وجود

... loading ...

وجود

مودی کا ہندوتوا بیانیہ جمہوریت کا قتل !

اتوار 24 اگست 2025 مودی کا ہندوتوا بیانیہ جمہوریت کا قتل !

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے ۔ یہ ملک مختلف مذاہب، تہذیبوں اور ثقافتوں کا گہوارہ ہے ۔ گاندھی، نہرو اور
ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر جیسے رہنماؤں نے ایک ایسے بھارت کی بنیاد رکھی تھی جس کا سب سے بڑا فخر اس کی سیکولر شناخت اور جمہوری ڈھانچہ
تھا۔ لیکن آج بھارت یہ تشخص تیزی سے کھو رہا ہے ۔ نریندر مودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے اقتدار میں آ کر ملک کو ایک
ایسے راستے پر ڈال دیا ہے جہاں ہندوتوا نظریہ ہر شعبۂ زندگی پر حاوی ہوتا جا رہا ہے ۔ حالیہ یومِ آزادی کے موقع پر لال قلعہ سے مودی کی
تقریر نے اس خدشے کو مزید تقویت دی کہ بھارت کی جمہوری روح اب شدید خطرے میں ہے ۔
مودی کی تقریر میں آر ایس ایس اور ہندوتوا کے بیانیے کی جھلک واضح طور پر دیکھی گئی۔ یہ دن تمام قومیتوں، مذاہب اور طبقات کے
لیے یکجہتی اور اتحاد کا دن ہونا چاہیے تھا لیکن وزیراعظم نے اپنی سیاسی سوچ کو ترجیح دی۔ اپوزیشن اور تجزیہ کاروں کا کہنا درست ہے کہ مودی
نے اس دن کو بھارت کے تمام شہریوں کا دن بنانے کے بجائے آر ایس ایس کی فکر کو نمایاں کرنے کے لیے استعمال کیا۔ یہ طرزِ عمل صرف
سیاسی نہیں بلکہ نظریاتی بھی ہے ، جو ملک کے سیکولر تانے بانے کو چیر پھاڑ رہا ہے ۔یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ہندوتوا کوئی نیا نظریہ
نہیں ہے ۔ اس کی بنیاد تقریباً ایک صدی قبل رکھی گئی تھی جب ہندو قوم پرستوں نے یہ تصور پیش کیا کہ بھارت صرف ہندوؤں کا ملک ہے اور
دیگر مذاہب یہاں دوسرے درجے کے شہری کے طور پر رہیں۔ اس سوچ کو آر ایس ایس نے منظم انداز میں فروغ دیا اور بی جے پی نے
اسے سیاسی طاقت میں بدل دیا۔ آزادی کے فوراً بعد بھارت کے رہنماؤں نے اس سوچ کو پسِ پشت ڈال دیا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ
کثیر المذاہب ملک میں سیکولر ازم کے بغیر جمہوریت ممکن نہیں۔ لیکن آج وہی نظریہ اقتدار کے ایوانوں میں غالب ہے ۔مودی کے حالیہ
خطاب نے اپوزیشن کو بھی حرکت میں لا کھڑا کیا۔ کانگریس رہنما جے رام رمیش نے مودی کی تقریر کو آر ایس ایس کو خوش کرنے کی ناکام
کوشش قرار دیا اور کہا کہ لال قلعہ جیسی تاریخی جگہ سے تنظیم کی تعریف سیکولر بھارت کے لیے خطرناک پیغام ہے ۔ سی وینوگوپال نے کہا کہ بی
جے پی ہر یومِ آزادی پر تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کرتی ہے اور ان کرداروں کو ہیرو بنا کر پیش کرتی ہے جنہوں نے آزادی کی جنگ میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ راہل گاندھی نے کہا کہ مودی کی تقریر میں کوئی نئی بات نہیں تھی، یہ محض پرانے جملوں کا تکرار تھی۔ ان سب تنقیدوں کا
مرکزی نکتہ یہی تھا کہ مودی آزادی کے اصل ہیروز کو پسِ پشت ڈال کر ایک ایسے گروہ کو نمایاں کر رہے ہیں جو انگریزوں کے ساتھ ساز باز میں ملوث رہا۔
تاریخی حوالوں سے یہ بات ثابت ہے کہ آر ایس ایس نے کبھی آزادی کی جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اس کے برعکس، گاندھی، نہرو، بھگت سنگھ اور سبھاش چندر بوس جیسے رہنما اس جدوجہد کے اصل سپاہی تھے ۔ آج مودی انہی شہداء اور رہنماؤں کو پسِ منظر میں دھکیل کر آر ایس ایس کو ہیرو کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ کانگریس رہنما دیپ سنگھ پوری نے درست کہا کہ مودی کتنی ہی کوشش کر لیں، وہ نہ تو مہاتما گاندھی اور نہ ہی بھگت سنگھ یا نیتا جی بن سکتے ہیں۔ شہداء کو مسخ کر کے نئی تاریخ گھڑنے کی کوشش دراصل قوم کے ساتھ غداری ہے ۔
مودی کی تقریر کو بعض تجزیہ کاروں نے ان کی کمزوری اور تھکن کی علامت بھی قرار دیا۔ جے رام رمیش نے کہا کہ وزیراعظم اب اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت پر انحصار کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق، مودی ایک فیصلہ کن اور طاقتور رہنما کے بجائے اب ایک تھکے ہوئے سیاستدان کی طرح نظر آئے جو اپنے ہی بیانیے کو بار بار دہرا کر اپنے اقتدار کو سہارا دینا چاہتے ہیں۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو مودی کا ہندوتوا بیانیہ دراصل ان کی سیاسی کمزوری کو چھپانے کی کوشش بھی ہے ۔اس صورتحال کا سب سے بڑا نقصان بھارت کی اقلیتوں کو ہو رہا ہے ۔ مسلمان، مسیحی، سکھ اور دیگر مذاہب کے ماننے والے آج پہلے سے زیادہ غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ فسادات، ہجومی تشدد اور مذہبی نفرت انگیزی روزمرہ کا معمول بن چکی ہے ۔ ریاستی ادارے اکثر ایسے جرائم پر آنکھ بند کر لیتے ہیں بلکہ بعض اوقات ہجوم کو بالواسطہ سپورٹ بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں اب وہ سیکولر ہم آہنگی باقی نہیں رہی جو کبھی اس کی پہچان تھی۔
مودی کے دور میں آزادیٔ اظہار بھی محدود ہو گئی ہے ۔ صحافیوں، ادیبوں اور سماجی کارکنوں پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ جو کوئی بھی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرے ، اسے ملک دشمن قرار دے دیا جاتا ہے ۔ یہ رویہ جمہوری اقدار کے منافی ہے اور بھارت کو ایک آمرانہ طرزِ حکومت کی طرف دھکیل رہا ہے ۔ یومِ آزادی کی تقریر میں مودی نے ان مسائل پر بات کرنے کے بجائے آر ایس ایس کے ایجنڈے کو نمایاں کیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت عوام کے حقیقی مسائل سے غافل ہے ۔مودی کی پالیسیوں نے بھارت کی عالمی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا ہے ۔ دنیا بھارت کو کبھی ایک جمہوری، متنوع اور روادار ملک کے طور پر دیکھتی تھی، لیکن آج انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عالمی میڈیا بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی اور جمہوری زوال پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو بھارت اپنی معاشی کامیابیوں کے باوجود عالمی برادری میں ایک منفی تاثر کے ساتھ یاد رکھا جائے گا۔یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ مودی کی انتہا پسند سیاست نے بھارت کو اندرونی طور پر تقسیم کر دیا ہے ۔ یومِ آزادی پر ان کا خطاب اس تقسیم کو مزید گہرا کرنے کا باعث بنا۔ انہوں نے قومی یکجہتی کی بجائے ایک مخصوص نظریے کو ترجیح دی، جس سے یہ تاثر ابھرا کہ بھارت کی حکومت صرف ایک طبقے کے مفاد کے لیے کام کر رہی ہے ۔ یہ رویہ نہ صرف ملک کے اندر خلفشار پیدا کرے گا بلکہ بھارت کے عالمی تعلقات پر بھی اثر ڈالے گا۔
اگر بھارت نے اپنی اصل جمہوری اور سیکولر شناخت کو زندہ رکھنا ہے تو اسے مودی کے ہندوتوا بیانیے کو رد کرنا ہوگا۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب بھارت کو دنیا ایک ناکام جمہوری تجربے کے طور پر دیکھے گی۔ تاریخ مودی کو اس رہنما کے طور پر یاد کرے گی جس نے یومِ آزادی جیسے دن کو بھی تقسیم کی سیاست کے لیے استعمال کیا اور آزادی کے اصل ہیروز کو فراموش کر کے ایک انتہا پسند تنظیم کو بھارت کی علامت بنا دیا۔
آج بھارت کو ایک نئی سمت کی ضرورت ہے ۔ وہ سمت جس کا تعین گاندھی نے عدم تشدد اور ہم آہنگی سے کیا تھا، جسے نہرو نے سائنسی سوچ اور
سیکولر ازم سے جوڑا تھا، اور جسے بھگت سنگھ نے قربانی اور جدوجہد سے روشن کیا تھا۔ اگر یہ رہنما زندہ ہوتے تو ضرور افسوس کرتے کہ جس بھارت کو انہوں نے آزادی دلائی، وہ آج آر ایس ایس کے نظریے کی قید میں جا چکا ہے ۔ مودی کی تقریر ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ بھارت کس سمت میں بڑھ رہا ہے ۔یومِ آزادی پر قوموں کو یکجہتی کا پیغام دینا چاہیے لیکن مودی نے جو بیانیہ پیش کیا وہ صرف تقسیم، نفرت اور تاریخ کے مسخ ہونے کی گواہی دیتا ہے ۔ یہ بھارت کی جمہوری ساکھ کے زوال کی علامت ہے اور اس بات کا اعلان بھی کہ اگر حالات نہ بدلے تو بھارت کی پہچان ہمیشہ کے لیے بدل جائے گی۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری غدار نہیں۔۔ وجود اتوار 24 اگست 2025
کشمیری غدار نہیں۔۔

سہ فریقی مذاکرات اورپاک افغان ذمہ داریاں وجود اتوار 24 اگست 2025
سہ فریقی مذاکرات اورپاک افغان ذمہ داریاں

مودی کا ہندوتوا بیانیہ جمہوریت کا قتل ! وجود اتوار 24 اگست 2025
مودی کا ہندوتوا بیانیہ جمہوریت کا قتل !

قاری قاتل ،مدرسہ مقتل وجود اتوار 24 اگست 2025
قاری قاتل ،مدرسہ مقتل

الیکشن کمشنرکا مواخذہ کیوں اور کیسے ؟ وجود هفته 23 اگست 2025
الیکشن کمشنرکا مواخذہ کیوں اور کیسے ؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر