وجود

... loading ...

وجود

عمران خان کی رہائی کی تحریک

اتوار 20 جولائی 2025 عمران خان کی رہائی کی تحریک

ایم سرور صدیقی

عمران خان کی رہائی کے لئے تحریک کا آغازہوگیاہے۔ 90 دن شروع ہوگئے ہیں اور ان 90 دنوں میں تحریک عروج پر لے جاکر آر یا پار کریں گے ۔ کے پی کے ،کے وزیر ِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی یہ بڑھکیں اور دعوے اپنی جگہ پر لیکن سوال یہ پیداہوتاہے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کیلئے تحریک کیسے اور کب چلائی جائے گی؟ کیا حکمت عملی ہے ؟کیا منصوبہ بندی ہے؟ سوشل میڈیا پرپی ٹی آئی کے حامیوں نے گنڈاپور کے بعض فیصلوں پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اُن پر عدم اعتماد کی فضا پیدا کر دی ہے۔ اس ضمن میں چندحقائق سامنے آئے ہیں۔ قابل اعتماد سرکاری ذرائع نے انکشاف کیاہے کہ لاہور کا سفر اختیارکرنے سے قبل تحریک انصاف کے ”بڑوں” نے باضابطہ طور پر پنجاب کی انتظامیہ کوآگاہ کردیاتھا کہ وہ کسی ہنگامے یا احتجاج کے لئے نہیں آرہے بلکہ یہ ”ہائی پروفائل پکنک ٹور” ہوگا۔ اس سلسلے میں میزبان حکومت کو ٹھوس ضمانتیں فراہم کی گئی تھیں ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد سے راولپنڈی کے راستے جی ٹی روڈ کو پورے سفر میں صوبائی انتظامیہ نے کسی مقام پر قافلے کی مزاحمت نہیں کی اور نہ ہی قافلے میں شامل افراد نے کسی جگہ پڑائو کرنے یا ہنگامہ آرائی کی کوشش کی۔ اس پورے سفرمیں کوئی ایک گاڑی یا نیا شخص اس قافلے میں شامل نہیں ہو ا، نہ کسی شہر میں اس قافلے کااستقبال ہوا۔ پارٹی کی لیڈرشپ کواس پر ملال بھی ہے کہ اس سفر میں کسی بھی جگہ قافلے کی آئو بھگت نہیں ہوئی اور نہ ہی اس کاخیرمقدم کیاگیا ۔سیاسی رہنمائوں کے ایسے قافلے اور جلوس جب اپنے خیر خواہ علاقوں میں سے گزرتے ہیں تواس پر گلپاشی ہوتی ہے۔ ساڑھے تین سو کلومیٹر کے سفر میں قافلہ کہیں نہیں رکا۔ایسے لگتاتھا جیسے قافلہ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو۔ مزے کی بات یہ ہے کہ قافلے کے شرکاء کی ”خاطر مدارت” لاہور کے ایک فارم ہائوس میں کی گئی۔ یہ لگتاہی نہیں تھا جیسے کوئی سیاسی موومنٹ ہو یا احتجاجی ریلی یا جلسے کا تاثر بھی نہیں ملا۔ ان حالات میں90 دن تو کیا90 سال میں بھی اہداف حاصل نہیں کئے جا سکتے۔
خود پی ٹی آئی کے حلقے علی امین گنڈاپور کی پریس کانفرنس سے خاصے مایوس اور دلبرداشتہ نظر آتے ہیں اور وہ انہی خدشات کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں جو ان کیفیات میں پیدا ہونے ایک فطری سی بات ہے ۔بانی پی ٹی آئی عمران خان نے پارٹی رہنماؤں کو سخت پیغام دیا ہے کہ ہم جیلوں میں بیٹھے ہیں ،آپ اختلافات پیدا کررہے ہیں، لاہور اجلاس کو لے کر پارٹی میں جان بوجھ کر اختلاف پیدا کیا جارہا ہے، ذاتی اختلافات ختم کریں اور سارا فوکس تحریک پر رکھیں۔ اڈیالہ جیل کے باہر اپنی بہنوں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خانم کا کہنا تھا کہ بانی نے دو پیغامات دیتے ہوئے کہا 300 پارلیمنٹیرینز کے لاہو جانے پر خوشی ہوئی، جو پارٹی میں اختلاف پیدا کریگا ۔اس کو میں خود دیکھ لوں گا ۔لاہور اجلاس کو لے کر پارٹی میں جان بوجھ کر اختلاف پیدا کیا جارہا ہے، ذاتی اختلافات ختم کریں اور سارا فوکس تحریک پر رکھیں ۔عمران خان نے کہا ہے کہ میرے اور بشریٰ بی بی کے ساتھ ظلم ہورہا ہے۔ میرا ٹی وی اور اخبارات بند کردئیے گئے ۔اتنا ظلم تو انگریزسرکار نے گاندھی کے ساتھ بھی نہیں کیا ۔میرے ساتھ ہونے والے سلوک کا حساب ہونا چاہیے، علیمہ خانم نے کہا کہ بانی کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹیرینز کو فیصلہ کرنا ہے، سیاست میں رہنا ہے کہ نہیں، مذاکرات کس بات پر کرنے ہیں بانی کے کیسز سنیں ،بات ختم ہوجائے گی۔
اس سے پیشتروزیر ِ اعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پورنے کہا کہ اب بات فیصلہ سازوں سے ہوگی، عمران خان نے بڑا واضح کہا ہے کہ وہ پاکستان کی خاطر مذاکرات کے لئے تیار ہیں، فضل الرحمٰن اسٹیبلشمنٹ سے ملا ہوا ہے۔حکومت میں رہیں یا نا رہیں، ہمیں اس سے فرق نہیں پڑتا۔ لیکن ہم ملک کے کونے کونے میں جائیں گے اور عوام کو متحرک کریں گے۔ آج پختونخواہ اور بلوچستان کے حالات کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو سرحدیں چھوڑ کر تحریک انصاف کے پیچھے لگے ہوئے ہیں،مارشل لاؤں سے پاکستان کی جمہوریت کو عالمی سطح پر جتنا نقصان ہوا، اتنا کسی چیز سے نہیں ہوا،ہم نے اپنے ادارے خود ٹھیک کرنے ہیں۔ آئیں مل کر بیٹھیں اور مسائل حل کریں۔علی امین گنڈاپور نے کہا ایسی سیاست سے بہتر ہے کہ ہم سیاست ہی نہ کریں اور اپنا کوئی اور راستہ اختیار کریں جس میں ہمارے بچے اور بچوں کے بچے غلام نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف کیسز میں جان نہیں ہے، عمران خان کے ووٹرز، سپورٹرز اور کارکنوں کو سلام پیش کرتا ہوں کیونکہ آج تک دنیا کی تاریخ میں کسی سیاسی جماعت پر اتنا ظلم نہیں ہوا جتنا تحریک انصاف پر ہوا مگر لوگ ڈٹ کر کھڑے ہیں تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی میں کوئی اختلاف نہیں، مس انڈر سٹینڈنگ ہے، میری شیخ وقاص اور عالیہ حمزہ سے بات ہوگئی ۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کہہ چکے کہ 5 اگست کو تحریک عروج پر ہوگی۔ عمران خان نے سخت ہدایات دیں کہ تمام رہنماؤں کو میرا پیغام پہنچایا جائے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی اور سوشل میڈیا پر مہم چلانے سے باز رہیں، سوشل میڈیا کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کے بجائے پارٹی کا بیانیہ مضبوط بنا ئیں ۔تمام رہنما احتجاجی تحریک کے لیے متحد اور یکسو ہوجائیں۔مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا ہ بیرسٹر سیف کا کہناہے کہ اڈیالہ جیل میں سہولیات کا انتہائی فقدان ہونے پر عمران خان سخت نالاں ہیں، عمران خان اور بشریٰ بی بی کو جیل میں ذہنی اذیت دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی ہے۔ عمران خان کا کہناہے یا کہ جیل میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں ۔وہ قیدِ تنہائی کاٹ رہے ہیں، ٹی وی، اخبار، کتابیں اور یہاں تک کہ کپڑے بھی فراہم نہیں کیے جا رہے ہیں۔جیل میں بشریٰ بی بی کو بھی ذہنی اذیت دی جا رہی ہے، بشریٰ بی بی کو گندا پانی دیا جا رہا ہے، خوراک میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے، بشریٰ بی بی کو گزشتہ دنوں زہریلے کیڑے نے پاؤں پر کاٹا تھا جس کی وجہ سے وہ ایک ہفتہ بیمار رہیں۔ بیرسٹر سیف کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان نے بتایا کہ ملاقاتیں بھی نہیں کروائی جا رہی ہیں، جس کی وجہ سے وہ بیرونی حالات سے مکمل طور پر لاعلم ہیں، عمران خان کو وزیراعلیٰ اور دیگر اراکین کے لاہور دورے اور احتجاجی سرگرمیوں کے بارے میں بھی علم نہیں تھا۔ بیرسٹر سیف کے مطابق عمران خان نے بتایا کہ رہائی کے بعد جیل میں ظلم ڈھانے والے افسران اور متعلقہ حکام کو چھوڑوں گا نہیں، تمام تر اذیت کے باوجود عمران خان اور بشری بی بی کے حوصلے بلند ہیں۔ بہرحال سیاسی مبصرین کا کہناہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں اور حامیوں میں ابھی تک 9مئی اور24نومبر کے واقعات کے باعث خوف و ہراس پھیلاہواہے۔ ملکی حالات ، مہنگائی اور پارٹی میں قیادت کا فقدان ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے وہ کسی احتجاجی تحریک میں مار کھانے یا قربانیاں دینے کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں ۔ملک کو اس وقت دہشت گردی سمیت مختلف چیلنجز کا سامنا ہے جبکہ2 سال ہونے کے باوجود عمران خان کی رہائی کی کوئی سبیل نظرنہیں آرہی ۔ شاید یہ عمران خان کے عروج کو زوال ہے، ایسے ہی حالات کا سامنا ذوالفقار علی بھٹو بھی کرچکے ہیں و ہ بھی اپنے انتہائی عروج کے دوران زوال کا شکارہوگئے تھے ۔دوسری طرف ملک کے موجودہ حالات میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پر اپنے صوبے میں امن وامان کی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔سیاست اپنی جگہ لیکن ملکی مفاد ہر لحاظ میں مقدم ہونا لازم ہے اس لئے تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی سیاست ضرور کریں لیکن پہلے ملکی استحکام کو مقدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکارممکن نہیں کہ دنیا میں بڑے سے بڑے رہنمائوں نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ صرف مذاکرات کی میز پر ہی ممکن ہوئی ہیں۔ ان حالات کے تناظر میں حکومت کے خلاف عمران خان کی رہائی کے لئے وزیراعلی خیبر پختونخواہ کی 90دن کی تحریک ناکام ہوتی نظر آرہی ہے۔ وہ وقت سے پہلے ٹھس ہوچکی ہے۔ اس کااحساس حکومت اور مقتدر قوتوںکو بھی ہے۔ اسی لئے ان کی جانب سے عمران خان کو کوئی ریلیف نہ ملنا ہے لیکن سیاست میں معاملات توڑ پھوڑ یا سڑکوں پر حل نہیں ہوتے، اس لیے تحریک کے بجائے مذاکرات کی طرف آنا چاہیے، ملکی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لئے سب کو مل کر چلنا ہے۔ کافی حدتک حالات کی ذمہ داری موجودہ حکومت پربھی عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کے ساتھ مذاکرات میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لئے سنجیدہ رویہ اختیارکریں۔ آخر وہ بھی آپ کے ہم وطن ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
وطن عزیز میں بھارتی دہشت گردی وجود اتوار 20 جولائی 2025
وطن عزیز میں بھارتی دہشت گردی

عمران خان کی رہائی کی تحریک وجود اتوار 20 جولائی 2025
عمران خان کی رہائی کی تحریک

دنیا کی نظروں سے اوجھل فوجی آپریشن وجود هفته 19 جولائی 2025
دنیا کی نظروں سے اوجھل فوجی آپریشن

یوم الحاق پاکستان وجود هفته 19 جولائی 2025
یوم الحاق پاکستان

چینی نکتہ چینی وجود هفته 19 جولائی 2025
چینی نکتہ چینی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر