... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیرمیںنیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے5اگست 2019کے بعد مقبوضہ علاقے میں ”نئے دور کی صبح” کے مودی حکومت کے کھوکھلے دعوؤں کی نفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیری خاص طور پر نوجوان سمجھتے ہیں کہ انہیں دھوکہ دیا گیا۔ بھارتی حکومت 370اور 35اے کی منسوخی کے بعد کہتی تھی کہ کشمیر میں اب امن ہو گااور اگرایسا ہے تو علاقے میں اس وقت بھی حالات ابتر کیوں ہیں۔ آئے روز لوگوں کے قتل کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ یہ کیسے ہو رہا ہے یہاں تو سب کچھ ٹھیک ہونے والا تھا۔ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ دھونس دباؤ سے حالات ٹھیک ہونگے تو یہ بہت بڑی غلط فہمی میں میں مبتلا ہیں۔ کشمیر میں اسی صورت میں امن قائم ہو سکتا ہے جب یہاں کے لوگوں کے دلوں کی بات کو سمجھا جائے گا۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ یوم سیاہ 5 اگست کے موقع پر بھارت کے “نیا کشمیر” کے جھوٹے بیانیے کو نقاب کرتے ہوئے مقبوضہ کمشیر میں نریندر مودی حکومت کی 6 سالہ ناکامی اجاگر کردی۔ 6 سال ہو گئے ہیں، اب تک ریاستی درجہ واپس کیوں نہیں دیا گیا؟ بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ان 6 برسوں میں جموں و کشمیر کو بہتر بنانے کے لیے کیا کیا؟ انہیں آخرکار یہ کرنا پڑے گا کیونکہ اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ بی جے پی ‘نارملسی’ اور ‘مرکز میں شمولیت’ کا ڈرامہ رچا کر دنیا کو گمراہ کر رہی ہے جبکہ زمینی حقائق اس سے یکسر مختلف ہیں۔آج 6 سال ہو چکے ہیں آرٹیکل 370 اور 35A کی غیر آئینی منسوخی کو لیکن کشمیری عوام آج بھی اپنے بنیادی سیاسی حقوق سے محروم ہیں، راجیہ سبھا کی 4 نشستیں خالی ہیں، کشمیر کے عوام کو آج تک وہ پلیٹ فارم نہیں دیا گیا جہاں وہ اپنی آواز بلند کر سکیں۔ مودی حکومت دعوے تو بہت کرتی ہے، جشن بھی مناتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جموں و کشمیر واقعی بہتر ہوا ہے، تعلیم یافتہ کشمیری نوجوان آج بھی بے روزگار ہیں، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، امیر مزید امیر اور غریب مزید غریب ہو رہا ہے۔ راج بھون میں وائسرائے بیٹھا ہے یہاں ایک حکومت ضرور ہے لیکن اصل طاقت وائسرائے کے ہاتھ میں ہے لہٰذا وقت آ گیا ہے کہ یہ سب بدلا جائے۔
خیال رہے کہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کا بیان بھارت کے اس فریب کو بے نقاب کرتا ہے جس کے ذریعے وہ دنیا کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے جبکہ اصل میں وہاں جبر، خاموشی اور محرومی کا راج ہے۔مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ کی زبان سے نکلے یہ الفاظ عالمی برادری کے لیے ایک پیغام ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں نارملسی صرف ایک سرکاری افسانہ ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔جموں و کشمیرکے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کی بہن عالیہ شاہ مبارک نے دہلی میں ایک تحریری پیغام پڑھتے ہوئے دفعہ 370 کی منسوخی کو آئین ہند اور آئین جموں و کشمیر کی خلاف ورزی قراردیا اور کہا کہ ‘پہلے کانگریس نے کشمیر اور وہاں کے عوام کے ساتھ دھوکہ کیا اور اب وہی غلطی بی جے پی دوہرا رہی ہے۔بھارت سے کشمیر کا الحاق مشروط تھا، اس کے مطابق اگر دفعہ 370 کا وجود نہیں ہوگا توکشمیرکے بھارت سے رشتے بھی ختم۔مرکزی حکومت آئین ہند اور آئین جموں و کشمیرکے خلاف گئی ہے اورعدالت عظمیٰ کے خلاف بھی کیونکہ عدالت عظمی 370 کے معاملہ میں صاف کہہ چکی ہے اسے منسوخ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں ہر بار بتایا گیا کہ کشمیری غدارہیں، لیکن میں کہناچاہتی ہوں کہ ہم غدار نہیں بلکہ ہم سے غداری ہوئی ہے۔ہمیں مرکز سے دھوکہ ملا ہے،پہلے کانگریس سے اور اب بی جے پی سے۔ کشمیر کی قسمت کا فیصلہ صرف جموں و کشمیرکے لوگ ہی کرسکتے ہیں،نہ بھارت اور نہ پاکستان۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ دفعہ 370کی منسوخی کوواپس لیاجائے اورحراست میں لوگوں کو رہا کیا جائے،خاص طور پر بچوں کورہاکیاجائے اس کے علاوہ مواصلات کے تمام ذرائع بحال کئے جائیں۔
مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج کے مظالم پر بھارت کا میڈیا بھی پھٹ پڑا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں فوری بند کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ 25 سالوں سے کشمیری عوام بھارت کی حکومت اور فوج کے مظالم کا شکار ہیں۔ ملزم فوجیوں کو نشان عبرت نہ بنایا گیا تو ایک دن بھارت کشمیر سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ جولائی 1990 میں کشمیر میں کالا قانون افسپا نافذ کیا گیا۔ افسپا کا کالا قانون مقبوضہ جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا باعث بن رہا ہے ۔ اس قانون کے باعث بھارتی فوجیوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ خواتین کی عصمت دری کریں یا نہتے کشمیریوں کو گولیوں سے اڑا دیں۔ ہندوستان ٹائمز نے بھارتی حکومت سے کہا ہے کہ مظالم کے بجائے کشمیریوں کے دل جیتنے اور انہیں انصاف دینے کی ضرورت ہے۔ خواتین کی عصمت دری اور نہتے کشمیریوں پر مظالم ڈھانے میں ملوث فوجی اہلکاروں کیخلاف کارروائی وقت کی ضرورت ہے۔ انصاف نہ ملنے کے باعث کشمیریوں میں بھارت کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی حکومت اور مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے شکار کشمیریوں کو انصاف فراہم کرنے کی راہ میں رکاوٹ قرار دے دیا۔ تنظیم نے بھارتی حکومت سے کہا ہے کہ جموں و کشمیر سے آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ (افسپا) کو واپس لیا جائے، یہ قانون انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں بالخصوص قتل، تشدد، آبروریزی اور اغوا کے واقعات کا باعث بن رہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ افسپا کے علاوہ پبلک سیفٹی ایکٹ بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا باعث ہے، صرف 2014ء کے دوران اس قانون کے تحت 16329 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ریاستی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ 1990ء کے بعد گزشتہ 21 سال کے دوران 43 ہزار افراد مارے گئے ان میں 13226 عام شہری تھے، دوران حراست 800 افراد کی موت واقع ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔