وجود

... loading ...

وجود

منہدم ہو رہے ہیں اندر سے

منگل 08 جولائی 2025 منہدم ہو رہے ہیں اندر سے

ماجرا/ محمد طاہر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسے لوگوں سے ہمیں واسطہ آپڑا، تاریخ کے بہاؤ میں جن کے ظلم کوفیوں والے تھے، مگر جنہیں سروں پہ بٹھائے رکھا۔ افسوس! صد افسوس!
یہ محترمہ فاطمہ جناح تھیں! اُجلے دامن کی پاکباز خاتون! جن کے بھائی نے انگریز استعمار اور برہمن سامراج سے غیر مبہم طور پر آنکھیں چار کیں۔ وہ انگریز وں کی دھمکیوں اور گاندھی کی چالبازیوں سے ایک پوری قوم کو بچا لائے ۔ مگر اس قوم نے اپنے قائد اور بانی کی بہن کے ساتھ کیا سلوک گوارا کیا؟ وہ بانی کی بہن تھیں، جس کے خلاف بھی حب الوطنی کی آڑ لے لی گئی۔ کس وطن کی” محبت” کا دھوکا دیا گیا ، وہی جس کے متعلق کہا گیا کہ اگر قائد اعظم کی بیماری کا گاندھی، نہرو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کو علم ہوتا تو وہ تقسیم کا منصوبہ التواء میں ڈال دیتے۔ کوئی دوسرا نہ تھا، جو قائد اعظم کے بعد ایک آزاد وطن کے مطالبے کی پیروی کر پاتا!ایسے بھائی کی بہن بھی اقتدار کی لامحدود ہوس کی بھینٹ چڑھائی گئیں، اُنہیں ہر الزام سہنا پڑا، جبکہ وطن کی تقدیس کے تمام القابات سفاک حکمران اوڑھے رہے۔ افسوس اس قوم پر جنہیں سامنے کی حقیقتیں بھی نظر نہ آسکیں!
فیلڈ مارشل (خود ساختہ) نے پاکستان کے اقتدار پر نہیں پورے جمہوری عمل پر قبضہ کر لیا۔ جنرل ایوب خان صرف اقتدا پر فوجی قبضے کے حوالے سے ہی تاریخ میں بدنام نہ ہوئے بلکہ اُنہوں نے پاکستان کے اندر ہر جمہوری عمل پر زبردست گرفت رکھنے کی لت بھی طاقت ور حلقوں کو لگا دی۔وہ دن ہے اور آج کا دن!
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی!
محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان کا انتخابی معرکہ مارچ 1965ء میں بپا ہونا تھا،مگر قائد کی بہن کی مقبولیت نے آمر کو خائف کر دیا۔ الیکشن کمیشن نے ایک ہی روز میںتین مختلف نوٹیفکیشن جاری کیے اور صدارتی امیدواروں کے نام اور انتخابی نشانات کے ساتھ صدارتی انتخاب کی تاریخ 2جنوری 1965ء مقرر کردی۔ کوئی دور نہ تھا جب ”سکندر سلطان راجہ” ایسے لوگ الیکشن کمیشن میں نہ رہے ہوں۔ محترمہ فاطمہ جناح کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ فریڈم اسپیشل ٹرین کے ڈھاکہ سے چٹا گانگ کے 293میل کے راستے پر دس لاکھ لوگ پھولوں کے ہار لے کر استقبال کے لیے امڈ آئے۔ آمر یا پھر جمہوریت کو بالواسطہ کنٹرول میں رکھنے والی قوتوں کے لیے کسی بھی جمہوری رہنما کی مقبولیت سب سے بڑا خطرہ ہوتی ہے۔ ایوب خان بھی سہم گئے۔ قائد اعظم کی بہن مجمع سے پوچھتیں : کیا آپ میرے ساتھ ہیں”؟ عوام جوش و خروش سے ہاتھ ہوا میں لہرانے لگتے۔عوامی رجحانات کے جذباتی دھاروں کی تہہ داریوں سے اُ چھلتے تیوروں نے آمر پر لرزہ طاری کیا تو تب کے
الیکشن کمیشن نے فوری طور پر انتخابی مہم پر حدیں لگانا شروع کردیں۔ صدارتی انتخاب کے لیے ایک ماہ کی انتخابی مہم چلانے کی اجازت تھی۔ لیکن الیکشن کمیشن نے فریقین کو نو، پروجیکشن میٹنگز تک محدود کر دیا۔اور اس میں بھی عوامی شرکت پر پابندی لگادی۔ اب ان میٹنگز میں صرف انتخابی کالج کے بیسک ڈیموکریٹس یا صحافی شریک ہو سکتے تھے۔تب کے ”سکندر سلطان راجہ” ، جی معین الدین خان تھے۔
امریکا میں چھپنے والے انگریزی جریدے ان مناظر کی ہکا بکا کردینے والی تفصیلات چھاپا کرتے۔پاکستانی میڈیا تب بھی صرف کنٹرولڈ نہ تھا بلکہ جرائم میں شراکت دار بھی تھا۔ طاقت کی بہیمت کیسے نچاتی ہے، زیڈ اے سلہری کو یاد کر لیجیے!اُنہوں نے بانی ٔ پاکستان کی بہن اور تحریک ِ پاکستان میں اُن کی شریک محترمہ فاطمہ جناح پر پاکستان توڑنے کا الزام عائد کر دیا۔الزام والے کاغذ کے چیتھڑے اخبار کو ایوب خان لہرا لہرا کر مس جناح کو غدار کہتے رہے۔سیاست دانوں کو غدار قرار دینے کی یہ روایت ایوب خان نے ڈالی، تب ذوالفقار علی بھٹو اُن کے ساتھ تھے، اُنہیں ڈیڈی پکارا کرتے۔ محترمہ فاطمہ جناح کی تب عمر 71 برس تھی۔ اگلے صرف دو برسوں میں اُنہیں آج ہی کی تاریخ میں دنیا سے چلے جانا تھا۔پانچ سیاسی جماعتوں (متحدہ محاذ) کی وہ متفقہ صدارتی امیدوار تھیں جو الیکشن لڑنے کے لیے بھی بمشکل تمام آمادہ ہوئیں ۔ وہ حصول اقتدار سے بے نیاز صرف عوامی حقوق اور دستور سازی پر زور دیتی رہیں۔ طاقت ور ان دونوں چیزوں کو روندنے کی نفسیات رکھتے ہیں۔ چنانچہ اُنہیں بانی ٔ پاکستان کی بہن فاطمہ جناح بھی گوارا نہ تھیں۔ سفید ملبوس، بارعب چہرہ اور اپنے بھائی کی طرح قوم کے لیے مانوس ، مادرِ ملت کی مقبولیت ایوب خان کسی طور قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔اور اپنی ذہنی رکاکت اور قلبی کثافت سے ہر نوع کا الزام اُن پر لگایا۔نیو یارک ٹائمز کے مطابق ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح کو’ ایک بوڑھی اور کمزور دماغ والی خاتون’ کہا۔اسی انتخابی مہم میں فاطمہ جناح کو ‘نسوانیت اور ممتا سے عاری’ خاتون بھی قرار دیا۔ایوب خان لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں ہر حد عبور کر گئے۔ کسی اور نے نہیں، خود اُن کے سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر نے اپنی کتاب ”ایوب خان، فوجی راج کے دس سال” میںلکھا ہے کہ
”انہوں (ایوب خان) نے مس جناح کے غیر شادی شدہ ہونے کے حوالے سے ان پر خلاف فطرت
زندگی بسر کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ ”بد خصال لوگوں میں گھری ہوئی ہیں” ۔
الطاف گوہر نے آگے لکھا ہے کہ ”ایوب خان کے ان ناگفتنی کلمات پر سرکاری حلقے سکتے میں آگئے۔ تاہم ایوب خان کو اس کا کوئی ناقابل تلافی نقصان نہ پہنچا”۔ کیسے پہنچتا؟ اقتدار پرست اور طاقت کے محور میں ڈولتا ٹولہ ہمیشہ سربہ سجدہ جو رہا ہے۔ایوب خان کے دور میں ہی سیاست دانوں کی خرید وفروخت شروع ہو گئی تھی۔ مولانا بھاشانی اس کی ایک مثال تھے۔ انتہابی مہم کے عین ہنگام مولانا بھاشانی اپنی پارٹی سمیت فاطمہ جناح کی حمایت سے دستبردار ہو گئے ۔اُن پر الزام لگا کہ ایوب خان سے چالیس لاکھ روپیہ لیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے لیے جمہوریت نام کا چوزہ ایوب خان کے دور میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا، کیونکہ ایوب خان بھٹو کے” ڈیڈی” ہی نہیں ایشیا کے ڈیگال بھی تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو ہی نہیں سندھ کے اہم روحانی گدی کے سربراہ مخدوم سید زماں طالب المولیٰ نے بھی ایوب خان کی حمایت میں مہم چلائی۔ تب تاریخ کی غلط سمت پر پیر پگاڑا، محمد خان جونیجو، پیر آف رانی پور، غلام نبی میمن وغیرہ بھی کھڑے تھے، جنہوں نے ایوب کا ساتھ دیا۔
بھولیں نہیں!لاہور میں میاں معراج دین، میاں شریف محترمہ فاطمہ جناح کی مخالفت میں سرگرم رہے۔ بعد میں میاں شریف کا پورا خاندان جنرل ضیاء کی گودی میں رہا۔آج بھی ملک پر مسلط ہے۔ راول پنڈی کے راجا ظفر الحق اسی میاں شریف کے فرزند میاں نواز شریف کو ہمیشہ ساز گار رہے، ایوب خان کے ساتھ تھے۔ گجرات کے چودھریوں کی کیا بات کریں، ظہور الٰہی تو ایوب خان کا دست راست تھے۔ گوجرانوالہ میں غلام دستگیر خان نے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف جلوس نکالا تو ایک جانورپر محترمہ کی تختی لگا دی۔بھولیں نہیں رفیق تارڑ نے مادر ملت کی کُھل کر مخالفت کی، بعد میں جج اور نواز شریف کے سب سے قابلِ اعتبار صدر پاکستان بنے۔پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ جیسی نظم لکھنے والے اصغر سودائی ایوب خان کے قصیدے اور ترانے لکھنے لگے۔
یہی دور تھا جب اسلام کا استعمال اور استحصال فتوؤں کی صورت میں کرنے کاچلن پیدا ہوا۔ محترمہ فاطمہ جناح کے لیے عورت کی حکمرانی کے خلاف فتوے لیے گئے۔ علمائے کرام کا کردار بھی اسی دور میں متعین ہو گیا تھا۔ اب اس پر تحقیقی کتابیں موجود ہیں جو آشکار کرتی ہیں کہ کس طرح ایوب خان نے علمائے کرام سے کسی خاتون کے سربراہ مملکت ہونے کے خلاف فتوے لیے۔تب مولانا مودودی، دارالعلوم کراچی کے مفتی محمد شفیع ایسے دو لہکتے کردار اُٹھے ، جنہوں نے تاریخ کی درست سمت کا تعین کیا۔ مولانا مودودی نے فرمایا:”مرد سے قوم کو فائدہ نہ پہنچ رہا ہو تو خاتون سربراہِ مملکت بن سکتی ہے ”۔پھر وہ فقرہ زباں زد عام ہو ا کہ ”ایوب خان میں اس کے سوا کوئی خوبی نہیں کہ وہ مرد ہیں، اور فاطمہ جناح میں اس کے سوا کوئی کمی نہیں کہ وہ عورت ہیں’۔مولانا مفتی محمد شفیع نے دارالافتا دارالعلوم کراچی کی مہر سے فتویٰ جاری کیا کہ ‘جمہوری ملک میں عورت صدرِ مملکت بن سکتی ہے ‘۔
وہ طبقہ جو فاطمہ جناح اور بے نظیر بھٹو کے خلاف فتووں کی پوٹلی کندھوں پر اُٹھائے پھرتا تھا اُن کی پیٹھ پر تاریخ نے ایک زناٹے دار کوڑا برسایا جب مریم نواز پنجاب کی وزیر اعلیٰ بنیں۔ اب وہ فتوے کہیں کتاب الحیل میں پڑے سستا رہے ہیں۔ ایوب خان کے حق میں جس طبقے کے کنج لب سے فاطمہ جناح کے خلاف مذہبی دلائل کے انگارے نکلتے تھے، اب وہاں سے ”او سب دی ماں آگئی اے ،کر اپنا فرض ادا گئی اے” کے پھول جھڑتے ہیں۔مولانا روم نے لکھا ہے کہ” ریشم کا کیڑا ریشم میںاور بدبو کا کیڑا بدبو میں رہتا ہے”۔
جمہوریت اور متانت کے چہرے محترمہ فاطمہ جناح کو ہارنا ہی تھا۔ تاریخ کی درست سمت پر کھڑے حبیب جالب تب گونجے تھے
دھاندلی، دھونس، دھن سے جیت گیا
ظلم پھر مکروفن سے جیت گیا
ایوب خان نے اپنے ”سکندر سلطان راجہ” سے خانہ سازجیت کی خبر سنی تو کہا ‘خدا کا شکر ہے ! ملک بچ گیا’۔ملک کہاں بچتا ہے، ملک بچانے والی مشرقی اور مغربی پاکستان کی واحد متحدہ قوت کو انتخابی جعلسازیوں سے شکست دے دی گئی۔ یہ مشرقی پاکستان کے انجام کا آغاز تھا۔ گاہے سوچتا ہوں، محترمہ کو شکست دلا کر اچھا ہی ہوا، وگرنہ ہماری تاریخ میں یہ باب تب ہی لکھ دیا جاتا کہ الیکشن جیتنے والے زندانوں میں کیسے پڑے ہوتے ہیں۔ شاعر نے کہا تھا
ہم مقفل حویلیوں کی طرح
منہدم ہو رہے ہیں اندر سے


متعلقہ خبریں


مضامین
رجیم تبدیلی کے اندازے ! وجود بدھ 09 جولائی 2025
رجیم تبدیلی کے اندازے !

آر ایس ایس ، بھارت کی وحدت کے لیے خطرہ وجود بدھ 09 جولائی 2025
آر ایس ایس ، بھارت کی وحدت کے لیے خطرہ

منہدم ہو رہے ہیں اندر سے وجود منگل 08 جولائی 2025
منہدم ہو رہے ہیں اندر سے

مودی کا 234 ملین ڈالرز کے ڈرون منصوبے کا اعلان وجود منگل 08 جولائی 2025
مودی کا 234 ملین ڈالرز کے ڈرون منصوبے کا اعلان

اساتذہ پر تشدد قابلِ مذمت ! وجود اتوار 06 جولائی 2025
اساتذہ پر تشدد قابلِ مذمت !

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر