وجود

... loading ...

وجود

ٹھوکر کی تاریخ

پیر 25 اگست 2025 ٹھوکر کی تاریخ

جہان دیگر
۔۔۔۔۔
زریں اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سہیل وڑائچ صاحب کے کالم نے عجب قسم کی ‘گجب’ دھوم مچائی ( ”فیلڈ مارشل سے پہلی ملاقات” بتاریخ ١٦ ِاگست ٢٠٢٥ئ، روزنامہ جنگ )۔اگرچہ اس کالم کا آخری پارہ جنرل عاصم منیر کی تعریف سے لبریز ہے پھر بھی مصلحت ایسے آڑے آئی کہ احمد شریف چوہدری ڈی جی آئی ایس پی آر کو یہ کہنا پڑا کہ ”فیلڈ مارشل عاصم منیر نے برسلز میں کوئی انٹرویو نہیں دیا نہ ہی انہوں نے تحریک ِ انصاف یا کسی قسم کی مصالحت کی کوئی بات کی ”، حالاں کہ کالم میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ”جنرل عاصم منیر نے برسلز کے جلسے میں اور میرے ساتھ دو گھنٹے کی طویل نشست میں۔۔۔”
اصل میں ڈی جی آئی ایس پی آر کے جنرل صاحب اور وڑائچ صاحب کی ملاقات کے وجود کو سراسر عدم قرار دینے پرمجھے ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ کی دوڑیں یاد آگئیں۔ اقتباسات ملاحظہ ہوں: ” جس طرح اندرا نے بھٹو کو غیر متوازن انسان کہہ کر حملہ کیا تھا،اسی طرح بھٹو نے اندرا پر یوں حملہ کیاکہ وہ ایک درمیانے درجے کی عورت ہے جس کی ذہانت بھی درمیانے درجے کی ہے ،اور وہ ایک ایسی مخلوق ہے جو پیش قدمی اور تخیل سے محروم ہے ، ایک محنت کار ہے جس کے پاس اپنے والد کے آدھے ہنر بھی موجود نہیں ہیںاور اس نے مزید کہا کہ اسے ملنا اور اس کے ساتھ ہاتھ ملانا ،ایک ایسا احساس ہے جو میرے اندر کراہیت بھر دیتا ہے ۔ یہ کہنا بے کار ہے کہ اس حملے کی حق دار ہونے کے لیے اندرا کے پاس تمام وجوہات موجود تھیں ۔ بھٹو وزنی ہاتھوں سے اس کا تجزیہ کررہا تھااور نفرت اسے راہ دکھا رہی تھی۔ حتیٰ کہ میں خود مضطرب ہوگئی اور میرا اضطراب اسے بار بار یہ کہہ کر ٹوک رہاتھا ،”آپ کو نہیں لگتا کہ آپ انتہا پسندی اور بے انصافی سے کام لے رہے ہیں؟” لیکن بھٹو میرے مشورے کو خاطر میں نہیں لارہاتھااور ایسے ایسے فقرے کا اضافہ کرتا جارہاتھا جنہیں میں شائع نہیں کروں گی لیکن میری کانٹ چھانٹ زیادہ اچھی نہیں ثابت ہوسکی ۔ نتائج بہت ہی ڈرامائی یا مضحکہ خیز آئے ، ایسے نتائج جن کی غیر ارادی طور پر وجہ میں بنی ۔
بھٹو اور اندرا ان دنوں ایک دوسرے سے ملنے والے تھے تاکہ وہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایک امن معاہدے کو دستخط کرسکیں ۔ کچھ فقرات جو نیو دہلی کے ایک اخبار میں چھپے تھے انہیں پڑھ کر ان کے کان کھڑے ہوئے اور اندرا نے انٹرویو کی مکمل تحریر کی مانگ کی اور ساتھ ہی ساتھ روم سے کیبل کے ذریعے اسے انڈیا میں نشر کرنے کے لیے بھی کہا۔ پھر اس نے اسے پڑھا اور ساتھ ہی اعلان کردیا کہ اس کے اور پاکستان کے وزیر ِ اعظم کے درمیان کوئی ملاقات نہیں ہوگی ۔ بھٹو کا سر گھوم گیااور اسے سمجھ نہ آئی کہ وہ پوری دنیا میں کسے پکڑے ، سو اس نے مجھے پکڑ لیا ۔ اس نے اٹلی میں موجود اپنے سفیر کے ذریعے مجھے دوبارہ ڈھونڈ لیا ۔ اس نے میرا ادیسہ بابا میں تعاقب کیا جہاں میں ہیلی سلاسی (Haile Selassie)سے ملنے گئی تھی ،اور یہاں اس نے مجھے سب سے بڑھ کر نامعقول درخواست کی ۔
اس نے مجھے کہا کہ مجھے ایک اور مقالہ چھاپنا چاہیے جس کے اندر میں اعتراف کروں گی کہ بھٹو کے ساتھ میرا انٹرویو کوئی وجود ہی نہیں رکھتا اور وہ سب کچھ اصل میں میرا ایک خواب تھا۔مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ وہ باتیں جو اندرا کے متعلق ہیں وہ بھٹو نے نہیں کہیں بلکہ وہ میرے ذہن میں موجو د تھیں اور مجھے لگا جیسے بھٹو بول رہاہے ۔ پہلے تو مجھے ایسا لگا کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا ہے ۔” آپ نے کیا کہا ہے مسٹر سفیر؟” ” میں کہہ رہاہوں تم ایسا لکھو کہ وہ ساری باتیں تمہاری اختراع تھیں بالخصوص جو باتیں اندرا کے متعلق کی گئی ہیں۔” لیکن کیا آپ پاگل ہیں مسٹرسفیر ؟” ” کیا آپ کا وزیرِ اعظم بھی سٹھیا گیا ہے”؟” مس فلاچی آپ کو سمجھنا چاہیے کہ چھ سو ملین لوگوں کی زندگیاں آپ پر منحصر ہیں ، آپ کے ہاتھوں میں ہیں”۔ میں نے اسے لعن طعن کرکے کہا کہ” جہنم میں جائو”۔ لیکن بھٹو نے میرا پیچھا کرنا نہ چھوڑا۔ میں جہاں بھی جاتی کوئی نہ کوئی اہم پاکستانی مجھے مل جاتااور مجھے درخواست کرتا کہ میں انٹرویو کے وجود سے انکار کردوں اور ساتھ ہی وہ مجھے یاد دلاتا کہ چھ سو ملین لوگوں کی زندگیاں میرے ہاتھوں میں ہیں۔ میں بد مزاجی سے جواب دیتی کہ میرے ہاتھ چھ سو ملین انسانوں کی زندگیاں سنبھالنے کے لیے بہت چھوٹے ہیں۔ میں ترش روئی سے چلائی کہ آپ کی مانگ بے ہودہ اور ہتک آمیز ہے ۔ یہ عذاب تب ٹلا جب اندرا گاندھی نے خود ہی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا اور بھٹو کی غلطی کو نظر انداز کردیا، اور پھر دونوں امن معاہدے کے لیے ایک دوسرے سے مل پڑے۔
ان دونوں کو ٹیلی وژن پر ایک دوسرے سے ملتے ہوئے اور مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتے ہوئے دیکھنا ایک بڑا دل کش منظر تھا۔ اندرا کی مسکراہٹ میں فتح اور طنز جھلک رہا تھا۔ بھٹو بے آرامی محسوس کرتا ہوا دکھائی دے رہا تھا، حتیٰ کہ بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی وژن پر بھی آپ اسے سرخ ہوتا دیکھ سکتے تھے”۔کتاب ”تاریخ کا دریچہ ”، مصنفہ اوریانا فلاچی
وڑائچ صاحب سے ایسا لغو مطالبہ بہرحال نہیں کیاگیا ہوگا۔
اسی باب کا ایک اور پارہ قارئین کی توجہ کا طالب ہے :” والٹر کرون کائیٹ (Walter Cronkite) نے کہا تھا جب میں نے اسے رچرڈ نکسن ، لنڈن جونسن ، ڈیوائٹ آئزن آور اور دوسرے رہنمائوں کے متعلق سوال کیاتھاجن کے وہ ایک ٹیلی وژن صحافی ہونے کے ناطے انٹرویو کرچکا تھا”آپ کسی بھی ملک کے رہنما کا درست اندازہ نہیں لگاسکتے جب تک آپ اسے صرف انسان کے طور پر دیکھتے رہتے ہیں۔ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے ۔ کیونکہ جس لمحے آپ کو ادراک ہوتا ہے کہ وہ بھی بس ایک انسان ہے جو دوسرے انسانوں کی طرح خوبیاں اور خامیاں رکھتا ہے تو فوراََ ہی آپ اسے پسند کرنا شروع کردیتے ہیںاور باقی باتوںکو فراموش کردیتے ہیں۔”(صفحات ١٦٩تا١٧٠)
وڑائچ صاحب کے کالم کا آخری پارہ کیا اسی ٹھوکر کا نتیجہ ہے ؟
لیکن میں صحافیوں پر بھی والٹر کرون ٹائیٹ کے اسی خیال کو لاگو کروں گی۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹھوکر کی تاریخ وجود پیر 25 اگست 2025
ٹھوکر کی تاریخ

ووٹوں کی چوری اور الیکشن کمیشن کی سینہ زوری وجود پیر 25 اگست 2025
ووٹوں کی چوری اور الیکشن کمیشن کی سینہ زوری

کشمیری بھارتی دہشت گردی کا نشانہ وجود پیر 25 اگست 2025
کشمیری بھارتی دہشت گردی کا نشانہ

کشمیری غدار نہیں۔۔ وجود اتوار 24 اگست 2025
کشمیری غدار نہیں۔۔

سہ فریقی مذاکرات اورپاک افغان ذمہ داریاں وجود اتوار 24 اگست 2025
سہ فریقی مذاکرات اورپاک افغان ذمہ داریاں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر