... loading ...
جہان ِیگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زریں اختر
ظالم کی اَن دیکھی ضربیں اور مظلوم کی اَن سنی چیخیں زندہ ضمیر کی کھوج میں ہیں۔مدارس کے بارے میں دہشت ناک اور اندوہناک واقعات کے تسلسل میں ایک حالیہ واقعہ خبر بنا اورپھرسماجی رابطوں کی ویب سائیٹوں پر وائرل ہوا ۔پہلے وقوعہ کا بیان کہ کیا ہوا؟ کہاں ہوا؟ کب ہوا؟کون تھے؟ کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ کیوں کیا؟
کیا ہوا ؟یہ سوال اپنے اندر کئی تہہ داریاں رکھتا ہے جیسا اس واقعے میں بھی ہیں(مدرسے میں ما ضی میں بھی بہت کچھ ہوتا رہا ہوگا،وقوعہ کے روز سے پہلے بھی بہت کچھ ہوا،اور خاص اس واقعے سے متعلق بھی )۔
کہاں اور کب کا ایک لفظی جواب ہوبھی سکتاہے اور نہیںبھی (جیسے اس واقعے میں کہاں کا ایک جواب کمرئہ تدریس بھی ہے اورکب؟ اس وقت جب طالب علم موجود تھے،اس سے اس واقعے کے نفسیاتی اثرات کا محض اندازہ ہی کیا جاسکتاہے ، احاطہ ممکن نہیں)۔
کون ؟ اس واقعے کا کون؟ تین ظالم(قاری ، اس کا بیٹا اورمہتمم) اورمظلوم ایک بارہ سالہ نابالغ لڑکا۔(اس دونوں قسم کے ”کون” کے ساتھ مزید کتنے سوالات کھڑے ہیں؟) ۔ پتا نہیںاس واقعے کا سب سے خوف ناک اور الم ناک سوال کیسے ؟ ہے یا کیوں؟ ہے ۔
کیوں ؟ جنسی جبلت جو انسانیت کے دائرے سے نکل کر حیوانیت کے دائرے میں داخل ہوگئی اور اس نے کیسے ؟ کو جنم دیا جو انتہائی بہیمانہ اورپرتشدّد عمل تھا۔
کیسے؟ دوطرفہ بھی بن جاتاہے ،ظالم نے کیسے مارا ؟مظلوم نے کیسے سہا؟(خبر میں ظالم نے کیسے مارا کا جواب ہوتاہے ،اورالفاظ مظلوم نے کیسے سہا کاجواب دینے کی کوشش ہی کرسکتے ہیں ، مظلوم سہہ نہیں سکا، مر گیا اور اسی لیے ”بڑی” خبر بنی۔بڑی خبر اندوہناکی کا انتظار کرتی ہے۔
اس واقعے میں جو کیوں ؟ کا جواب ہے ، اس کی کوئی حد نہیں، یہاں اس نے تمام اخلاقی حدیں پار کرلیں۔جب کسی شخص کا عمل تمام اخلاقی حدوں کو پار کرلے تو کسی کو کسی نام پر اس کے حق میں نہیں آنا چاہیے اور جو آئے گا وہ حق کے خلاف جائے گا۔اس مصلحت کے تحت ہی نہ آئو کہ کوئی تم پر شک کرے اور انگلی اٹھائے کہ یقینا تم بھی ایسے ہی معاملات میں ملوث ہواور اس میں اخلاقی حدوں کو پار کرنے اور انسانیت سے گرنے پر یقین اور ایسے ہی اعمال رکھتے ہو۔
اس واقعے سے متعلق حقائق بی بی سی اُردو کی ویب سائٹ صحافی محمد زبیر خان بتاریخ ٢٤ ِ جولائی ٢٠٢٥ء ،اپ ڈیٹ کی گئی ٢٩ ِ جولائی ٢٠٢٥ء اور اردو نیوز ویب سائٹ صحافی فیاض احمد ٢٣ ِ جولائی کے مطابق بیان کیے گئے ہیں۔
یہ واقعہ ٢١ ِ جولائی کا ہے ۔
صوبہ خیبر پختون خواہ ،ضلع سوات،علاقہ خوازہ خیلہ،مدرسہ محزن العلوم (چالیار)
اس واقعے سے پہلے جو ہوا اس پر توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے ۔چچا کی طرف سے لکھائی گئی ابتدائی تفتیشی رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق بارہ سالہ طالب علم فرحان جو تین سال سے مدرسے میں زیر ِ تعلیم تھا، والد بیرون ملک ملازمت کرتے ہیں ،چھٹیوں پر گھر آیاتو اس کا اصرار تھا کہ وہ واپس مدرسے نہیں جائے گا۔جب گھر والوں نے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے” بتایا” کہ مدرسے کے مہتمم کا بیٹا اس سے ناجائز مطالبات کرتاہے ۔
گھروالوں نے نابالغ بچے کی بات کا یقین نہیں کیا ، اسے کیا کہیں کہ کیوں نہیں کیا؟کیا کوئی ایسی باتیں دل سے گھڑ سکتاہے؟ اتنے سادہ لوح تھے ؟ یقینا اتنے ہی سادہ لوح تھے کہ چچا ٢١ ِ جولائی بچے کو ساتھ لے مدرسے پہنچتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ بچہ کیا شکایت کررہاہے۔مدرسے کا مہتمم محمد عمر ، اس کا بیٹا احسان اللہ اور ناظم عبداللہ(بی بی سی کے رپورٹر نے احترامی جمع کے صیغے استعمال کیے ہیں یعنی مدرسے ‘کے’مہتمم، ‘ان’ ‘کے’ ‘بیٹے’، جن کو میں نے تبدیل کردیاہے) یہ تینوں قرآن پہ ہاتھ رکھ کر قسمیں کھاتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے اور بچے پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ پڑھائی سے بھاگنے کے بہانے کررہا ہے ۔اس تمام کارروائی کے دوران بچے کا باپ ویڈیو کال کے ذریعے موجود رہا، باپ اور چچا نے اپنے بیٹے بھتیجے کی بات سے بڑھ کر ان طاغوتوں کی جھوٹی قسم کیوں کہ وہ قرآن پہ اٹھارہے تھے ، یقین کیا اور بچے کو مدرسے چھوڑ دیا۔
اُف خدایا! اس وقت اس بچے کے دل پہ کیا بیتی ہوگی ؟ یہ دن اس پر کتنا بھاری پڑنے والا تھا، پتا نہیں اس دن اس نے کس وقت پانی پیا تھا؟وہ سارا رستہ جب اس کے چچا اس کو مدرسے چھوڑنے جارہے تھے ، وہ کیا سوچتا ہوگا ؟ یہ کہ اس کے چچا ان سے لڑیں گے اور کہیں گے کہ آپ ایسے لوگ ہیں ؟ اس نے زندگی میں دیکھا ہی کیا تھا؟ اسے کیا پتا کہ وہ شیطان اسی قرآن پہ ہاتھ رکھ کر اپنے گھنائونے عمل سے پھر جائیں گے اور اسے جھوٹا بنا دیں گے ،اور اس کاباپ اور چچا اس کی بات کو سچ نہیں مانیں گے۔
جیسے ہی چچا بچے کو مدرسے چھوڑ کر گئے ،ان تین لوگوں نے اسے زنجیروں اور لاٹھیوں سے پیٹنا شروع کردیا ، ایک شخص جب مار مار کے تھک جاتا تو دوسرا شروع ہوجاتا، ایک طالب علم کا یہ بیان بھی روح کو کیسا چیر دینے والا ہے کہ’ وہ پانی مانگتا رہا’ لیکن ان لوگوں نے دوسرے بچوں کو دھمکی دی کہ اگر کسی نے اسے پانی لا کر دیا ان کا بھی یہی حشر ہوگا،وہ پانی مانگتا رہ گیا،اس پیاسے کو موت نے اس بہیمانہ تشدد سے نجات دلائی اور اپنی آغوش میں بھر لیا ۔
فرحان کا باپ مرتے دم تک اس سلگتے ہوئے پچھتاوے سے اپنی جان نہیں چھڑا سکے گاکہ اس نے اپنے معصوم بچے کی بات پر یقین کیوں نہیں کیا۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق فرحان کی پوری کمر ضربوں سے نیلی ہوچکی تھی ۔
اب ادارے حرکت میں آئے ہیں تو پتا چلا کہ مدرسہ رجسٹرڈ نہیں تھا ،ورنہ بے چاروں کو کیا پتا کہ ادارے بن رہے ہیں تو رجسٹرڈ ہیں یا نہیں۔ لوگوں نے احتجاج کیا، مدرسے کو بند کردیا گیا، ملزموں کو پکڑ لیاگیا ، ایک سو ساٹھ بچوں کووالدین کے حوالے کردیا گیااور بارہ سالہ معصوم فرحان کو سپرد ِ خاک کردیا گیا۔
اس واقعے پر اتنی تاخیر سے لکھنے کا سبب یہ کہ میں مذہب اور اخلاقیات کی نظری ، علمی اور اطلاقی بنیادیں اور تعلق تلاش کرتی رہی ۔کیا وجہ ہے کہ یہ تعلق کتابوں میں ملتاہے اور عملی طور پر اس کی مقدار اکثریتی معاملات ۔۔۔سیاسی ،عسکری ، انتظامی ،قانونی ،تعلیمی ،عائلی ، خاندانی ،ابلاغیاتی ،سماجی اور حد ہے کہ خود مذہبی سطح پر بھی آٹے میں نمک کے برابر ہی (غالباً ) باقی ہے۔
اگر قانون کے ذریعے اور ڈنڈے کے زور پر ہی اخلاقی نظام قائم کیا جاسکتاہے ، جو انصاف اور عدل کا دوسرا نام ہے تو خود وہاں بھی تو ۔۔۔ مجموعی طور پراس بد عنوان نظام کو کہیں کہیں ،چیدہ چیدہ بیٹھی ہوئی شخصیات ہی نے سنبھالا دے رکھا ہے ، کھونٹیوں کی موافق ،جو اس کو سہارے ہوئے ہیں ،لیکن ایسا سوچنا بھی عقلی کم اور روحانی زیادہ لگتا ہے ۔
اس تحریر کے قارئین سے یہ اعتراف کرتی چلوں کہ میںکسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ،ہاں! جو تھوڑاذہنی سفر میں نے کیا اس میں آپ کو شریک کر رہی ہوں ۔مجھے تلاش رہے گی ایسی کتابوں اور مضامین کی جس میں کسی ماہرِ تعلیم نے مدارس اور اس کے طریقہ تدریس کی صورت حال پربے لاگ ،غیر جانب داری اور وسعتِ نظر سے لکھاہو۔جو پڑھا وہ پیش ِ خدمت ہے۔
کتاب ”اسلام ،چند فکری مسائل ” مصنف ڈاکٹر منظور احمد ، باب چند تعلیمی مسائل ،طبع اوّل اپریل ٢٠٠٤ء ،باب ‘چند تعلیمی مسائل ‘
”یہ اقدار ِ تعلیم کیا ہے ؟ پاکستان میں عام طور پر اس کا جواب یہ دیاجاتاہے کہ اگر انسان کو مذہب کی تعلیم دی جائے تو انسان میں اخلاقی اقدار پیدا ہوجائیں گی۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کی درس گاہوں میں اسلام کی لازمی تعلیم کے باوجود ہماری قوم کا اخلاقی معیار پست ہوتا جارہاہے، بلکہ خود مذہب کے نام پر جو عدم رواداری ،تشدّد اور کم نظری پیدا ہورہی ہے وہ اس سے پہلے موجود نہیں تھی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو ہم صحیح مذہب کی تعلیم نہیں دے رہے یا پھر تعلیم کے طریقہ کار میں کوئی نقص ہے ۔ ۔۔۔
ہماری دانست میں پاکستان میں مذہبی تعلیم میں دونوں خرابیاں موجود ہیں ،یعنی مذہب کے نام پر جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ بھی ناقص ہے اور جس طرح پڑھایا جاتاہے وہ بھی غلط۔۔۔۔۔
ہمارے معاشرے کو جس اسلامی تعلیم کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اس کو انسانی نفس کی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہیے اور اسے ان اعلیٰ اقدار کو فروغ دینا چاہیے جو انسانوں کو آپس میں بھائی چارے ،رواداری ،اخلاق اور ایمان داری سے رہنا سکھائیں۔ ان کو دوسروں پر ظلم کرنے اور دوسروں کے حقوق غصب کرنے سے روکیں اور تشدّد سے بچائیں۔ تشدّد اور شقاوت دونوں اسلامی روح کے منافی ہیں۔ اسلام کا معیار مسجد میں نمازیوں کی تعداد سے نہیں ،بلکہ نمازیوں کے انفرادی اور اجتماعی کردار سے ناپنا چاہیے اور اگر اس میں کمی ہوتو سمجھنا چاہیے کہ نما ز اور روزے سے رسول کریم ۖ کے بقول ان کو بھوک اور ظاہری حرکات سے زیادہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ قرآن کریم میں بار بار ہر مذہبی عمل کو انسانی اخلاق سے جوڑا گیا ہے اور عبادت کے دورخ بتائے گئے ہیں۔باطنی طور پر عبادت انسان کو خدا کے روبروکرتی ہے اور ظاہری طور پر انسانی اخلاق کو متاثر کرتی ہے۔ گویا انسان کی باطنی ترقی اس کے عمل کا ایک جزو لاینفک بن جاتی ہے ۔ ایمان کے ساتھ عمل صالح ملا دینے میں بھی یہی مصلحت پوشیدہ ہے ۔ جن لوگوں کے قلوب اور اعمال پر یہ نتائج مرتب نہیں ہوتے تو قرآن کے بقول ان کے قلوب ایمان سے خالی ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔ ہماری ساری عمر خدا کے وجود اور اسلام کی حقانیت ثابت کرنے میں بیت جاتی ہے اور تگ و دو میں ہم یہ بھول جاتے ہیںکہ بعثت رسول ۖ کا مقصود تو اخلاق کی اصلاح تھی۔”(صفحات ١٥٦ تا ١٥٨)
جاوید احمد غامدی ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں کہ :” ہمارے دینی مدارس جس اصول پر کام کررہے ہیں وہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے ۔ بچے کی تعلیم ١٢ سال کی عمر تک وسیع البنیاد تعلیم ہونی چاہیے ،جب بارہ سال کی وہ تعلیم پالے تو اس کا اپنا فیصلہ ہوگا کہ وہ ڈاکٹر بننا چاہتا ہے ،سائنس دان بننا چاہتا ہے ،انجینئر بننا چاہتا ہے یا کوئی دین کا عالم بننا چاہتا ہے ، ہمارے یہ مدارس بچوں سے ان کا یہ حق چھین لیتے ہیں۔ اس نظام تعلیم کی بنیادی خامی کو دور کرنا چاہیے ۔ جب تک کسی قوم کی بنیادی تعلیم کو کم و بیش یکساں نہیں
کردیتے اس وقت تک آپ نہ وحدت کا خواب دیکھ سکتے ہیں اور نہ وسعت نظر کا ، یہ دونوں چیزیں ختم ہوجاتی ہیں۔”
(Family & Educational background of Javed Ghamidi. #javedghamidi #badarmunirchaudhary #bmc #bmclive)
کتاب ”تعارفِ اخلاقیات ،مصنف ولیم للی ، ترجمہ سید محمد احمد سعید،اشاعت اوّل (اردو ترجمہ ) ١٩٨٤ء
یہ کتاب اٹھارہ ابواب پر مشتمل ہے ، اس میں سترہواں باب ”اخلاقیات ، مابعد الطبیعات اور مذہب” ہے اور آخری یعنی اٹھارواں ”اخلاقیات کی زبان” پر۔۔اس سے بھی مذہب اور اخلاقیات کے اطلاقی و عملی تعلق کا کچھ تو اندازہ ہوتاہے ۔
”فلاسفہ کے نظام حقیقت کو ایسے وجدانات سے ہم آہنگ ہونا چاہیے جیسے کہ بٹلر کا وجدان کہ مسرت عمل صالح کے مطابق ہے ۔” (ص٣٦٦)
”کانٹ کے نزدیک اخلاق کے لیے وجود باری تعالیٰ ، اختیار اور خلود نفس ناگزیر مسلمات ہیں۔ (ص ایضاََ)
کانٹ جس کے بقول ”اخلاق کو …کسی طور پر مذہب کی ضرورت نہیں ہے ” یہ بھی کہتا ہے کہ اخلاقی قانون اس کی ذات میں ایک خوف کا احساس بھی پیدا کرتاہے جو جذبہ مذہبی سے اگر کامل عینیت نہیں رکھتا تو اس سے بہت زیادہ ملتا جلتا ضرور ہے ۔”(ص ٣٨٠)
بیان کے تسلسل میں یہ غیر منطقی تو نہیں ہوگا کہ میں اس تحریر کا اختتام اس اقتباس پر کروں کہ :” برصغیر پاک و ہند دنیا کے ان خطوں میں ہے جہاں پتھر کے زمانے سے فولاد کے زمانے تک ہر عہد کے لوگ اب بھی موجود ہیں اگر کوئی شخص سماجی ارتقا کی تاریخ مرتب کرنا چاہے تو اس کو ملک سے باہر جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔”(موسیٰ سے مارکس تک، سبط حسن ،تیرہواں ایڈیشن ٢٠٠٧ء ،ص٢١)۔
٭٭٭