وجود

... loading ...

وجود

کشمیری غدار نہیں۔۔

اتوار 24 اگست 2025 کشمیری غدار نہیں۔۔

ریاض احمدچودھری

بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیرمیںنیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے5اگست 2019کے بعد مقبوضہ علاقے میں ”نئے دور کی صبح” کے مودی حکومت کے کھوکھلے دعوؤں کی نفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیری خاص طور پر نوجوان سمجھتے ہیں کہ انہیں دھوکہ دیا گیا۔ بھارتی حکومت 370اور 35اے کی منسوخی کے بعد کہتی تھی کہ کشمیر میں اب امن ہو گااور اگرایسا ہے تو علاقے میں اس وقت بھی حالات ابتر کیوں ہیں۔ آئے روز لوگوں کے قتل کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ یہ کیسے ہو رہا ہے یہاں تو سب کچھ ٹھیک ہونے والا تھا۔ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ دھونس دباؤ سے حالات ٹھیک ہونگے تو یہ بہت بڑی غلط فہمی میں میں مبتلا ہیں۔ کشمیر میں اسی صورت میں امن قائم ہو سکتا ہے جب یہاں کے لوگوں کے دلوں کی بات کو سمجھا جائے گا۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ یوم سیاہ 5 اگست کے موقع پر بھارت کے “نیا کشمیر” کے جھوٹے بیانیے کو نقاب کرتے ہوئے مقبوضہ کمشیر میں نریندر مودی حکومت کی 6 سالہ ناکامی اجاگر کردی۔ 6 سال ہو گئے ہیں، اب تک ریاستی درجہ واپس کیوں نہیں دیا گیا؟ بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ان 6 برسوں میں جموں و کشمیر کو بہتر بنانے کے لیے کیا کیا؟ انہیں آخرکار یہ کرنا پڑے گا کیونکہ اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ بی جے پی ‘نارملسی’ اور ‘مرکز میں شمولیت’ کا ڈرامہ رچا کر دنیا کو گمراہ کر رہی ہے جبکہ زمینی حقائق اس سے یکسر مختلف ہیں۔آج 6 سال ہو چکے ہیں آرٹیکل 370 اور 35A کی غیر آئینی منسوخی کو لیکن کشمیری عوام آج بھی اپنے بنیادی سیاسی حقوق سے محروم ہیں، راجیہ سبھا کی 4 نشستیں خالی ہیں، کشمیر کے عوام کو آج تک وہ پلیٹ فارم نہیں دیا گیا جہاں وہ اپنی آواز بلند کر سکیں۔ مودی حکومت دعوے تو بہت کرتی ہے، جشن بھی مناتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جموں و کشمیر واقعی بہتر ہوا ہے، تعلیم یافتہ کشمیری نوجوان آج بھی بے روزگار ہیں، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، امیر مزید امیر اور غریب مزید غریب ہو رہا ہے۔ راج بھون میں وائسرائے بیٹھا ہے یہاں ایک حکومت ضرور ہے لیکن اصل طاقت وائسرائے کے ہاتھ میں ہے لہٰذا وقت آ گیا ہے کہ یہ سب بدلا جائے۔
خیال رہے کہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کا بیان بھارت کے اس فریب کو بے نقاب کرتا ہے جس کے ذریعے وہ دنیا کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے جبکہ اصل میں وہاں جبر، خاموشی اور محرومی کا راج ہے۔مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ کی زبان سے نکلے یہ الفاظ عالمی برادری کے لیے ایک پیغام ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں نارملسی صرف ایک سرکاری افسانہ ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔جموں و کشمیرکے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کی بہن عالیہ شاہ مبارک نے دہلی میں ایک تحریری پیغام پڑھتے ہوئے دفعہ 370 کی منسوخی کو آئین ہند اور آئین جموں و کشمیر کی خلاف ورزی قراردیا اور کہا کہ ‘پہلے کانگریس نے کشمیر اور وہاں کے عوام کے ساتھ دھوکہ کیا اور اب وہی غلطی بی جے پی دوہرا رہی ہے۔بھارت سے کشمیر کا الحاق مشروط تھا، اس کے مطابق اگر دفعہ 370 کا وجود نہیں ہوگا توکشمیرکے بھارت سے رشتے بھی ختم۔مرکزی حکومت آئین ہند اور آئین جموں و کشمیرکے خلاف گئی ہے اورعدالت عظمیٰ کے خلاف بھی کیونکہ عدالت عظمی 370 کے معاملہ میں صاف کہہ چکی ہے اسے منسوخ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں ہر بار بتایا گیا کہ کشمیری غدارہیں، لیکن میں کہناچاہتی ہوں کہ ہم غدار نہیں بلکہ ہم سے غداری ہوئی ہے۔ہمیں مرکز سے دھوکہ ملا ہے،پہلے کانگریس سے اور اب بی جے پی سے۔ کشمیر کی قسمت کا فیصلہ صرف جموں و کشمیرکے لوگ ہی کرسکتے ہیں،نہ بھارت اور نہ پاکستان۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ دفعہ 370کی منسوخی کوواپس لیاجائے اورحراست میں لوگوں کو رہا کیا جائے،خاص طور پر بچوں کورہاکیاجائے اس کے علاوہ مواصلات کے تمام ذرائع بحال کئے جائیں۔
مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج کے مظالم پر بھارت کا میڈیا بھی پھٹ پڑا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں فوری بند کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ 25 سالوں سے کشمیری عوام بھارت کی حکومت اور فوج کے مظالم کا شکار ہیں۔ ملزم فوجیوں کو نشان عبرت نہ بنایا گیا تو ایک دن بھارت کشمیر سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ جولائی 1990 میں کشمیر میں کالا قانون افسپا نافذ کیا گیا۔ افسپا کا کالا قانون مقبوضہ جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا باعث بن رہا ہے ۔ اس قانون کے باعث بھارتی فوجیوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ خواتین کی عصمت دری کریں یا نہتے کشمیریوں کو گولیوں سے اڑا دیں۔ ہندوستان ٹائمز نے بھارتی حکومت سے کہا ہے کہ مظالم کے بجائے کشمیریوں کے دل جیتنے اور انہیں انصاف دینے کی ضرورت ہے۔ خواتین کی عصمت دری اور نہتے کشمیریوں پر مظالم ڈھانے میں ملوث فوجی اہلکاروں کیخلاف کارروائی وقت کی ضرورت ہے۔ انصاف نہ ملنے کے باعث کشمیریوں میں بھارت کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی حکومت اور مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے شکار کشمیریوں کو انصاف فراہم کرنے کی راہ میں رکاوٹ قرار دے دیا۔ تنظیم نے بھارتی حکومت سے کہا ہے کہ جموں و کشمیر سے آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ (افسپا) کو واپس لیا جائے، یہ قانون انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں بالخصوص قتل، تشدد، آبروریزی اور اغوا کے واقعات کا باعث بن رہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ افسپا کے علاوہ پبلک سیفٹی ایکٹ بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا باعث ہے، صرف 2014ء کے دوران اس قانون کے تحت 16329 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ریاستی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ 1990ء کے بعد گزشتہ 21 سال کے دوران 43 ہزار افراد مارے گئے ان میں 13226 عام شہری تھے، دوران حراست 800 افراد کی موت واقع ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری غدار نہیں۔۔ وجود اتوار 24 اگست 2025
کشمیری غدار نہیں۔۔

سہ فریقی مذاکرات اورپاک افغان ذمہ داریاں وجود اتوار 24 اگست 2025
سہ فریقی مذاکرات اورپاک افغان ذمہ داریاں

مودی کا ہندوتوا بیانیہ جمہوریت کا قتل ! وجود اتوار 24 اگست 2025
مودی کا ہندوتوا بیانیہ جمہوریت کا قتل !

قاری قاتل ،مدرسہ مقتل وجود اتوار 24 اگست 2025
قاری قاتل ،مدرسہ مقتل

الیکشن کمشنرکا مواخذہ کیوں اور کیسے ؟ وجود هفته 23 اگست 2025
الیکشن کمشنرکا مواخذہ کیوں اور کیسے ؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر