... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
انقلاب کی آواز سورِ اسرافیل بن کر فضا میں مرتعش ہو رہی ہے اور اقتدار کی بارگاہوں میں اندیشے جنم لے رہے ہیں!
سلطان ٹیپو شیہد کی مجاہدانہ للکار میرے کانوں کے پردے پھاڑ رہی ہے مسلم تاریخ کے اوراق پر سات صدیاں ہو چلیں منفی رحجانات کی پر چھائیوں کا تسلظ ٹوٹنے میں نہیں آرہا ۔
میں تصور کی آنکھ سے 17جون کو 19مارچ 1940کا معرکہ لاہور برپا ہوتے دیکھ رہا ہوں ،بڑی عظیم و جلیل اور لازوال تھی وہ قربانی جو خوفناک برطانوی سامراج کے خلاف بروئے کار آئی 313خادمان خلق نے منظم ترین فریضہ سر انجام دیا تاریخ کامورخ اس دن کی عظمت کو نظر انداز نہیں کر سکے گا جب غلام قوم کے شاہین دیو استبداد سے پنجہ آزما ہوئے ۔جب پیدل سر پھروں نے گھوڑ سوار ں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالا ۔جب بیلچے آتش باز رائفلوں سے ٹکرائے جو کچھ ہوا تاریخ کے الفاظ میں ڈھل گیا ایک غیر فانی کارنامہ کی حیثیت سے اُس کے اوراق میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گیا ۔ میری آنکھوں کے سامنے سنساتی گولیوں ،بے گناہ کلائیوں میں ہتھکڑیوں کی جھنکار ہے جو کربلائے 26نومبر رائیونڈ کی شہنشاہیت کے ہاتھوں بر پاہوئی ۔
جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کے ہاتھوں آزادی کے متوالوں اور قصہ خوانی بازار پشاور کی فائرنگ چیخ چیخ کر شہادت دے رہی ہے کہ 26نومبر کو رقص بسمل کے جگر پاش مناظر کے سامنے خونِ گم گشتہ عزائم اور دم توڑتی اُمنگوں کے دلدوز وجگر سوز نقشے دھندلا گئے ہیں۔ پاکستان کی آمرانہ تاریخ میں ایوب خان کو آمرانہ دستور کا بانی گردانا جائے گا جس نے جمہوری روایات کو پامال کر کے آمریت کے ننگے جسم کو جمہوریت کا چیتھڑا چیتھڑا پیراہن پہنا کر جوان کیا ۔اس کے آمرانہ دستور 1962ء کے مطابق وزراء کا انتخاب صدر کرتا تھا اور قومی اسمبلی کا رکن ہونا ضروری نہیں تھا صدر جب چاہتا ان کو نکال سکتا تھا۔قومی اسمبلی کے پاس شدہ قانون میں ترامیم ،تجاویز،اسے مسترد یا قبول کرنے کے اختیارات صدر کے پاس تھے۔
عدلیہ کے ججوں کی تقرری اور تبادلہ بھی ایک آمر کے مرہون منت تھے وہ ہنگامی حالت کا اعلان کر کے عوا م کے بنیادی حقوق معطل کر سکتا تھا ،تمام دستوری اداروں کی بساط لپیٹ سکتا تھا،وزارتیں اور اسمبلیاں توڑ سکتا تھا بلکہ خود دستورایک آمر کے رحم و کرم پر تھا۔اس نے انتظامیہ میں بھی منتقم مزاج افراد کی تقرریاں خوب کیں ۔مشرقی پاکستان میں ذاکر حسین کو بطور آئی جی، عبدالمنعم کو بطور گورنر تعینات کیا جبکہ مغربی پاکستان میں نواب آف کالا باغ امیر محمد خان کو گورنر بنایا گیا جس نے مادر ملت فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایک آمر کی جیت کی راہ ہموار کی
ان افراد کی تقرریاں ایک ایسا عمل تھا جس میں دور ،دور تک سیاسی مخالفین کے خلاف تشدد اور انتقام کی راہ دکھائی دیتی تھی ،آج بھی ہمارے آنکھیں یہی منظر دیکھ رہی ہیں ۔
لاہور میں بیرون بھاٹی گیٹ پر ہونے والے ایک اجتماع میں ایک جماعت کے سربراہ پر فائرنگ کرائی گئی۔غرض مذکورہ تینوں حکومتی اشخاص جبرو استبداد کا نشان بن گئے ۔رسم انتقام چلی تو عوام میں نفر ت نے جنم لیا۔پولی ٹیکنیکل کالج راولپنڈی کے طلباء نے مقامی مسئلہ پر ہڑتال کی تو ریاستی پولیس نے طلباء کے جلوس پر گولی چلادی۔ایک آمر وقت کے خلاف یہ تحریک کی ابتدا تھی۔حکومت کے خلاف طلباء کے جلوس نکلے کسی نے آمر سے پوچھا،حکومت کے خلاف یہ جلوس چہ معنی دارد؟
ایوب خان نے کہا چند من چلے نوجوانوں کی شرارت ہے جو سیاستدانوں کے بہکاوے میں آکر ایسا کر رہے ہیں۔ جلسوں کی شدت تحریک کی شکل اختیار کر گئی ایوب خان کو مستعفی ہوناپڑا ۔پاکستان کے تاریخی باب میں ایک آمر کا ازخوداستعفیٰ باعث حیرت ٹھہرا۔معروف صحافی مرحوم زیڈ اے سلہری ایوب خاںکے پاس پہنچے ،اچانک مستعفی ہونے کا سبب پوچھا،سلہر ی کا کہنا تھا کہ اس سوال پر ایوب خان کی آنکھوں میں آنسو آگئے،ایک آمر کی آوازشدت جذبات سے کانپ رہی تھی گویا ہوئے ”کل صبح برآمدے میں بیٹھا تھا دیکھا کہ ان کے معصوم پوتے ایک عددجلوس کی قیادت فرما رہے ہیں جس کے مظاہرین میں ایوان صدر کے مالیوں ،قاصدوں،ڈرائیوروں کے بچے شامل ہیں،جلوس کی قیادت کرنے والا میرا پوتا ایوب ہائے ہائے کے نعرے بلند کر رہا ہے اور صدر سے کرسی چھوڑدینے کا مطالبہ بھی”۔تحریک میرے گھر تک پہنچ گئی اور میں مستعفی ہو گیا۔
جب عوامی قافلہ عازم سفر ہوتا ہے تو وقت کے آمروں کی طرف سے بنائی گئی تمام رکاوٹیں عوامی جذبات کے سیل رواںمیں بہہ جاتی ہیں ، 14اگست کو سچی لگن اور عوامی محبت کے سائے میںجب عوام ایک ہاتھ میں پاکستان اور دوسرے میں پاکستان تحریک انصاف کے جھنڈے لیکر نکلے تو آمریت کے ایوان لرز رہے اُٹھے ،عوام پر ظلم و جور کی انتہا کردی گئی ،پریشر ککر کے ایئر والو پر انگوٹھا رکھ کر آب کب تک دبائے رکھیں گے ؟
یوم ِ آزادی پر عوام کا بے خوف و خطر نکلنا حکمرانوں کے خلاف تحریک عدم اعتمادہے،25کروڑ لوگوں کی جانب سے حکمرانوں کے خلاف ریفرنڈم ہے ، آمر یت کے ترکش میں تیر ختم ہوتے جارہے ہیںوقت کا فیصلہ ہمیشہ طاقتور آمر وں کے اقتدار کی بساط لپیٹتا رہا ،طنابیں کستی جارہی ہیں ۔ اس بار عوام کے سامنے نہ کوئی ایوب خان ہے اور نہ ہی اپنی وردی کو کھال قرار دینے والا لامحدود اختیارات اور طاقت کا مالک بھگوڑا مشرف !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔