وجود

... loading ...

وجود

مرنا حمیرا اصغر علی کا

هفته 19 جولائی 2025 مرنا حمیرا اصغر علی کا

۔
زریں اختر

پاکستان ٹیلی وژن کی پروردہ نسل ، موجودہ دور کے شوبز سے وابستہ فن کاروں کو ایسے واقعات کے بعد جانتی ہے۔ثناء یوسف کو بھی بعد میں سرچ کیاتھا اور حمیرا کو بھی ۔
تضادات پہچان کاسبب بنے ہیں ، فطری تضادات ، فکری تضادات اور سماجی تضادات۔۔۔تضادات کایہ کردار تاریخی اور مثبت بھی ہے اور تاریک و منفی بھی۔باہم متضاد ہر عمل اپنامنفرد و جداگانہ بیانیہ رکھتاہے اورہر بیانیے پر بجائے حکم لگانے کے اس کے اپنے میدان میں اتر کر سمجھنا ہوتا ہے ، کوئی گرہ کھلے گی تو کسی رستے پر قدم آگے بڑھیں گے ، یہ کام ایک فرد کا نہیں ،فرد کو آگے بڑھنا چاہتاہے اور وہ عاجل بھی ہے، وہ گرہوں کو سلجھانے میں وقت نہیں لگاسکتا ،ورنہ وقت نکل جاتاہے ، زندگی میں وقت اور مواقع بہت اہم ہیںاور اس سے اہم فیصلے ۔جب اجتماعی آوازیں ابھرتی ہیں،تو یہ بھی باہم متضاد ہوتی ہیں لیکن ان ہی میں سے روشنی کی کرن پھوٹتی ہے ، کوئی راہ دکھتی ہے ، کوئی رستہ نکلتاہے ، شاید کسی منزل کا پتا بھی ملتا ہو۔
حمیرا کی موت قندیل بلوچ کی موت سے مختلف تھی ، قندیل کے زندہ رہنے کو غیرت کا مسئلہ بنایاگیا اور وہ غیرت بھی قندیل کے بھائی کا مسئلہ ؛مفتی عبدالقوی کی قندیل کی زندگی میں انٹری یا قندیل کی ان کی زندگی میں انٹری نیز شوبز شخصیت اور مذہبی شخصیت کے ایک صفحے پر ہونے کی قندیل کی طرف سے سچائی سامنے لانے کے بعد بنا۔ ایک تضادکا پردہ چاک کرنے کی پاداش میں قندیل کی جان گئی ،عبد القوی بقیدِ حیات ہیںاور ان کی غیرت بھی غالباًسلامت ہے۔
معاشرتی تضادکا اہم باب جو حمیرا کی موت نے دہروایا۔یہ تضاد نہ حمیرا کی انفرادی زندگی میں ہے نہ اس کے والد صاحب کی انفرادی زندگی میں ، یہ ان کا باہمی تضاد ہے، مختلف نظریات ِ زندگی کا ۔ حمیرا نے خود کو سمجھتے ہوئے جس شعبے کا انتخاب کیا ،اس نے سب کی مخالفت مول لے کر تن تنہا اس کو چن لیا۔ والد صاحب سے رابطہ منقطع، مائیوں کو شوہر کا ساتھ دینا ہوتا ہے یا پڑتا ہے یا انہیں لگا ہو کہ وہ ہی صحیح ہیں لیکن حمیرا غیرت کے نام پر قتل نہیں ہوئی،حمیراکے والد صاحب کو اس کا کریڈٹ اس سماج میں ملنا تو بنتا ہی ہے۔خبروں کے مطابق حمیرا نے نیشنل اکیڈیمی آف آرٹ لاہور سے فائن آرٹ میں گریجویٹ کیا ، وہ رفیع پیر تھیٹر سے وابستہ ہوئی ، اسے شوبز میں آناتھا ، اسے ایسی ہی زندگی چاہیے تھی ۔ نوجوان ، خوب صورت ، پڑھی لکھی ، انگریزی میں بھی رواں (شاید شوبز میں مزید آگے بڑھنے میں اس کی بھاری آواز رکاوٹ بنی ہو ، اس نے اس پہ کام شاید کیا ہو، پتا نہیں) ۔۔۔ترکی جاکے گہرے پانی میں اس نے جو شوٹنگ کرائی وہ اس کی فن کارانہ صلاحیت کا ثبوت ہے ۔
خبروں کے ذریعے جو حقائق حمیرا کی موت کے بارے میں سامنے آئے :
١۔ آخری رابطہ اکتوبر ٢٠٢٤ئ
٢۔ موت کو کم و بیش اتنا ہی عرصہ گزر گیا۔
٣۔ کسی سے اتنا متواتر رابطہ نہیں تھا کہ اتنا عرصہ منظر میں موجود نہ ہونے پر کسی کو ، کسی ایک کو بھی کوئی تشویش ہوتی۔
٤۔ کام نہیںتھا، معاملات چلانا مشکل ہی نہیں بلکہ کٹھن ہوگیا(اس تحریر کو لکھنے کے بعد حمیرا کے والدین کا انٹرویو سنا اور بینک کے ایک کھاتے سے معلوم ہوا کہ تقریباََ چار لاکھ اس میں موجود تھے،شوبز کی دنیا سے وابستہ لوگوں کو اگر کام نہ مل رہا ہو تو یہ رقم ان کے معیار ِ زندگی کو سنبھالنے چلانے کے لیے کچھ نہیں)۔
٤۔ آٹھ ماہ سے کرایہ نہیں دیا تھا ، چار ماہ سے بجلی کٹی ہوئی تھی ، جو رقم پیشگی دی اس کو شامل کرلیں تو تین چارہ ماہ کا کرایہ چڑھ گیا تھا اور بجلی بھی اتنے ہی عرصے سے بند تھی۔
٥۔ جس رستے کو چنااس میں ایسے ساتھی نہیں بنے جو برے بھلے وقت میں کام آئیں، جو رستے بند کیے ان سے مدد نہیں مانگی۔
٦۔ گھروالوں نے اس کو اس کے حال پر چھوڑ ہی نہیں دیاتھابلکہ قطعی لاتعلق ہوگئے ۔
٧۔ فوری ردّ ِ عمل ان کے اس اٹل رویے کا غماز تھا کہ جیے مرے ہماری بلا سے۔
٨۔ بعد میں میت کی وصولی ۔۔۔
٩۔ حمیر ا نے اپنی زندگی میں گھر والوں سے رابطے کاجھوٹ خاصی ڈھٹائی سے گھڑا ، انٹرویو میں لمحے بھر بھی یہ تاثر نہیں ملتا کہ جو کہہ رہی ہے ایسا نہیں ہے اوریہ کبھی پتا بھی نہ چلنا تھالیکن ۔۔۔ہمیں کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
١٠۔ وہ کہتی ہے کہ’ اسے ہلا گلا پسند تھا’،شوبز کی زندگی سے جو کچھ بھی وابستہ ہے ،لباس ، میک اپ ، پیسہ ،شہرت،گھومنا پھرنا، روشنیاں ، چکاچوند ۔۔۔اسے یہی کچھ بھاتاتھا، وہ آگے نہیں بڑھ سکی اور کشتیاں جلا کے آئی تھی ، جو ڈائری ملی ہے اس میں دل سے بیان کیے گئے کسی دکھ کا اظہار لیپ ٹاپ اور موبائل کے پاس ورڈ محفوظ کرنے کے ساتھ ہے یا نہیں ؟ پتانہیں۔
١١۔ فلیٹ کے جس چھوٹے کمرے میں نعش موجود تھی ،اس کو حمیرا نے اپنا اسٹوڈیو بنایا ہوا تھاکیوں کہ دیکھا جاسکتاہے کہ جہاں زندگی کے آخری لمحے وہ پائی گئی وہیں اس کے سرہانے ایک تجریدی آرٹ کی پینٹنگ رکھی ہے ۔
میرے نزدیک حمیرا کے والد صاحب کی حمیرا سے لاتعلقی بھی لوگوں کی وجہ سے تھی اور میت کی وصولی بھی دنیا داری تھی، یہ دونوں اعمال مذہبی لگائو کی کارستانی نہیں۔مذہبی نظریے کا کردار اول تا آخر دعائے خیر کے ماسوا کچھ نہیں۔
جب انسان اپنے کسی نظریے کو ازلی ابدی اورآفاقی سچائی کے طور پر دیکھتا ہے تو وہ خود کو اس نظریے کے سپرد کردیتا ہے ،لیکن خدا جانے یہ سپردگی اپنے ساتھ بجائے نرمی و لچک کے سختی کیوں لے آتی ہے؟ ان کی مذہبی وابستگی ان کے بہ حیثیت باپ کے جذبے پر غالب کیوں آگئی ؟ اتنی غالب اور وہ اس کے ہاتھوں اتنے ملغوب کہ پولیس کی طرف سے بیٹی کی موت کا فون جائے تو بھائی یہ کہے کہ والد صاحب سے پوچھتا ہوں اور پہلا جواب لاتعلقی کاآئے ، یہ تو وہ پولیس والا ہی بتا سکتا ہے کہ بھائی کے اس جواب کے ساتھ کیا مزید تاثرات تھے جو فون پر بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ حمیرا کی اتنی اچانک موت نے تو شوبز میں بھی کھلبلی مچادی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ گھر والوں پہ اس اطلاع سے کوئی بھونچال نہ آیا ہو، یا یوں لگا کہ ۔۔۔چلو اچھا ہوا ، عمر بھر کی ذلت سے جان چھوٹی ۔۔۔یہ قطعی ممکن ہے کہ دل میں کہا ہو یا زبان سے بھی ادا کیا ہو کہ’ خس کم جہاں پاک’ بے شک کہاوتیں ہزاروں سال کے انسانی مشاہدات کا نچوڑ پیش کرتی ہیں۔
بجائے مذہبی نظریے کو دل کی سختی کے ساتھ جوڑنے یا نرمی پیدا کرنے میں اس کے جامد کردار کے ۔۔۔اصل میں تو یہ دنیا اور لوگوں کی باتیں ہی کمزور انسانوں پر بھاری پڑتی ہیںوگرنہ باپ بیٹی سے راضی ہو یا ناراض ،لوگوں سے تو کہہ سکتا ہے کہ میں اس کا باپ ہوں اس کی فکر کرنے کے لیے موجود ، آپ اپنے حصے کی فکریںدیکھیں ۔
حمیرا نے اپنے باپ کی طرح اٹل مزاج کے ہونے کا ثبوت دیا، اسے اپنے شوق کی یہ قیمت چکانی پڑے گی اس کی خبر تو اس کے فرشتوں کو بھی نہیں ہوگی اور شاید اس کے والد کے فرشتوں کو بھی ۔
تضاد کی صورت میں کرنا کیا ہے ؟ یہاںفیصلہ کرنے میں غلطی کی گنجائش نہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دنیا کی نظروں سے اوجھل فوجی آپریشن وجود هفته 19 جولائی 2025
دنیا کی نظروں سے اوجھل فوجی آپریشن

یوم الحاق پاکستان وجود هفته 19 جولائی 2025
یوم الحاق پاکستان

چینی نکتہ چینی وجود هفته 19 جولائی 2025
چینی نکتہ چینی

مرنا حمیرا اصغر علی کا وجود هفته 19 جولائی 2025
مرنا حمیرا اصغر علی کا

بنگلہ دیش کے خلاف بھارتی سازشیں وجود جمعه 18 جولائی 2025
بنگلہ دیش کے خلاف بھارتی سازشیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر