے ہیں جنہیں عوام قانون سازی کا اختیا ر دیتے ہیں ۔یہ آئین کی ایسی بنیاد ہے جس پر پورا آئینی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا ہے ۔عوام کی حاکمیت کا تصوّراور عملی مظہر منصفانہ ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پاکستان میں ہونے والے تمام انتخابات متنازع رہے ہیں۔ عوامی حاکمیت کو عملی طور پر نافذ نہ کرنے کی وجہ پاکستان کے تمام ادارے بتدریج زوال کا شکار رہے ہیں جس کی وجہ سے ملک اچھی حکمرانی سے محروم ہوکر ناقص حکمرانی کی جانب گامزن رہا ہے۔ قیام پاکستا ن کے 6سال اور چند ماہ بعد مارچ 1954میں سابقہ مشرقی پاکستان میں انتخابات کا انعقاد ہوا جگتو فرنٹ نے حکمران جماعت مسلم لیگ کو شکست دے دی۔ اپریل میں جگتو فرنٹ کی حکومت قائم ہوئی اور مئی میں اس پر بد انتظامی کا الزام عائد کر کے 92A کے قانون کا سہارا لے کر گورنر راج لگا کر فارغ کر دیا گیا۔ اس وقت مشرقی پاکستان میں عوامی مینڈیٹ نظر انداز کرکے غیر نمائندہ حکومت کے قیام سے عوام میں نفرت کے جذبات کی بنیاد رکھ دی گئی اور جب 1970 کے انتخابات میں عوامی لیگ نے پاکستان بھر کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرلی۔ اس کے باوجوداقتدار عوامی لیگ کو منتقل نہ کیا گیا اور عوام حق حکمرانی سے محروم کردیے گئے۔ مشرقی پاکستان میں عوام احتجاجاً گھروں سے باہر آگئے ۔ بھارت جو پہلے ہی موقع کی تلاش میں تھا اس نے فائدہ اٹھا کر عوامی لیگ کی مدد سے مشرقی پاکستان کو ایک علیحد ملک کی شکل دے دی۔ بنگلہ دیش میںمثالی نوعیت کی اچھی اورمعیاری حکمرانی نہیں تھی لیکن پاکستان کے مقابلے میں جمہوریت اور آئین کی پاسداری نسبتاً بہتر تھی ۔آہستہ آہستہ وہ اچھی حکمرانی کی طرف بڑھ رہاتھا لیکن جب وزیر اعظم حسینہ واجد نے تمام اداروں پر بالادستی کے ذریعے آمرانہ طرز عمل اختیار کیاتو عوام کے ردّعمل کے نتیجے میں طالبعلموں اورعوام نے مل کر تحریک کے ذریعے حسینہ واجد کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔باوجود اس کے کہ تحریک میں تشدّد کے واقعات بھی پیش آئے لیکن بنگلہ دیش کی فوج نے حسینہ واجد کے خلاف عوامی تحریک کا ساتھ دیا۔مو جودہ وقت میںبنگلہ دیش میں ایک عبوری حکومت قائم ہے جو وہاں انتخابات کے انعقاد کی تیّاری کررہی ہے۔ کچھ عرصے کے بعد بنگلہ دیش میں منصفانہ انتخابات ہوگئے تو اس کاسفر اچھی حکمرانی کی جانب شروع ہو جائے گا۔ بنگلہ دیش کی معیشت اب بھی پاکستان کے مقابلے میں بہترہے، پاکستان کی کرنسی بنگلہ دیش کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے۔ غیر نمائندہ مقننہ کی وجہ سے پاکستان میں ریاست کے تما م ستون انتظامیہ ،عدلیہ، مقننہ اور کسی حد تک میڈیا بھی مسلسل زوال کا شکار ہے اور اچھی حکمرانی سے بھی محروم ہے ۔آئین کا بنیا دی تصور عوامی مینڈیٹ پر مشتمل مقننہ ہے جس میں ہمیشہ انتظامیہ نے رکاوٹ عائد کی۔ 1977 کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاپرتشدّد واقعات کا بہانہ بناکر ملک میں مارشل لاء لگادیا گیا۔ 90دن میں انتخابات کے انعقاد کاوعدہ کیا گیا لیکن 8سال بعد غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے مجلس شوریٰ تشکیل دی جو 1973کے متفقہ آئین سے متصادم تھی۔ 1988 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو روکنے کے لیے پس پردہ قوتوں نے پی پی مخالف قوتوں کو جمع کرکے اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا۔ پی پی نے دھاندلی کا الزام لگایا۔1990میں صدر غلام اسحاق خان نے آئین کے آرٹیکل 58(2) Bکا سہارا لے کر حکومت ختم کر دی۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نواز شریف نے اس اقدام کی حمایت کی۔ 1990کے عام انتخابات میںآئی جے آئی نے105اور پاکستان ڈیموکریٹک الائنس نے صرف 45 نشستیں حاصل کی تھیں۔مجموعی طور پر آئی جے آئی نے7843294 ووٹ ملک بھر سے حاصل کیے۔ پی ڈی اے نے 7775816 ووٹ حاصل کیے یعنی ملک بھر کے مجموعی ووٹوں میں حیرت انگیز طور پر صرف67478ووٹوں کا فرق تھا۔پی ڈی اے نے دوبارہ دھاندلی کا الزام لگایا۔
نواز شریف وزیراعظم بنے۔صدر غلام اسحاق خان نے 1993میںنوازشریف کی حکومت ختم کردی۔ اب درپردہ پی پی کو حمایت حاصل ہوئی اور 1993میں اسے کامیابی ملی۔ صدر فاروق لغاری نے بے نظیر کی حکومت 1996میں ختم کردی۔ ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ بھاری اکثریت سے برسر اقتدار آگئی۔12اکتوبر 1999کو جنرل مشرف نے حکومت کاخاتمہ کردیا،اس کے بعد 2002کے انتخابات میں ظفرجمالی وزیر اعظم بنائے گئیلیکن اختیارات جنرل مشرف کے پاس رہے۔ 2008 میں پی پی کے یوسف رضا گیلانی 2013 میں نواز شریف 2018میں عمران خان اور میں2022شہباز شریف اور2024میں شہبازشریف وزیر اعظم بنے۔ ہر انتخابات میں کسی نہ کسی حد تک دھاندلی ہوئی لیکن شہباز شریف سے پچھلی حکومتیں کسی حد تک نمائندہ تھیں ۔اس مرتبہ جوکچھ ہوااس میں انتہائی کم اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کی وجہ سے عوام کی بھاری اکثریت اسے جائز تصور نہیں کرتی۔26 ویں آئینی ترمیم اور دیگر قوانین کے بعد عدلیہ کی غیر جانبداری پر بھاری سوالیہ نشان ہے۔ اس انتظامیہ کے زیر اثر تصور کیا جارہا ہے ۔انتظامیہ میں بدعنوانی میں اضافے کی خبریں گردش میں ہیں ۔میڈیا پابندیوں کا شکار ہے۔ خرابی رفتہ رفتہ بڑھ کر خطرے کے نشان پر ہے۔ شاید بانی پی ٹی آئی سمجھوتے کے ساتھ سیاست سے دستبردار ہونے پر بھی آمادہ ہوسکتے ہیں ۔ساری عمر جیل میں بھی گزار سکتے ہیں۔ اگر ملک میں منصفانہ انتخابات ہوجائیں ۔بدعنوانی کا خاتمہ ہو، عدلیہ آزاد اور قابلیت سے ترقی کرنے والے ججوں پر مشتمل ہو، میڈیا آزاد اورذمہ دارہو، بلدیاتی ادارے با اختیار اور فعال ہوں۔ملک کو اچھی اور معیاری حکمرانی کی جانب گامزن کیا جاسکے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
بگٹی کے بعد! وجود بدھ 27 اگست 2025
بگٹی کے بعد!

بانی پی ٹی آئی سمجھوتے کے لیے تیار؟ وجود بدھ 27 اگست 2025
بانی پی ٹی آئی سمجھوتے کے لیے تیار؟

کراچی میں 'را'کا خفیہ نیٹ ورک وجود بدھ 27 اگست 2025
کراچی میں 'را'کا خفیہ نیٹ ورک

سیکولر بھارت ، انتہا پسند بھارت میں تبدیل ہو چکا ہے وجود منگل 26 اگست 2025
سیکولر بھارت ، انتہا پسند بھارت میں تبدیل ہو چکا ہے

130ویں آئینی ترمیمی بل نے بی جے پی کو برہنہ کردیا وجود منگل 26 اگست 2025
130ویں آئینی ترمیمی بل نے بی جے پی کو برہنہ کردیا

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر