... loading ...
ایم سرور صدیقی
سوشل میڈیاپر ایک اخبار گردش کررہاہے 1972 ء میں چھپنے والے اخبارکی لیڈ ہے ”چینی چوروں کو معاف نہیں کیا جائے گا”۔اس کا مطلب ہے مہنگائی آج کا نہیں بڑا پرانا درد ِ سرہے جس سے چھٹکارا محال ہے۔ اس کے لئے ہر دورمیں عوام دہائیاں دے رہے ہیں۔ چینی تو پاکستان میں ہے ہی حکمرانوں اور اشرافیہ کا کاروبار جس کا کوئی کاروباری حریف ہی نہیں ہے۔ اسی لئے اشرافیہ کے چہروںکا رنگ چوکھا لال ہے۔ اس کا مطلب ہے عوام1980ء کی دہائی بھی چینی چوروں کی دُہائی دیتے گزرگئی ۔1990ء کی دہائی میں چینی کا بحران عروج پر رہا اور یہ مو زوں سیاست کا ہمیشہ حصہ رہا۔ ضیاء الحق کی حکومت ہویاپھر مشرف کا دور ،پیپلزپارٹی اقتدار میں واپس آئے یا پھر پانامہ فیم نوازشریف کا زمانہ ہو یا نئے پاکستان کا دور دورہ ہو یا آج، فیلڈ مارشل کا دور آ گیا ہے ۔ہماری بھی کیا قسمت ہے ۔کل بھی چینی کے بحران اور مہنگائی کا حوام سیاپا کررہے تھے۔
آج بھی چینی بحران جاری ہے اور کمال بات یہ ہے کہ چینی چور تاحال گرفت سے باہر ہیں۔ اور پھر کیسا عجب ہے کہ پاکستان جہاں 81 شوگر ملز ہیں اس کو متحدہ عرب امارات سے چینی امپورٹ کرنا پڑے جہاں فقط دو شوگر ملز ہیں۔ کوئی اس ملک کو ایشین ٹائیگر بنانے کا خواب دکھاتا رہا۔ کوئی عوام کو روٹی کپڑا مکان کے نام پر عوام کو بے وقوف بناتا رہا ۔ کوئی نیا پاکستان بنانا چاہتا تھا۔ لیکن یہ سب مل کر بھی اس ملک کے عوام کو ”چینی چوروں” یا ”شوگر مافیا” سے نجات نہیں دلا سکتے۔ عوام بھی سوچتے تو ہوں گے چینی چور، شوگر مافیا اور چینی بحران کا شور سنتے عمریں گزر گئیں۔یہ کیسا ملک ہے جہاں نصف صدی سے چینی ہی پکڑ میں نہیں آ رہی۔ ویسے اس میں زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔ سب صاف صاف عام آدمی کو معلوم ہے لیکن اگر معلوم نہیں تو اداروںکو معلوم نہیں جو چوری، ذخیرہ اندوزی، بلیک ہونے کے باوجود چھوٹے دکانداروںکا کاروبارکرنا عذاب بنادیتے ہیں لیکن بڑے مگر مچھوںکا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے ۔ اس وقت شریف فیملی اور ان کے رشتہ داروں کی ملکیت میں 6 شوگر ملز ہیں جن میں حمزہ شوگر ملز، رمضان شوگر ملز، ایچ وقاص شوگر ملز اور اتفاق شوگر ملز شامل ہیں۔ نواز شریف صاحب کے دیگر رشتہ دار عبداللہ شوگر ملز، چنار شوگر ملز چوہدری شوگر ملز، کشمیر شوگر ملز اور یوسف شوگر ملز کے مالک ہیں۔صدر آصف علی زرداری کی اور ان کے رشتہ دار 6 شوگر ملوں کے مالک ہیں۔ ان میں انصاری شوگر ملز، سکرنڈ شوگر ملز، کرن شوگر ملز شامل ہیں۔ جبکہ آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی اور سابق چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف بھی اشرف شوگر ملز کے مالک ہیں۔چوہدری شجاعت حسین بھی پنجاب شوگر ملز کے مالک ہیں۔ جی ڈی اے کی فہمیدہ مرزا ، مرزا شوگر ملز اور پنجریو شوگر ملز کی مالک ہیں ۔جہانگیر ترین تین شوگر ملز، کی ڈی ڈبلیو ون، ڈبلیو 2 شوگر ملز اور گلف شوگر ملز کے مالک ہیں جبکہ چوہدری پرویز اشرف اور خسرو بختیار بھی رحیم یار خان شوگر ملز کے پارٹنرز ہیں۔ ہمایوں اختر کے بھائی سابق سینیٹر ہارون اختر اور ان کے پارٹنرز کمالیہ شوگر ملز، تاندلیانوالا شوگر ملز، والہ میران شوگر ملز اور لیہ شوگر ملز کے مالک ہیں۔ اس کے سوا خیبر پختونخواہ میں آٹھ شوگر ملز ہیں جن کے بیشتر مالکان سیاستدان ہیں اور اسمبلیوں کا حصہ بنتے ہیں۔ ان شوگر ملز مالکان کو حکومت سال اربوں روپے کی سبسڈی بھی ملتی ہے اس کے باوجود وہ عوام کو کوئی ریلیف دینے کو تیارنہیں ہیں۔
گزشتہ دو ماہ سے ملک بھر میں چینی کا بحران جاری ہے۔ ملک کے کئی شہروںمیں چینی کی قیمت نے ڈبل سنچری مکمل کرلی تھی، ایک ہفتے میں فی کلو قیمت میں 3 روپے 52 پیسے اضافے کے بعد چینی 200 روپے کلو تک جاپہنچی تھی۔ ادارہ شماریات کے مطابق کراچی، اسلام آباد اور راولپنڈی میں چینی 200 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی، ایک سال قبل چینی کی اوسط قیمت 145 روپے 88 پیسے فی کلو ریکارڈ کی گئی تھی۔ وفاقی حکومت نے گزشتہ سال جون میں چینی کی ایکس مل قیمت 140روپے فی کلو مقرر کی تھی ۔ درآمد کی اجازت کے باوجود چینی کی ایکس مل قیمت پہلے کے مقابلے زیادہ مقرر کی گئی ہے، برآمدکی اجازت کے وقت مقررہ قیمت کے مقابلے ایکس مل قیمت میں 25 روپے کلو کا اضافہ کیا تھا۔ اس سال مارچ میں حکومت نے چینی کی ایکس مل قیمت 159 روپے فی کلو مقرر کی تھی، اب حکومت نے شوگر ملوں کے ساتھ چینی کی ایکس مل قیمت 165 روپے فی کلو مقرر کر دی۔ وفاقی حکومت نے گزشتہ ہفتے 5 لاکھ میٹرک ٹن تک چینی درآمد کرنے کی اجازت دی تھی، حکومت نے پچھلے سا ل جون تا اکتوبر 2024 ساڑھے 7 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی جبکہ وزارت غذائی تحفظ نے قیمتوں میں توازن برقرار رکھنے کیلئے چینی درآمد کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم چینی کی درآمد کی منظوری کے باوجود ذخیرہ اندوزی کے باعث قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔ چینی کی قیمتوںکے حوالے سے دو سوال بڑے اہم ہیں ۔ ان کے جواب میں ساری کہائی پوشیدہ ہے ۔نمبر ایک چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت کون دیتا ہے ؟ دوسرا پھر چینی امپورٹ کرنے کی اجازت کون دیتا ہے ؟اس کے بعد بھی آپ کو ”شوگر مافیا” اور ان کے ”طریقہ واردات” کی سمجھ نہیں آتی تو آپ بھی بڑے بھولے ہیں۔شنیدہے کہ حکومت اور شوگر انڈسٹری کے درمیان معاملات طے پا گئے، چینی کی ایکس مل قیمت 165 روپے فی کلو ہوگی۔حکومت نے ایکس مل کے بعد چینی کی ریٹیل قیمت مقرر کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر فوڈ سیکیورٹی رانا تنویر نے کہا کہ چینی کی ریٹیل قیمت 173 سے 175 روپے فی کلو سے زائد نہیں ہوگی ۔وفاقی وزیر فوڈ سیکورٹی رانا تنویر نے کہا کہ تمام صوبے چینی کی مقررہ قیمت پر عملدرآمد یقینی بنائیں گے ۔ وزارت غذائی تحفظ کا کہنا تھا کہ تمام صوبائی حکومتیں اس فیصلے کی روشنی میں عوام کو سستی چینی کی دستیابی یقینی بنائیں گی اب دیکھنایہ ہے کہ اس فیصلے پر عمل بھی ہوتاہے یا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔