... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
ایس آئی آرکے خلاف تحریک تو بہار میں چل رہی ہے مگر اس کی دھمک پورے ملک میں محسوس کی جارہی ہے ۔ بہار کے اندر جاری و ساری ہنگامہ آرائی سے توجہ ہٹانے کی خاطر امیت شاہ نے لوک سبھا میں 130ویں آئینی ترمیمی بل(2025) پیش کردی اور اس کے خلاف حزب اختلاف کا غم و غصہ ایسے پھوٹا کہ بات تڑی پار واپس جاو تک پہنچ گئی ۔اس آئینی ترمیم کے تحت سنگین فوجداری معاملوں میں گرفتار اور مسلسل 30 دن حراست میں رہنے والے وزیر اعظم، وزراء اعلیٰ اور وزیروں نے اگراز خود کرسی نہیں چھوڑی تو انہیں عہدہ سے ہٹا دیا جائے گا۔ اس پر آگ بگولا ہوکر حزب اختلاف نے بل کو وزیر داخلہ کے سامنے پھاڑ کر ان کے منہ پر پھینک دیا۔ ٹی ایم سی کے کلیان بنرجی اور دیگر ارکان پارلیمان نے یہ احتجاج اسی وقت کیا جب موصوف یہ متنازع بل پیش فرما رہے تھے ۔ بی جے پی اپنی پارٹی میں موجود یا باہر سے شامل ہونے والے مجرمین کی سزا ئیں معاف کردیتی ہے ۔ اس کی سب سے بڑی مثالیں آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما اور مہارشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار ہیں ۔ان لوگوں پر خود بی جے پی بدعنوانی کے سنگین الزامات لگاتی رہی ہے مگر بی جے پی واشنگ مشین نے انہیں ‘پوتِر'(پاک صاف ) کردیا۔
حزب اختلاف کو اندیشہ ہے کہ اسے ان کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ اروند کیجریوال سے لے کر ہیمنت سورین تک سیکڑوں مخالفین کو بی جے پی بلیک میل یا پابندِ سلاسل کرچکی ہے ۔اس لیے حزب اختلاف کا اندیشہ بجا معلوم ہوتا ہے ۔مذکورہ بالا آئینی ترمیمی کے التزام پر بی جے پی خود اپنے حلیفوں کو بھی مطمئن نہیں کرسکی اس لیے اسے بھی وقف بل کی طرح ایوان نے پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی (جے پی سی) کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ۔ بی جے پی نے پہلے دس سالوں میں جے پی سی کا نام و نشان مٹا دیا تھا لیکن اس کے تیسرے جنم میں واضح اکثریت سے محرومی اسے اس کے لیے مجبور کرتی ہے ۔ اس طرح حلیف جماعتیں بی جے پی کو اپنے وجود اور اس کی مجبوری کا احساس دلاتی رہتی ہیں۔یہ دراصل حلیف وزیر اعلیٰ مثلاً چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار جیسے لوگوں کی بغاوت کو قابو میں رکھنے کا ایک سہل آلۂ کار ہے کیونکہ موجودہ نظام ِ سیاست میں سبھی بدعنوان ہیں(الا ماشاء اللہ) اور وزارتِ داخلہ میں سبھی کی فائل تیار ہے ۔
اروند کیجریوال تک یہ ہوتا تھا کہ جب کسی وزیر اعلیٰ کو گرفتار کیا جاتا تو وہ شرافت سے استعفیٰ دے کرکسی ایسے قابلِ اعتماد رفیقِ کار کو کرسی سونپ دیتاجس سے رہائی کے بعد استعفیٰ کی امید ہوتی۔ ہیمنت سورین اور مہاراشٹر کے وزیر داخلہ انل دیشمکھ تک یہی روایت قائم رہی مگر اروند کیجریوال نے پوچھ لیا کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ استعفی دینا پڑے گا؟ اس طرح وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے جیل میں رہتے ہوئے دہلی کی حکومت چلا نے کی نئی روایت قائم کردی ۔ 21 مارچ 2024 کو اروند کیجریوال گرفتار ہوئے اور وہ 156 دن جیل میں رہے ۔ پارلیمانی انتخابی مہم کے لیے سپریم کورٹ نے انہیں 10 مئی 2024 کو یکم جون تک کے لیے عبوری ضمانت دی لیکن 13 ستمبر 2024 کوانہیں عدالت عظمیٰ سے دائمی ضمانت مل گئی۔ جیل سے ر ہائی کے بعدانہوں نے استعفیٰ دے آتشی مارلینا سنگھ کو وزارت اعلیٰ کا عہدہ سونپا اور عام آدمی پارٹی کو دہلی میں شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا لیکن امیت شاہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہر جگہ ایسا نہیں ہوتا۔ جھارکھنڈ میں ہیمنت سورین جیل جاکر واپس آئے اور اقتدار سنبھالا۔ بی جے پی نے انہیں ہرانے کے لیے ان کے جانشین چمپائی سورین کو توڑ کر اپنے ساتھ کرلیا اس کے باوجود دونوں ہار گئے اس لیے یہ قانون اقتدار میں آنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہے لیکن بلیک میلنگ کا ایک موثر ذریعہ ضرور ثابت ہوسکتا ہے ۔
بی جے پی کی حلیف جماعتیں بھی اسی سبب اس کی مخالف ہیں ۔ جہاں تک اس کے ذریعہ سیاست سے جرائم کے خاتمے کا سوال ہے دنیا بھر کے چھٹے ہوئے جرائم پیشہ لوگ بی جے پی میں بھرے پڑے ہیں ۔ حزب اختلاف نے امیت شاہ کو تڑی پار کہہ کر اس کی یاد تازہ کردی۔ مودی سرکار اپنے سیاسی مخالفین کو کس طرح جھوٹے الزامات کے تحت مجرم قرار دیتی ہے اس کی تازہ مثال ابھی حال میں یعنی 5اگست (2025) کوملنے والی ستیندر جین کی کلین چٹ ہے ۔ عام آدمی پارٹی کے رہنما اور دہلی سرکار میں سابق وزیرصحت ستیندر جین کو راؤس ایونیو کورٹ نے ایک مبینہ بدعنوانی کیس میں بری کرتے ہوئے کہا کہ چار سال کی تحقیقات کے بعد بھی سی بی آئی کوئی ثبوت اکٹھا نہیں کر سکی اور کسی قسم کی بے ضابطگی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔یہ معاملہ دراصل سال 2018 کا ہے ۔ اس وقت ستیندر جین پر الزام لگایا گیا تھا کہ محکمہ پی ڈبلیو ڈی نے تعمیری ٹیم کا تقرر کرکے ایک نجی کمپنی کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے ٹینڈر کی شرائط میں بھی تبدیلی کی تھی۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا تھا کہ محکمہ خزانہ کی منظوری کے بغیر ”باراپولا فیز” جیسے غیر متعلقہ پروجیکٹوں کی ادائیگیاں کی گئیں۔ اس معاملے کی جانچ سی بی آئی کو سونپی گئی برسوں کی جانچ ہوتی کے بعد کلوزررپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا کہ کوئی ثبوت نہیں ملا۔
سی بی آئی نے ٤سالوں کے بعد اپنی رپورٹ میں کہا کہ اس وقت پی ڈبلیو ڈی ڈیپارٹمنٹ کے پاس کافی عملہ نہ ہونے کی وجہ سے ایک آؤٹ سورسنگ ایجنسی سے دوسرے پیشہ ور افراد کی خدمات حاصل کی گئی تھیں، اس میں کوئی فراڈ نہیں ہوا تھا اور یہ تقرری کھلے اشتہار اور انٹرویو کے ذریعے کی گئی تھی۔ کیس کی سماعت کرتے ہوئے خصوصی جج ڈی آئی جی ونے سنگھ نے کہا کہ اگر بدعنوانی کی روک تھام قانون (پی او سی ایکٹ) کے تحت کارروائی کرنے کے لیے ٹھوس ثبوت لازمی ہے ۔ صرف یہ کہہ کر کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی کہ فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی ہوئی، اسے جائز نہیں سمجھا جا سکتا۔اس پرکیجریوال نے بی جے پی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عدالت نے بدعنوانی کے معاملے میں دہلی کے سابق پی ڈبلیو ڈی وزیر ستیندر جین کو کلین چٹ دے کر کیس بند کر دیاجبکہ سی بی آئی اور ای ڈی اتنے سالوں تک کئی آف دی ریکارڈ بریفنگ دے کر ان کی ساکھ کو داغدار بھی کیا گیا مگر نتیجہ صفر نکلا۔ وہ بولے حق کی کشتی ڈگمگائے گی مگر ڈوب نہیں سکتی نیز سوال کیا کہ کیا جھوٹے الزامات لگانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی؟
کیجریوال نے تو خیرمہمل سوال کر کے چھوڑ دیا جبکہ دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے جیل جانے والے عام آدمی پارٹی کے رہنما منیش سسودیا نے نئے مجوزہ قانون پر جو مشورہ دیا اسے ستیندر جین کے مثال کی روشنی میں دیکھنا چاہیے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس قانون میں یہ نظم بھی ہونا چاہیے کہ اگر کوئی وزیر یا وزیر اعلیٰ جھوٹے الزامات میں جیل بھیجا جاتا ہے اور بعد میں وہ بے قصور ثابت ہو جاتا ہے تو گرفتار کرنے والے افسر، گرفتار کرنے والی ایجنسی کے سربراہ اور گرفتار کرانے والی حکومت کے سربراہ (وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ، جو بھی اس وقت رہے ہوں) کو اتنے ہی سال کے لیے جیل بھیجا جائے گا، جتنے سال کی سزا والے جھوٹے الزام اس وقت لگائے گئے تھے ۔منیش سسودیا نے آگے بڑھ کر کہا کہ یہ قانون صرف وزیر یا رہنما کے لیے کیوں؟ کسی بھی عام آدمی کو جھوٹے کیس میں جیل بھیجنے والوں کو بھی جیل بھیجنے کا انتظام ہونا چاہیے ۔ جمہوریت میں اقتدار کی طاقت ہونا ضروری ہے لیکن اس طاقت کا غلط استعمال کرنے والوں کو اگر سزا نہیں ملے گی تو اس آمرانہ طاقت کا تکبر سب کو راون بنا دیتا ہے ۔
منیش سسودیا کو یہ درد محسوس ہوتا ہے کیونکہ خود انہیں 26 فروری 2023 کو دہلی شراب پالیسی معاملے میں سی بی آئی نے گرفتار کیا تھا۔انہیں گرفتاری کے دو دن بعد 28 فروری کو دہلی کابینہ سے استعفیٰ دینا پڑا تھا کیونکہ اس وقت تک اروند کیجریوال نے آئین کو غور سے پڑھنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی تھی آگے چل کر 9 اگست 2024 کو سپریم کورٹ نے سسودیہ کو ضمانت دے دی لیکن اس وقت تک وہ 17 مہینے جیل میں گزار چکے تھے ۔اس دوران21 مارچ 2024 کوجب اروند کیجریوال گرفتار ہوکر جیل گئے تو ان پر انکشاف ہوا کہ آئین کے مطابق انہیں استعفیٰ دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔امیت شاہ کے سامنے فی الحال دوہرا چیلنج ہے ۔ وہ اگرکسی طرح تکڑم لگا کراقتدار پر فائز ہوجاتے ہیں تب بھی انہیں نہ صرف حزب اختلاف یا حلیف جماعتیں بلکہ خود اپنی پارٹی میں موجود یوگی جیسے لوگوں کی بغاوت کا سامنا پڑ سکتا ۔ ایسے میں پیش بندی کے طور پر انہوں نے یہ قانون وضع کیا مگر چہار جانب سے ہونے والی مخالفت نے شاہ جی کو چاروں خانے چت کردیا اور حزب اختلاف کو ان کے سینے پر چڑھ کر ‘تڑی پار واپس جاو’ کہنے کا موقع مل گیا۔ اسے کہتے ہیں سر منڈاتے ہی اولے پڑے اور سر پر بال بھی نہ ہوں تو ان کا کرب زیادہ شدید ہوجاتا ہے لیکن اس نعرے کی ضرب سر سے زیادہ قلب پر پڑی ہوگی اور اسے دیر تک یاد کیا جائے گا۔
٭٭٭